Al-Qurtubi - Al-Maaida : 105
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا عَلَیْكُمْ اَنْفُسَكُمْ١ۚ لَا یَضُرُّكُمْ مَّنْ ضَلَّ اِذَا اهْتَدَیْتُمْ١ؕ اِلَى اللّٰهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِیْعًا فَیُنَبِّئُكُمْ بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : ایمان والے عَلَيْكُمْ : تم پر اَنْفُسَكُمْ : اپنی جانیں لَا يَضُرُّكُمْ : نہ نقصان پہنچائے گا مَّنْ : جو ضَلَّ : گمراہ ہوا اِذَا : جب اهْتَدَيْتُمْ : ہدایت پر ہو اِلَى اللّٰهِ : اللہ کی طرف مَرْجِعُكُمْ : تمہیں لوٹنا ہے جَمِيْعًا : سب فَيُنَبِّئُكُمْ : پھر وہ تمہیں جتلا دے گا بِمَا : جو كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ : تم کرتے تھے
اے ایمان والوں ! اپنی جانوں کی حفاظت کرو۔ جب تم ہدایت پر ہو تو کوئی گمراہ تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ تم سب کو خدا کی طرف لوٹ جانا ہے اس وقت وہ تم کو تمہارے سب کاموں سے جو (دنیا) (میں) کئے تھے آگاہ کریگا اور ان کا بدلہ دے گا
آیت نمبر 105 اس میں چار مسائل ہیں : مسئلہ نمبر 1۔ ہمارے علماء نے فرمایا : اس آیت کا ماقبل سے تعلق یہ ہے کہ اس سے ڈرانا ہے جس سے ڈراناواجب ہے۔ یہ اس کی حالت ہے جس کی صفت گزرچکی ہے ان لوگوں میں سے جو اپنے دین میں آباء اور اپنے اسلاف کی تقلید کی طرف مائل ہو اس آیت کا ظاہر اس پر دلالت کرتا ہے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو قائم کرنا واجب نہیں جب انسان درست ہو اور کسی کو دوسرے کے گناہ کی وجہ سے پکڑا نہیں جائے گا اگر اس کی سنت میں اور اقاویل صحابہ وتابعین میں اس کی تفسیر وارد نہ ہوتی، جیسا کہ ہم اللہ تعالیٰ کی توفیق سے ذکر کریں گے۔ مسئلہ نمبر 2۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (آیت) علیکم انفسکم اس کا معنی ہے اپنے نفسوں کی گناہوں سے حفاظت کرو۔ تو کہتا ہے : علیک زیدا یعنی الزم زیدا (زید کو لازم پکڑ) اور علیہ زیدا جائز نہیں بلکہ یہ تین الفاظ میں مخاطب کے لیے استعمال ہوتا ہے مثلاعلیک زیدا یعنی زید کو پکڑو۔ عندک عمرا یعنی عمر تیرے پاس حاضر ہے۔ دونک زیدا یعنی وہ تمہارے قریب ہے۔ شاعر نے کہا : یاتیھا المائح دلوی دونکا اے کنواں کی گہرائی میں جانے والے میرا ڈول پکڑ۔ اور رہا یہ مصرعہ علیہ رجلا لیسنی یہ شاذ ہے۔ مسئلہ نمبر 3۔ ابودائود، ترمذی وغیرہما نے قیس سے روایت کیا ہے فرمایا : حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے ہمیں خطاب فرمایا کہ تم اس آیت کو پڑھتے ہو اور تم اس کی تاویل درست نہیں کرتے : (آیت) یایھا الذین امنواعلیکم انفسکم الایۃ (1) (جامع ترمذی، کتاب التفسیر، جلد 2۔ صفحہ 131 ایضا، باب ومن سورة المائدہ، حدیث نمبر 2983، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) میں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے سنا کہ لوگ جب ظالم کو دیکھتے ہیں تو اس کے ہاتھوں کو نہیں روکتے قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ سب پر اپنی طرف سے عذاب نازل کردے۔ ابوعیسی نے کہا : یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ اسحاق بن ابراہیم نے کہا : میں نے عمرو بن علی کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ میں نے وکیع کو یہ کہتے ہوئے سنا عن ابی بکر عن النبی ﷺ صحیح نہیں ہے اور کوئی حدیث ہے۔ میں کہتا ہوں : نہ اسماعیل عن قیس مروی ہے فرمایا اسماعیل نے قیس سے موقوف روایت کیا ہے۔ نقاش نے کہا : یہ وکیع کی طرف سے زیادتی ہے اس کے شعبہ نے سفیان اور اسحاق سے انہوں نے اسماعیل سے مرفوع روایت کیا ہے۔ ابو دائود اور ترمذی وغیرہ نے ابو امیہ شعبانی سے روایت کیا ہے فرمایا : میں ابو ثعلبہ خشنی کے پاس پہنچا تو میں نے اسے کہا : تم اس آیت کا کیا کرتے ہو، انہوں نے فرمایا : آیت ہے، آیت ہے۔ میں نے کہا : اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (آیت) یایھا الذین امنوا علیکم انفسکم لا یضرکم من ضل اذا اھتدیتم فرمایا : اللہ کی قسم ! تو نے اس کے متعلق خبر والے سے پوچھا ہے، میں نے اس کے متعلق رسول اللہ ﷺ سے پوچھا تھا آپ ﷺ نے فرمایا :” نیکی کرو اور برائی سے رک جائو حتی کہ جب تم ایسا بخل دیکھو جس کی اطاعت کی جاتی ہو، ایسی خواہش جس کی اتباع کی جاتی ہو اور ایسی دنیا جو ترجیح دی جاتی ہو اور صاحب الرائے اپنی رائے کو پسند کرتا ہے تو خاص طور پر اپنے نفس کی فکر کرو اور عام لوگوں کے معاملہ کو چھوڑو تمہارے پیچھے کچھ ایام ہیں ان میں صبر، انگارے کو پکڑنے کی مثل ہوگا، ان دنوں میں پچاس آدمیوں کے اجر کی مثل ایک مزدور کا اجر ہوگا جو تمہارے عمل کی مثل عمل کرتے ہیں “۔ ایک روایت میں ہے عرض کی گئی : یا رسول اللہ ! ہم میں سے یا ان میں سے پچاس آدمیوں کا اجر۔ فرمایا : ” بلکہ تم میں سے پچاس کا اجر “ (1) (جامع ترمذی، کتاب التفسیر، جلد 2۔ صفحہ 131، ایضا باب ومن سورة المائدہ، حدیث نمبر 2984، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) ابو عیسیٰ نے کہا : یہ حدیث حسن غریب ہے۔ ابن عبد البر نے کہا : بل منکم کہ الفاظ سے بعض راوی خاموش رہے ہیں اور اس کا ذکر نہیں کیا ہے۔ یہ پہلے گزرچکا ہے۔ ترمذی نے حضرت ابوہریرہ سے انہوں نے نبی مکرم ﷺ سے روایت کیا ہے فرمایا :” تم ایسے زمانہ میں ہو کہ تم میں سے جس نے اس کا دسواں حصہ ہی ترک کردیا جس کا حکم دیا گیا ہے تو وہ ہلاک ہوجاتا ہے، پھر ایک زمانہ آئے گا کہ ان میں سے جو حکم الہی کے دسواں حصہ پر ہی عمل کرلے گا تو نجات پائے گا “ (2) (جامع ترمذی، کتاب الفتن، جلد 2۔ صفحہ 51، ایضا حدیث نمبر 2193، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) ۔ فرمایا : یہ حدیث غریب ہے۔ حضرت ابن مسعود سے مروی ہے فرمایا : یہ آیت کا زمانہ نہیں ہے تم حق کہو جب تک وہ تم سے قبول کیا جائے، جب تم پر لو ٹایا جائے تو پھر تم اپنے نفسوں کی فکر کرو۔ بعض فتنوں کے اوقات میں حضرت ابن عمر سے کہا گیا : اگر تم ان ایام میں گفتگو ترک کردو نہ تم نیکی کا حکم دو نہ برائی سے روکو۔ فرمایا : رسول اللہ ﷺ نے ہمیں فرمایا تھا : ” موجود کو غائب تک بات پہچانی چاہیے “ اور ہم موجود تھے پس ہم پر تمہیں پہنچانا لازم ہے ایک زمانہ آئے گا جس میں حق کہا جائے گا تو قبول نہیں کیا جائے گا۔ لیبلغ الشاھدالغائب کے قول کے بعد حضرت ابن عمر سے ایک روایت میں ہے ” ہم موجود تھے اور تم غائب تھے “ لیکن یہ آیت ان لوگوں کے لیے ہے جو ہمارے بعد آئیں گے اگر وہ حق کہیں گے تو ان سے حق قبول نہیں کیا جائے گا۔ ابن المبارک نے کہا : (آیت) علیکم انفسکم کا خطاب تمام مومنین کو ہے یعنی دین داروں کو لازم پکڑو جیسے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (آیت) ولاتقتلوا انفسکم (النساء : 29) گویا فرمایا : دوسرے کو نیکی کا حکم دینا چاہیے اور برائی سے منع کرنا چاہیے یہ نیکی کا حکم دینے اور برائی سے منع کرنے کے وجوب پر دلیل ہے، تمہیں مشرکوں، منافقین اور اہل کتاب کی گمراہی نقصان نہیں پہنچائے گی، کیونکہ امر بالمعروف مسلمانوں کے ساتھ گناہ گاروں میں جاری رہتا ہے جیسا کہ گزرچکا ہے یہ معنی سعید بن جبیر سے مروی ہے۔ سعید بن مسیب نے کہا : آیت کا معنی ہے تمہیں نقصان نہیں پہنچاسکے گا جو گمراہ ہوا جب کہ تم ہدایت یافتہ ہو امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے بعد۔ ابن خویز منداد نے کہا : یہ آیت اپنے ضمن میں یہ مفہوم رکھتی ہے کہ انسان خاص اپنے نفس سے مشغول ہو اور لوگوں کے عیوب سے تعرض ترک کردے اور ان کے احوال کی تلاش چھوڑ دے، کیونکہ ان سے اس کی حالت کے بارے نہیں پوچھا جائے گا۔ اور اس سے ان کی حالت کے بارے نہیں پوچھا جائے گا یہ اس قول کی طرح ہے (آیت) کل نفس بماکسبت رہینہ (المدثر) ہر نفس اپنے عملوں میں گروی ہے۔ (آیت) ولا تزر وازرۃ وزر اخری (الانعام : 164) کوئی شخص دوسرے کے گناہ کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔ اور نبی مکرم ﷺ کا ارشاد ہے : ” اپنے گھر کا دوست ہوجا اور خاص پنے نفس کی فکر کر “۔ یہ بھی جائز ہے کہ اس زمانہ سے مراد ایسا زمانہ جس میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا فریضہ ادا کرنا مشکل ہو پس اپنے دل سے ناپسند کرتاہو اور اپنے نفس کی اصلاح میں مشغول ہو۔ میں کہتا ہوں : ایک غریب حدیث میں آیا ہے جسے ابن لہیعہ نے روایت کیا ہے فرمایا ہمیں بکر بن سوادہ جذامی نے حضرت عقبۃ بن عامر سے روایت کرکے بتایا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :” جب دو سو کا آغاز ہو تو نہ نیکی کا حکم دو اور نہ برائی سے منع کرو خاص اپنے نفس کی فکر کرو “ ہمارے علماء نے فرمایا : نبی مکرم ﷺ نے یہ اس لیے فرمایا کہ زمانہ بدل جائے گا، احوال میں فساد ہوگا اور مدد گاروں کی کمی ہوگی۔ حضرت جابر بن زید نے کہا : آیت کا معنی ہے اے ان لوگوں کی اولاد میں سے ایمان والو ! جنہوں نے بحیرہ اور سائبہ کو بتوں کے لیے چھوڑا تم دین پر اپنے نفسوں کو قائم رکھو تمہیں پہلے لوگوں کی گمراہی نقصان نہ دے گی جب تم ہدایت یافتہ ہو، فرمایا : جب کوئی اسلام لے آتا تو کفار اسے کہتے : تم نے اپنے آباء کے بیوقوف بنایا اور انہیں گمراہ کیا، تو نے ایسا کیا اور ایسا کیا، تو اللہ تعالیٰ نے اس کے سبب یہ آیت نازل فرمائی۔ بعض علماء نے فرمایا : یہ آیت خواہش کے بندوں کے بارے میں ہے جنہیں وعظ و نصیحت نفع نہیں دیتا جب تو کسی قوم کے متعلق جان لے کہ وہ دعوت قبول نہیں کرتے بلکہ استہزا کرتے ہیں اور غالب آتے ہیں تو ان سے خاموش ہوجا۔ بعض علماء نے فرمایا : یہ ان قیدیوں کے بارے میں نازل ہوئی جنہیں مشرکوں نے تکلیف دی تھی حتی کے بعض مرتد ہوگئے تھے تو باقی لوگوں کو کہا گیا : تم اپنے نفسوں کی فکر کرو تمہیں تمہارے ساتھیوں کا ارتداد کچھ نقصان نہیں پہنچائے گا۔ سعید بن جبیر نے کہا : یہ اہل کتاب کے بارے میں ہے۔ مجاہد نے کہا : یہود ونصاری اور ان جیسے لوگوں کے بارے میں ہے۔ ان دونوں حضرات کا نظریہ یہ ہے کہ اہل کتاب کا کفر تمہیں نقصان نہیں پہنچائے گا جب وہ جزیہ ادا کریں۔ بعض نے فرمایا : یہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے منسوخ ہے۔ یہ المہدوی کا قول ہے۔ ابن عطیہ نے کہا : یہ ضعیف ہے اس کا قائل معلوم نہیں (1) (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 249 ) ۔ میں کہتا ہوں : ابو عبید القاسم بن سلام سے مروی ہے فرمایا : کتاب اللہ میں اس آیت کے سوا کوئی آیت ایسی نہیں ہے جو ناسخ اور منسوخ کی جامع ہو۔ دوسرے علماء نے کہا : اس میں سے ناسخ اذا اھتدیتم کا قول ہے۔ الھدی سے یہاں مراد امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ہے۔ مسئلہ نمبر 4۔ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر متعین ہوتا ہے جب قبولیت کی امید ہو یا ظالم کو روکنے کی امید ہو خواہ سختی کے ساتھ ہو جب تک کہ آمر کو اپنے خاص لوگوں کو ضرر پہنچنے کا اندیشہ نہ ہو یا کسی فتنہ کا اندیشہ نہ ہو جو عام مسلمانوں پر جاری ہوتاہو، خواہ لاٹھی کی طرف کے ساتھ ہو یا ایسے ضرر کے ساتھ ہو جو لوگوں کے ایک طائفہ کا لاحق ہوتاہو، جب یہ اندیشہ ہو تو تم پر لازم ہے کہ اپنے نفسوں کی فکر کرو۔ یہ محکم، واجب ہے کہ وہ اپنے اوپر توقف کرے۔ اور منع کرنے والے کا عادل ہونا شرط نہیں اس پر اہل علم کی جماعت کا نظریہ ہے۔
Top