Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Al-Qurtubi - Al-Maaida : 90
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَ الْمَیْسِرُ وَ الْاَنْصَابُ وَ الْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ
يٰٓاَيُّھَا
: اے
الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا
: ایمان والو
اِنَّمَا الْخَمْرُ
: اس کے سوا نہیں کہ شراب
وَالْمَيْسِرُ
: اور جوا
وَالْاَنْصَابُ
: اور بت
وَالْاَزْلَامُ
: اور پانسے
رِجْسٌ
: ناپاک
مِّنْ
: سے
عَمَلِ
: کام
الشَّيْطٰنِ
: شیطان
فَاجْتَنِبُوْهُ
: سو ان سے بچو
لَعَلَّكُمْ
: تا کہ تم
تُفْلِحُوْنَ
: تم فلاح پاؤ
اے ایمان والو ! شراب اور جوا اور بت اور پا سے (یہ سب) ناپاک کام اعمال شیطان سے ہیں۔ سو ان سے بچتے رہنا تاکہ نجات پاؤ۔
آیت نمبر
90
تا
92
اس میں سترہ مسائل ہیں : مسئلہ نمبر
1
۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (آیت) یایھا الذین امنوا ان اشیاء کے ترک کرنے کے ساتھ مومنوں کو خطاب کیا ہے، کیونکہ ان شہوات اور عادات کے ساتھ زمانہ جاہلیت میں ملوث تھے اور ان کے نفوس پر یہ غالب تھیں۔ پس بہت سے مومنوں کے نفوس میں کچھ باقی تھیں۔ ابن عطیہ نے کہا (
1
): اس قبیل سے تھا پرندوں کو دیکھ کر کام کو نہ جانا اور کتب وغیرہ سے فال لینا اور اس طرح کی بیہودہ چیزیں جو آج کل جاہل لوگ کرتے ہیں، رہا خمر (شراب) ابھی تک یہ حرام نہیں کی گئی اس کی مکمل حرمت جنگ احد کے واقعہ کے بعد تیسرے سال نازل ہوئی اور جنگ احد ہجرت کے تیسرے سال شوال میں ہوئی۔ اس کا اشتقاق پہلے گزرچکا ہے رہا المیسر (جوا) سورة بقرہ میں اس کا ذکر گزرچکا ہے، رہا الانصاب تو بعض علماء نے فرمایا : اس سے مراد بت ہیں۔ بعض نے فرمایا : اس سے مراد نرد اور شطرنج کا کھیل ہے اس کا بیان سورة یونس آیت
32
میں (آیت) فماذا بعد الحق الا الضلال کے تحت آئے گا۔ رہا الازلام اس سے مراد تیر ہیں اس کے بارے میں پہلی سورت میں گزرچکا ہے۔ کہا جاتا ہے : بیت اللہ شریف میں خدام اور بتوں کے خدام کے پاس تیر تھے کوئی شخص آتا جب وہ کسی کام کا ارادہ کرتا تو اس سے کوئی تیر نکالتا اگر اس پر لکھا ہواہوتا امرنی ربی (میرے رب نے مجھے حکم دیا) تو وہ کام کو چلا جاتا خواہ اسے پسند ہوتا یا ناپسند ہوتا۔ مسئلہ نمبر
2
۔ شراب کی حرمت بتدریج ہوئی اور بہت سے واقعات کے ساتھ ہوئی، کیونکہ وہ لوگ شراب کے بہت حریص تھے اور سب سے پہلے شراب کے متعلق یہ نازل ہوا : (آیت) یسئلونک عن الخمر والمیسر قل فیھما اثم کبیر ومنافع للناس (بقرہ :
219
) یعنی اس کی تجارت میں منافع ہیں۔ جب یہ آیت نازل ہوئی تو بعض لوگوں نے شراب کو ترک کردیا اور انہوں نے کہا : جس میں بڑا گناہ ہے اس کی ہمیں ضرورت نہیں اور بعض لوگوں نے اسے ترک نہ کیا انہوں نے کہا : ہم اس کی منفعت لیتے ہیں اور اس کا گناہ چھوڑتے ہیں پھر یہ آیت نازل ہوئی : (آیت) لاتقربوا الصلوۃ وانتم سکری (النسائ :
43
) بعض لوگوں نے پھر اس کو چھوڑ دیا اور کہا : ہمیں اس کی حاجت نہیں جو ہمیں نماز سے غافل کردے اور بعض نے نماز کے اوقات کے علاوہ شراب پی حتی کہ یہ آیت نازل ہوئی : (آیت) یایھا الذین امنوا انما الخمر والمیسر والانصاب والازلام رجس۔ پس لوگوں پر یہ مطلقا حرام ہوگئی حتی کہ بعض نے کہا : اللہ تعالیٰ نے شراب سے زیادہ کسی چیز کو شدت سے حرام نہیں فرمایا۔ ابو میسرہ نے کہا : یہ حضرت عمر بن خطاب کے سبب نازل ہوئی انہوں نے نبی کریم ﷺ کے لیے شراب کے عیوب ذکر کیے اور شراب کی وجہ سے لوگوں پر کیفیات نازل ہوتی تھی اللہ تعالیٰ سے انہوں نے اس کی حرمت کی دعا مانگی اللھم بین لنافی الخمر بیاناشافیا۔ اے اللہ ! شراب کے بارے ہمارے لیے شافی بیان فرما، تو یہ آیات نازل ہوئیں۔ حضرت عمر نے کہا : انتھینا انتھیناہم رک گئے، ہم رک گئے (
1
) ۔ سورة بقرہ میں اور سورة النساء میں یہ گزرچکا ہے۔ ابو دائود نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے فرمایا : (آیت) یایھا الذین امنوا لاتقربوا الصلوۃ وانتم سکری (النسائ :
43
) اس آیت کو سورة مائدہ کی آیت (آیت) انما الخمر والمیسر والانصاب نے منسوخ کردیا (
2
) ۔ اور صحیح مسلم میں حضرت سعد بن ابی وقاص سے مروی ہے فرمایا : میرے متعلق قرآنی آیات نازل ہوئیں۔ اس میں فرمایا : میں انصار کے ایک گروہ کے پاس آیا، انہوں نے کہا : ادھر آئو ہم تجھے کھانا کھلائیں گے اور شراب پلائیں گے۔ یہ شراب کے حرام ہونے سے پہلے کی بات ہے۔ فرمایا : میں ان کے پاس ایک باغ میں آیاوہاں اونٹ کا بھونا ہوا سر اور شراب کا مٹکا تھا۔ فرمایا : میں نے ان کے ساتھ کھایا، پیا۔ فرمایا : میں نے ان کے پاس انصار اور مہاجرین کا ذکر کیا۔ میں نے کہا : مہاجرین، انصار سے افضل ہیں۔ فرمایا : ایک شخص نے اونٹ کے جبڑے اٹھائے اور مجھے اس کے ساتھ مارا پس میرا ناک زخمی ہوگیا۔ ایک روایت میں ہے : اس نے ناک چیر دیا، اور سعد کا ناک چیرا ہو تھا۔ میں رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور سارا واقعہ عرض کیا۔ اللہ تعالیٰ نے میرے بارے میں یعنی شراب کے بارے میں ان کا ذکر کیا۔ یہ ارشاد نازل ہوا (آیت) انما الخمر والمیسر والانصاب والازلام رجس من عمل الشیطان فاجتنبوہ۔ مسئلہ نمبر
3
۔ یہ احادیث دلالت کرتی ہیں کہ شراب پینا اس وقت مباح معمول اور معروف تھا نہ اس پر انکار کیا گیا اور نہ اسے بدلا گیا۔ نبی کریم ﷺ نے اس پر اسے قائم رکھا اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے اس پر سورة النساء کی آیت دلالت کرتی ہے (آیت) لاتقربوا الصلوۃ وانتم سکری (النسائ :
43
) جیسا کہ پہلے گزرا ہے کیا ان کے لیے اس کا مقدار کا پینامباح تھا جو نشہ دیتی تھی ؟ حضرت حمزہ کا واقعہ اس میں ظاہر ہے جب انہوں نے حضرت علی ؓ کی اونٹنیوں کی کھو کھیں چیر دی تھی اور ان کی کہانیں کاٹ دی تھیں، حضرت علی ؓ نے اس بارے میں نبی کریم ﷺ کو بتایا آپ حضرت حمزہ کے پاس آئے۔ حضرت حمزہ سے نبی کریم ﷺ کے متعلق ایسا کلام صادر ہوا جو نبی کریم ﷺ کے احترام، توقیر اور اکرام کے مخالف تھا جو دلیل ہے کہ حضرت حمزہ کی عقل ختم ہوچکی تھی نشہ آور شراب پینے کی وجہ سے، اسی وجہ سے راوی نے فرمایا : رسول اللہ ﷺ جان گئے کہ وہ نشہ میں دہت ہیں، پھر نبی کریم ﷺ نے حضرت حمزہ پر انکار نہ کیا اور نہ ان پر سختی کی، نہ حالت نشہ میں اور نہ اس کے بعد بلکہ آپ الٹے پائوں لوٹے اور باہر نکل آئے۔ جب حضرت حمزہ نے کہا : تم تو میرے باپ کے غلام ہو۔ یہ اس کے خلاف ہے جو اصولیوں نے کہا ہے اور جو انہوں نے بیان کیا ہے، کیونکہ انہوں نے کہا : ہر شریعت میں نشہ حرام تھا، کیونکہ شرائع بندوں کے مصالح ہوتی ہیں نہ کہ مفاسد ہوتی ہیں اور مصالح کی اصل عقل ہے جیسا کہ مفاسد کی اصل عقل کا ضائع ہونا ہے پس ہر وہ چیز جو عقل کو ضائع کردے یا اس میں تشویش پیدا کردے اس سے منع واجب ہے مگر یہ کہ حضرت حمزہ کی حدیث کو اس پر محمول کیا جائے کہ انہوں نے اس کے پینے سے نشہ کا قصد نہیں کیا تھا لیکن وہ جلدی اثر کرگئی اور ان کے دماغ پر غالب آگئی۔ واللہ اعلم مسئلہ نمبر
4
۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : رجس حضرت ابن عباس ؓ عنہنے اس آیت میں فرمایا : رجس سے مراد ناراضگی ہے، جب کہ بدبودار چیز پائخانہ اور غلاظت کو رجس کہا جاتا ہے الرجززا کے ساتھ ہو تو اس کا معنی عذاب ہے اور الرکس کا معنی غلاظت ہے اور الرجس کا لفظ دونوں کے لیے استعمال ہوتا ہے (
1
) ۔ (آیت) من عمل الشیطان یعنی شیطان کے ابھارنے اور مزین کرنے کی وجہ سے بعض نے فرمایا : وہ ان امور کے آغاز پر تو خود عمل کرتا ہے حتی کہ پھر وہ ان میں شیطان کی اقتدا کرتا ہے۔ مسئلہ نمبر
5
۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : فاجتنبوہ یعنی اس سے دور ہٹ جائو۔ اللہ تعالیٰ نے ان امور سے دور رہنے کا حکم دیا ہے اور امر کے صیغہ سے ذکر فرمایا نیز احادیث کی نصوص اور اجماع امت بھی ان کی حرمت پر موجود ہے پس تحریم کی جہت سے اجتناب ثابت ہوا، اس کے ساتھ شراب حرام کی گئی۔ علماء کے درمیان کوئی اختلاف نہیں کہ سورة مائدہ شراب کی حرمت کے ساتھ نازل ہوئی۔ یہ مدینہ طیبہ میں سب سے آخر میں نازل ہوئی۔ تحریم مردار، خون اور لحم الخنزیر میں نازل ہوئی۔ (آیت) قل لا اجد (الانعام :
145
) اور دوسری آیات میں تو وہ خبر کے انداز میں نازل ہوئی جب کہ شراب کی حرمت نہی اور زجر کے انداز میں نازل ہوئی یہ موکد تحریم ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ عنہنے روایت کیا ہے فرمایا : جب شراب کی تحریم نازل ہوئی تو رسول اللہ ﷺ کے اصحاب ایک دوسرے کے پاس گئے اور کہا کہ شراب حرام کردی گئی ہے اور شرک کے برابر کی گئی ہے یعنی بتوں کے لیے ذبح کے ساتھ ملایا ہے اور وہ شرک ہے پھر (آیت) لعلکم تفلحون کو معلق کیا فلاح کو امر کے ساتھ معلق کیا یہ وجوب کی تاکید پر دلیل ہے۔ مسئلہ نمبر
6
۔ شراب کی تحریم اور شرع کے اس کو خبیث سمجھنے اور اس پر رجس کا اطلاق کرنے اور اس سے اجتناب کا امر دینے سے جمہور علماء نے اس کی نجاست کا حکم سمجھا ہے اور اس میں جمہور علماء کی ربیعہ، لیث بن سعد اور مزنی، امام شافعی اور بعض بغدادی علماء اور قروی علماء متاخرین نے مخالفت کی ہے۔ یہ علماء کہتے ہیں : شراب پاک ہے۔ حرام صرف اس کا پینا ہے۔ سعید بن حداد قروی نے اس کی طہارت پر، مدینہ طیبہ کی گلیوں میں اس کے بہائے جانے پر استدلال کیا ہے۔ فرماتے ہیں : اگر یہ ناپاک ہوتی تو صحابہ کرام اسے گلیوں میں نہ بہاتے اور رسول اللہ ﷺ بھی اس سے منع فرماتے جس طرح کے راستوں میں پیشاب کرنے سے منع فرمایا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ صحابہ کرام نے ایسا اس لیے کیا تھا، کیونکہ ان کے لیے تہہ خانے اور کنویں نہیں تھے جن میں وہ شراب کو بہاتے، کیونکہ ان کے عام حالت ایسے ہی تھے کہ ان کی لیٹرینیں گھروں میں نہ تھیں، حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا : وہ گھروں میں لیٹرینیں بناناناپسند کرتے تھے اور اس شراب کو مدینہ سے باہر لے جانے میں کلفت اور مشقت تھی نیز اس سے حکم پر فورا عمل سے تاخیر لازم آتی اور اس سے بچناممکن بھی تھا، کیونکہ مدینہ طیبہ کے راستے وسیع تھے اور شراب بھی اتنی زیادہ نہ تھی کہ وہ نہر بن جاتی اور پورے راستہ کو گھیر لیتی بلکہ وہ تھوڑی جگہوں پر تھی جس سے بچائو ممکن تھا۔ نیز اس عمل میں اس کو بہانے کی شہرت کا فائدہ بھی موجود تھا تاکہ شراب کی حرمت اس کے تلف کرنے کے ساتھ پھیل جائے اور اس سے نفع حاصل نہ کیا جائے اور لوگ اس پر موافقت کریں۔ واللہ اعلم اگر یہ کہا جائے کہ تنجیس (ناپاک قراردینا) حکم شرعی ہے اور اس میں کوئی نص نہیں ہے اور کسی چیز کے حرام ہونے سے پہلے اس کا نجس (ناپاک ہونا) لازم نہیں آتا، شرع میں بہت سی حرام چیزیں ایسی ہیں جو نجس نہیں ہیں۔ ہم کہیں گے : اللہ تعالیٰ نے فرمایا : رجس یہ شراب کی نجاست پر دلالت کرتا ہے، کیونکہ لغت میں رجس کا معنی نجاست ہے پھر اگر ہم یہ التزام کریں کہ ہم کوئی حکم نہ لگائیں مگر جن میں کوئی نص پائیں تو شریعت معطل ہوجائے گی، کیونکہ شریعت میں نصوص کم ہیں، پس پیشاب، پاخانہ، خون، مردار وغیرہ کی نجاست پر کون سی نص موجود ہے ؟ یہ ظواہر، عمومات اور قیاس ہیں مزید سورة الحج میں اس معنی کی وضاحت آئے گی انشاء اللہ تعالی۔ مسئلہ نمبر
7
۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (آیت) فاجتنبوہ یہ مطلق اجتناب پر دلالت کرتا ہے کہ کسی اعتبار سے بھی اس سے نفع نہ اٹھایاجائے نہ پینے کا نہ بیچنے کا، نہ سرکہ بنانے کا، نہ علاج کا، نہ کوئی اور۔ اس پر احادیث دلالت کرتی ہیں، مسلم نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کی ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ کو ایک مشکیزہ شراب تحفہ میں دیا، رسول اللہ ﷺ نے اسے فرمایا : ” کیا تجھے معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے حرام کیا ہے ؟ “ اس نے کہا : ” نہیں “ حضرت ابن عباس ؓ عنہنے فرمایا : پھر اس نے ایک شخص سے سرگوشی کی۔ رسول اللہ ﷺ نے اس سے پوچھا : ” تو نے اس سے کیا سرگوشی کی ہے “ اس نے کہا : میں نے اسے بیچنے کا حکم دیا ہے آپ ﷺ نے فرمایا :” جس ذات نے اس کا پیناحرام کیا ہے اس نے اس کا بیچنا بھی حرام کیا ہے “۔ فرمایا : اس نے اپنا منہ کھول دیاحتی کہ ساری شراب نکل گئی (
1
) یہ ہمارے بیان کی دلیل ہے، کیونکہ اگر اس میں کوئی جائز منفعت ہوتی تو رسول اللہ ﷺ اس کو بیان فرمادیتے جیسا کہ مردار بکری کے بارے فرمایا تم نے اس کی کھال کیوں نہیں اتاری اور پھر اسے دباغت کیوں نہیں کیا اور پھر اس سے نفع کیوں نہیں اٹھایا ؟ (
2
) مسئلہ نمبر
8
۔ خون اور شراب کی بیع کی تحریم پر مسلمانوں کا اجماع ہے اس میں غلاظت اور تمام نجاسات اور ان تمام چیزوں کی بیع کی حرمت پر دلیل ہے جن کا کھانا حلال نہیں ہے اسی وجہ سے واللہ اعلم۔ امام مالک کے نزدیک چوپائوں کا گوبر بیچنامکروہ ہے۔ اور ابن القاسم نے اس میں رخصت دی ہے، کیونہ اس میں منفعت ہے قیاس وہ ہے جو امام مالک نے کہا ہے، یہی امام شافعی کا مذہب ہے یہ حدیث اس کی صحت پر شاہد ہے۔ مسئلہ نمبر
9
۔ جمہور فقہاء کا خیال ہے کہ کسی کے لیے شراب کو سرکہ بناناجائز نہیں اگر سرکہ بنانا جائز ہوتا تو رسول اللہ ﷺ اس شخص کو مشکیزہ کا منہ کھولنے نہ دیتے تاکہ اس میں جو کچھ ہے نکل نہ جائے، کیونکہ سرکہ مال ہے اور نبی کریم ﷺ نے مال کو ضائع کردیا۔ حضرت عثمان بن ابی العاص نے یتیم کی شراب بہادی تھی آپ ﷺ سے اسے سرکہ بنانے کی اجازت طلب کی گئی تو آپ ﷺ نے فرمایا : ” نہیں “۔ آپ نے سرکہ بنانے سے منع فرمایا۔ اہل حدیث اور اہل الرائے کی ایک جماعت کی یہی رائے ہے اور سحنون بن سعید کا میلان بھی اسی طرف ہے، دوسرے علماء نے کہا : شراب کو سرکہ بنانے میں کوئی حرج نہیں انسان کے عمل سے جو سرکہ بن گئی اس کے کھانے میں کوئی حرج نہیں۔ یہی ثوری، اوزاعی، لیث بن سعد اور کو فیوں کا قول ہے۔ امام ابوحنیفہ نے فرمایا : اگر شراب میں کستوری اور نمک ڈالی گئی پھر وہ مربی بن گیا اور شراب کی حالت بدل گئی تو جائز ہے۔ امام محمد بن حسن نے امام ابوحنیفہ کی ” المربی “ میں مخالفت کی ہے فرمایا : سرکہ میں تبدیل کیے بغیر اس سے علاج بھی نہیں کیا جائے گا۔ ابو عمر نے کہا : عراقیوں نے شراب کو سرکہ بنانے میں حضرت ابو درداء کے قول سے حجت پکڑی ہے وہ قول ابو ادریس خولانی عن ابی الدرداء کے واسطہ سے مروی ہے اور قوی نہیں ہے۔ حضرت ابو درداء شراب کا مربی کھاتے تھے وہ کہتے تھے : سورج اور نمک نے اس کی دباغت کی ہے۔ حضرت عمر بن خطاب اور حضرت عثمان بن ابی العاص نے شراب کو سرکہ بنانے کے مسئلہ میں ان کی مخالفت کی ہے اور سنت کے ہوتے ہوئے کسی رائے میں حجت نہیں ہے۔ (وباللہ التوفیق) یہ بھی احتمال ہے کہ سرکہ بنانے سے منع ابتداء اسلام میں ہو جب اس کی تحریم نازل ہوئی تھی تاکہ اسے ہمیشہ روکے نہ رکھیں، کیونکہ اس کے پینے کا زمانہ قریب تھا اس سے قطعی طور پر ان کے ارادہ میں عادت کو ختم کرنا تھا جب صورت حال اس طرح ہے تو اس کو سرکہ بنانے کے متعلق نہی میں اور اس کو بہانے کے حکم میں یہ نہ تھا کہ اس کا کھانا ممنوع ہے جب سرکہ بن جائے، اشہب نے امام مالک سے روایت کیا ہے فرمایا : جب نصرانی شراب کو سرکہ بنادے تو اس کو کھانے میں کوئی حرج نہیں، اسی طرح ہے اگر مسلمان اسے سرکہ بنادے اور وہ اللہ تعالیٰ سے استغفار کرے۔ اس روایت کو ابن عبد الحکم نے اپنی کتاب میں ذکر کیا ہے۔ صحیح وہ ہے جو امام مالک نے ابن القاسم اور ابن وہب کی روایت میں ذکر کیا ہے کہ کسی مسلمان کے لیے شراب سے علاج کرنا صحیح نہیں حتی کہ وہ اسے سرکہ بنادے اور اسے بیچنا بھی جائز نہیں بلکہ وہ اسے انڈیل دے۔ مسئلہ نمبر
10
۔ امام مالک اور ان کے اصحاب کا قول مختلف نہیں کہ جب شراب خود بخود سرکہ بن جائے تو اس کا کھانا حلال ہے یہی حضرت عمر بن خطاب، قبیصہ، ابن شہاب اور امام شافعی کا ایک قول ہے۔ یہ اکثر فقہاء کے مذہب کا ماحاصل ہے۔ مسئلہ نمبر
11
۔ ابن خویز منداد نے ذکر کیا ہے کہ شراب کی ملکیت ہوگی اور انہوں نے اس کو اس طرف لوٹایا ہے کہ اس سے گلہ کے پھندے کو دور کیا جائے گا اور اس سے آگ بجھائی جائے گی۔ یہ نقل امام مالک سے معروف نہیں بلکہ یہ تو اس کے قول پر ہے جو اس کو پاک خیال کرتا ہے، اگر اس کی ملکیت جائز ہوتی تو نبی کریم ﷺ اس کو بہانے کا حکم نہ دیتے، نیز ملکیت نفع کی ایک صورت ہے اور اس کو بہانے کے ساتھ وہ نفع باطل ہوگیا۔ مسئلہ نمبر
12
۔ یہ آیت دلیل ہے کہ نرد اور شطرنج بطور جوا کھیلنایاجوا کے بغیر کھیلناحرام ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے جب شراب کو حرام کیا تو اس معنی کی خبر دی جو اس میں تھا فرمایا : (آیت) یایھا الذین امنو انما الخمر والمیسر پھر فرمایا : انمایریدالشیطان ان یوقع بینکم العداوۃ والبغضاء اور ہر وہ کھیل جس کا قلیل کثیر کی طرف دعوت دے اور وہ کھیلنے والوں کے درمیان عداوت اور بغض کو پیدا کرے اللہ تعالیٰ کے ذکر اور نماز سے روکے وہ شراب پینے کی طرح ہے اور اس کی مثل حرام ہونا ثابت کیا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ شراب پیناتو نشہ کا باعث بنتا ہے انسان اس کے ساتھ نماز پر قادر نہیں ہوتا جب کہ نرد اور شطرنج میں یہ معنی نہیں اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حرمت میں شراب اور جوئے کو جمع کیا ہے اور دونوں کا یہ وصف بیان کیا ہے کہ یہ دونوں لوگوں کے درمیان عداوت اور بغض پیدا کرتے ہیں اور اللہ کے ذکر اور نماز سے روکتے ہیں۔ یہ معلوم ہے کہ شراب اگر نشہ دیتی ہے تو جوا نشہ نہیں دیتا پھر اللہ کے نزدیک ان میں افتراق نہیں ہے جو تحریم میں ان کے درمیان برابری سے مانع ہو، کیونکہ دونوں معانی کے اعتبار سے مشترک ہیں نیز شراب کا قلیل، نشہ نہیں دیتا جس طرح نرد اور شطرنج کا کھیل نشہ نہیں دیتا پھر بھی شراب کا قلیل، کثیر کی طرح حرام ہے کوئی انکار نہیں کیا جاتا کہ نرد اور شطرنج شراب کی طرح حرام ہیں اگرچہ نشہ نہیں دیتی نیز کھیل کا آغاز غفلت کا موجب ہے اور وہ غفلت جو دل پر غالب آتی ہے وہ نشہ کی جگہ ہوتی ہے۔ اگر شراب حرام کی گئی ہے، کیونکہ یہ نشہ دیتی ہے اور نشہ کی وجہ سے نماز روکتی ہے پس نرد اور شطرنج کا کھیل بھی حرام ہونا چاہیے، کیونکہ وہ بھی غافل کرتا ہے اور نماز سے روکتا ہے۔ مسئلہ نمبر
13
۔ یہ روایت دلیل ہے کہ اسے ناسخ نہیں پہنچی وہ سابقہ اباحت سے استدلال کرنے والا تھا پس یہ دلیل ہے کہ باسخ کے وجود کے ساتھ حکم نہیں اٹھتاجیسا کہ بعض اصولیوں نے کہا ہے بلکہ ناسخ کے پہنچنے کا ساتھ حکم اٹھتا ہے جیساکا اس پر یہ حدیث دلالت کرتی ہے یہ صحیح ہے، کیونکہ نبی کریم نے اسے توبیخ نہیں فرمائی بلکہ اس کے لیے حکم بیان فرمایا، کیونکہ وہ پہلے عمل کے ساتھ مخاطب تھا اگر اسے ترک کرتا تو بلا اختلاف نافرمانی کرنے والا ہوتا، اگرچہ ناسخ وجود میں پایا بھی گیا تھا اس طرح اہل قبا کے لیے واقع ہوا تھا جب وہ بیت المقدس کی طرف منہ کرکے نماز پڑھ رہے تھے کہ ایک آنے والا اور انہیں ناسخ کے بارے میں بتایاتو وہ کعبہ کی طرف پھرگئے۔ یہ سورة بقرہ میں گزرچکا ہے والحمد للہ۔ اس میں الخمر (شراب) اور اس کے اشتقاق اور میسرکاذکر گزرچکا ہے انصاب اور ازلام کے بارے اس سورة کے آغاز میں گزرچکا ہے۔ مسئلہ نمبر
14
۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (آیت) انمایرید الشیطان ان یوقع بینکم العداوۃ والبغضاء فی الخمر والمیسر۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے بندوں کو آگاہ فرمایا کہ شیطان ہمارے درمیان شراب کے ذریعے عداوت اور بغض پیدا کرنا چاہتا ہے، پس اسی نے ہمیں اس سے محتاط رہنے کا حکم دیا اور ہمیں اس سے منع فرمایا۔ روایت ہے کہ انصار دو قبیلوں نے شراب پی اور بعض نے بعض کے ساتھ مذاق کیا جب وہ ہوش میں آئے تو بعض نے اس کے آثار دیکھے جو دوسروں نے اس کے ساتھ کیا تھا وہ آپس میں بھائی بھائی تھے اور دلوں میں کسی قسم کا بغض نہ تھا تو بعض کہنے لگے : اگر میرا بھائی مجھ پر رحم کرنے والا ہوتا تو میرے ساتھ ایسا نہ کرتا پس اس طرح ان کے درمیان کینہ اور بغض پیدا ہوگیا پس اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : (آیت) انمایرید الشیطان ان یوقع بینکم العداوۃ والبغضاء، الایۃ۔ مسئلہ نمبر
15
۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (آیت) ویصدکم عن ذکر اللہ وعن الصلوۃ فرمایا : جب تم نشہ میں ہوجائوگے تو تم اللہ کا ذکر نہ کروگے اور نہ نماز پڑھو گے اگر تم نماز پڑھو گے تو تم پر خلط ملط کردے گا جس طرح اس نے حضرت علی کے ساتھ کیا، یہ بھی روایت ہے کہ حضرت عبد الرحمن کے ساتھ کیا ہے جیسا کہ سورة النساء میں گزرا ہے۔ حضرت عبید اللہ بن عمر نے فرمایا : قاسم بن محمد سے شطرنج کے بارے پوچھا گیا کہ کیا یہ جوا ہے اور نرد کے بارے پوچھا گیا کیا یہ جوا ہے ؟ انہوں نے کہا : ہر وہ کھیل جو اللہ تعالیٰ کے ذکر اور نماز سے روک دے وہ میسر ہے۔ ابو عبید نے کہا : انہوں نے اس آیت سے استدلال کیا ہے : (آیت) ویصدکم عن ذکر اللہ وعن الصلوۃ، الایۃ۔ مسئلہ نمبر
16
۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (آیت) فھل انتم منتھون جب حضرت عمر ؓ نے جان لیا کہ یہ وعید، انتھوا کے معنی پر شدید ہے، تو حضرت عمر نے کہا : ہم شراب سے رک گئے۔ نبی کریم ﷺ نے منادی کو حکم دیا کہ گلیوں میں اعلان کردیں کہ خبردار شراب حرام کی گئی، پس مٹکے ٹوٹ گئے اور شراب بہادی گئی حتی کہ وہ مدینہ کی گلیوں میں بہہ رہی تھی۔ مسئلہ نمبر
17
۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (آیت) واطیعواللہ واطیعوالرسول واحذروا تحریم تاکید ہے اور وعید میں شدت ہے اور حکم کی پیروی ہے، منہی عنہ سے روکنا ہے۔ واطیعوا پر عطف اچھا ہے، کیونکہ پہلی کلام میں انتھوا کے معنی کی تاکید ہے اور تاکید کے لیے اطیعوا کو ذکر رسول میں مکرر کیا ہے اور مخالفت سے ڈرایا ہے اور آخرت کے عذاب کی دھمکی دی ہے۔ فرمایا : اگر تم نے مخالفت کی (آیت) انما علی رسولنا البلغ المبین یعنی ہمارے ذمہ تو اس تحریم کا پہنچانا ہے اور رسول پر اعمال خیر یا شر کا انجام بیان کرنا ہے۔ (
1
)
Top