Al-Qurtubi - Al-A'raaf : 148
وَ اتَّخَذَ قَوْمُ مُوْسٰى مِنْۢ بَعْدِهٖ مِنْ حُلِیِّهِمْ عِجْلًا جَسَدًا لَّهٗ خُوَارٌ١ؕ اَلَمْ یَرَوْا اَنَّهٗ لَا یُكَلِّمُهُمْ وَ لَا یَهْدِیْهِمْ سَبِیْلًا١ۘ اِتَّخَذُوْهُ وَ كَانُوْا ظٰلِمِیْنَ
وَاتَّخَذَ : اور بنایا قَوْمُ : قوم مُوْسٰي : موسیٰ مِنْۢ بَعْدِهٖ : اس کے بعد مِنْ : سے حُلِيِّهِمْ : اپنے زیور عِجْلًا : ایک بچھڑا جَسَدًا : ایک دھڑ لَّهٗ : اسی کی خُوَارٌ : گائے کی آواز اَلَمْ يَرَوْا : کیا نہ دیکھا انہوں نے اَنَّهٗ : کہ وہ لَا يُكَلِّمُهُمْ : نہیں کلام کرتا ان سے وَلَا يَهْدِيْهِمْ : اور نہیں دکھاتا انہیں سَبِيْلًا : راستہ اِتَّخَذُوْهُ : انہوں نے بنالیا وَ : اور كَانُوْا ظٰلِمِيْنَ : وہ ظالم تھے
اور قوم موسیٰ نے موسیٰ کے بعد اپنے زیور کا ایک بچھڑا بنا لیا (وہ) ایک جسم (تھا) جس میں سے بیل کی آوازیں نکلتی تھی۔ ان لوگوں نے یہ نہ دیکھا کہ وہ نہ ان سے بات کرسکتا ہے اور نہ انکو راستہ دکھا سکتا ہے ؟ اسکو انہوں نے (معبود) بنا لیا اور (اپنے حق میں) ظلم کیا۔
آیت نمبر : 148 قولہ تعالیٰ : آیت : واتخذ قوم موسیٰ من بعدہ یعنی حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی قوم نے آپ کے طور پر جانے کے بعد بنا لیا۔ آیت : من حلیھم ( اپنے زیورات سے ) ۔ یہ اہل مدینہ اور اہل بصرہ کی قراءت ہے۔ حضرت عاصم (رح) کے سوا اہل کوفہ نے اسے من حلیھم حا کے کسرہ کے ساتھ پڑھا ہے۔ اور یعقوب نے من حلیھم حا کے فتحہ اور تخفیف کے ساتھ قراءت کی ہے۔ نحاس نے کہا ہے : یہ حلی، حلی اور حلی کی جمع ہے، جیسے ثدی، ثدی اور ثدی ہیں۔ اس کی حلوی ہے، پھر واو کو یا میں مدغم کیا گیا اور لام یا کی مجاورت کے سبب مکسور ہوگئی اور لام کے کسرہ کی وجہ سے حا کو کسرہ دیا جاتا ہے۔ اور حا کا ضمہ اصل کی بنا پر ہے۔ عجلا یہ مفعول ہے ( بچھڑا) جسدا یہ نعت یا بدل ہے۔ لہ خوار یہ مبتدا ہونے کی وجہ سے مرفوع ہے۔ کہا جاتا ہے : خار یخور خوارا جب گائے آواز نکالے ( یعنی وہ محض ڈھانچہ تھا اور اس سے گائے کی آواز آتی تھی) اس طرح جار یجار جوارا بھی ہے۔ جب کوئی بزدل اور کمزور ہوجائے تو کہا جاتا ہے۔ خور یخور خورا۔ بچھڑے کے قصص میں مروی ہے کہ سامری جس کا نام موسیٰ بن ظفر تھا، اس کی نسبت سامرہ نامی گاؤں کی طرف کی جاتی ہے (المحرر الوجیز، جلد 2، صفحہ 455 ) ۔ وہ قتل الابناء کے سال پیدا ہوا ( یعنی اس سال جس میں فرعون نے بچوں کو قتل کروا دیا تھا) ۔ اس کی ماں نے اسے پہاڑ کی ایک غار میں چھپا دیا۔ تو حضرت جبرائیل امین (علیہ السلام) نے اسے غذا پہنچائی ( اور اس کی پرورش کی) پس اس وجہ سے اس نے آپ کو پہچان لیا۔ اور جب انہوں نے نر کی خواہشمند گھوڑی پر فرعون کو سمندر میں دھکیلنے کے لیے سمندر کو عبور کیا تو اس ( سامر) نے گھوڑی کے گھر کے نشان سے ایک مشت مٹی اٹھا لی۔ اور یہی معنی اس ارشاد کا ہے : آیت : فقبضت قبضۃ من اثر الرسول ( طہ : 96) اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی قوم سے تیس دن کا وعدہ کیا تھا اور پھر جب مزید دس دن کی آپ نے تاخیر کردی اور تیس راتیں گزر گئیں، تو آپ نے بنی اسرائیل کو کہا اور ان میں اس کی اطاعت و پیروی کی جاتی تھی۔ بلاشبہ تمہارے پاس آل فرعون کے زیورات میں سے زیورات ہیں۔ ان کی عید تھی جس میں زیب وزینت کرتے تھے اور قبطیوں سے زیورات عاریۃ لیتے تھے پس آج بھی اسی لیے انہوں نے عاریۃ لیے ہوئے تھے۔ پس جب اللہ تعالیٰ نے انہیں مصر سے نکالا اور قبطیوں کو غرق کردیا تو وہ زیورات انہیں کے قبضے میں رہ گئے، تو سامری نے انہیں کہا : بلاشبہ یہ تم پر حرام ہیں، پس جو کچھ تمہارے پاس ہے وہ لے آؤ ہم انہیں جلا دیں دے۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ زیورات وہ ہیں جو بنی اسرائیل نے قوم فرعون کے غرق ہونے کے بعد لیے تھے۔ اور حضرت ہارون (علیہ السلام) نے انہیں کیا : بیشک یہ زیورات مال غنیمت ہے اور یہ تمہارے لیے حلال نہیں ہے، پس آپ نے ایک گڑھا کھدوا کر انہیں اس میں جمع کردیا تو سامری نے انہیں اٹھا لیا۔ اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ انہوں نے اس رات زیورات ادھار لیے جس رات انہوں نے مصر سے نکلنے کا رادہ کیا اور انہوں نے قبطیوں کو یہ وہم دلایا کہ ان کی شادی یا کوئی اجتماع ہے۔ اور سامری نے ان کا یہ قول سنا ہوا تھا آیت : اجعل لنا الھا کما لھم الھۃ ( الاعراف : 138) اور وہ الہ گائے کی شکل پر تھے تو اس نے ان کے لیے ایک بچھڑا بنایا جو محض ڈھانچہ تھا، مگر وہ اس سے گائے کی آواز سنتے تھے۔ یہ کہا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے گوشت اور خون میں بدل دیا۔ اور یہ قول بھی ہے کہ جب اس نے وہ مٹی کی مشت آگ میں ان زیورات پر ڈالی تو وہ بچھڑا بن گیا جس سے گائے کی آواز آتی تھی۔ پس اس نے ایک بار گائے کی آواز نکالی اور دوسری بار نہیں پھر اس نے قوم کو کہا : آیت : ھذا الھکم والہ موسیٰ فنسی (طہ : 88) ( یہ ہے تمہارا خدا اور موسیٰ بھول گئے) وہ کہہ رہا ہے : وہ اسے بھول گیا اور اس کی تلاش میں چلے گئے اور اس سے بھٹک گئے، تو تم آو ہم اس بچھڑے کی عبادت کریں۔ تو اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو اس حال میں بتایا کہ وہ مناجات میں مشغول تھے : آیت : فانا قد فتنا قومک من بعدک واضلھم السامری ( طہ) ( کہ ہم نے تو آزمائش میں مبتلا کردیا ہے تمہاری قوم کو تمہارے ( چلے آنے کے) بعد اور گمراہ کردیا ہے انہیں سامری نے) تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے عرض کی : اے میرے پروردگار ! اس سامری نے ان کے زیور سے ان کے لیے بچھڑا بنایا ہے، پس اس کا جسم کس نے بنایا ہے ؟۔ آپ کی مراد گوشت اور خون ہے۔ اور اس کے لیے گائے کی آواز کس نے بنائی ہے ؟ تو اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے فرمایا : میں نے۔ تو آپ نے عرض کی : تیری عزت و جلال کی قسم تیرے سوا انہیں کسی نے گمراہ نہیں کیا۔ رب کریم نے فرمایا : صدقت یا حکیم الحکماء ( اے حکیم الحکماء تو نے سچ کہا ہے) اور یہی معنی اس ارشاد کا ہے آیت : ان ھی الا فتنتک (الاعراف : 155) ( نہیں ہے یہ مگر تیری آزمائش) اور قفال نے کہا ہے : سامری نے بچھڑے کا پیٹ خالی رکھنے کی کوشش کی تھی اور اس میں ہوا بھر دی تھی، یہاں تک کہ اس سے گائے کی آواز آنے لگی اور اس نے انہیں وہم دلایا کہ بلاشبہ وہ اس طرح ہوگیا ہے جب اس نے اس ڈھانچے میں وہ مٹی ڈالی جو اس نے حضرت جبرائیل (علیہ السلام) کے گھوڑوں کے قدموں سے اٹھائی تھی۔ اس کلام میں بہت کمزوری اور ضعف ہے۔ یہ قشیری نے کہا ہے۔ قولہ تعالیٰ : آیت : الم یروا انہ لا یکلمھم یہ بیان فرمایا ہے کہ معبود کے لیے واجب اور ضروری ہوتا ہے کہ وہ کلام کرسکے۔ آیت : ولا یھدیھم سبیلا اور نہ وہ ان کی دلیل کی طرف کسی راستے کی رہنمائی کرسکتا ہے۔ اتخذوہ انہوں نے اسے خدا بنا لیا ہے۔ آیت : وکانوا ظلمین یعنی وہ اس بچھڑے کو خدا بنانے میں اپنے نفسوں کے ساتھ ظلم کرنے والے تھے۔ اور یہ کبھی کہا گیا ہے : وہ ظلم کرنے والے وہ گئے یعنی بچھڑے کو خدا بنانے کے سبب مشر ہوگئے۔
Top