Al-Qurtubi - Al-Maaida : 90
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَ الْمَیْسِرُ وَ الْاَنْصَابُ وَ الْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ
يٰٓاَيُّھَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا : ایمان والو اِنَّمَا الْخَمْرُ : اس کے سوا نہیں کہ شراب وَالْمَيْسِرُ : اور جوا وَالْاَنْصَابُ : اور بت وَالْاَزْلَامُ : اور پانسے رِجْسٌ : ناپاک مِّنْ : سے عَمَلِ : کام الشَّيْطٰنِ : شیطان فَاجْتَنِبُوْهُ : سو ان سے بچو لَعَلَّكُمْ : تا کہ تم تُفْلِحُوْنَ : تم فلاح پاؤ
اے ایمان والو ! شراب اور جوا اور بت اور پا سے (یہ سب) ناپاک کام اعمال شیطان سے ہیں۔ سو ان سے بچتے رہنا تاکہ نجات پاؤ۔
آیت نمبر 90 تا 92 اس میں سترہ مسائل ہیں : مسئلہ نمبر 1۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (آیت) یایھا الذین امنوا ان اشیاء کے ترک کرنے کے ساتھ مومنوں کو خطاب کیا ہے، کیونکہ ان شہوات اور عادات کے ساتھ زمانہ جاہلیت میں ملوث تھے اور ان کے نفوس پر یہ غالب تھیں۔ پس بہت سے مومنوں کے نفوس میں کچھ باقی تھیں۔ ابن عطیہ نے کہا (1): اس قبیل سے تھا پرندوں کو دیکھ کر کام کو نہ جانا اور کتب وغیرہ سے فال لینا اور اس طرح کی بیہودہ چیزیں جو آج کل جاہل لوگ کرتے ہیں، رہا خمر (شراب) ابھی تک یہ حرام نہیں کی گئی اس کی مکمل حرمت جنگ احد کے واقعہ کے بعد تیسرے سال نازل ہوئی اور جنگ احد ہجرت کے تیسرے سال شوال میں ہوئی۔ اس کا اشتقاق پہلے گزرچکا ہے رہا المیسر (جوا) سورة بقرہ میں اس کا ذکر گزرچکا ہے، رہا الانصاب تو بعض علماء نے فرمایا : اس سے مراد بت ہیں۔ بعض نے فرمایا : اس سے مراد نرد اور شطرنج کا کھیل ہے اس کا بیان سورة یونس آیت 32 میں (آیت) فماذا بعد الحق الا الضلال کے تحت آئے گا۔ رہا الازلام اس سے مراد تیر ہیں اس کے بارے میں پہلی سورت میں گزرچکا ہے۔ کہا جاتا ہے : بیت اللہ شریف میں خدام اور بتوں کے خدام کے پاس تیر تھے کوئی شخص آتا جب وہ کسی کام کا ارادہ کرتا تو اس سے کوئی تیر نکالتا اگر اس پر لکھا ہواہوتا امرنی ربی (میرے رب نے مجھے حکم دیا) تو وہ کام کو چلا جاتا خواہ اسے پسند ہوتا یا ناپسند ہوتا۔ مسئلہ نمبر 2۔ شراب کی حرمت بتدریج ہوئی اور بہت سے واقعات کے ساتھ ہوئی، کیونکہ وہ لوگ شراب کے بہت حریص تھے اور سب سے پہلے شراب کے متعلق یہ نازل ہوا : (آیت) یسئلونک عن الخمر والمیسر قل فیھما اثم کبیر ومنافع للناس (بقرہ : 219) یعنی اس کی تجارت میں منافع ہیں۔ جب یہ آیت نازل ہوئی تو بعض لوگوں نے شراب کو ترک کردیا اور انہوں نے کہا : جس میں بڑا گناہ ہے اس کی ہمیں ضرورت نہیں اور بعض لوگوں نے اسے ترک نہ کیا انہوں نے کہا : ہم اس کی منفعت لیتے ہیں اور اس کا گناہ چھوڑتے ہیں پھر یہ آیت نازل ہوئی : (آیت) لاتقربوا الصلوۃ وانتم سکری (النسائ : 43) بعض لوگوں نے پھر اس کو چھوڑ دیا اور کہا : ہمیں اس کی حاجت نہیں جو ہمیں نماز سے غافل کردے اور بعض نے نماز کے اوقات کے علاوہ شراب پی حتی کہ یہ آیت نازل ہوئی : (آیت) یایھا الذین امنوا انما الخمر والمیسر والانصاب والازلام رجس۔ پس لوگوں پر یہ مطلقا حرام ہوگئی حتی کہ بعض نے کہا : اللہ تعالیٰ نے شراب سے زیادہ کسی چیز کو شدت سے حرام نہیں فرمایا۔ ابو میسرہ نے کہا : یہ حضرت عمر بن خطاب کے سبب نازل ہوئی انہوں نے نبی کریم ﷺ کے لیے شراب کے عیوب ذکر کیے اور شراب کی وجہ سے لوگوں پر کیفیات نازل ہوتی تھی اللہ تعالیٰ سے انہوں نے اس کی حرمت کی دعا مانگی اللھم بین لنافی الخمر بیاناشافیا۔ اے اللہ ! شراب کے بارے ہمارے لیے شافی بیان فرما، تو یہ آیات نازل ہوئیں۔ حضرت عمر نے کہا : انتھینا انتھیناہم رک گئے، ہم رک گئے (1) ۔ سورة بقرہ میں اور سورة النساء میں یہ گزرچکا ہے۔ ابو دائود نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے فرمایا : (آیت) یایھا الذین امنوا لاتقربوا الصلوۃ وانتم سکری (النسائ : 43) اس آیت کو سورة مائدہ کی آیت (آیت) انما الخمر والمیسر والانصاب نے منسوخ کردیا (2) ۔ اور صحیح مسلم میں حضرت سعد بن ابی وقاص سے مروی ہے فرمایا : میرے متعلق قرآنی آیات نازل ہوئیں۔ اس میں فرمایا : میں انصار کے ایک گروہ کے پاس آیا، انہوں نے کہا : ادھر آئو ہم تجھے کھانا کھلائیں گے اور شراب پلائیں گے۔ یہ شراب کے حرام ہونے سے پہلے کی بات ہے۔ فرمایا : میں ان کے پاس ایک باغ میں آیاوہاں اونٹ کا بھونا ہوا سر اور شراب کا مٹکا تھا۔ فرمایا : میں نے ان کے ساتھ کھایا، پیا۔ فرمایا : میں نے ان کے پاس انصار اور مہاجرین کا ذکر کیا۔ میں نے کہا : مہاجرین، انصار سے افضل ہیں۔ فرمایا : ایک شخص نے اونٹ کے جبڑے اٹھائے اور مجھے اس کے ساتھ مارا پس میرا ناک زخمی ہوگیا۔ ایک روایت میں ہے : اس نے ناک چیر دیا، اور سعد کا ناک چیرا ہو تھا۔ میں رسول اللہ ﷺ کے پاس آیا اور سارا واقعہ عرض کیا۔ اللہ تعالیٰ نے میرے بارے میں یعنی شراب کے بارے میں ان کا ذکر کیا۔ یہ ارشاد نازل ہوا (آیت) انما الخمر والمیسر والانصاب والازلام رجس من عمل الشیطان فاجتنبوہ۔ مسئلہ نمبر 3۔ یہ احادیث دلالت کرتی ہیں کہ شراب پینا اس وقت مباح معمول اور معروف تھا نہ اس پر انکار کیا گیا اور نہ اسے بدلا گیا۔ نبی کریم ﷺ نے اس پر اسے قائم رکھا اس میں کوئی اختلاف نہیں ہے اس پر سورة النساء کی آیت دلالت کرتی ہے (آیت) لاتقربوا الصلوۃ وانتم سکری (النسائ : 43) جیسا کہ پہلے گزرا ہے کیا ان کے لیے اس کا مقدار کا پینامباح تھا جو نشہ دیتی تھی ؟ حضرت حمزہ کا واقعہ اس میں ظاہر ہے جب انہوں نے حضرت علی ؓ کی اونٹنیوں کی کھو کھیں چیر دی تھی اور ان کی کہانیں کاٹ دی تھیں، حضرت علی ؓ نے اس بارے میں نبی کریم ﷺ کو بتایا آپ حضرت حمزہ کے پاس آئے۔ حضرت حمزہ سے نبی کریم ﷺ کے متعلق ایسا کلام صادر ہوا جو نبی کریم ﷺ کے احترام، توقیر اور اکرام کے مخالف تھا جو دلیل ہے کہ حضرت حمزہ کی عقل ختم ہوچکی تھی نشہ آور شراب پینے کی وجہ سے، اسی وجہ سے راوی نے فرمایا : رسول اللہ ﷺ جان گئے کہ وہ نشہ میں دہت ہیں، پھر نبی کریم ﷺ نے حضرت حمزہ پر انکار نہ کیا اور نہ ان پر سختی کی، نہ حالت نشہ میں اور نہ اس کے بعد بلکہ آپ الٹے پائوں لوٹے اور باہر نکل آئے۔ جب حضرت حمزہ نے کہا : تم تو میرے باپ کے غلام ہو۔ یہ اس کے خلاف ہے جو اصولیوں نے کہا ہے اور جو انہوں نے بیان کیا ہے، کیونکہ انہوں نے کہا : ہر شریعت میں نشہ حرام تھا، کیونکہ شرائع بندوں کے مصالح ہوتی ہیں نہ کہ مفاسد ہوتی ہیں اور مصالح کی اصل عقل ہے جیسا کہ مفاسد کی اصل عقل کا ضائع ہونا ہے پس ہر وہ چیز جو عقل کو ضائع کردے یا اس میں تشویش پیدا کردے اس سے منع واجب ہے مگر یہ کہ حضرت حمزہ کی حدیث کو اس پر محمول کیا جائے کہ انہوں نے اس کے پینے سے نشہ کا قصد نہیں کیا تھا لیکن وہ جلدی اثر کرگئی اور ان کے دماغ پر غالب آگئی۔ واللہ اعلم مسئلہ نمبر 4۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : رجس حضرت ابن عباس ؓ عنہنے اس آیت میں فرمایا : رجس سے مراد ناراضگی ہے، جب کہ بدبودار چیز پائخانہ اور غلاظت کو رجس کہا جاتا ہے الرجززا کے ساتھ ہو تو اس کا معنی عذاب ہے اور الرکس کا معنی غلاظت ہے اور الرجس کا لفظ دونوں کے لیے استعمال ہوتا ہے (1) ۔ (آیت) من عمل الشیطان یعنی شیطان کے ابھارنے اور مزین کرنے کی وجہ سے بعض نے فرمایا : وہ ان امور کے آغاز پر تو خود عمل کرتا ہے حتی کہ پھر وہ ان میں شیطان کی اقتدا کرتا ہے۔ مسئلہ نمبر 5۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : فاجتنبوہ یعنی اس سے دور ہٹ جائو۔ اللہ تعالیٰ نے ان امور سے دور رہنے کا حکم دیا ہے اور امر کے صیغہ سے ذکر فرمایا نیز احادیث کی نصوص اور اجماع امت بھی ان کی حرمت پر موجود ہے پس تحریم کی جہت سے اجتناب ثابت ہوا، اس کے ساتھ شراب حرام کی گئی۔ علماء کے درمیان کوئی اختلاف نہیں کہ سورة مائدہ شراب کی حرمت کے ساتھ نازل ہوئی۔ یہ مدینہ طیبہ میں سب سے آخر میں نازل ہوئی۔ تحریم مردار، خون اور لحم الخنزیر میں نازل ہوئی۔ (آیت) قل لا اجد (الانعام : 145) اور دوسری آیات میں تو وہ خبر کے انداز میں نازل ہوئی جب کہ شراب کی حرمت نہی اور زجر کے انداز میں نازل ہوئی یہ موکد تحریم ہے۔ حضرت ابن عباس ؓ عنہنے روایت کیا ہے فرمایا : جب شراب کی تحریم نازل ہوئی تو رسول اللہ ﷺ کے اصحاب ایک دوسرے کے پاس گئے اور کہا کہ شراب حرام کردی گئی ہے اور شرک کے برابر کی گئی ہے یعنی بتوں کے لیے ذبح کے ساتھ ملایا ہے اور وہ شرک ہے پھر (آیت) لعلکم تفلحون کو معلق کیا فلاح کو امر کے ساتھ معلق کیا یہ وجوب کی تاکید پر دلیل ہے۔ مسئلہ نمبر 6۔ شراب کی تحریم اور شرع کے اس کو خبیث سمجھنے اور اس پر رجس کا اطلاق کرنے اور اس سے اجتناب کا امر دینے سے جمہور علماء نے اس کی نجاست کا حکم سمجھا ہے اور اس میں جمہور علماء کی ربیعہ، لیث بن سعد اور مزنی، امام شافعی اور بعض بغدادی علماء اور قروی علماء متاخرین نے مخالفت کی ہے۔ یہ علماء کہتے ہیں : شراب پاک ہے۔ حرام صرف اس کا پینا ہے۔ سعید بن حداد قروی نے اس کی طہارت پر، مدینہ طیبہ کی گلیوں میں اس کے بہائے جانے پر استدلال کیا ہے۔ فرماتے ہیں : اگر یہ ناپاک ہوتی تو صحابہ کرام اسے گلیوں میں نہ بہاتے اور رسول اللہ ﷺ بھی اس سے منع فرماتے جس طرح کے راستوں میں پیشاب کرنے سے منع فرمایا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ صحابہ کرام نے ایسا اس لیے کیا تھا، کیونکہ ان کے لیے تہہ خانے اور کنویں نہیں تھے جن میں وہ شراب کو بہاتے، کیونکہ ان کے عام حالت ایسے ہی تھے کہ ان کی لیٹرینیں گھروں میں نہ تھیں، حضرت عائشہ ؓ نے فرمایا : وہ گھروں میں لیٹرینیں بناناناپسند کرتے تھے اور اس شراب کو مدینہ سے باہر لے جانے میں کلفت اور مشقت تھی نیز اس سے حکم پر فورا عمل سے تاخیر لازم آتی اور اس سے بچناممکن بھی تھا، کیونکہ مدینہ طیبہ کے راستے وسیع تھے اور شراب بھی اتنی زیادہ نہ تھی کہ وہ نہر بن جاتی اور پورے راستہ کو گھیر لیتی بلکہ وہ تھوڑی جگہوں پر تھی جس سے بچائو ممکن تھا۔ نیز اس عمل میں اس کو بہانے کی شہرت کا فائدہ بھی موجود تھا تاکہ شراب کی حرمت اس کے تلف کرنے کے ساتھ پھیل جائے اور اس سے نفع حاصل نہ کیا جائے اور لوگ اس پر موافقت کریں۔ واللہ اعلم اگر یہ کہا جائے کہ تنجیس (ناپاک قراردینا) حکم شرعی ہے اور اس میں کوئی نص نہیں ہے اور کسی چیز کے حرام ہونے سے پہلے اس کا نجس (ناپاک ہونا) لازم نہیں آتا، شرع میں بہت سی حرام چیزیں ایسی ہیں جو نجس نہیں ہیں۔ ہم کہیں گے : اللہ تعالیٰ نے فرمایا : رجس یہ شراب کی نجاست پر دلالت کرتا ہے، کیونکہ لغت میں رجس کا معنی نجاست ہے پھر اگر ہم یہ التزام کریں کہ ہم کوئی حکم نہ لگائیں مگر جن میں کوئی نص پائیں تو شریعت معطل ہوجائے گی، کیونکہ شریعت میں نصوص کم ہیں، پس پیشاب، پاخانہ، خون، مردار وغیرہ کی نجاست پر کون سی نص موجود ہے ؟ یہ ظواہر، عمومات اور قیاس ہیں مزید سورة الحج میں اس معنی کی وضاحت آئے گی انشاء اللہ تعالی۔ مسئلہ نمبر 7۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (آیت) فاجتنبوہ یہ مطلق اجتناب پر دلالت کرتا ہے کہ کسی اعتبار سے بھی اس سے نفع نہ اٹھایاجائے نہ پینے کا نہ بیچنے کا، نہ سرکہ بنانے کا، نہ علاج کا، نہ کوئی اور۔ اس پر احادیث دلالت کرتی ہیں، مسلم نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کی ہے کہ ایک شخص نے رسول اللہ ﷺ کو ایک مشکیزہ شراب تحفہ میں دیا، رسول اللہ ﷺ نے اسے فرمایا : ” کیا تجھے معلوم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے حرام کیا ہے ؟ “ اس نے کہا : ” نہیں “ حضرت ابن عباس ؓ عنہنے فرمایا : پھر اس نے ایک شخص سے سرگوشی کی۔ رسول اللہ ﷺ نے اس سے پوچھا : ” تو نے اس سے کیا سرگوشی کی ہے “ اس نے کہا : میں نے اسے بیچنے کا حکم دیا ہے آپ ﷺ نے فرمایا :” جس ذات نے اس کا پیناحرام کیا ہے اس نے اس کا بیچنا بھی حرام کیا ہے “۔ فرمایا : اس نے اپنا منہ کھول دیاحتی کہ ساری شراب نکل گئی (1) یہ ہمارے بیان کی دلیل ہے، کیونکہ اگر اس میں کوئی جائز منفعت ہوتی تو رسول اللہ ﷺ اس کو بیان فرمادیتے جیسا کہ مردار بکری کے بارے فرمایا تم نے اس کی کھال کیوں نہیں اتاری اور پھر اسے دباغت کیوں نہیں کیا اور پھر اس سے نفع کیوں نہیں اٹھایا ؟ (2) مسئلہ نمبر 8۔ خون اور شراب کی بیع کی تحریم پر مسلمانوں کا اجماع ہے اس میں غلاظت اور تمام نجاسات اور ان تمام چیزوں کی بیع کی حرمت پر دلیل ہے جن کا کھانا حلال نہیں ہے اسی وجہ سے واللہ اعلم۔ امام مالک کے نزدیک چوپائوں کا گوبر بیچنامکروہ ہے۔ اور ابن القاسم نے اس میں رخصت دی ہے، کیونہ اس میں منفعت ہے قیاس وہ ہے جو امام مالک نے کہا ہے، یہی امام شافعی کا مذہب ہے یہ حدیث اس کی صحت پر شاہد ہے۔ مسئلہ نمبر 9۔ جمہور فقہاء کا خیال ہے کہ کسی کے لیے شراب کو سرکہ بناناجائز نہیں اگر سرکہ بنانا جائز ہوتا تو رسول اللہ ﷺ اس شخص کو مشکیزہ کا منہ کھولنے نہ دیتے تاکہ اس میں جو کچھ ہے نکل نہ جائے، کیونکہ سرکہ مال ہے اور نبی کریم ﷺ نے مال کو ضائع کردیا۔ حضرت عثمان بن ابی العاص نے یتیم کی شراب بہادی تھی آپ ﷺ سے اسے سرکہ بنانے کی اجازت طلب کی گئی تو آپ ﷺ نے فرمایا : ” نہیں “۔ آپ نے سرکہ بنانے سے منع فرمایا۔ اہل حدیث اور اہل الرائے کی ایک جماعت کی یہی رائے ہے اور سحنون بن سعید کا میلان بھی اسی طرف ہے، دوسرے علماء نے کہا : شراب کو سرکہ بنانے میں کوئی حرج نہیں انسان کے عمل سے جو سرکہ بن گئی اس کے کھانے میں کوئی حرج نہیں۔ یہی ثوری، اوزاعی، لیث بن سعد اور کو فیوں کا قول ہے۔ امام ابوحنیفہ نے فرمایا : اگر شراب میں کستوری اور نمک ڈالی گئی پھر وہ مربی بن گیا اور شراب کی حالت بدل گئی تو جائز ہے۔ امام محمد بن حسن نے امام ابوحنیفہ کی ” المربی “ میں مخالفت کی ہے فرمایا : سرکہ میں تبدیل کیے بغیر اس سے علاج بھی نہیں کیا جائے گا۔ ابو عمر نے کہا : عراقیوں نے شراب کو سرکہ بنانے میں حضرت ابو درداء کے قول سے حجت پکڑی ہے وہ قول ابو ادریس خولانی عن ابی الدرداء کے واسطہ سے مروی ہے اور قوی نہیں ہے۔ حضرت ابو درداء شراب کا مربی کھاتے تھے وہ کہتے تھے : سورج اور نمک نے اس کی دباغت کی ہے۔ حضرت عمر بن خطاب اور حضرت عثمان بن ابی العاص نے شراب کو سرکہ بنانے کے مسئلہ میں ان کی مخالفت کی ہے اور سنت کے ہوتے ہوئے کسی رائے میں حجت نہیں ہے۔ (وباللہ التوفیق) یہ بھی احتمال ہے کہ سرکہ بنانے سے منع ابتداء اسلام میں ہو جب اس کی تحریم نازل ہوئی تھی تاکہ اسے ہمیشہ روکے نہ رکھیں، کیونکہ اس کے پینے کا زمانہ قریب تھا اس سے قطعی طور پر ان کے ارادہ میں عادت کو ختم کرنا تھا جب صورت حال اس طرح ہے تو اس کو سرکہ بنانے کے متعلق نہی میں اور اس کو بہانے کے حکم میں یہ نہ تھا کہ اس کا کھانا ممنوع ہے جب سرکہ بن جائے، اشہب نے امام مالک سے روایت کیا ہے فرمایا : جب نصرانی شراب کو سرکہ بنادے تو اس کو کھانے میں کوئی حرج نہیں، اسی طرح ہے اگر مسلمان اسے سرکہ بنادے اور وہ اللہ تعالیٰ سے استغفار کرے۔ اس روایت کو ابن عبد الحکم نے اپنی کتاب میں ذکر کیا ہے۔ صحیح وہ ہے جو امام مالک نے ابن القاسم اور ابن وہب کی روایت میں ذکر کیا ہے کہ کسی مسلمان کے لیے شراب سے علاج کرنا صحیح نہیں حتی کہ وہ اسے سرکہ بنادے اور اسے بیچنا بھی جائز نہیں بلکہ وہ اسے انڈیل دے۔ مسئلہ نمبر 10۔ امام مالک اور ان کے اصحاب کا قول مختلف نہیں کہ جب شراب خود بخود سرکہ بن جائے تو اس کا کھانا حلال ہے یہی حضرت عمر بن خطاب، قبیصہ، ابن شہاب اور امام شافعی کا ایک قول ہے۔ یہ اکثر فقہاء کے مذہب کا ماحاصل ہے۔ مسئلہ نمبر 11۔ ابن خویز منداد نے ذکر کیا ہے کہ شراب کی ملکیت ہوگی اور انہوں نے اس کو اس طرف لوٹایا ہے کہ اس سے گلہ کے پھندے کو دور کیا جائے گا اور اس سے آگ بجھائی جائے گی۔ یہ نقل امام مالک سے معروف نہیں بلکہ یہ تو اس کے قول پر ہے جو اس کو پاک خیال کرتا ہے، اگر اس کی ملکیت جائز ہوتی تو نبی کریم ﷺ اس کو بہانے کا حکم نہ دیتے، نیز ملکیت نفع کی ایک صورت ہے اور اس کو بہانے کے ساتھ وہ نفع باطل ہوگیا۔ مسئلہ نمبر 12۔ یہ آیت دلیل ہے کہ نرد اور شطرنج بطور جوا کھیلنایاجوا کے بغیر کھیلناحرام ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے جب شراب کو حرام کیا تو اس معنی کی خبر دی جو اس میں تھا فرمایا : (آیت) یایھا الذین امنو انما الخمر والمیسر پھر فرمایا : انمایریدالشیطان ان یوقع بینکم العداوۃ والبغضاء اور ہر وہ کھیل جس کا قلیل کثیر کی طرف دعوت دے اور وہ کھیلنے والوں کے درمیان عداوت اور بغض کو پیدا کرے اللہ تعالیٰ کے ذکر اور نماز سے روکے وہ شراب پینے کی طرح ہے اور اس کی مثل حرام ہونا ثابت کیا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ شراب پیناتو نشہ کا باعث بنتا ہے انسان اس کے ساتھ نماز پر قادر نہیں ہوتا جب کہ نرد اور شطرنج میں یہ معنی نہیں اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حرمت میں شراب اور جوئے کو جمع کیا ہے اور دونوں کا یہ وصف بیان کیا ہے کہ یہ دونوں لوگوں کے درمیان عداوت اور بغض پیدا کرتے ہیں اور اللہ کے ذکر اور نماز سے روکتے ہیں۔ یہ معلوم ہے کہ شراب اگر نشہ دیتی ہے تو جوا نشہ نہیں دیتا پھر اللہ کے نزدیک ان میں افتراق نہیں ہے جو تحریم میں ان کے درمیان برابری سے مانع ہو، کیونکہ دونوں معانی کے اعتبار سے مشترک ہیں نیز شراب کا قلیل، نشہ نہیں دیتا جس طرح نرد اور شطرنج کا کھیل نشہ نہیں دیتا پھر بھی شراب کا قلیل، کثیر کی طرح حرام ہے کوئی انکار نہیں کیا جاتا کہ نرد اور شطرنج شراب کی طرح حرام ہیں اگرچہ نشہ نہیں دیتی نیز کھیل کا آغاز غفلت کا موجب ہے اور وہ غفلت جو دل پر غالب آتی ہے وہ نشہ کی جگہ ہوتی ہے۔ اگر شراب حرام کی گئی ہے، کیونکہ یہ نشہ دیتی ہے اور نشہ کی وجہ سے نماز روکتی ہے پس نرد اور شطرنج کا کھیل بھی حرام ہونا چاہیے، کیونکہ وہ بھی غافل کرتا ہے اور نماز سے روکتا ہے۔ مسئلہ نمبر 13۔ یہ روایت دلیل ہے کہ اسے ناسخ نہیں پہنچی وہ سابقہ اباحت سے استدلال کرنے والا تھا پس یہ دلیل ہے کہ باسخ کے وجود کے ساتھ حکم نہیں اٹھتاجیسا کہ بعض اصولیوں نے کہا ہے بلکہ ناسخ کے پہنچنے کا ساتھ حکم اٹھتا ہے جیساکا اس پر یہ حدیث دلالت کرتی ہے یہ صحیح ہے، کیونکہ نبی کریم نے اسے توبیخ نہیں فرمائی بلکہ اس کے لیے حکم بیان فرمایا، کیونکہ وہ پہلے عمل کے ساتھ مخاطب تھا اگر اسے ترک کرتا تو بلا اختلاف نافرمانی کرنے والا ہوتا، اگرچہ ناسخ وجود میں پایا بھی گیا تھا اس طرح اہل قبا کے لیے واقع ہوا تھا جب وہ بیت المقدس کی طرف منہ کرکے نماز پڑھ رہے تھے کہ ایک آنے والا اور انہیں ناسخ کے بارے میں بتایاتو وہ کعبہ کی طرف پھرگئے۔ یہ سورة بقرہ میں گزرچکا ہے والحمد للہ۔ اس میں الخمر (شراب) اور اس کے اشتقاق اور میسرکاذکر گزرچکا ہے انصاب اور ازلام کے بارے اس سورة کے آغاز میں گزرچکا ہے۔ مسئلہ نمبر 14۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (آیت) انمایرید الشیطان ان یوقع بینکم العداوۃ والبغضاء فی الخمر والمیسر۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے بندوں کو آگاہ فرمایا کہ شیطان ہمارے درمیان شراب کے ذریعے عداوت اور بغض پیدا کرنا چاہتا ہے، پس اسی نے ہمیں اس سے محتاط رہنے کا حکم دیا اور ہمیں اس سے منع فرمایا۔ روایت ہے کہ انصار دو قبیلوں نے شراب پی اور بعض نے بعض کے ساتھ مذاق کیا جب وہ ہوش میں آئے تو بعض نے اس کے آثار دیکھے جو دوسروں نے اس کے ساتھ کیا تھا وہ آپس میں بھائی بھائی تھے اور دلوں میں کسی قسم کا بغض نہ تھا تو بعض کہنے لگے : اگر میرا بھائی مجھ پر رحم کرنے والا ہوتا تو میرے ساتھ ایسا نہ کرتا پس اس طرح ان کے درمیان کینہ اور بغض پیدا ہوگیا پس اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی : (آیت) انمایرید الشیطان ان یوقع بینکم العداوۃ والبغضاء، الایۃ۔ مسئلہ نمبر 15۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (آیت) ویصدکم عن ذکر اللہ وعن الصلوۃ فرمایا : جب تم نشہ میں ہوجائوگے تو تم اللہ کا ذکر نہ کروگے اور نہ نماز پڑھو گے اگر تم نماز پڑھو گے تو تم پر خلط ملط کردے گا جس طرح اس نے حضرت علی کے ساتھ کیا، یہ بھی روایت ہے کہ حضرت عبد الرحمن کے ساتھ کیا ہے جیسا کہ سورة النساء میں گزرا ہے۔ حضرت عبید اللہ بن عمر نے فرمایا : قاسم بن محمد سے شطرنج کے بارے پوچھا گیا کہ کیا یہ جوا ہے اور نرد کے بارے پوچھا گیا کیا یہ جوا ہے ؟ انہوں نے کہا : ہر وہ کھیل جو اللہ تعالیٰ کے ذکر اور نماز سے روک دے وہ میسر ہے۔ ابو عبید نے کہا : انہوں نے اس آیت سے استدلال کیا ہے : (آیت) ویصدکم عن ذکر اللہ وعن الصلوۃ، الایۃ۔ مسئلہ نمبر 16۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (آیت) فھل انتم منتھون جب حضرت عمر ؓ نے جان لیا کہ یہ وعید، انتھوا کے معنی پر شدید ہے، تو حضرت عمر نے کہا : ہم شراب سے رک گئے۔ نبی کریم ﷺ نے منادی کو حکم دیا کہ گلیوں میں اعلان کردیں کہ خبردار شراب حرام کی گئی، پس مٹکے ٹوٹ گئے اور شراب بہادی گئی حتی کہ وہ مدینہ کی گلیوں میں بہہ رہی تھی۔ مسئلہ نمبر 17۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : (آیت) واطیعواللہ واطیعوالرسول واحذروا تحریم تاکید ہے اور وعید میں شدت ہے اور حکم کی پیروی ہے، منہی عنہ سے روکنا ہے۔ واطیعوا پر عطف اچھا ہے، کیونکہ پہلی کلام میں انتھوا کے معنی کی تاکید ہے اور تاکید کے لیے اطیعوا کو ذکر رسول میں مکرر کیا ہے اور مخالفت سے ڈرایا ہے اور آخرت کے عذاب کی دھمکی دی ہے۔ فرمایا : اگر تم نے مخالفت کی (آیت) انما علی رسولنا البلغ المبین یعنی ہمارے ذمہ تو اس تحریم کا پہنچانا ہے اور رسول پر اعمال خیر یا شر کا انجام بیان کرنا ہے۔ (1)
Top