Al-Qurtubi - At-Talaaq : 12
اَللّٰهُ الَّذِیْ خَلَقَ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ وَّ مِنَ الْاَرْضِ مِثْلَهُنَّ١ؕ یَتَنَزَّلُ الْاَمْرُ بَیْنَهُنَّ لِتَعْلَمُوْۤا اَنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ١ۙ۬ وَّ اَنَّ اللّٰهَ قَدْ اَحَاطَ بِكُلِّ شَیْءٍ عِلْمًا۠   ۧ
اَللّٰهُ الَّذِيْ : اللہ وہ ذات ہے خَلَقَ سَبْعَ : جس نے پیدا کیا سات سَمٰوٰتٍ : آسمانوں کو وَّمِنَ الْاَرْضِ : اور زمین میں سے مِثْلَهُنَّ : انہی کی مانند يَتَنَزَّلُ : اترتا ہے الْاَمْرُ : حکم بَيْنَهُنَّ : ان کے درمیان لِتَعْلَمُوْٓا : تاکہ تم جان لو اَنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ تعالیٰ عَلٰي كُلِّ : اوپر ہر شَيْءٍ : چیز کے قَدِيْرٌ : قادر ہے وَّاَنَّ اللّٰهَ : اور بیشک اللہ تعالیٰ نے قَدْ اَحَاطَ : تحقیق گھیر رکھا ہے بِكُلِّ : ہر شَيْءٍ : چیز کو عِلْمًا : علم کے اعتبار سے
خدا ہی تو ہے جس نے سات آسمان پیدا کئے اور ویسی ہی زمینیں۔ ان میں (خدا کے) حکم اترتے رہتے ہیں تاکہ تم لوگ جان لو کہ خدا ہر چیز پر قادر ہے۔ اور یہ کہ خدا اپنے علم سے ہر چیز کا احاطہ کئے ہوئے ہے
اللہ الذی خلق سبع سموت ومن الارض مثلھن اللہ تعالیٰ کی کمال قدرت پر دلالت ہے وہ دوبارہ اٹھانے اور محاسبہ کرنے پر قادر ہے۔ آسمانوں کے بارے میں کوئی اختلاف نہیں وہ سات ہیں ان میں سے بعض بعض کے اوپر ہیں۔ اس پر معراج کا واقعہ اور دوسری چیزیں دال ہیں۔ پھر فرمایا : ومن الارض مثلھن یعنی سات زمین (1) ۔ ان کے بارے میں اختلاف ہے اور دو قول ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے اور یہی جمہور کا قول ہے (2) کہ زمینیں سات ہیں ان میں سے بعض بعض کے اوپر ہیں۔ ہر دو زمینوں کے درمیان اتنی مسافت ہے جتنی مسافت دو آسمانوں کے درمیان ہے اور ہر زمین میں اللہ تعالیٰ کی مخلوق ہے۔ ضحاک نے کہا : ومن الارض مثلھن یعنی سات زمینیں۔ وہ ایک دوسرے کے اوپر ہیں ان میں کوئی مسافت نہیں لیکن آسمانوں کا معاملہ مختلف ہے۔ پہلا قول زیادہ صحیح ہے کیونکہ ترمذی اور نسائی میں ایسی روایات ہیں جو اس قول پر دلالت کرتی ہیں۔ سورة بقرہ میں یہ بحث مفصل گزر چکی ہے۔ ابو نعیم، محمد بن علی بن حبیش سے وہ اسماعیل بن اسحاق سراج التحویل (دوسری سند) ابو محمد بن حیان سے وہ عبد اللہ بن محمد بن ناجیہ وہ سوید بن سعید سے وہ حفص بن میسرہ سے وہ موسیٰ بن عقبہ سے وہ عطا بن ابی مروان سے وہ اپنے باپ سے روایت نقل کرتے ہیں (3) کہ کعب نے ان کے سامنے قسم اٹھائی، اس ذات کی قسم ! جس نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے لئے سمندر کو پھاڑا کہ حضرت صہیب نے اسے حدیث بیان کی کہ حضرت محمد ﷺ کوئی بستی نہ دیکھتے جس میں داخل ہونے کا ارادہ کرتے مگر جب دیکھتے تو یہ کہتے : اللھم رب السموات ما اظللن و رب الارضین السبع و ما اقللن و رب الشیاطین وما اضللن و رب الریاح وما اذرین انا نسالک خیر ھذہ القریۃ و خیر اھلھا ونعوذ بک من شرھا و شر اھلھا و شرما فیھا۔ اے اللہ ! اے آسمانوں اور جن کو یہ سایہ کئے ہوتے ہیں ان کے رب ! اے ہوائوں اور جن کو یہ بکھیرتی ہیں ان کے رب ! ہم تجھ سے اس بستی کی خیر اور ان کے اہل کی خیر کا سوال کرتے ہیں اور اس بستی کے شرء ان کے اہل کے شر اور اس میں موجود چیزوں کے شر کی پناہ چاہتے ہیں۔ ابو نعیم نے کہا : یہ حدیث ثابت ہے جو موسیٰ بن عقبہ سے مروی ہے اور عطا سے روایت کرنے میں منفرد ہے۔ ابن ابی زناد اور دوسرے علماء نے ان سے یہ روایت کی ہے۔ صحیح مسلم میں حضرت سعید بن زید سے مروی ہے (1) کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا، من اخذ شبرا من الارض ظلما فانہ یطوقہ یوم القیامۃ من سبع ارضین جس نے بالشت بھر زمین ظلماً لی قیامت کے روز سات زمینوں سے اس کے برابر اس کے گلے میں طوق کے طور پر ڈالا جائے گا۔ ماوردی نے کہا : اس تعبیر کی بنا پر کہ یہ سات زمینیں ہیں ان میں سے بعض بعض کے اوپر ہیں (2) ، اہل اسلام کی دعوت اوپر والی زمین کے مکینوں کے ساتھ خاص ہے۔ دوسری زمینوں پر جو ہیں ان کو دعوت دینا ان پر لازم نہیں اگرچہ ان زمینوں میں ایسی مخلوق بھی ہو جو عقل رکھتی ہو اور ممتاز مخلوق سے اس کا تعلق ہو۔ ان کا آسمان کا مشاہدہ کرنا اور ان سے روشنی حاصل کرنا، اس میں دو قول ہیں۔ (1) وہ اپنی زمین کی ہر جانب سے آسمان کا مشاہدہ کرتے ہیں اور آسمانوں سے روشنی حاصل کرتے ہیں، یہ اس کا قول ہے جس نے زمین کو مسبوط قرار دیا ہے۔ (2) دوسرا قول ہے : وہ آسمان کا مشاہدہ نہیں کرتے اور اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے روشنی کو پیدا کردیا ہے جس سے وہ فائدہ حاصل کرتے ہیں، یہ ان کا قول ہے جو زمین کو گول قرار دیتے ہیں۔ آیت میں تیسرا قول بھی ہے : کلبی نے جسے ابو صالح سے وہ اسے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کرتے ہیں کہ یہ سات زمینیں ہیں جو پھیلی ہوئی ہیں، وہ ایک دوسرے کے اوپر نہیں، ان کے درمیان سمندر حائل ہیں۔ آسمان ان سب پر سایہ فگن ہے۔ اس تعبیر کی بنا پر اگر ایک زمین کے لوگ دوسری زمین تک نہ پہنچ سکیں تو اسلام کی دعوت اسی زمین کے لوگوں کے لئے خاص ہوگی۔ اگر اس زمین کے لوگ دوسری زمین کے لوگوں تک پہنچ سکیں تو یہ احتمال ہے کہ جہاں تک پہنچنا ممکن ہے ان تک اسلام کی دعوت پہنچانا لازم ہے کیونکہ سمندروں کا حائل ہونا جب انہیں پاٹنا ممکن ہے تو دعوت کے لزوم سے کوئی چیز مانع نہیں جس کا حکم عام ہے۔ یہ احتمال بھی موجود ہے کہ انہیں اسلام کی دعوت لازم نہ ہو کیونکہ اگر یہ دعوت لازم ہوتی تو اس کے بارے میں کوئی نص بھی وارد ہوتی اور نبی کریم ﷺ کو اس کے بارے میں حکم ہوتا۔ اللہ تعالیٰ نے جن چیزوں کے علم کو اپنی ذات کے ساتھ خاص کیا ہے وہ اس کے بارے میں بہتر جانتا ہے اور مخلوق پر جو مشتبہ ہوچکا ہے اس میں جو درست ہے اسے بھی وہی بہتر جانتا ہے۔ پھر فرمایا : یتنزل الامر بینھن مجاہد نے کہا : امر سات آسمانوں سے سات زمینوں کی طرف نازل ہوتا ہے۔ حضرت حسن بصری نے کہا : دو آسمانوں کے درمیان زمین اور امر ہے (1) ۔ یہاں امر سے مراد وحی ہے، یہ مقاتل اور دوسرے علماء کا قول ہے۔ تو بینھن میں اس امر کی طرف اشارہ ہے کہ سب سے بالا زمین جو ادنیٰ ہے اور ساتویں آسمان جو سب سے بلند ہے، کے درمیان امر ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : یتنزل الامر بینھن بعض کی زندگی اور بعض کی موت، ایک قوم کی غنا اور ایک قوم کے فقر کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : مراد ہے وہ ان میں عجیب و غریب تدبیر فرماتا ہے، بارش نازل فرماتا ہے، نباتات کو نکالتا ہے، رات اور دن کو لاتا ہے، موسم گرما اور سرما کو لاتا ہے اور حیوانات کو مختلف انواع و ہئیتوں میں پیدا کرتا ہے، انہیں ایک حال سے دوسرے حال میں پھیرتا ہے۔ ابن کیسان نے کہا : یہ لغت کا میدان اور اس کی وسعت ہے جس طرح موت کو کہا جاتا ہے : امر اللہ، اسی طرح ہوا، بادل وغیرہ کو بھی لفظ امر سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ لتعلموا ان اللہ علی کل شیء قدیر جو اس ملک عظیم کو پیدا کرنے پر قادر ہے تو وہ چیزیں جو ان کے درمیان ہیں، ان پر بدرجہ اولیٰ قادر ہے (2) ۔ عفو و انتقام پر زیادہ قدرت رکھتا ہے۔ علما مفعول مطلق ہونے کی حیثیت سے منصوب ہے کیونکہ احاط علم کے معنی میں ہے۔ ایک قول یہ کیا گیا ہے : تقدیر کلام یہ ہے وان اللہ قداحاط احاطۃ علما۔
Top