Ruh-ul-Quran - Al-Faatiha : 2
اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَۙ
الْحَمْدُ : تمام تعریفیں لِلّٰہِ : اللہ کے لیے رَبِّ : رب الْعَالَمِينَ : تمام جہان
تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جو تمام جہانوں کا رب ہے
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ” اَلحَمدُ “ حمد پر الف لام استغراق کا ہے یا جنس کا ‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ تمام تعریفیں اور ہر طرح کی تعریفیں، یعنی تعریف کے جتنے انداز ہوسکتے ہیں اور تعریف جتنے پہلوؤں سے ممکن ہے اور تعریف کی جتنی اقسام تصور کی جاسکتی ہیں اور تعریف کے لیے جتنے خوبصورت الفاظ اہل لغت نے وضع کیے ہیں اور تعریف کی جتنی کیفیتیں آج تک اہل دل نے محسوس کی ہیں۔ اہل لغت اہل درد اور اہل دل کا یہ سارا سرمایہ صرف اللہ کی بارگاہ کے لیے ہے۔ اس وسعت کے ساتھ کوئی اس میں شریک نہیں ہے۔ ” حمد “ کا معنی جس طرح تعریف کیا جاتا ہے۔ اسی طرح شکر بھی کیا جاتا ہے۔ لیکن شکر حمد کے مقابلے میں معنویت کے اعتبار سے محدود ہے۔ شکر کا لفظ کسی کی صرف انہی خوبیوں اور انہی کمالات کے اعتراف کے موقع پر بولا جاتا ہے، جن کا فیض آدمی کو خود پہنچ رہا ہو۔ لیکن حمد ہر قسم کی خوبیوں اور ہر قسم کے کمالات کے اعتراف کے لیے عام ہے، خواہ ان کا کوئی فیض خود حمد کرنے والے کی ذات کو پہنچ رہا ہو یا نہ پہنچ رہا ہو۔ مزید برآں حمد اپنی معنوی وسعتوں کے اعتبار سے ایسے کمال سے متصف ہے جس کا شکر کے لفظ میں تصور کرنا بھی مشکل ہے۔ اس لیے شکر اگرچہ حمد کا ایک جزو ہے، لیکن پروردگار کے ذاتی اور صفاتی کمالات کی وسعتوں کو دیکھتے ہوئے حمد کا استعمال ہی ایسے وسیع معنوں میں کیا جاسکتا ہے۔ صرف شکر کا استعمال حمد کو محدود کردینے کے ہم معنی ہوگا۔ ایک آدمی اگر فہم و شعور سے بالکل محروم نہ ہو تو یہ ممکن نہیں کہ وہ اپنی ذات، اپنے ماحول، اپنے گرد و پیش، اپنے اوپر طاری ہونے والی کیفیتوں اپنے استعمال میں آنے والی نعمتوں پر غور کرنے کی کبھی زحمت نہ کرے۔ ایک مزدور اور محنت کش، جب چلچلاتی دھوپ میں سخت محنت کے بعد درخت کے ٹھنڈے سائے کے نیچے بیٹھ کر ٹھنڈا پانی پیتا ہے تو بےاختیار اس کی زبان پر حمد کے الفاظ جاری ہوجاتے ہیں۔ ایک بیمار، جب بیماری سے نجات پاتا ہے اور اپنے قدموں چل کر گھر کے صحن میں چڑیوں کے چہچ ہوں کی آواز سنتا ہے تو بےاختیار اس کی زبان پر اللہ کی تعریف کا نغمہ پھوٹنے لگتا ہے۔ ایک آدمی مسلسل سنجیدہ کام کے باعث جب اپنے ماحول سے اچاٹ ہونے لگتا ہے تو وہ کچھ وقت پہاڑوں کے ٹھنڈے موسم سے محظوظ ہونے کے لیے پہاڑوں کا رخ کرتا ہے۔ جیسے ہی اسے پہاڑوں میں ابلتے ہوئے چشمے، گرتی ہوئی آبشاریں، برف کے پگھلتے ہوئے تودے، چاندی کے ابلتے ہوئے فوارے، سیماب اگلتے ہوئے جھرنے ‘ چیڑوں کے گڑے ہوئے جھنڈے اور پر بت پر چھائی ہوئی چھائونی اور بادلوں کے تنے ہوئے ڈیرے اور کہرے کی لگی ہوئی قناتیں دکھائی دیتی ہیں تو بےساختہ اس کی زبان پر اللہ کی حمد کے زمزمے جاری ہوجاتے ہیں۔ میدانی علاقوں میں بہتی ہوئی پانی کی جدولیں ‘ زمین پر سبزے کا مخملی فرش ‘ کھیتوں میں پھولی ہوئی سرسوں اور پھولوں سے لدے ہوئے تختے جب نگاہ کو دعوت نظارہ دیتے ہیں تو بےساختہ زبان پر اللہ کی صنعت وقدرت کی تعریف جاری ہوجاتی ہے۔ حاصل کلام یہ ہے کہ انسان جب بھی اپنے گردوپیش میں پھیلی ہوئی قدرت کی رعنائیاں دیکھتا ہے تو اگر اس کے سر میں معمولی سا دماغ بھی ہے تو وہ ان خوبصورتیوں کے خالق کی تعریف کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ یہی تعریف کا جذبہ ہے، جو اسے اللہ کی بارگاہ تک جانے پر مجبور کرتا ہے۔ کیونکہ یہ اس کے اندر سے اٹھنے والی فطرت کی پکار ہے، جو الفاظ کا قالب اختیار کرلیتی ہے۔ اس لیے اہل علم نے حمد کو انسان کا جذبہ بےاختیار قرار دیا ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ بعض لوگوں نے اس فطری جذبے کو ارتقاء کا نتیجہ قرار دے کر گہنانے کی کوشش کی ہے۔ وہ یہ کہتے ہیں کہ انسان کے اندر سب سے قدیم اور ابتدائی جذبہ خوف کا جذبہ ہے۔ اور یہ جذبہ ان ہولناک اور خوفناک حوادث کے مشاہدہ سے پیدا ہوا، جو اس دنیا میں طوفانوں ‘ زلزلوں اور وبائوں کی صورت میں آئے دن پیش آتے رہتے تھے۔ اس خوف کے جذبہ نے انسان کو ان اَن دیکھی طاقتوں کی پرستش پر مجبور کیا، جن کو اس نے ان حوادث کا پیدا کرنے والا خیال کیا اور اس طرح انسان نے خوف کے جذبے سے اپنی زندگی کا آغاز کیا۔ حالانکہ اگر تدبّر سے کام لیا جائے تو یہ بات سمجھنا بھی مشکل نہیں کہ ہر خوف سے پہلے کسی نعمت کا شعور لازمی چیز ہے۔ جس کے چھن جانے کے احساس کو خوف کہا جاتا ہے۔ اور جب نعمت کا شعور پایا گیا تو ایک منعم کا شعور بھی لازمی ٹھہرا اور پھر اس کی شکر گزاری کا جذبہ پیدا ہونا بھی ناگزیر ہوا۔ اور مزید یہ کہ منعم کے اس تصور کو مزید اجاگر اور گہرا کرنے کے لیے انسان کا وہ شب و روز کا مشاہدہ ہے، جس سے وہ صرف نظر نہیں کرسکتا۔ وہ دیکھتا ہے کہ اس دنیا کے عام واقعات، زلزلے، طوفان اور سیلاب ہی نہیں، بلکہ اس میں بہاریں بھی آتی، چاندنی بھی پھیلتی، بارشیں بھی ہوتی، تارے بھی چھٹکتے، پھول بھی کھلتے اور فصلیں بھی پکتی ہیں۔ ان میں سے ایک ایک چیز اور ایک ایک مشاہدہ نہ صرف انسان کو اللہ کے آستانے پر جھکانے کے لیے کافی ہے، بلکہ اس کے جذبہ حمد کو مہمیز کرنے کا کام بھی دیتا ہے۔ اہل دل تو عجیب بات کہتے ہیں کہ اللہ کی بےحد و بیشمار نعمتوں کو دیکھ کر اور خود اپنی ذات کو اس کی نعمتوں سے گرانبار پا کر تو شکر اور حمد کا جذبہ ابھرتا ہی ہے۔ لیکن خود یہ بات کہ آدمی اللہ کی تعریف کرنے لگے اور اس میں اسے ایک سکون اور اطمینان محسوس ہو، یہ نعمت تو ہر ایک کو میسر نہیں ہوتی۔ جس کسی کو یہ دولت نصیب ہوجائے، اسے اس دولت کے مل جانے پر بیش از بیش اللہ کا شکر ادا کرنا چاہیے۔ کتنے ایسے لوگ ہیں، جنھیں بیشمار نعمتیں میسر ہیں۔ لیکن وہ منعم حقیقی کو پہچاننے کے لیے تیار نہیں۔ اس کے برعکس وہ خوش نصیب بھی ہیں، جو نان شبینہ پر گزارا کرتے اور جھونپڑے میں رہتے ہیں، لیکن اس پر بھی ہمیشہ اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں۔ انھیں اگرچہ دنیا کی دولت نہیں ملی لیکن اس دولت کا مل جانا ان کے لیے دنیا و عقبیٰ کی کامیابی کی ضمانت ہے۔ تو جس کو اتنی بڑی دولت مل جائے، اس پر اتنا ہی بڑا شکر ادا کرنا لازمی ہوجاتا ہے۔ کیا خوب کہا کسی شاعر نے۔ میری طلب بھی انہی کے کرم کا صدقہ ہے قدم یہ اٹھتے نہیں ہیں اٹھائے جاتے ہیں ایسے جذبہ بےپناہ سے جو تعریف کی جائے گی، وہی حقیقت میں ثنائے جمیل کہلانے کی مستحق ہے۔ اور یہی وہ ثنائے جمیل ہے، جو حمد کا حقیقی معنی ہے۔ اور یہ بات کہنے کی ضرورت نہیں کہ جس ذات کی ثنائے جمیل کی جائے وہ خود جمیل نہیں ہوگی تو اور کیا ہوگی۔ جمیل ذات سے محبت کی جاتی ہے، ڈرا نہیں جاتا۔ جن مذاہب نے اللہ کا تعارف اس طرح کرایا کہ وہ ایک ایسی وحشت ناک اور ہیبت ناک ذات ہے، جس کے غضب سے ہمیشہ ڈرنا چاہیے۔ انھوں نے نہ اپنے ساتھ انصاف کیا اور نہ اللہ کے ساتھ۔ نہ اپنے آپ پر ہونے والے احسانات کو پہچانا، نہ اللہ کو محسن حقیقی سمجھا۔ انھوں نے اللہ کو ایک بادشاہ پر قیاس کیا۔ جو کبھی دعا سے ناراض ہوجاتا ہے اور کبھی دشنام پر خلعت بخشتا ہے۔ وہ یہ بات نہ سمجھ سکے کہ جہاں بھی اللہ سے ڈرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ اللہ کوئی ڈرائونی ذات ہے۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ اپنے اعمال کی نگہداشت کرو۔ ایسا کوئی عمل نہ کرنا، جو اللہ کے احکام کے خلاف انسانیت کا دشمن اور اس کی ناراضگی کو دعوت دینے والا ہو۔ تمہیں اپنے اعمال کی پاداش سے ڈرنا چاہیے۔ اللہ کی ناراضگی یا خوشنودی اس کا نتیجہ ہے، اس کی علّت نہیں۔ وہ ذات تو ایسی پیاری ذات ہے جس سے پیار کرنے والے سرفراز ہوتے ہیں۔ اور دنیا و عقبیٰ کی نعمتوں سے مالا مال ہوتے ہیں۔ اللّٰہ جَلَّ جَلاَ لُـہٗ ” اللہ “ پروردگار کے لیے اسم ذات ہے۔ کسی اور ہستی پر اس کا اطلاق ہو ہی نہیں سکتا۔ فارسی کے خدا یا انگریزی کے God کی طرح اسم نکرہ نہیں کہ معبود واحد کے علاوہ دوسروں کے لیے بھی بولا جاسکے۔ اس کی نہ جمع آتی ہے نہ یہ کسی لفظ سے مشتق ہے اور نہ اس کا ترجمہ کسی دوسری زبان میں ممکن ہے۔ جیسا کہ شعراء جاہلیت کے کلام سے ظاہر ہے کہ نزول قرآن سے پہلے بھی عربی میں اللہ کا لفظ خدا کے لیے اسم ذات کے طور پر ہی مستعمل تھا۔ بلکہ نوع انسانی کے دینی تصورات کی جو تاریخ ہم تک پہنچی ہے، اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ انسانوں کے تصور توحید میں جب بگاڑ پیدا ہوا اور شرک کی مختلف صورتیں پیدا ہوئیں تو ان میں اہم تر مظاہرِ فطرت کی پرستش تھی۔ اسی پرستش نے بتدریج اصنام پرستی کی صورت اختیار کی۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ تھا کہ مختلف زبانوں میں مختلف الفاظ دیوتائوں کے لیے پیدا ہوگئے اور جوں جوں پرستش کی نوعیت میں وسعت ہوتی گئی، الفاظ کا تنوع بھی بڑھتا گیا۔ لیکن یہ عجیب بات ہے کہ اصنام پرستی کی اس وسعت کے باوجود ایک ایسی ہستی کے تصوّر سے انسان کا ذہن کبھی خالی نہیں رہا، جو سب سے اعلیٰ اور سب کو پیدا کرنے والی ہستی ہے۔ اس لیے ہم دیکھتے ہیں کہ تمام قوموں میں کوئی نہ کوئی لفظ ایسا ضرور مستعمل رہا، جس کے ذریعے سے اس اَن دیکھی اور اعلیٰ ترین ہستی کو پکارا جاتا تھا۔ بلکہ یہ دلچسپ حقیقت ہے کہ سامی زبانوں میں حروف و اصوات کی ایک خاص ترکیب موجود رہی ہے، جو اس معبودِ اعلیٰ کی طرف اشارہ کرتی ہے اور تمام زبانوں میں اس کا مادہ مشترک رہا ہے۔ چناچہ کلدانی اور سریانی کا الاہیا، عبرانی کا الوہ اور عربی کا اِلہٰ اسی سے ہے اور بعض علما کے نزدیک یہی الٰہ ہے جو حرف تعریف کے اضافہ کے بعد اللہ ہوگیا ہے۔ اور تعریف نے اسے صرف خالق کائنات کے لیے مخصوص کردیا ہے۔ مگر بیشتر علما الف لام کو تعریف کے لیے نہیں مانتے، بلکہ اسے اس نام کا جزو قرار دیئے ہیں۔ اس لیے وہ لفظِ اللہ کو کسی سے مشتق نہیں مانتے اور نہ اس سے کسی کو مشتق مانتے ہیں۔ چناچہ یہی لفظ اللہ ہے جسے قرآں کریم نے بطور اسم ذات کے اختیار کیا اور تمام صفتوں کو اس کی طرف نسبت دی۔ ارشاد ہوا : ” وَلِلّہِ الْاَسْمَآئُ الحُسْنٰی فَادْعُوْہُ بِھَا “ اللہ کے لیے حسن و خوبی کے نام ہیں۔ (یعنی صفتیں ہیں) پس چاہیے کہ اسے ان صفتوں کے ساتھ پکارو۔ َِلفظ اللہ کے لفظی خواص حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو کوہ طور پر جن کلماتِ الہٰی کے ذریعے ذات حق سبحانہٗ کا عرفان بخشا گیا وہ یہ ہیں۔ (اِنَّنِیْ اَنَا اللّٰہُ لاَ اِلٰـہَ اِلاَّ اَنَا) اس میں بھی پروردگار نے لفظ اللہ کو بطور اسم ذات کے اختیار فرمایا۔ اس لفظ کی معنوی بحث تو آگے آئے گی۔ یہاں ہم اس کے خواص لفظی کے سلسلہ میں چند باتیں عرض کرتے ہیں : 1 یہ لفظ عجیب شان رکھتا ہے کہ جس کلمہ توحید کے ذریعے اللہ نے اپنا تعارف کرایا یعنی (لاَ اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ ) اور اسے مسلمانوں کا شعار بنایا۔ اس میں غور کریں تو آپ دیکھیں گے کہ اس کلمہ توحید میں کوئی بھی زائد حرف موجود نہیں۔ وہی حروف ہیں، جو اسم ذات کے اندر موجود ہیں۔ انہی کی ترکیب سے کلمہ توحید کو متشکل کیا گیا۔ 2 اللہ کا اگر حرف ” ھمزہ “ نہ لکھا جائے تو للہ پڑھا جائے گا۔ جس کے معنی ہیں ہر شے اللہ ہی کی ملک ہے۔ ” وَلِلّہِ خَزَآئِنُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ “ اور آسمان و زمین کے خزانے اللہ ہی کے لیے ہیں (المنافقون : 62۔ 7) 3 للہ سے ایک لام کم کردیا جائے تو ” لہ “ اور مزید ایک لام کم کرنے سے صرف ” ہ “ رہ جائے گا۔ جس کا تلفّظ ” ھو “ ہے۔ یہ حرف واحد بھی اسی ذات واحد اور اسی ذات احد پر دلالت کرتا ہے۔ جیسے ” قُل ھُوَ اللّٰہُ اَحَد “ 4 یہ اسی لفظ اللہ ہی کا خاصہ ہے کہ اس پر تائے قسم وارد ہوتی ہے۔ ورنہ حرف ” تا “ بمعنی قسم اور کسی اسم پر وارد نہیں ہوتا۔ 5 اس اسم پاک کا ایک خاصہ یہ ہے کہ الحمد کا استعمال اسی اسم ذات کے لیے خاص ہے اور کسی اسم کے ساتھ الحمد کو استعمال نہیں کیا جاتا۔ اَلْحَمْدُلِلّٰہِ کہیں گے۔ الحمد للرحمٰن یا الحمد للرحیم وغیرہ نہیں بولا جاتا۔ وجہ یہ ہے کہ جس طرح یہ اسم پاک مسمٰی کی ذات وصفات سب پر حاوی ہے، اسی طرح لفظ ” حمد “ بھی تمام صفات کمال و جمال کا جامع ہے۔ لہٰذا کامل تر اسم کے لیے کامل تر نعت کی ضرورت تھی۔ 6 یہ بھی اسم اللہ ہی کا خاصہ ہے کہ اس کے آخر میں حرف ” م “ شامل کیا جاتا ہے اور وہ حرف ندا کا کام دیتا ہے اور اس کے ساتھ حرف ندا شامل نہیں ہوتا۔ یعنی یا اللّھم نہیں کہتے بلکہ اللّھم کا معنی ہے اے اللہ۔ قرآن کریم نے کئی جگہ اسے استعمال کیا ہے۔ مثلاً قُلِ اللّٰھُمَّ مٰلِکَ الْمُلْکِ تُؤْتِی الْمُلْکَ مَنْ تَشَآئُ وَ تَنْزِعُ الْمُلْکَ مِمَّنْ تَشَآئُ ز وَتُعِزُّمَنْ تَشَآئُ وَتُذِلُّ مَنْ تَشَآئُ ط بِیَدِکَ الْخَیْر ط اِنَّکَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِْ یرٌ (آل عمران 3 : 25۔ 26) اسم ” اللہ “ کی معنوی بحث یہ تو تھے اس اسم پاک کے خواص لفظی اب دیکھئے اس کی معنوی بحث۔ پیچھے گزر گیا کہ بعض علماء کے نزدیک لفظ ” اللہ “ وہ عربی کا اِلٰہ ہے، جو حرف تعریف کے اضافہ کے بعد اللہ ہوگیا۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر اللہ اِلٰہ سے ہے تو اِلٰہ کے معنی کیا ہیں ؟ علماء لغت و اشتقاق نے مختلف اقوال بیان کیے ہیں جنھیں ہم تفسیر کبیر کے حوالہ سے یہاں نقل کرتے ہیں۔ 1 الھتُ اِلٰی فلاں۔ سے مشتق ہے۔ جس کے معنی ہیں سَکَنْتُ اِلٰی فلاں۔ یعنی اللہ وہ ہے، جس کے نام سے دلوں کو تسکین ملتی ہے اور قلب مضطر کو سکون۔ جیسے قرآن کریم کہتا ہے ” اَلاَ بِذِکْرِالّٰلہِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُ “ (الرعد : 13۔ 28) 2 اَلِہَ اِذَا تَحَیَّرَ ۔ سے مشتق ہے۔ جس کے معنی وارفتگی ‘ تحیّر اور درماندگی کے ہیں۔ 3 الہ لا ہ۔ سے مشتق ہے۔ جس کے معنی بلند شان کے ہیں۔ یعنی اللہ وہ ہے جو لوازمات مادہ سے زمان و مکان کے احاطہ سے اور عقلمندوں کے فہم و ادراک سے ارفع اور بلند ہے۔ 4 لاہ یلوہ لیاھا۔ سے مشتق ہے۔ جس کے معنی پوشیدہ اور مستور ہونا ہے۔ یعنی اللہ وہ ہے، جس کی ذات عقول سے محجوب ہے۔ 5 أَلِہَ الفصِیل سے بنا ہے۔ یعنی اونٹنی کا بچہ جب بچھڑنے کے بعد ماں کو ملتا ہے تو وہ ماں سے چمٹ جاتا ہے۔ اسی طرح اللہ وہ ہے کہ آفات و مصائب میں انسان اسی کی جانب لپکتا ہے اور وہیں اسے تسکین ملتی ہے۔ 6 اَلِہَ الہ (سمع) سے بنا ہے۔ محاورہ ہے۔ ” الہ علی فلاں “ اس سے ڈرتارہا۔ اَلٰہ اِلَۃ اس کی پناہ ڈھونڈی۔ یعنی اللہ وہ ہے جو خوف و ہراس کے وقت بندوں کی پناہ ہے۔ تمام عالم اور تمام مخلوقات اس کی حفاظت میں ہر ایک خطرہ سے محفوظ ہیں۔ 7 اَلَہَ یَألَہُ ۔ عَبَدَ 8 الہ اصلہ ولاہٌ فاُبدِل من الواد ھمزہ وتسمیتہ بذلک لکون کل مخلوق والھًا نحوہ ان تمام لفظوں کے معانی پر اگر تدبّر سے کام لیا جائے تو چند باتیں صاف معلوم ہوتی ہیں۔ کہ وہ ذات عظیم جسے الہ سے تعبیر کیا جاتا ہے وہ مندرجہ بالا خصوصیات کی حامل ہے۔ یعنی وہ ہر بےکس و بےبس کی حاجت روا ہے۔ جس کا کوئی ٹھکانہ نہ ہو اس کی پناہ دہندہ ہے۔ وہ تمام ضرورت مندوں اور حاجت مندوں کے لیے قاضی الحاجات ہے۔ وہ تمام قوتوں سے بالا تر قوت اور تمام عظمتوں اور بڑائیوں سے سب سے بڑھ کر عظیم اور کبریائی کی مالک ہے۔ ہر پریشان حال اور اجڑے دل کو سکون بخشنے والی ہے۔ ہر مخلوق تکوینی اور جبلّی طور پر اس کی مشتاق ہے۔ پوری کائنات کا ایک ایک ذرہ اسکی قدرت کے سامنے بےبس اور لاچار ہے۔ ان تمام صفات کا خلاصہ اور حاصل اگر کوئی چیز ہوسکتی ہے تو وہ صرف یہ ہے کہ الہ وہ ذات ہے جو کائنات میں اقتدار اعلیٰ کی مالک اور ہمہ مقتدر ہے۔ اسکے اقتدار میں کسی کو شریک نہیں کیا جاسکتا۔ نظام کائنات پر اسکی فرمانروائی ایک ایسی اٹل حقیقت ہے جس سے کسی طرح انکار نہیں۔ اقتدار کا یہ وہ تصور ہے جس کی بنیاد پر قرآن اپنا سارا زور غیر اللہ کی الٰہیت کے انکار اور صرف اللہ کی الٰہیت کے اثبات پر صرف کرتا ہے۔ اس کا استدلال یہ ہے کہ زمین اور آسمان میں ایک ہی ہستی تمام اختیارات و اقتدارات کی مالک ہے۔ خلق اسی کی ہے ‘ نعمت اسی کی ہے ‘ امر اسی کا ہے ‘ قوت اور زور بالکل اسی کے ہاتھ میں ہے۔ ہر چیز چار و ناچار اسی کی اطاعت کر رہی ہے ‘ اس کے سوا نہ کسی کے پاس کوئی اقتدار ہے ‘ نہ کسی کا حکم چلتا ہے ‘ نہ کوئی خلق اور تدبیر اور انتظام کے رازوں سے واقف ہے اور نہ کوئی اختیارات حکومت میں ذرّہ برابر شریک وسہیم ہے۔ لہٰذا اس کے سوا حقیقت میں کوئی الٰہ نہیں ہے ‘ اور جب حقیقت میں کوئی دوسرا الٰہ نہیں ہے تو تمہارا ہر وہ فعل جو تم دوسروں کو الٰہ سمجھتے ہوئے کرتے ہو ‘ اصلاً غلط ہے ‘ خواہ وہ دعا مانگنے یا پناہ ڈھونڈنے کا فعل ہو ‘ یا سفارشی بنانے کا فعل ہو ‘ یا حکم ماننے اور اطاعت کرنے کا فعل ہو۔ یہ تمام تعلقات جو تم نے دوسروں سے قائم کر رکھے ہیں صرف اللہ کے لیے مخصوص ہونے چاہئیں ‘ کیونکہ وہی اکیلا صاحب اقتدار ہے۔ اس باب میں قرآن جس طریقہ سے استدلال کرتا ہے وہ اسی کی زبان سے سُنئے : وَھُوَالَّذِیْ فِی السَّمَآئِ اِلٰـہٌ وَّفِی الْاَرْضِ اِلٰـہٌ ط وَھُوَ الْحَکِیْمُ الْعَلِیْمُ ۔ (وہی ہے جو آسمان میں بھی اِلٰہ ہے اور زمین میں بھی الٰہ ہے ‘ اور وہی حکیم اور علیم ہے) ۔ ” یعنی آسمان و زمین میں حکومت کرنے کے لیے جس علم اور حکمت کی ضرورت ہے وہ اسی کے پاس ہے۔ “ (الزخرف۔ 83) اَفَمَنْ یَّخْلُقُ کَمَنْ لَّا یَخْلُقُ ط اَفلَاَ تَذَکَّرُوْنَ … وَالَّذِیْنَ یَدْعُونَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ لاَ یَخْلُقُوْنَ شَیْئًا وَّھُمْ یُخْلَقُوْنَ ط… اِلٰـھُکُمْ اِلٰـہٌ وَّاحِدٌ۔ (النحل۔ 17۔ 22) ” تو کیا وہ جو پیدا کرتا ہے اور جو پیدا نہیں کرتا دونوں یکساں ہوسکتے ہیں ؟ کیا تمہاری سمجھ میں اتنی بات نہیں آتی ؟… خدا کو چھوڑ کر یہ جن دوسروں کو پکارتے ہیں وہ تو کسی چیز کو بھی پیدا نہیں کرتے ‘ بلکہ خود پیدا کیے جاتے ہیں۔ تمہارا اِلٰہ تو ایک ہی اِلٰہ ہے۔ وَھُوَاللّٰہُ لَآ اِلٰـہَ اِلَّاھُوَط لَہُ الْحَمْدُ فِی الْاُوْلٰی وَالْاٰخِرَۃِ ز وَلَہُ الْحُکْمُ وَاِلَیْہِ تُرْجَعُوْنَ ۔ قُلْ اَرَئَ یْتُمْ اِنْ جَعَلَ اللّٰہُ عَلَیْکُمُ اللَّیْلَ سَرْمَدًا اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ مَنْ اِلٰـہٌ غَیْرُاللّٰہِ یَأتِیْکُمْ بٍِضِیَآئٍ ط اَفَلاَ تَسْمَعُوْنَ ۔ قُلْ اَرَئَ یْتُمْ اِنْ جَعَلَ اللّٰہُ عَلَیْکُمُ النَّھَارَ سَرْمَدًا اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ مَنْ اِلٰـہٌ غَیْرُاللّٰہِ یَاتِیْکُمْ بِلَیْلٍ تَسْکُنُوْنَ فِیْہِ ط اَفَلاَ تُبْصِرُوْنَ ۔ (قصص۔ 70۔ 72) (اور وہی اللہ ہے جس کے سوا کوئی دوسرا اِلٰہ نہیں ہے۔ اسی کے لیے تعریف ہے دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ اور وہی اکیلا صاحب حکم و اقتدار ہے اور اسی کی طرف تم پلٹائے جانے والے ہو۔ کہو تم نے کبھی غور کیا کہ اگر اللہ تم پر ہمیشہ کے لیے روز قیامت تک رات طاری کر دے تو اس کے سوا کون سا دوسرا اِلٰہ ہے جو تمہیں روشنی لادے گا ؟ کیا تم سنتے نہیں ہو ؟ کہو تم نے کبھی اس پر غور کیا کہ اگر تمہارے اوپر ہمیشہ کے لیے دن طاری کر دے تو اس کے سوا اور کونسا الٰہ ہے جو تمہیں رات لادے گا کہ اس میں تم سکون حاصل کرو ؟ کیا تمہیں نظر نہیں آتا ؟ ) دوسری بات جو معلوم ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ اللہ ہی کی ذات ہے، جہاں پریشانی اور مصیبت میں قرار اور پناہ ملتی ہے۔ وہی آغوش ہے جہاں انسان سکون پاتا ہے۔ دل اس کی طرف لپکتے ہیں۔ محبتیں اسی کے لیے بےتاب ہوتی ہیں اور تیسری یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اگر اس ذات کی حقیقت کو جاننے کے لیے فہم و ادراک سے کام لیا جائے اور انسان کے پاس جتنے علوم دستیاب ہیں، ان سب کو اس راستے میں استعمال کر کے دیکھ لیا جائے، اور ظن وتخمین کے تمام ہتھیار بھی استعمال کرلیے جائیں تو حقیقت یہ ہے کہ بجز اس کے کہ انسان تحیّر اور درماندگی کا شکار ہوجائے اور اس کے ہاتھ کچھ نہیں آتا۔ وہ جس قدر بھی اس ذات مطلق کی ہستی میں غور و خوض کرے گا، اس کی عقل کی حیرانی اور درماندگی بڑھتی ہی جائے گی۔ اس لیے کہ ایک مخلوق اپنی فہم و ادراک کی وسعتوں کے باوجود، مخلوق ہی ہے۔ وہ اپنے دستیاب وسائل میں ایک خالق کی وسعتوں کو نہیں سمیٹ سکتا۔ انسانی ذہن مخلوقات میں قدرت کا شاہکار ہے لیکن وہ بہرحال مخلوق اور محدود ہے۔ محدود میں غیر محدود کبھی نہیں سما سکتا۔ اکبرؔ مرحوم نے خوب کہا : جو ذہن میں گھر گیا لا انتہا کیونکر ہوا جو سمجھ میں آگیا پھر وہ خدا کیونکر ہوا البتہ انسان کو اگر اپنی ذات میں فہم و ادراک کی نارسائی اور اپنی عجز و درماندگی کا اعتراف نصیب ہوجائے تو یہ وہ دولت ہے جو عبدیت کی معراج ہے۔ اس وجہ سے جو لوگ عرفان و بصیرت کی راہ کے سالک ہیں ان کے ادراک کا منتہا ہمیشہ یہی رہا ” رَبِّ زِدْنِیْ فِیْکَ تَحَیُّرًا “ کہ اے اللہ ہمیں اپنے بارے میں ایسا کر کہ تیرے بارے میں ہمارا تحیّر ہمیشہ بڑھتا رہے۔ اس لیے اگر اس لفظ کا کوئی مفہوم ہوسکتا ہے تو وہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ اللہ جل جلالہٗ وہ ذات ہے، جس کو جاننے اور سمجھنے کے لیے تمام فہم و ادراک کی قوتیں عاجز و درماندہ ہیں۔ البتہ انسان کے پریشان دل کو اس وقت تک قرار نصیب نہیں ہوگا اور اس کے الجھے ہوئے مسائل کی گرہ اس وقت تک نہ کھلے گی جب تک اللہ کے ذکر سے زبانیں زمزمہ سنج نہیں ہوں گی اور اس کی دی ہوئی تعلیمات سے انسان کی فکر روشن نہیں ہوگی۔ معرفتِ رب کا اصل ذریعہ بلا شبہ اللہ کی ذات انسان کے حواس اور عقل کی گرفت میں نہیں آسکتی۔ اس کا کما حقہٗ جاننا اور سمجھنا انسانی طاقت سے ماورا ہے۔ لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ ایک انسان اس کی محبت میں ڈوب کر جب اس کی بارگاہ تک پہنچ جاتا ہے تو اس کا جذبہ ٔ خاموش بار بار اسے انگیخت کرتا ہے کہ جس اللہ کو تم خالق، مالک معبود اور اپنا حاکم حقیقی سمجھتے ہو اسے جاننے کی بھی تو کوئی راہ نکالو۔ اللہ کا کرم ہے کہ اس نے ہمیں اس سے محروم نہیں رکھا۔ قرآن و سنت نے ہم پر یہ بات واضح کی کہ تم جس عقل کے ذریعے اللہ کی ذات کو جاننا چاہتے ہو وہ عقل اللہ کی بیش بہا نعمت ہے۔ اسی کی وجہ سے انسان کو بہت سی مخلوقات پر فضیلت حاصل ہے۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ عقل کا کام محسوسات اور معقولات تک محدود ہے اور پھر محسوسات اور معقولات میں بھی بہت سی باتیں ایسی ہیں جس کی توجیہ کرنے میں آج تک عقل کامیاب نہیں ہوسکی۔ اللہ کی ذات کو جاننا یہ درحقیقت اس کی حدود سے ماورا چیز ہے۔ اس کا میدان چونکہ معقولات تک محدود ہے، جب ہم اسے ایسے میدان میں کھینچ لاتے ہیں جو اصلاً اس کا میدان نہیں تو اس میں عقل کا کام نہ دینا عقل کی کوتاہی یا اس کا نقص نہیں بلکہ یہ قصور عقل کو اس میدان میں استعمال کرنے والے کا ہے۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے جیسے کوئی آدمی کسی صراف کے پاس جا کر یہ کہے کہ تمہارے ترازو کا تول اگر صحیح ہے تو مجھے اس میں یہ پہاڑ تول کر دکھائو یا یہ دیوار تول کر دکھائو اور جب وہ ایسا نہ کرسکے اور یقینا ایسا نہیں کرسکے گا تو پھر یہ شور مچانا شروع کر دے کہ تم کیسے یہ دعویٰ کرتے ہو کہ تمہارا یہ ترازو بالکل صحیح ہے۔ وہ صراف جواب میں یقینا یہ کہے گا کہ بھائی ترازو بالکل صحیح ہے لیکن تم اس میں وہ چیز تلوانا چاہتے ہو جو اس کی حدود سے ماورا ہے۔ تو اس میں غلطی تمہاری ہے میرے ترازو کی نہیں۔ یہی غلطی ہم اس وقت کرتے ہیں جب ہم عقل کے دائرے میں پروردگار عالم اور اس کی صفات کی معرفت کو لانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اب ظاہر ہے کہ ہماری عقل کا دائرہ ذات خداوندی اور اس کی صفات سے یکسر مختلف اور اس کی وسعت او بساط اللہ تعالیٰ کی لا محدود ذات کے سامنے انتہائی محدود اور کو تاہ، نتیجہ معلوم کہ عقل ہزار کوشش کے باوجود بھی اللہ تعالیٰ کی حقیقی معرفت سے عاجز رہتی ہے۔ بلکہ اگر غور کیا جائے تو یہی عقل کا غلط استعمال ہے، جس نے ہمیشہ توحید اِلٰہ میں شرک کے لیے آسانیاں پیدا کی ہیں۔ کیونکہ انسان نے جب پروردگار کو عقل کے ترازو میں تولنے کی کوشش کی اور چونکہ اس عقل کا دائرہ محسوسات میں سمٹا ہوا ہے تو اس نے ہمیشہ یہ سمجھا کہ پروردگار کا بھی کوئی پیکر محسوس ہوگا یا ہونا چاہیے، جسے دیکھ سکیں ‘ محسوس کرسکیں ‘ سمجھ سکیں۔ یہیں سے شرک کی تمام آلودگیوں کے لیے راستہ کھلا۔ نتیجتاً نوع انسانی کبھی اصنام پرستی کا شکار ہوئی ‘ کبھی اوہام پرستی کا۔ کبھی اس نے مظاہر فطرت کی پوجا کی اور کبھی طاقت وقدرت کی۔ قرآن کریم نے ان گمراہیوں کی اصلاح فرماتے ہوئے قوموں کے سامنے یہ نکتہ فاش کیا کہ پروردگار کی معرفت تو ایک مشکل بات سہی مگر جن لوگوں کو تم علم و معرفت کے حوالے سے ‘ اخلاقی بلندی کے حوالے سے ‘ انکشاف اور اکتشاف کے حوالے سے عظمت کا مینار سمجھتے ہو غور کرو ان کو دیکھنے کا طریقہ کیا ہے ؟ کیا کسی بڑے آدمی کو دیکھنے سے اس کی حقیقی عظمت نظر آجاتی ہے ؟ کیا کسی موجد کو دیکھنے سے اس کی قوت ایجاد دکھائی دے دیتی ہے ؟ کیا کسی معمار کو دیکھنے سے اس کا وہ جوہر جو پتھر کو آئینے کی شکل دیتا ہے نظر آجاتا ہے ؟ کیا اگر تمہارے سامنے بقراط یا سقراط یا افلاطون کو لا کر کھڑا کردیا جائے یا ارسطو مجسم صورت میں تمہارے سامنے آجائے یا لقمان کو تم اپنی آنکھوں سے دیکھ لو تو کیا وہ جو اہرجن کی وجہ سے دنیا میں ان کا نام ہے تمہاری آنکھوں کے راستے سے تمہارے دل کا حصہ بن جائیں گے ؟ ظاہر ہے یہ سارے انسانوں جیسے انسان ہی تھے۔ ان کو اگر دیکھو گے تو صرف ایک انسان کے سراپا کو دیکھو گے۔ ان کی حقیقی شخصیت اور حقیقی معرفت کو کبھی نہ پا سکو گے۔ ان کو جاننے کا صحیح راستہ ان کو دیکھنا نہیں بلکہ ان کی صفات کو جاننا ہے۔ معمار اپنی تعمیر میں، شاعر اپنے شعر میں ‘ ناظم اپنے نظم میں ‘ ادیب اپنے ادب میں ‘ خطیب اپنے خطاب میں ‘ فلسفی اپنے فلسفے میں اور مفکر اپنی فکر میں نظر آتا ہے۔ یہ معرفت کا وہ صحیح طریقہ ہے جو حقیقی معرفت کا سراغ دیتا ہے۔ بالکل اسی طریقے سے تم اپنے خالق ومالک کو جان سکتے ہو ‘ وہ خالق ہے تو اس کو صفت خلق میں دیکھو ‘ وہ مالک ہے تو اس کی ملک میں اسے جانو ‘ وہ رازق ہے تو اس کو رزق رسانی میں تلاش کرو ‘ وہ رحیم ہے تو رحم و کرم کے آئینے میں اسے ڈھونڈو ‘ اس طرح ہوا کا ایک ایک جھونکا ‘ پانی کی ایک ایک بوند ‘ روشنی کی ایک ایک کرن ‘ درخت کا ایک ایک پتہ ‘ پھول کی ایک ایک پنکھڑی حتیٰ کہ خود انسان کی اپنی ذات اس کی خبر دیتی ہوئی معلوم ہوگی۔ وہ بےساختہ پکار اٹھے گا کہ : ہر کہ بینم در جہاں غیرے تو نیست یا توئی یا خوئے تو یا بوئے تو اس سورة مبارکہ میں بھی اللہ تعالیٰ نے اسی طریقے سے اپنے کمزور بندوں کے لیے اپنی معرفت کا راستہ کھولا ہے۔ پہلے اپنے اسم ذات کو ذکر فرمایا اس کے بعد اس کی معرفت کے لیے تین صفات بیان فرمائیں۔ جن میں پہلی صفت ” ربوبیت “ ہے۔ لیکن اسے ایک اسم کے طور پر بیان فرمایا جا رہا ہے۔ اس لیے فرمایا اَلْحَمْدُلِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ۔ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ پروردگار کے اسمائے مبارکہ میں سے ایک اسم مبارک ” رب “ بھی ہے۔ رب الٰہ کی طرح سامی زبانوں کا ایک کثیر الاستعمال مادہ ہے۔ عبرانی ‘ سریانی اور عربی تینوں زبانوں میں اس کے معنی پالنے کے ہیں اور چونکہ پرورش کی ضرورت کا احساس انسانی زندگی کے بنیادی احساسات میں سے ہے اس لیے اسے بھی قدیم ترین سامی تعبیر میں سے سمجھنا چاہیے۔ پھر چونکہ معلّم ‘ استاد اور آقا کسی نہ کسی اعتبار سے پرورش کرنے والے ہی ہوتے ہیں اس لیے اس کا اطلاق ان معنوں میں بھی ہونے لگا۔ چناچہ عبرانی اور آرامی کا (ربی) اور (رباہ) پرورش کنندہ معلّم اور آقا تینوں معنی رکھتا تھا اور قدیم مصری اور خالدی زبان کا ایک لفظ (رابو) بھی انھیں معنوں میں مستعمل ہوا ہے اور ان ملکوں کی قدیم ترین سامی وحدت کی خبر دیتا ہے۔ ربّ دراصل مصدر ہے جو فاعل کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ جس کی وجہ سے اس کے معنی میں انتہا درجے کا مبالغہ پیدا ہوگیا ہے۔ چناچہ جب ہم اس کی معنوی وسعت پر غور کرتے ہیں تو عقل حیران رہ جاتی ہے۔ اس کی وسعت کمیت کے اعتبار سے بھی ہے اور کیفیت کے اعتبار سے بھی۔ جہاں تک کمیت کا تعلق ہے تو وہ ذات جو رب ہے، وہ حقیقت میں رب العالمین ہے اور عالمین کا شمار کسی انسانی عقل کے بس میں نہیں۔ اس کی مخلوقات میں سے جو مخلوقات ہمارے سامنے ہیں اور جن میں سے ہر مخلوق کو ربوبیت کا فیضان پہنچ رہا ہے۔ ان میں سے صرف خشکی کی مخلوقات کو شمار کیا جائے تو یہ بھی ممکن نہیں۔ چہ جائیکہ سمندر کی مخلوقات ‘ آسمانوں کی مخلوقات ‘ پہاڑوں کی مخلوقات اور ان جہانوں کی مخلوقات جن کے ناموں سے تو ہم کسی حد تک واقف ہیں۔ لیکن ان کی حقیقت سے واقف نہیں۔ ان کا شمار کون کرسکتا ہے اور پھر اگر ایک ایک چیز کو غور سے دیکھا جائے مثلاً ایک درخت کے اندر جڑ ‘ تنا ‘ چھلکا ‘ گودا ‘ پھول ‘ پھل ‘ شاخ ‘ پتوں کے اندر رنگ و روغن پھر تاثیر اور مزا اور پھر ان کی شکل و صورت۔ ان تمام کے اندر ایک جہانِ معنی موجود ہے جو ربوبیت کے فیضان کا اظہار کر رہا ہے۔ مگر اس کی حقیقت تک پہنچنا آسان نہیں۔ اسی طرح خود انسان کو اپنے جسم ‘ جسم کے مختلف اعضاء، اعضاء کے اندر مختلف اعصاب اور پھر ہر ایک کی الگ الگ غذا۔ ان پر ہی غور کیا جائے تو حیرت واستعجاب کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ اسی طرح جہاں تک اس ربوبیت کی کیفیت کا تعلق ہے وہ صرف ایسا نہیں کہ محض پرورش کا جاری وساری عمل ہے، بلکہ حقیقت یہ ہے کہ بعض آئمہِ لغت نے اس کی تعریف میں یہ جو بات کہی ہے وہ حرف بحرف صحیح ہے کہ ربوبیت کی تعریف یہ ہے ” ھوانشاء الشیٔ حالاً فحالاً الی حد التمام “ یعنی کسی چیز کو یکے بعد دیگرے اس کی مختلف حالتوں اور ضرورتوں کے مطابق اس طرح نشو و نما دیتے رہنا کہ وہ اپنی حد کمال تک پہنچ جائے۔ اگر ایک شخص بھوکے کو کھانا کھلا دے یا کسی محتاج کو روپیہ دے دے تو یہ اس کا کرم ہے، جود ہے، احسان ہے، لیکن وہ بات نہیں جسے ربوبیت کہتے ہیں، ربوبیت کے لیے ضروری ہے کہ پرورش اور نگہداشت کا ایک جاری اور مسلسل اہتمام ہو اور ایک وجود کو اس کی تکمیل و بلوغ کے لیے وقتاً فوقتاً جیسی کچھ ضرورتیں پیش آتی رہیں، ان سب کا سروسامان ہوتا رہے۔ نیز ضروری ہے کہ یہ سب کچھ محبّت و شفقت کے ساتھ ہو۔ کیونکہ جو عمل محبت و شفقت کے جذبہ سے خالی ہوگا ربوبیت نہیں ہوسکتا۔ ربوبیت کی ایک ادنیٰ مثال ہم اس پرورش میں دیکھ سکتے ہیں جس کا جوش ماں کی فطرت میں ودیعت کیا گیا ہے۔ مثلاً جب بچے کا معدہ دودھ کے سوا کسی غذا کا متحمل نہیں ہوتا تو اسے دودھ ہی پلایا جاتا ہے۔ اور جب دودھ سے زیادہ قومی غذا کی ضرورت ہوئی تو ویسی ہی غذا دی جانے لگی۔ جب اس کے پائوں میں کھڑے ہونے کی سکت نہ تھی تو ماں اسے گود میں اٹھائے پھرتی تھی۔ جب کھڑا ہونے کے قابل ہوا تو انگلی پکڑ لی اور ایک ایک قدم چلانے لگی۔ پس یہ بات کہ ہر حالت اور ضرورت کے مطابق ضروریات مہیّا ہوتی رہیں اور نگرانی و حفاظت کا ایک مسلسل اہتمام جاری رہے۔ یہ وہ صورت حال ہے جس سے ربوبیت کے مفہوم کا تصور کیا جاسکتا ہے۔ مجازی ربوبیت کا یہ ناقص اور محدود عملی نمونہ سامنے رکھیے اور پھر ربوبیتِ الٰہی کی غیر محدود حقیقت کا تصور کیجیے تو اس کا رب العالمین ہونے کا معنی یہ ہوا کہ جس طرح اس کی خالقیت نے کائناتِ ہستی اور اس کی ہر چیز پیدا کی ہے اسی طرح اس کی ربوبیت نے ہر مخلوق کی پرورش کا سروسامان بھی کردیا ہے اور یہ پرورش کا سامان ایک ایسے عجیب و غریب نظام کے ساتھ ہوا ہے کہ ہر وجود کو زندگی اور زندگی کی بقاء کے لیے جو کچھ مطلوب تھا وہ سب کچھ مل رہا ہے اور اس طرح مل رہا ہے کہ ہر حالت کی رعایت ہے ‘ ہر ضرورت کا لحاظ ہے۔ ہر تبدیلی کی نگرانی ہے اور ہر کمی بیشی ضبط میں آچکی ہے۔ پھر اسی ظاہری نظام ربوبیت پر بس نہیں بلکہ اس کی ربوبیت کا تقاضا یہ ہے کہ اس نے انسان کے لیے صرف اسبابِ معیشت ہی پیدا نہیں کیے بلکہ ان سے فائدہ اٹھانے اور انھیں بروئے کار لانے کے لیے جس صلاحیت کی ضرورت تھی، وہ بھی عطا کی گئی کیونکہ خارج میں زندگی اور پرورش کا کتنا ہی سرو سامان کیا جاتا وہ کچھ مفید نہ ہوتا، اگر ہر وجود کے اندر اس سے کام لینے کی ٹھیک ٹھیک استعداد نہ ہوتی، اور اس کے ظاہری اور باطنی قویٰ اس کا ساتھ نہ دیتے۔ ربو بیت کے اس پہلو پر جتنا بھی غور کیا جائے نئی نئی حقیقتیں منکشف ہوتی جاتی ہیں۔ لیکن قرآن پاک کے نزول اور آنحضرت ﷺ کی بعثت کے وقت جن لوگوں سے آپ کو واسطہ پڑا وہ اللہ تعالیٰ کے خالق ومالک ہونے ‘ رازق اور پروردگار ہونے کے منکر ہرگز نہیں تھے۔ انھیں اللہ کی صفت ربوبیت میں کوئی شبہ نہیں تھا۔ وہ جانتے تھے کہ ہماری زندگی کی تمام ضروریات حتیٰ کے اس کے امکانات بھی اسی ذات کے ہاتھ میں ہیں، جسے رب العلین کہا جاتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود آنحضرت ﷺ کی دعوت سے انھیں شدید انکار تھا۔ انھوں نے آپ کا راستہ روکنے کے لیے کسی بھی ممکن تصادم سے گریز نہیں کیا۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ دعوت پیغمبری کے ساتھ ان کی مخالفت کی وجہ کچھ اور تھی۔ جب ہم قرآن حکیم میں غور کرتے ہیں تو ہمیں ان کے عقائد و اعمال میں دو بنیادی گمراہیوں کا سراغ ملتا ہے اور یہ گمراہیاں نئی نہیں بلکہ زمانہء قدیم سے تمام گمراہ قوموں میں پائی جاتی رہیں۔ ایک طرف فوق الطبیعی ربوییت والہٰیت میں وہ اللہ کے ساتھ دوسرے الٰہوں اور ارباب کو شریک ٹھہراتے تھے اور یہ سمجھتے تھے کہ سلسلہ اسباب پر جو حکومت کار فرما ہے، اس کے اختیارات و اقتدارات میں کسی نہ کسی طور پر ملائکہ اور بزرگ انسان اور اجرام فلکی وغیرہ بھی دخل رکھتے ہیں۔ اسی بناء پر دعا اور استعانت اور مراسمِ عبودیت میں وہ صرف اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع نہیں کرتے تھے، بلکہ ان بناوٹی خدائوں کی طرف بھی رجوع کیا کرتے تھے۔ دوسری طرف تمدنی و سیاسی ربوبیت کے باب میں ان کا ذہن اس تصور سے بالکل خالی تھا کہ اللہ تعالیٰ اس معنی میں بھی رب ہے۔ اس معنی میں وہ اپنے مذہبی پیشوائوں ٗ اپنے سرداروں اور اپنے خاندان کے بزرگوں کو رب بنائے ہوئے تھے اور انہی سے اپنی زندگی کے قوانین لیتے تھے۔ اسی گمراہی کو دور کرنے کے لیے ابتداء سے انبیا آتے رہے ہیں اور اسی کے لیے آخر کار محمد ﷺ کی بعثت ہوئی۔ ان سب کی دعوت یہ تھی کہ رب کے ہر مفہوم کے اعتبار سے اللہ تعالیٰ کی ذات حقیقی رب ہے اور اس کی یہ ربوبیت ناقابل تقسیم ہے۔ اس کا کوئی جز کسی معنی میں بھی کسی دوسرے کو حاصل نہیں ہے۔ کائنات کا نظام ایک کامل مرکزی نظام ہے جس کو ایک ہی خدا نے پیدا کیا، جس پر ایک ہی خدا فرمانروائی کر رہا ہے۔ جس کے سارے اختیارات و اقتدارات کا مالک ایک ہی خدا ہے۔ نہ اس نظام کے پیدا کرنے میں کسی دوسرے کا کچھ دخل ہے ٗ نہ اس کی تدبیر و انتظام میں کوئی شریک ہے اور نہ اس کی فرمانروائی میں کوئی حصہ دار ہے۔ مرکزی اقتدار کا مالک ہونے کی حیثیت سے وہی اکیلا خدا تمہارا فوق الفطری رب بھی ہے اور اخلاقی و تمدنی اور سیاسی رب بھی۔ وہی تمہارا معبود ہے، وہی تمہارے سجدوں اور رکوعوں کا مرجع ہے۔ وہی تمہاری دعائوں کا ملجاد ماویٰ ، وہی تمہارے توکل و اعتماد کا سہارا، وہی تمہاری ضرورتوں کا کفیل اور اسی طرح وہی بادشاہ ہے۔ وہی مالک الملک، وہی شارع و قانون ساز اور امرونہی کا مختار کل بھی ہے۔ ربوبیت کی یہ دونوں حیثیتیں جن کو جاہلیت کی وجہ سے تم نے ایک دوسرے سے الگ ٹھیرالیا ہے حقیقت میں خدائی کا لازمہ اور خدا کے خدا ہونے کا خاصہ ہیں۔ انھیں نہ ایک دوسرے سے منفک کیا جاسکتا ہے اور نہ ان میں سے کسی حیثیت میں بھی مخلوقات کو خدا کا شریک ٹھیرانا درست ہے۔ اس دعوت کو قرآن جس طریقہ سے پیش کرتا ہے وہ خود اسی کی زبان سے سُنئے۔ قرآن میں رب کا تصور اِنَّ رَبَّکُمُ الَّلہُ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ فِیْ سِتَّہِ اَیَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰی عَلَی الْعَرْشِ قف یُغْشِی الَّیْلَ اَلنَّھَارَ یَطْلُبُہٗ حَثِیْثًا لا وَّالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ وَالنُّجُوْمَ مُسَخَّرَاتٍ م بِاَمْرِہٖ ط اَلاَ لَہُ الْخَلْقُ وَالْاَمْرُط تَبٰـرَکَ الّٰلہُ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ ۔ (الاعراف : 7۔ 54) (حقیقت میں تمہارا رب اللہ ہے جس نے آسمان و زمین کو چھ دن میں پیدا کیا اور پھر اپنے تخت سلطنت پر جلوہ افروز ہوگیا جو دن کو رات کا لباس اڑھاتا ہے اور پھر رات کے تعاقب میں دن تیزی کے ساتھ دوڑ آتا ہے ٗ سورج اور چاند اور تارے سب کے سب جس کے تابع فرمان ہیں سنو ! خلق اسی کی ہے اور فرمانروائی بھی اسی کی۔ بڑا بابرکت ہے وہ کائنات کا رب) ۔ قُلْ مَنْ یَّرْزُقُـکُمْ مِّنَ السَّمَآئِ وَالْاَرْضِ اَمَّنْ یَّمْلِکُ الِسَّمْعَ وَالْاَبْصَارَ وَمَنْ یُّخْرِجُ الٰحَیَّ مِنَ الْمَیِّتِ وَیُخْْرِجُ الْمَیِّتَ مِنَ الْحَیِّ وَمَنْ یُّدَبِّرُالْاَمْرَ ط فَسَیَقُوْلُوْنَ الّٰلہُ ج فَقُلْ اَفلَاَ تَتَّقُوْنَ ۔ فَذٰلِکُمُ اللّٰہُ رَبُّکُمُ الْحَقُّ ج فَمَاذَا بَعْدَالْحَقِّ اِلاَّالضَّلٰلُ ج فَاَنّٰی تُْصرَفُوْنَ ۔ (یونس : 32۔ 31) (ان سے پوچھو ! کون تم کو آسمان و زمین سے رزق دیتا ہے ؟ کانوں کی شنوائی اور آنکھوں کی بینائی کس کے قبضہ و اختیار میں ہے ؟ کون ہے جو بےجان کو جاندار میں سے اور جاندار کو بےجان میں سے نکالتا ہے ؟ اور کون اس کار گاہ عالم کا انتظام چلا رہا ہے ؟ وہ ضرور کہیں گے اللہ۔ کہو ! پھر تم ڈرتے نہیں ہو ؟ جب یہ سارے کام اسی کے ہیں تو تمہارا حقیقی رب اللہ ہی ہے۔ حقیقت کے بعد گمراہی کے سوِا اور کیا رہ جاتا ہے ؟ آخر کہاں سے تمہیں یہ ٹھوکر لگتی ہے کہ حقیقت سے پھرے جاتے ہو ؟ ) خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ بِالْحَقِّ ج یُکَوِّرُالَّیْلَ عَلَی النَّھَارِ وَیُکَوِّرُالَّنھَارَ عَلَی الَّیْلِ وَسَخَّرَالشَّمْسَ وَالْقَمَرَ ط کُلٌّ یَّجْرِیْ لِاَجَلٍ مُّسَمًّی … ذٰلِکُمُ اللُّہُ رَبُّکُمْ لَہُ الْمُلْکُ ط لَآ اِلٰـہَ اِلاَّہُوَ ج فَاَنّٰی تُصْرَفُوْنَ (الزمر : 5۔ 6) (اس نے زمین و آسمانوں کو برحق پیدا کیا ہے۔ رات کو دن پر اور دن کو رات پر وہی لپیٹتا ہے۔ چاند اور سورج کو اسی نے ایسے ضابطے کا پابند بنایا ہے کہ ہر ایک اپنے مقررہ وقت تک چلے جا رہا ہے .... یہی اللہ تمہارا رب ہے بادشاہی اسی کی ہے اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں۔ آخر یہ تم کہاں سے ٹھوکر کھا کر پھرے جاتے ہو ؟ ) اللّٰہُ الَّذِیْ جَعَلَ لَکُمُ الَّیْلَ لِتَسْکُنُوْا فِیْہِ وَالنَّھَارَ مُبْصِرًا ط۔۔۔ ذٰلِکُمُ اللّٰہُ رَبُّکُمْ خَالِقُ کُلِّ شَیْ ئٍ م لَآاِلٰـہَ اِلاَّ ھُوَ ز ج فَاَنّٰی تُؤْفَکُوْنَ ۔۔۔ اَللّٰہُ الَّذِیْ جَعَلَ لَـکُمُ الْاَرْضَ قَرَارًا وَّالسَّمَآئَ بِنَآئً وَّ صَوَّرَکُمْ فَاَحْسَنَ صُوَرَکُمْ وَرَزَقَکُمْ مِّنَ الطَّیِّبٰتِط ذٰلِکُمُ اللّٰہُ رَبُّکُمْ ج فَتَبٰرَکَ اللّٰہُ رَبُّ الْعٰلَیِمْنَ ۔ ھُوَالْحَیُّ لَآاِلٰـہَ اِلاَّ ھُوَفَادْعُوْہُ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ (المومن : 61۔ 65 ) (اللہ وہ ہے جس نے تمہارے لیے رات بنائی کہ اس میں تم سکون حاصل کرو۔ اور دن کو روشن کیا ..... وہی تمہارا اللہ، تمہارا رب ہے ٗ ہر چیز کا خالق کوئی اور معبود اس کے سوا نہیں ٗ پھر یہ کہاں سے دھوکا کھا کر تم بھٹک جاتے ہو ؟.... اللہ جس نے تمہارے لیے زمین کو جائے قرار بنایا ٗ آسمان کی چھت تم پر چھائی ٗ تمہاری صورتیں بنائیں اور خوب ہی صورتیں بنائیں اور تمہاری غذا کے لیے پاکیزہ چیزیں مہیا کیں ٗ وہی اللہ تمہارا رب ہے۔ بڑا بابرکت ہے وہ کائنات کا رب۔ وہی زندہ ہے کوئی اور معبود اس کے سوا نہیں اسی کو تم پکارو اپنے دین کو اس کے لیے خالص کر کے) ۔ یہود و نصاریٰ کا تصور رب ان تمام آیات پر غور کیجئے صاف معلوم ہوتا ہے کہ قرآن کریم کا سارا زور اس بات پر ہے کہ تم نے پروردگار کو صرف اپنا پالنے والا اور ضروریات مہیا کرنے والا سمجھ رکھا ہے۔ لیکن اس کے اختیارات اور اس کی صفات میں تم اسے یکتا ماننے کے لیے تیار نہیں ہو اور مزید تم یہ سمجھتے ہو کہ اللہ کو کسی بھی حیثیت سے زبان سے یاد کر لینایا اس سے دعائیں مانگ لینا یا اس سے مناجاتیں کرلینا اور کبھی کبھی اس کے سامنے سرِ نیاز جھکا دینا، اس کے ماننے کے لیے کافی ہے اور رہی یہ بات کہ رب کا صحیح مفہوم یہ ہے کہ وہی امرونہی کا مختار اقتدار اعلیٰ کا مالک ہدایت و رہنمائی کا منبع قانون کا ماخذ اور مملکت کا رئیس ہوتا ہے۔ یہ بات تمہیں قبول نہیں اور یہی تمہاری گمراہیوں کی بنیاد ہے۔ چونکہ یہود و نصاریٰ باوجود اس کے کہ اپنے آپ کو اہل کتاب کہتے تھے اسی گمراہی کا شکار تھے۔ انھوں نے اپنے اہل علم اور دینی رہنمائوں کو زندگی کی مکمل راہنمائی کا حق دیدیا تھا اور وہ یہ سمجھتے تھے کہ انھیں حلت و حرمت کا اختیار حاصل ہے۔ قرآن کریم نے ان پر تنقید فرماتے ہوئے فرمایا کہ تم نے اپنے دینی راہنمائوں کو یہ اختیار دے کر انھیں اپنا رب تسلیم کرلیا ہے۔ کیونکہ یہ اختیارات رب کو ہی زیب دیتے ہیں اور جس کو بھی یہ اختیارات تفویض کردیئے جائیں وہ ربوبیت کے منصب پر فائز ہوجاتا ہے۔ اس لیے تم اگر اللہ کو رب مانتے ہو تو اس کی ربوبیت کا نتیجہ یہ ہونا چاہیے کہ جس کی تربیت کے فیض سے تم زندگی کا سرو سامان پا رہے ہو اسی کو اپنا حاکم ومالک اور الٰہ سمجھو۔ اور زندگی میں رہنمائی کے اختیار کا مالک اور حسن و قبح کا معیار اسی کو جانو۔ اسی کے دیئے ہوئے قانون (شریعت) کو حرف آخر سمجھو، اسی کو حاکم حقیقی سمجھ کر اپنی حکومت اور حکمرانی کو اس کی اطاعت میں دے دو ۔ اپنی ہر پالیسی اسی کی روشنی میں طے کرو۔ اسی کے رسول کو شخصیت سازی کے لیے آئیڈیل بنائو ‘ اسی کی زندگی کے اطوار اور اسی کے ذوق و مزاج سے تہذیب و ثقافت اخذ کرو۔ یہ بھی ذہن نشین کرلو کہ وہ صرف رب نہیں بلکہ رَبُّ الْعٰلَمِیْنَ ہے۔ اسی کی ربوبیت کا فیض سب کو برابر پہنچ رہا ہے۔ اسی کا سورج سب کو روشنی دے رہا ہے، اسی کا چاند سب کے لیے حلاوٹ بانٹ رہا ہے۔ اسی کی زمین سب کے لیے بچھونا بنائی گئی ہے، اسی کی روئیدگی کے خزانے سب کے لیے وقف ہیں۔ اس کی ہوا اور پانی صرف امیروں کے لیے نہیں، غریبوں کے لیے بھی ہیں۔ اسی کے مون سون کا فیض جس طرح جاگیرداروں کو پہنچتا ہے، اسی طرح غریب کسان اور ایک شودر کے آنگن اور کھیت کو بھی فیضیاب کر رہا ہے۔ تم نے جو انسانوں میں طبقات پیدا کردیئے ہیں اور انسانوں کو مختلف درجات میں تقسیم کردیا ہے۔ یہ اللہ کی صفت ربوبیت کے یکسر خلاف ہے۔ اگر تم واقعی اپنے پروردگار کو رب العالمین سمجھتے ہو تو اپنی اصلاح کرو اور ایک رب سے وہ تعلق پیدا کرو، جو بندہ اور آقا کے درمیان ہوتا ہے۔ ہر غور و فکر کرنے والے کی نظر جب تمام مخلوقات پر عموماً اور نوع انسانی پر خصوصاً پروردگارِ عالم کے فیضان ربوبیت کے حوالے سے پڑتی ہے تو وہ سوچنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ تربیت کا یہ ہمہ گیر اور ہمہ جہت فیضان جس کی وسعت اور گہرائی کا اندازہ کرنا بھی کسی کے لیے ممکن نہیں کا آخر سبب کیا ہے ؟ ہمارے جسموں کو پروان چڑھایا جا رہا ہے، ہمارے دل و دماغ کی صلاحیتوں کو جلا بخشی جا رہی ہے، ہمارے احساسات میں گہرائی اور ہمارے انفعالات میں شائستگی اور پاکیزگی ودیعت کی جارہی ہے، ہمارے ماحول کو ہمارے لیے سازگار اور ضرورتوں اور نعمتوں سے گراں بار کیا جا رہا ہے۔ کیا پروردگار کی اپنے بندوں سے کوئی ضرورت متعلق ہے، جس کے لیے انھیں پروان چڑھایا جا رہا ہے، جس طرح ریوڑ کا مالک اپنی بھیڑوں ‘ بکریوں کی حفاظت کرتا ہے اور انھیں غذا فراہم کرتا ہے تاکہ ان کے دودھ اور گوشت پوست سے فائدہ اٹھائے۔ باربرداری کے جانور اس لیے پالے جاتے ہیں تاکہ ان کا مالک ان سے باربرداری کا کام لے سکے۔ گھوڑوں کی پرورش میں جان کھپائی جاتی ہے تاکہ وہ سواری اور جنگی ضرورتوں میں کام آئیں۔ کسان اپنی کھیتی کی دیکھ بھال میں شب و روز محنت کرتا ہے تاکہ غذائی ضرورتوں کو پورا کرسکے۔ کیا ہمارے پروردگار کی بھی ہم سے کوئی ایسی ضرورت وابستہ ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسا خیال، تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ جس ذات کے اشارے سے ہر چیز کو وجود ملتا اور ہر وجود کی ضرورتیں مہیا ہو رہی ہیں اسے ہم جیسے ناچیز ذروں سے کیا حاجت ہوسکتی ہے۔ یا پھر دوسری صورت یہ ہے کہ ہمارا کوئی حق اللہ کے ذمہ ہو جس کی ادائیگی کے لیے کائنات کا ایک ایک ذرہ شب و روز مصروفِ عمل ہے۔ ظاہر ہے ایسی کوئی بات بھی ممکن نہیں۔ کیونکہ ہمارا تو وجود ہی پروردگار کا مرہون منت ہے کسی طرح کا کوئی حق کس طرح اس کے ذمے ہوسکتا ہے۔ جب تک ہم پر عدم طاری تھا تو کسی استحقاق کا سوال خلاف عقل اور خلاف فطرت تھا اور جب عدم سے نکل کر وجود میں آئے تو وجود دینے والے کے حقوق ہمارے ذمے عائد ہوگئے کیونکہ وہ خالق ٹھہرا۔ اس کے بعد فیضان ربوبیت کی بارش شروع ہوئی تو ہم اس کے حقوق سے گراں بار ہوتے گئے۔ مختصر یہ کہ ان دونوں باتوں میں سے کوئی بات بھی نہیں ہے تو پھر سوال یہ ہے کہ اس بےپناہ پروردگاری کی وجہ آخر کیا ہے قرآن کریم ہمیں بتاتا ہے کہ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ وہ رحمان اور رحیم ہے اس کی رحمانیت کا جوش ہے کہ اس نے ہمیں وجود بخشا اور یہ اس کی رحیمیت کا فیض ہے کہ وہ برابر ہماری دیکھ بھال کر رہا ہے۔ اس لیے یہاں ربوبیت کے بعد صفت رحمت کا ذکر فرمایا جا رہا ہے۔
Top