Al-Qurtubi - Al-Maaida : 61
وَ اِذَا جَآءُوْكُمْ قَالُوْۤا اٰمَنَّا وَ قَدْ دَّخَلُوْا بِالْكُفْرِ وَ هُمْ قَدْ خَرَجُوْا بِهٖ١ؕ وَ اللّٰهُ اَعْلَمُ بِمَا كَانُوْا یَكْتُمُوْنَ
وَاِذَا : اور جب جَآءُوْكُمْ : تمہارے پاس آئیں قَالُوْٓا : کہتے ہیں اٰمَنَّا : ہم ایمان لائے وَقَدْ دَّخَلُوْا : حالانکہ وہ داخل ہوئے ( آئے) بِالْكُفْرِ : کفر کی حالت میں وَهُمْ : اور وہ قَدْ خَرَجُوْا : نکلے چلے گئے بِهٖ : اس (کفر) کے ساتھ وَاللّٰهُ : اور اللہ اَعْلَمُ : خوب جانتا ہے بِمَا : وہ جو كَانُوْا : تھے يَكْتُمُوْنَ : چھپاتے
اور جب یہ لوگ تمہارے پاس آتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم ایمان آئے حالانکہ کفر لے کر آتے ہیں اور اسی کو لیکر جاتے ہیں۔ اور جن باتوں کو یہ مخفی رکھتے ہیں خدا انکو خوب جانتا ہے
آیت نمبر : 61 تا 63۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” واذا جآء وکم قالوا امنا “ یہ منافقین کی صفت ہے معنی ہے کہ جو کچھ انہوں نے سنا اس سے کچھ فائدہ نہیں اٹھایا بلکہ وہ کافر ہوتے ہوئے داخل ہوئے کافر ہوتے ہوئے خارج ہوئے (2) (المحرر الوجیز) (آیت) ” واللہ اعلم بما کانوا یکتمون “۔ یعنی ان کے نفاق کو اللہ تعالیٰ بہتر جانتا ہے بعض علماء نے فرمایا : اس سے مراد یہود ہیں جنہوں نے کہا تھا : تم اس پر ایمان لاؤ جو ایمان والوں پر نازل کیا گیا، دن کے آغاز کے وقت جب تم مدینہ میں داخل ہوا اور دن کے آخر میں انکار کرو، جب تم گھروں کو لوٹ کر آؤ۔ (3) (تفسیر بغوی) اس پر دلیل یہود کا پہلے ذکر ہے اور بعد میں بھی ان کا ذکر ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” وتری کثیر منھم “۔ یعنی یہود میں سے بہتوں کو تو دیکھتا ہے، (آیت) ” یسارعون فی الاثم والعدوان “۔ گناہ اور ظلم میں جلدی کرتے ہیں اور حرام خوری میں جلدی کرتے ہیں۔ (آیت) ” واکلھم السحت لبئس ماکانوا یمعملون “ ، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے (آیت) ” لولا ینھھم الربنیون والاحبار “۔ لولا بمعنی افلا ہے ینھھم یعنی انہیں روکتے نہیں ہیں (آیت) ” الربنیون “ ن نصرانیوں کے علماء (آیت) ” الاحبار “ یہود کے علماء یہ حسن کا قول ہے، بعض نے فرمایا : یہ سب یہود میں ہے، کیونکہ یہ آیات ان کے متعلق ہیں پھر ان کے علماء کو توبیخ فرمائی کیونکہ انہوں نے برائی سے منع کرنا ترک کیا، فرمایا : بئس ماکانوا یصنعون “۔ جیسے انہیں توبیخ فرمائی جو گناہ میں جلد کرتے ہیں فرمایا : (آیت) ” بئس ماکانوا یمعملون “۔ یہ آیت دلیل ہے کہ برائی سے منع نہ کرنے والا بھی برائی کرنے والے کی طرح ہے، اس آیت میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر ترک کر نیکی وجہ سے علماء کو توبیخ ہے سورة بقرہ اور سورة آل عمران میں یہ مفہوم گزر چکا ہے سفیان بن عیینہ نے روایت کیا ہے فرمایا : سفیان بن سعید نے مسعر سے روایت کیا ہے فرمایا : مجھے یہ خبر پہنچی ہے کہ ایک فرشتہ کو ایک شہر کے برباد کرنے کا حکم ملا اس نے عرض کی یارب اس میں فلاں عابد ہے اللہ تعالیٰ نے وحی فرمائی کہ اس سے ہلاکت کا آغاز کر، کیونکہ احکام شریعت کی کھلی خلاف ورزی دیکھ کر اس کے چہرے کا رنگ بھی کبھی نہیں بدلا تھا، صحیح ترمذی میں ہے کہ لوگ جب ظالم کو دیکھیں اور اس کے ہاتھوں کو نہ پکڑیں تو قریب ہے اللہ تعالیٰ تمام کو سزا دے دے جو اس کے پاس ہوں (1) (جامع، ترمذی کتاب فضائل القرآن باب ومن سورة المائدہ : حدیث نمبر 2983، ضیاء القرآن پبلی کیشنز) الصنع بمعنی العمل ہے مگر یہ جو وت کا تقاضا کرتا ہے کہا جاتا ہے سیف صنیع جگب اس کا کام اچھا کیا گیا ہو۔
Top