Ruh-ul-Quran - Al-Faatiha : 3
الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِۙ
الرَّحْمٰنِ : جو بہت مہربان الرَّحِيم : رحم کرنے والا
جو بڑا مہربان نہایت رحم کرنے والا ہے
الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ رحمن اور رحیم اللہ تعالیٰ کے صفاتی ناموں میں سے دو نام ہیں۔ ان دونوں کا مادہ رحمت ہے۔ لیکن یہ رحمت کے دو مختلف پہلوئوں کو نمایاں کرتے ہیں۔ رحمن عربی زبان میں فعلان کے وزن پر مبالغے کا صیغہ ہے اور رحیم فعیل کے وزن پر صفت مشبہ ہے۔ فعلان میں تین باتیں نمایاں ہیں۔ 1 فعلان کا وزن صفات عارضہ کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ جیسے پیاسے کے لیے عطشان ٗ غضبناک کے لیے غضبان ٗ سراسیمہ کے لیے حیران ٗ مست کے لیے سکران ٗ کے الفاظ استعمال ہوتے ہیں۔ 2 فعلان کا وزن جوش و خروش اور ہیجان پر دلیل ہوتا ہے اس طرح رحمن کا لفظ جو رحمت سے اسم مبالغہ ہے کے معنی ہوں گے کہ رحمن وہ ذات ہے جس میں صفت رحمت پائی جاتی ہے اور اس کی رحمت میں ایک جوش اور ایک ہیجان ہے۔ یہ مخلوقات کے لیے اس طرح ابلتی ہے جیسے چشمہ ابلتا ہے۔ 3 فعلان کا وزن اپنے اندر وسعت اور ہمہ گیری رکھتا ہے اس لحاظ سے رحمن کے معنی ہوں گے وہ ذات جس کی رحمت سارے عالم، ساری کائنات اور جو کچھ اب تک پیدا ہوا ہے اور جو کچھ آئندہ ہوگا، سب پر حاوی اور شامل ہے۔ اسی وجہ سے اس اسم کو لفظ اللہ کے تقریباً برابر قرار دیا گیا ہے۔ ارشاد ہے : قُلِ ادْعُواللّٰہَ اَوِادْعُوا الرَّحْمٰنَ ط اَیّاً مَّا تَدْعُوْا فَلَہُ الْاَسْمَآئُ الْحُسْنٰی (بنی اسرائیل : 17۔ 110) (اے پیغمبر فرما دیجئے کہ اللہ کہہ کر پکارو یا رحمن کے نام سے پکارو کسی طرح بھی پکارو اس کے سب نام بہتر ہیں) ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کی طرح لفظ رحمن بھی پروردگار کی ذات کے ساتھ مخصوص ہے۔ کسی مخلوق کو رحمن کہنا جائز نہیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی بھی ایسا نہیں ہوسکتا جس کی رحمت سے عالم کی کوئی چیز خالی نہ رہے۔ اس لیے جس طرح لفظ اللہ کی جمع اور تثنیہ نہیں آتا رحمان کا بھی جمع و تثنیہ نہیں آتا کیونکہ وہ ایک ہی ذات پاک کے ساتھ مخصوص ہے دوسرے اور تیسرے کا وہاں احتمال ہی نہیں۔ یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ کفار قریش اسم اللہ سے تو واقف تھے، مگر اسم رحمان سے انھیں بالکل آگاہی نہیں تھی۔ اس لیے قرآن کریم نے متعدد مواقع پر اس کا ذکر فرمایا کہ کفار مکہ سے جب پوچھا جاتا کہ زمین و آسمان کا خالق کون ہے ؟ سورج اور چاند کو کس نے مسخر کیا ہے ؟ آسمان سے پانی کون اتارتا ہے ؟ زمین کو ازسرنو کون زندگی دیتا ہے ؟ یہاں تک کہ جب ان سے پوچھا جاتا کہ تمہیں کس نے پیدا کیا ہے ؟ تمہیں رزق کون دیتا ہے ؟ دعائیں کون سنتا ہے ؟ تو وہ اس کے جواب میں کہتے تھے کہ ” اللہ “ مگر جب ان سے کہا جاتا کہ رحمن کو سجدہ کروتو کہتے کہ رحمان کیا ہوتا ہے ؟ اسی لیے قرآن کریم نے کہا : وَھُمْ بِذِکْرِالرَّحْمٰنِ ہُمْ کٰفِرُوْنَ (الانبیا : 36) ” کہ یہی تو وہ ہیں کہ جو رحمان کے ذکر سے انکاری ہیں “۔ اس لیے علماء نے لکھا کہ اگر کسی کا نام عبدالرحمن ہو تو اسے صرف رحمان کہہ کر بلانا جائز نہیں کیونکہ یہ نام ذات الٰہی کے ساتھ مخصوص ہے۔ اس کے مقابلے میں لفظ رحیم جو اللہ تعالیٰ کے پیارے ناموں میں سے ہے، وہ فعیل کے وزن پر صفت مشبہ ہے اور فعیل کا وزن دوام و استمرار ٗ پائیداری و استواری پر دلالت کرتا ہے اور یہ وزن ایسی صفات کے لیے بولا جاتا ہے جو صفات عارضہ نہیں بلکہ صفات قائمہ ہیں۔ مثلا ً کریم، کرم کرنے والا۔ عظیم، بڑائی رکھنے والا۔ علیم، علم رکھنے والا۔ حکیم، حکمت رکھنے والا۔ دوسری یہ بات کہ اس میں رحمت کے کامل اور مکمل ہونے کا معنی پایا جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ رحیم وہ ہوگا جس کی رحمت میں دوام اور تسلسل پایا جائے اور جس کی رحمت صفت کمال کے ساتھ متصف ہو۔ رحمان کے بعد رحیم کا ذکر کرنا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ پروردگار کی اپنی خلق کے لیے رحمت میں صرف جوش ہی نہیں بلکہ پائیداری اور استقلال بھی ہے۔ اس نے یہ نہیں کیا ہے کہ رحمانیت کے جوش میں دنیا پیدا تو کر ڈالی لیکن پیدا کر کے پھر اس کی خبر گیری اور نگہداشت سے غافل ہوگیا ہو۔ بلکہ اس کو پیدا کرنے کے بعد وہ اپنی پوری شان رحیمیت کے ساتھ اس کی پرورش اور نگہداشت بھی فرما رہا ہے۔ بندہ جب بھی اسے پکارتا ہے۔ وہ اس کی پکار سنتا ہے اور اس کی دعائوں اور التجاؤں کو شرف قبولیت بخشتا ہے۔ پھر اس کی رحمتیں اسی چند روزہ زندگی تک ہی محدود نہیں ہیں بلکہ جو لوگ اس کے بتائے ہوئے راستے پر چلتے رہیں گے ان پر اس کی رحمت ایک ایسی ابدی اور لازوال شان میں ہوگی جو کبھی ختم ہونے والی نہیں ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ چونکہ رحیم میں دوام اور تسلسل صفت کمال کے ساتھ پایا جاتا ہے تو جس طرح اس کائنات کا ارتقاء بالآخر اسے آخرت میں داخل کر دے گا اور اس کی تمام نعمتیں جنت کی آغوش میں پہنچ کر ارتقاء کی انتہائی منزل کو پالیں گی اسی طرح پروردگار کے رحیم ہونے کی صفت دنیا سے آخرت کی طرف اس کی رحمت کے ارتقاء کا ایک عمل ہے، جو اپنی صفت کمال کے ساتھ آخرت اور جنت میں رونما ہوگا۔ اس لیے جن علماء نے الرحیم کو آخرت کے ساتھ مخصوص کیا ہے ان کا شاید یہی مفہوم ہے کہ رحمت اپنی تکمیلی شان میں وہاں جلوہ گر ہوگی۔ رحمت کا مفہوم یہ تو تھا الرحمن اور الرحیم کا مفہوم اور دونوں کے معنی میں فرق۔ اب سوال یہ ہے کہ دونوں معنوں میں ہم نے جس صفت رحمت کا ذکر کیا ہے، وہ رحمت ہے کیا ؟ اگر اس رحمت کا مفہوم یہ ہے کہ اس نے کائنات کو عدم سے وجود بخشا تو یہ بات اس کی صفت خلق کا مظہر ہے اور اگر اس کا یہ معنی ہے کہ وہ پیدا کرنے کے بعد تربیت کا سامان کر رہا ہے اور ہر مخلوق کو اس کی ضرورت کے مطابق سامانِ تربیت میسر آرہا ہے اور ہر ایک کی ضرورت کو پورا کیا جا رہا ہے اور ہر ایک کی نگرانی کی جا رہی ہے اور ہر ایک کو عہد بعہد آگے بڑھایا جا رہا ہے تو یہ وہ چیز ہے جس کو پروردگار کی صفت ربوبیت انجام دے رہی ہے۔ مگر یہاں تو رحمت کا ذکر ہو رہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ وہ رحمت کیا ہے ؟ اس کو سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اس کائنات پر تدبر کی نگاہ ڈالیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ یہاں کائنات کے لیے صرف پرورش اور تربیت کا سامان ہی مہیا نہیں ہورہا بلکہ پرورش سے بھی زیادہ بنانے سنوارنے اور فائدہ پہنچانے کی حقیقت کام کر رہی ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ اس کی فطرت میں بنائو ہے، اس کے بنائو میں خوبی، اس کے مزاج میں اعتدال، اس کے افعال میں خواص، اس کی صورت میں حسن ٗ اس کی صدائوں میں نغمہ اور اس کی بو میں عطر بیزی ہے اور اس کی کوئی بات ایسی نہیں جو اس کارخانہ کی تعمیر اور درستگی کے لیے مفید نہ ہو۔ پھر اسی پر بس نہیں بلکہ اس دنیا میں مخلوقات کی اپنی زندگی اور بقاء کے لیے جن چیزوں کی ضرورت ہے صرف ایسا نہیں کہ انھیں مہیا کردیا گیا ہے، بلکہ اس کے ساتھ ہم دیکھتے ہیں کہ اس کارگاہِ عالم میں عناصرِ حیات میں سے ہر عنصر ٗ اس کے مؤثرات میں سے ہر مؤثر، اس کے خواص میں ہر خاصہ ٗ ایک بےپناہ فیضان کا جوش رکھتا ہے اور ہر کسی کے اندر یہ خواہش تڑپتی دکھائی دیتی ہے کہ وہ آگے بڑھ کر اپنے فیضان سے اور اپنی خدمت سے مخلوقات کو نوازے۔ سورج ٗ چاند ٗ تارے ٗ ہوا ٗ بارش ٗ دریا ٗ سمندرٗ پہاڑ ان میں سے کون ہے جو مخلوقات کے لیے راحت رسانی اور آسائش دینے میں دوسرے سے پیچھے ہو۔ تصور کیجئے ہم رات بھر خواب غفلت کے مزے لوٹتے ہیں، سہانے خواب دیکھتے رات گزر جاتی ہے۔ صبح نیند کا خمار اترتے ہی اپنے آپ کو باد سحر کی طرح ترو تازہ اور شاداب محسوس کرتے ہیں۔ مگر ہم نے کبھی یہ غور کرنے کی زحمت نہیں کی کہ ہم نے تھکاوٹ سے چور ہو کر جیسے ہی اپنے آپ کو بستر پر گرایا تو نیند لوریاں دیتی ہوئی خود بخود آموجود ہوئی۔ ہم آرام کرتے رہے، وہ شب بھر ہمیں تھپکتی رہی۔ ہم نے اگر گرانی محسوس کی تو نہ جانے وہ کون فرشتہ آپہنچا جس نے وقفے وقفے سے ہمیں دنیا بھر کی سیر کرائی ‘ ہمیں اس طرح مسرور و مخمور رکھا کہ ہمیں رات گزرنے کا احساس ہی نہیں ہونے دیا۔ یہ جو عناصر رحمت مسلسل اپنا فرض انجام دینے میں مصروف رہے ہیں، ہمیں تو انھیں بلانے کی زحمت بھی نہیں کرنی پڑتی۔ یہ ان کا آپ سے آپ بےتابانہ ہمارے سکون اور آرام مہیا کرنے میں لگے رہنا ‘ یہ اللہ کی رحمت کے سوا اور کیا ہے۔ صبح اٹھتے ہی زندگی کی سرگرمیاں شروع ہوجاتی ہیں لیکن اس میں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ زندگی کی سرگرمیاں بروئے کار لانے اور انجام دینے کے لیے جس جس موثر اور عنصر کی ضرورت ہے، وہ خود بخود اس کے لیے بےتاب دکھائی دیتا ہے۔ ہم بیدار ہونے میں تاخیر کرسکتے ہیں مگر سورج طلوع ہونے اور روشنی پھیلانے میں کبھی تاخیر نہیں کرتا۔ اس کی کرنوں کو ہمیں بلانے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ وہ ہمیں روشنی بھی دے رہا ہے ‘ ہماری کھیتیوں کو پکا بھی رہا ہے، زندگی کی گاڑی کو ایک انجن کی طرح کھینچ رہا ہے۔ اگر زمین کو آبیاری کی ضرورت ہے تو سمندر سے کرنوں کے ڈول بھر بھر کر کھینچ رہا ہے ‘ ابر کی چادریں بچھا رہا ہے ‘ پہاڑوں سے برف کو پگھلا رہا ہے اور ندی نالوں کے ذریعے زمین کی ضرورت پورا کرنے میں لگا ہوا ہے۔ رات آتی ہے تو چاند اپنا فرض انجام دینے اور اہل زمین کی خدمت کرنے کے لیے آموجود ہوتا ہے۔ وہ رات کے مسافروں کو راستہ دکھاتا ‘ دلوں کو مسرتوں سے معمور کرتا ‘ پھلوں میں مٹھاس اور گداز پیدا کرتا ہے۔ ستارے جھلملانے میں کبھی کوتاہی نہیں کرتے ‘ کلیاں کبھی چٹکنے سے نہیں رکتیں ‘ پھول خود بخود مشام جاں کو معطر کرنے کا فرض انجام دے رہے ہیں۔ قرآن کریم ہمیں بتاتا ہے کہ تمہیں اس حقیقت کو سمجھنے کے لیے دور جانے کی ضرورت نہیں فَلْیَنْظُرِاْلِانْسَانُ اِلٰی طَعَامِہٖٓ (عبس : 80۔ 24) انسان کو چاہیے کہ اپنے کھانے ہی کو دیکھے کہ جو غذا اس کے سامنے پڑی ہے وہ کہاں سے آئی ہے۔ یقینا یہ گیہوں سے تیار ہوئی ہے۔ گیہوں کا ایک ایک دانہ ہتھیلی پر رکھ کر سوچو کہ یہ کیسے تیار ہوا ہے۔ کسان نے گیہوں زمین میں کاشت کیا ‘ سہاگہ سے اسے دفن کر کے گھر چلا آیا لیکن اس کی غیر حاضری میں زمین کی قوت روئیدگی نے اپنا کام کیا ‘ ہوا نے اپنا فرض انجام دیا ‘ سورج نے سمندر کا شورابہ کھینچ کر ابر کی چادریں بچھائیں ‘ موسم کے تغیرات اور ہوا کی گردش نے آبیاری کا کام کیا ‘ سورج نے اس دانہ گندم کو پکایا ‘ چاند نے اس میں گداز پیدا کیا، غرضیکہ تمام کارخانہ ہستی ایک خاص نظم و ترتیب کے ساتھ اس کی بناوٹ میں خود بخود بےتابانہ مصروف ہے۔ کسان یہ سمجھتا ہے کہ گندم کا یہ کھلیان میری محنت کا نتیجہ ہے۔ لیکن وہ نہیں جانتا کہ کس طرح عناصر قدرت اور زمین کی گیسوں نے اس سے کہیں زیادہ اپنا فرض انجام دے کر اسے روٹی کے قابل بنایا ہے۔ اسی پیرائے میں پروردگار مختلف نعمتوں کا ذکر فرماتے ہیں، جس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ہم بیخبر ی میں جن نعمتوں سے استفادہ کرتے ہیں وہ سراسر اللہ کی رحمت کا ظہور ہے۔ چند آیات ملاحظہ فرمایئے جس میں اسی حقیقت کی طرف توجہ دلائی گئی ہے : وَاِنَّ لَـکُمْ فِی الْاَنْعَامِ لَعِبْرَۃً ط نُسْقِیْکُمْ مِّمَّا فِیْ بُطُونِہٖ مِنْ م بَیْنِ فَرْثٍ وَّدَمٍ لَّبَنًا خَالِصًا سَآئِغًا لِّلشّٰرِبِینَ ۔ وَمِنْ ثَمَرٰتِ النَّخِیْلِ وَالْاَعْنَابِ تَتَّخِذُوْنَ مِنْہُ سَکَرًا وَّرِزْقًا حَسَنًا ط اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیَۃً لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنَ ۔ وَاَوْحٰی ربُّکَ اِلَی النَّحْلِ اَنِ اتَّخِذِیْ مِنَ الْجِبَالِ بُیُوْتًا وَّمِنَ الشَّجَرِ وَمِمَّا یَعْرِشُوْنَ ۔ لا ثُمَّ کُلِیْ مِنْ کُلِّ الثَّمَرٰتِ فَاسْلُکِیْ سُبُلَ رَبِّکِ ذُلُلاً ط یَخْرُجُ مِنْ م بُطُوْنِھَا شَرَابٌ مُّخْتَلِفٌ اَلْوَانُـہٗ فِیْہِ شِفَآئٌ لِّلنَّاسِ ط اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیَۃً لِّقَوْمٍ یَّتَفَکَّرُوْنَ ۔ (اور دیکھو یہ) چارپائے (جنھیں تم پالتے ہو) ان میں تمہارے لیے غور کرنے اور نتیجہ نکالنے کی کتنی عبرت ہے ؟ ان کے جسم سے ہم خون اور کثافت کے درمیان دودھ پیدا کردیتے ہیں جو پینے والوں کے لیے بےغل و غش مشروب ہوتا ہے۔ (اسی طرح) کھجور اور انگور کے پھل ہیں، جن سے نشہ کا عرق اور اچھی غذا دونوں طرح کی چیزیں حاصل کرتے ہو۔ بلا شبہ اس بات میں اربابِ عقل کے لیے (ربوبیت الٰہی کی) بڑی ہی نشانی ہے اور (پھر دیکھو) تمہارے پروردگار نے شہد کی مکھی کی طبیعت میں یہ بات ڈال دی کہ پہاڑوں میں اور درختوں میں اور ان ٹہنیوں میں جو اس غرض سے بلند کی جاتی ہیں، اپنے لیے گھر بنائے پھر ہر طرح کے پھولوں سے رس چوسے، پھر اپنے پروردگار کے ٹھہرائے ہوئے طریقوں پر کامل فرمانبرداری کے ساتھ گامزن ہو۔ (چنانچہ تم دیکھتے ہو کہ) اس کے جسم سے مختلف رنگوں کا رس نکلتا ہے، جس میں انسان کے لیے شفا ہے، بلاشبہ اس بات میں ان لوگوں کے لیے جو غور و فکر کرتے ہیں (ربوبیت الٰہی کی عجائب آفرینیوں کی) بڑی ہی نشانی ہے۔ (النحل 16 : 65۔ 66) غرضیکہ عناصرِ قدرت میں ایک ایک عنصر اور ایک ایک خاصہ مخلوقات کو راحت رسانی اور سہولت مہیا کرنے کے لیے بےتاب ہے اور کبھی اس نے تساہل سے کام نہیں لیا۔ یہ سب کچھ اس لیے ہے کہ پروردگار میں صفت ربوبیت کے ساتھ ساتھ رحمت بھی اپنا وجود رکھتی ہے۔ یہ سب اسی کا مظہر اور اسی کی نمود ہے۔ کائنات کا حسن اللہ کی صفت رحمت کا ظہور ہے حقیقت تو یہ ہے کہ اگر تدبر کا ایک قدم مزیدآگے بڑھائیں تو بیشمار ایسے مناظر ہیں، جو غور و فکر کرنے والے کو حیرت واستعجاب کی نذر کردیتے ہیں۔ دور نہ جایئے اگر ہم زمین کو دیکھتے ہیں تو دیکھتے ہی رہ جاتے ہیں کہ اس کی سطح پھلوں اور پھولوں سے لدی ہوئی ہے۔ اس کی تہہ میں آب شیریں کی سوتیں بہہ رہی ہیں ٗ گہرائی سے سونا چاندی نکل رہا ہے۔ سائے کے لیے درخت سر اٹھائے کھڑے ہیں۔ چلنے پھرنے کے لیے سبزے کا ایک مخملیں فرش بچھا دیا گیا ہے۔ آنکھوں کی ٹھنڈک کے لیے سبزے کی چادریں بچھا دی گئی ہیں۔ پھولوں میں رنگ و حسن پیدا کردیا گیا ہے۔ میدانوں کے اکتائے ہوئے لوگوں کے لیے سربفلک پہاڑ اٹھا دیئے ہیں۔ ان میں آبشاریں ہیں جو سینوں کو مسرت سے بھرے دے رہی ہیں۔ اس میں قسم قسم کے درخت ہیں، جن کی حسن افروزی اپنی ایک شان رکھتی ہے۔ پھر باغ و انہار ٗ سبزیاں ٗ پھل ہیں ٗ قسم قسم کی بیلیں ہیں۔ پھر زمین کے چار پائے ٗ فضا کے پرند ٗ پانی کی مچھلیاں ٗ یہ سب کیا ہے ؟ ظاہر ہے یہ ساری چیزیں انسان کی ضرورت کے لیے ضروری نہیں تھیں۔ انسان کے لیے لکڑی کی ضرورت تھی ؟ لیکن کیا ضروری تھا کہ درختوں کو چھتریاں بنادیا جاتا۔ انسان کو غلے کی ضرورت تھی لیکن لہلہاتی فصل کو نقرئی لباس پہنانے کی کیا ضرورت تھی پرندے گوشت کے لیے ضروری سہی لیکن ان کی خوبصورت آوازیں ٗ کوئل کی کوک ٗ مور کا ناچ ٗ پپیہئے کی پی ٗ چڑیوں کے چہچ ہے ٗ اور عام پرندوں کے ترانے یہ تو انسان کی ضرورت نہ تھے اور اگر آسمان کی طرف دیکھا جائے تو ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ہم پر ایک چھت تانی گئی ہے۔ لیکن ستاروں کا نظام اور ان کی سیرو گردش ٗ سورج کی روشنی اور اس کی بوقلمونی ٗ چاند کی گردش اور اس کا اتار چڑھائو ٗ فضائے آسمانی کی وسعت اور اس کی نیرنگیاں ٗ بارش کا سماں اور اسکے تغیرات ..... یہ سب کیا ہے ؟ یہ چیزیں یقینا انسان کی ضرورتوں میں شامل نہیں۔ ان چیزوں پر جب آپ غور کریں گے تو آپ محسوس فرمائیں گے کہ یہاں ربوبیت سے زیادہ ایک اور چیز کارفرما ہے یہ وہی چیز ہے، جس کو قرآن صفت رحمت سے تعبیر کرتا ہے۔ یعنی یہ سب کچھ اس لیے ہوا کہ خالق کائنات میں رحمت ہے اور اسکی رحمت اپنا ظہور بھی رکھتی ہے اور جس میں رحمت ہو اور جس کی رحمت ظہور بھی رکھتی ہو تو جو کچھ اس سے صادر ہوگا اس میں خوبی اور بہتری ‘ حسن و جمال، اعتدال و تناسب ہی ہوگا۔ اس کے سوا کچھ ہو ہی نہیں سکتا اور پھر یہ اس کی صفت رحمت کا ظہور صرف یہاں تک محدود نہیں کہ خارج میں آپ ہر طرف حسن و رعنائی دیکھ رہے ہیں۔ بلکہ اس کی رحمت کا اصل ظہور اس بات میں ہے کہ اس نے صرف ہمیں حسن و رعنائی ہی سے نہیں نوازا بلکہ اس سے محظوظ ہونے کے لیے احساس بھی بخشا۔ اس نے روئے خوش بخشا تو نظر کو احساس حسن بھی بخشا۔ اس نے پھول میں خوشبو رکھی تو ہمیں قوت شامہ سے بھی نوازا۔ اس نے پانی کو ٹھنڈک عطا کی تو ہمیں ٹھنڈک کی قدر کا جذبہ بھی دیا۔ اس نے پھول میں رنگ رکھا تو ہمیں رنگوں کی شناخت بھی بخشی۔ یعنی ہر چیز سے اور اس کی حقیقی قدر و قیمت سے حظ اٹھانے کے لیے جس احساس کی ضرورت تھی اس احساس سے اس نے تمام مخلوقات کو بہرہ ور فرمایا۔ وہ اپنی مخلوقات کو اولاد دیتا ہے تو اولاد کی محبت بھی دیتا ہے۔ سعی و کاوش کی سرگرمیوں کے لیے جوش و جذبہ بھی عطا کرتا ہے۔ گھر دیتا ہے تو اس کے لیے حفاظت کا جوش بھی عطا فرماتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بعض صورتوں میں ایک آدمی کو ہم دیکھتے ہیں کہ وہ سخت گرمی میں محنت اور مزدوری کر رہا ہے۔ چہرے سے پسینہ ٹپک رہا ہے ‘ چلچلاتی دھوپ میں بوجھ اٹھانے پر مجبور ہے ‘ دیکھنے والی نگاہ سمجھتی ہے کہ یہ شخص اپنی زندگی سے انتہائی ناخوش ہوگا مگر شام کو دن بھر کی مزدوری کا معاوضہ پا کر جب اپنے جھونپڑے میں بیوی اور بچوں کے جھرمٹ میں بیٹھ کر وہ مسکرا مسکرا کے باتیں کرتا ہے تو تب اندازہ ہوتا ہے کہ اس کا مزدوری کرنا تو ایک ضرورت تھی۔ لیکن اس خوشی کو پیدا کردینا یہ اس پروردگار کا کمال ہے جو رحمان اور رحیم ہے۔ اسی طرح آپ دیکھتے ہیں کہ بچے کی پیدائش ماں کے لیے کیسی جانکاہی اور مصیبت ہوتی ہے۔ اس کی پرورش اور نگرانی کس طرح خود فروشانہ مشقتوں کا ایک طویل سلسلہ ہے۔ تاہم یہ سارا معاملہ کچھ ایسی خواہش اور جذبے کے ساتھ وابستہ کردیا گیا ہے کہ ہر عورت میں ماں بننے کی قدرتی طلب ہے اور ہر ماں پرورشِ اولاد کے لیے مجنونانہ خود فراموشی رکھتی ہے۔ وہ زندگی کی سب سے بڑی تکلیف سہے گی اور پھر اس تکلیف میں زندگی کی سب سے بڑی مسرت محسوس کرے گی اور جب وہ اپنی ساری راحتیں قربان کردیتی ہے ‘ اپنی رگوں کے خون کا ایک ایک قطرہ دودھ بنا کر پلا دیتی ہے تو اس کے دل کا ایک ایک ریشہ سب سے بڑے احساسِ مسرت سے معمور ہوجاتا ہے۔ یہ کیا ہے ؟ یہ اس خالق کائنات کی صفت رحمت کا ظہور ہے اور پھر اگر دقیق نظر سے کام لیا جائے تو اس رحمن و رحیم کے افادہ اور فیضان اور اس کی رحمت کے ظہور کی صورت کچھ انہی مظاہر پر موقوف نہیں ہے بلکہ کارخانہ ہستی کے تمام اعمال و قوانین کا یہی حال ہے۔ مثلاً دیکھئے کہ انسان ٹھوکریں کھاتا ہے ‘ غلطیاں کرتا ہے تو ہونا یہ چاہیے کہ اپنی غلطیوں کا خمیازہ فوراً بھگتے اور بد عملی اس کو فوراً تباہی کی طرف لے جائے۔ لیکن ہم یہاں دیکھتے ہیں کہ اس کی صفت رحمت کا ظہور اس طرح ہو رہا ہے کہ یہاں بڑے سے بڑے گناہ گار کو سنبھلنے کے لیے مہلت دی جا رہی ہے۔ اپنی روش کو تبدیل کرنے کا موقع دیا جا رہا ہے اور اس کی جزا و سزا کا قانون فوراً حرکت میں آنے کی بجائے آہستہ آہستہ اس کے ساتھ چلتا رہتا ہے اور اس کے عفو و درگزر کا دروازہ آخر تک کھلا رہتا ہے۔ اس لیے قرآن کریم نے کہا کہ اگر پروردگار لوگوں کو ان کی زیادتیوں پر فوراً پکڑنے لگتا تو زمین پر چلنے والا کوئی زندہ نہ رہتا۔ یہ اس کی رحمت ہے جو اچھائی کرنے والے کو بھی مہلت دیتی ہے تاکہ اس کی اچھائی نشو و نما پائے اور برائی کرنے والے کو بھی مہلت دیتی ہے تاکہ وہ متنبہ اور خبردار ہو کر اصلاح و تلافی کی کوشش کرے۔ وَلَوْ یُؤَا خِذُاللّٰہُ النَّاسَ بِمَا کَسَبُوْا مَا تَرَکَ عَلٰی طَھْرِہَا مِنْ دَآبَّۃٍ وَّلٰـکِنْ یُّؤَخِّرُہُمْ اِلٰٓی اَجَلٍ مُّسَمًّی ج فَاِذَا جَآئَ اَجَلُھُمْ فَاِنَّ اللَّہَ کَانَ بِعِبَا دِہٖ بَصِیْرًا۔ ع (فاطر : 25۔ 45) اس خدائے رحمن و رحیم کی رحمت کے مظاہر بیشمار ہیں مگر انسان کی کوتاہ فکری ہے کہ چونکہ شب و روز اس کی بےپایاں رحمتوں سے فائدہ اٹھا رہا ہے، اس لیے اسے نہ اس کی پہچان ہوتی ہے، نہ اس کی قدر و قیمت کا احساس ہوتا ہے۔ ایک لمحہ کے لیے تصور کریں کہ دنیا موجود ہے مگر حسن و رعنائی کے تمام جلووں اور احساسات سے خالی ہے۔ آسمان ہے مگر فضا کی یہ نگاہ پرور نیلگونی نہیں ہے۔ ستارے ہیں مگر ان میں درخشندگی اور جہاں تابی کی جلوہ آرائی نہیں ہے۔ غور کیجئے ایسی دنیا کے ساتھ زندگی کا تصور کتنا بھیانک اور ہولناک ہوگا۔ اس سے بھی ایک قدم آگے بڑھیئے۔ رات روز جلوہ گر ہوتی ہے مگر آنکھوں میں نیند نہیں آتی۔ صبح مسکراتی ہوئی طلوع ہوتی ہے لیکن نقاہت یا کوئی بیماری بستر سے اٹھنے نہیں دیتی۔ باہر پرندے چہچہا رہے ہیں۔ سورج اپنی کرنوں سے کائنات کو منور کر رہا ہے، لیکن آشوب چشم یا پائوں کی تکلیف باہر نکل کر محو نظارہ ہونے کی اجازت نہیں دیتی۔ رنگا رنگ خوان نعمت سجا ہوا ہے لیکن طبیعت کی بےکیفی ادھر متوجہ نہیں ہونے دیتی یا آدمی ان نعمتوں سے فائدہ اٹھاتا ہے ‘ لیکن بھوک کا احساس مرجانے سے یہ نعمتیں مزا نہیں دے رہیں۔ گرمیوں میں ٹھنڈے پانی کی نعمت میسر ہے لیکن دانتوں کی تکلیف یا معدے کی سوزش پانی پینے کی متحمل نہیں ہو ری، باہر آزادی سے گھومنا پھرنا ایک معمول کی نعمت ہے مگر پائوں کی تکلیف باہر نکلنے کی اجازت نہیں دے رہی۔ یہ بظاہر معمولی نعمتیں ہیں لیکن اگر یہ چھن جائیں تب آدمی کو اندازہ ہوتا ہے کہ اس کی زندگی کیسی بدمزہ ہوگئی۔ یہی اس پروردگار کی رحمت ہے جس کی قدردانی سے ہماری عقول نارسا قاصر ہیں۔ مزید دیکھئے کبھی آپ نے غور کیا کہ اگر آپ ایک ہی طرح کے معمولات اور مصروفیات میں ایک عرصہ گزارتے ہیں تو حالات کی یہ یکسانی طبیعت کو اکتا دیتی ہے اور آپ کہیں سیر کا پروگرام بنانے لگتے ہیں۔ لیکن آپ نے کبھی اس بات پر غور نہیں کیا کہ اگر عام میدانی علاقوں والوں کے لیے پہاڑی سلسلے نہ ہوتے اور پہاڑی سلسلے والوں کے لیے ہموار میدان نہ ہوتے۔ ریگستان والوں کے لیے دریائوں کی روانی نہ ہوتی اور دریا کے کنارے رہنے والوں کے لیے ریگستان کے ٹیلے نہ ہوتے تو آپ اس اکتاہٹ کا کیا علاج کرتے۔ اگر اس سے بھی ایک قدم اور آگے بڑھیں تو آپ کو تعجب ہوگا کہ گھر بیٹھے قدرت نے ہمیں اس یکسانی سے بچنے کے لیے کیسی کیسی نعمتیں عطا کیں۔ مثلاً اختلافِ لیل و نہار ‘ موسموں کے تغیرات ‘ خزاں اور بہار کا ایک دوسرے کی جگہ لینا ‘ ٹنڈ منڈ درختوں کا سبزے کا لباس پہن لینا ‘ بےآباد اور بےرنگ زمین پر رنگ رنگ کے پھولوں کا کھل جانا ایسے ہی بیشمار اختلافات ہیں جو پروردگارِ عالم کی صفت رحمت کا ظہور دنیا کی زیب وزینت اور ہماری تسکین و راحت کا سامان ہیں۔ گلہائے رنگ رنگ سے ہے زینت چمن اے ذوقؔ اس جہاں کو ہے زیب اختلاف سے اسی کی طرف پروردگار توجہ دلاتے ہوئے فرماتا ہے : اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَاخْتِلاَفِ الَّیْلِ وَالنَّھَارِ لَاٰیٰتٍ لِّاُوْلِی الْاَلْبَابِ ۔ ” بلاشبہ آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں، رات دن کے ایک کے بعد ایک آتے رہنے میں عقلمندوں کے لیے نشانیاں ہیں۔ (آل عمران 1 : 3۔ 190) مزید فرمایا : وَمِنْ رَّحْمَتِہٖ جَعَلَ لَـکُمُ الَّیْلَ وَالنَّھَارَلِتَسْکُنُوْا فِیْہِ وَلِتَبْتَغُوْا مِنْ فَضْلِہٖ وَلَعَلَّـکُمْ تَشْکُرُوْنَ ۔ ” کہ یہ اس کی رحمت کی کارسازی ہے کہ تمہارے لیے رات اور دن ٹھہرائے گئے ہیں تاکہ رات کو راحت پائو اور دن میں اس کا فضل تلاش کرو اور تاکہ تم شکر ادا کرو۔ “ (قصص : 28۔ 73) اس بحث کا ایک اور گوشہ بھی ہے جس پر توجہ دینا بےحد ضروری ہے، کہ پروردگار کی رحمتوں کے مختلف مظاہر کا ہم نے تذکرہ کیا ہے۔ تصور کیجئے اگر یہ جابجا اس کے ظہور کی صورتیں اور اس کے صدور کی شکلیں اپنی جگہ قائم ہوتیں اور ہر انسان اس سے بقدر ہمت استفادہ کے لیے کوشاں ہوتا اور ہر ایک اپنے آپ کو ان کا حقیقی وارث اور مالک سمجھتا اور کسی کو اس بات کا علم نہ ہوتا کہ انسانوں کا انسانوں سے کیا رشتہ ہے ؟ ان نعمتوں پر اگرچہ سب کا مساوی حق ہے مگر انسانی معیشت میں جو لوگ کسی وجہ سے پیچھے رہ گئے ہیں ان کا آگے بڑھ جانے والوں پر بھی کیا کوئی حق ہے ؟ پھر ان میں باہمی انس اور محبت کا کوئی جذبہ نہ ہوتا ‘ ایثار و خیر خواہی سے انسان ناواقف ہوتا۔ حقوق و فرائض سے بیخبر ‘ باہمی نظم و تربیت سے عاری ‘ حکومت اور ریاست کے تصور سے نابلد ‘ معاشرت کے اصولوں سے تہی دامن ‘ مکارم اخلاق سے ناآشنا ہوتا ‘ تو آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ ان ساری نعمتوں کی موجودگی کے باوجود انسانی زندگی کس قدر ہولناک ہوتی۔ اس کو مثال سے یوں سمجھئے کہ ہم ایک گھربناتے ہیں جس میں میاں بیوی اور ان کے بچے ہیں۔ جب تک میاں بیوی میں ایک دوسرے کے حقوق کی پاسداری رہتی ہے اور دونوں ایک دوسرے سے غایت درجہ محبت رکھتے ہیں۔ شوہر باہر محنت کرتا ہے اور بیوی گھر کی ذمہ داریاں ادا کرتی ہے۔ اس طرح دونوں یکجان اور دو قالب ہو کر اپنے بچوں کے لیے ٹھنڈا سایہ مہیا کرتے ہیں اور بچوں کی نگاہ میں ان دونوں کا وجود اللہ کی رحمت کی علامت ہوتا ہے اور بچے اگر بڑے ہوجائیں تو وہ اپنے ماں باپ کی بالکل اسی طرح عزت کرتے اور دیکھ بھال کرتے ہیں، جس طرح ماں باپ نے انھیں شفقت سے پالا اور محنت سے پروان چڑھایا تو یہ گھر فی الواقع جنت کا نمونہ ہوتا ہے۔ لیکن اگر اسی گھر کی چھت کے نیچے رہنے والے میاں بیوی ایک دوسرے سے خیانت کا ارتکاب کریں بیوی شوہر کی غیر حاضری میں شوہر کی غیرت و حمیت کو تماشہ بنا دے اور شوہر باہر بیوی کی محبت اور اعتماد کو رسوا کرتا پھرے آہستہ آہستہ دونوں ایک دوسرے سے اس قدر دور ہوجائیں کہ بجائے بچوں کے لیے نمونہ بننے کے بچوں کے لیے ڈرائونا خواب بن جائیں گے۔ بچے انھیں اپنے کردار کے لیے نمونہ سمجھنے کی بجائے اجنبی خیال کرنے لگیں اور جب یہ بڑے ہوں تو ان کا رد عمل ان کی اجنبیت کو یاد کر کے گستاخی یا لاتعلقی کا حامل ہوجائے تو اندازہ فرمایئے کہ یہ گھر اپنی چھت اور دیواروں سمیت اور اپنی ساری آرائش کے باوصف گھر نہیں رہے گا، بلکہ جہنم کا نمونہ بن جائے گا۔ اس گھر میں رہنے والا ہر فرد ایک دوسرے سے شاکی ہوگا۔ نتیجتاً یہ دو نسلیں تباہی کے راستے پر چل نکلیں گی۔ اسی مثال سے باقی پوری انسانی زندگی کو سمجھا جاسکتا ہے۔ انسانی زندگی کے بیشمار ادارے ہیں جن میں سے ہر ادارہ حقوق و فرائض کی ادائیگی ہی سے باقی رہتا اور ترقی کرتا ہے۔ حقوق و فرائض کا شعور کسی بھی ادارے میں کام کرنے والوں سے اگر سلب کرلیا جائے یا وہاں کام کرنے والے سرے سے اس شعور سے محروم ہوں تو اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ وہ ادارہ کتنے دنوں چلے گا۔ گھر سے لے کر ایوان ہائے حکومت تک کے ناگفتہ بہ حالات اس زندہ حقیقت کے آئینہ دار ہیں کہ ہر جگہ بہتری اور استواری کا دارومدار بنیادی حقائق اور اصولوں کی پاسداری سے وابستہ ہے اور ان کی تباہی و بربادی انہی اصولوں سے ناواقفیت یا ان سے انحراف کا نتیجہ ہے۔ اس لیے وہ ذات بابرکات جو صرف خالق ومالک ہی نہیں رحمن و رحیم بھی ہے، اس کی صفت رحمت کا یہ تقاضا ٹھہرا کہ جہاں انسانوں کو ظاہری اور باطنی نعمتوں سے نوازا گیا ہے، وہاں اس کے استعمال اور اس کی حدود کا علم بھی دینا چاہیے ورنہ یہ اس صفت رحمت کی ناتمامی ہوگی۔ چناچہ اس نے انسان کو علم سے بہرہ ور کرنے کے لیے کتابیں اتاریں اور راہنمائی کے لیے رسول بھیجے۔ اور اس راہنمائی کو اور کتابوں کے نزول کو اس نے ہدایت و رحمت سے تعبیر کیا۔ فرمایا : وَاِنَّـہٗ لَھُدیً وَّرَحْمَۃٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ ۔ ’ ’ یہ قرآن ہدایت اور رحمت ہے مومنوں کے لیے “۔ (نمل 77) پھر اس کی تعلیم کو دنیا بھر کے خزانوں سے بہتر و برتر فرمایا ‘ ارشاد فرمایا : وَرَحْمَتُ رَبِّکَ خَیْرٌمِّمَّا یَجْمَعُوْنَ ” تیرے رب کی رحمت یعنی (قرآن) بہتر ہے، ان تمام خزانوں سے جن کو یہ لوگ جمع کرتے ہیں “۔ (زخرف 32) پھر قیامت تک جو ذات مکمل راہنما ‘ آئیڈیل اور منارہ نور بن کر آئی ہے اس کے بارے میں فرمایا : وَمَآ اَرْسَلْنٰـکَ اِلَّارَحْمَۃً لِّـلْعٰلَمِیْنَ (انبیا : 21۔ 107) ہم نے یہاں تک اللہ کی صفت ربوبیت اور اس کی صفت رحمت کو کسی حد تک جاننے کی کوشش کی ہے۔ ان دونوں کے مطالعہ سے علم و معرفت کا ایک اور دروازہ ہمارے سامنے واشگاف ہوتا ہے ” وہ یہ کہ ہم جب اللہ تعالیٰ کی ربوبیت کے فیضان کو دیکھتے ہیں کہ اس نے ہمارے لیے زمین کا فرش بچھایا ‘ آسمان کی چھت تانی ‘ پھر زمین سے ہمارے لیے مختلف قسم کی غذائیں پیدا فرمائیں ‘ زندگی کے امکانات ایک سے ایک بڑھ کر ہمیں عطا کیے۔ دل و دماغ کی راعنائیاں عطا فرمائیں، ہماری ظاہری اور باطنی روحانی اور مادی ہر طرح کی ضروریات کو مہیا فرمایا۔ ایسی ایسی نعمتیں عطا فرمائیں اور اس وسعت سے دسترخوان نعمت بچھایا کہ آدمی انھیں دیکھ کر یہ کہے بغیر نہیں رہ سکتا : دنیا تو اک بہشت ہے اللہ رے کرم کن نعمتوں کو حکم دیا ہے جواز کا اللہ کی رحمت خود روز جزاء پر دلیل ہے ربوبیت کے اس اہتمام کو دیکھتے ہوئے یقینا ذہن میں یہ خیال پیدا ہوتا ہے کہ وہ پروردگار عالم جس کا کوئی کام حکمت سے خالی نہیں، کیا اس نے اس کائنات میں انسان کو بغیر کسی مقصد کے پیدا کردیا ہے اور اس کائنات کی ایک ایک چیز اس کی خدمت میں دے کر یہ کہہ دیا ہے کہ جاؤ تم ان چیزوں سے کام لو تمہاری حیثیت ایک شتر بےمہار سے زیادہ نہیں۔ تم جدھر جی چاہے منہ اٹھائے چلتے پھرو۔ اپنی خواہشات کی تکمیل کے لیے جو چاہو کرو ‘ تمہارا پیدا کرنے والا تم سے کسی بات کی باز پرس نہیں کرے گا ؟ اندازہ فرمایئے کہ کیا یہ تصور کسی حکیم ذات کے بارے میں قرین عقل بھی ہے ؟ دنیا میں کوئی بھی شخص کوئی ایسا کام کرے جس کا کوئی مقصد نہ ہو تو ہر شخص اس کا مذاق اڑاتا ہے کہ اس نے اپنی محنتوں ‘ اپنی کاوشوں اور اپنی ذہانت کا یہ کیا مصرف سمجھا ہے کہ ایک بےفائدہ کام میں اپنا سب کچھ ضائع کردیا۔ بچے گھروندے بنا کر ڈھا دیتے ہیں ‘ تو ان کے بچپنے کی وجہ سے انھیں یہ سمجھ کر کچھ نہیں کہا جاتا کہ یہ بچے ابھی عقل اور شعور کی عمر کو نہیں پہنچے اس لیے یہ زندگی کو ایک کھیل سمجھتے ہیں۔ لیکن اگر بچوں کا باپ یہ حرکت کرے تو ہر دیکھنے والا اس کی دماغی صحت کے بارے میں شبہ میں پڑجائے گا۔ اللہ تعالیٰ کے بارے میں ظاہر ہے ایسی کسی بات کا تصور کرنا بھی خلاف ادب ہے۔ اس لیے کہ اس کی ربوبیت کا یہ اہتمام خود پکار پکار کر یہ شہادت دے رہا ہے کہ یہ اہتمام کسی اہم غایت و مقصد کے لیے ہے اور یہ ان لوگوں پر نہایت بھاری ذمہ داریاں عائد کرتا ہے جو بغیر کسی استحقاق کے اس سے فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ ایک دن ان ذمہ داریوں کے بارے میں ایک ایک شخص سے پرسش ہوگی کہ تمہیں ہم نے زندگی کی اور زندگی کی ساری نعمتیں عطا فرمائیں اور عناصر قدرت کو تمہارے ہم رکاب کیا۔ تم نے ایک حیوان کی طرح زندگی گزارنے کی آخر کوشش کیوں کی ؟ تم نے یہ بات کیوں نہ سمجھی کہ جس نے ہمیں جوہر عقل سے نوازا ہے یقینا اس نے ہمیں کچھ ذمہ داریاں بھی سونپی ہوں گی اور وہ ضرور ایک دن ایسا لائے گا جب وہ ہم سے اس کا حساب لے گا۔ اسی کی طرف توجہ دلاتے ہوئے قرآن کریم میں ایک جگہ ارشاد فرمایا گیا ہے اَفَحَسِبْتُمْ اَنَّمَا خَلَقْنٰـکُمْ عَبَثًا وَّاَنَّکُمْ اِلَیْنَالاَ تُرْجَعُوْنَ ۔ (مومنون : 23۔ 115) ” کیا تم نے یہ گمان کر رکھا ہے کہ ہم نے تمہیں عبث اور بےکار پیدا کیا ہے اور تم ہماری طرف لوٹائے نہیں جاؤ گے ؟ “ اور ایک دوسری جگہ اپنی نعمتوں ہی سے استدلال کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ تم آج جن نعمتوں سے متمتع ہو رہے ہو تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ ایک دن ان کا حساب بھی دینا ہوگا۔ اَلَمْ نَجْعَلِ الْاَرْضَ مٰھِدًا۔ لا وَّالْجِبَالَ اَوْتَادًا۔ لا وَّخَلَقْنٰـکُمْ اَزْوَاجًا۔ لا وَّجَعَلْنَا نَوْمَکُمْ سُبَاتًا۔ لا وَّجَعَلْنَا الَّیْلَ لِبَاسًا۔ لا وَّجَعَلْنَا النَّھَارَمَعَاشًا۔ ص وّبَنَیْنَا فَوْقَکُمْ سَبْعًا شِدَادًا۔ لا وَّجَعَلْنَا سِرَاجًا وَّھَّاجًا۔ لا وَّ اَنْزَلْنَا مِنَ الْمُعْصِرٰتِ مَآئً ثَجَّاجًا۔ لا لِّـنُخْرِجَ بِہٖ حَبًّاوَّنَبَاتًا۔ لا وَّجَنّٰتٍ اَلْفَافًا۔ ط اِنَّ یَوْمَ الْفَصْلِ کَانَ مِیْقَاتًا۔ لا (نبا 78 : 6ــ 17) (کیا ہم نے زمین کو تمہارے لیے گہوارہ نہیں بنایا اور اس میں پہاڑوں کی میخیں نہیں ٹھونکیں ؟ اور ہم نے تم کو جوڑا جوڑا پیدا کیا اور تمہاری نیند کو دافع کلفت بنایا۔ رات کو تمہارے لیے پردہ پوش بنایا اور دن کو حصول معاش کا وقت ٹھہرایا اور ہم نے تمہارے اوپر سات مضبوط آسمان بلند کیے اور روشن چراغ بنایا اور ہم نے بدلیوں سے دھڑا دھڑ پانی برسایا تاکہ اس سے ہم غلے اور نباتات اگائیں اور گھنے باغ پیدا کریں۔ بیشک فیصلہ کا دن مقرر ہے) ۔ یعنی اوپر جن چیزوں کا ذکر کیا گیا ہے یہ اس بات کی گواہی دے رہی ہیں کہ جس نے یہ سب کچھ اہتمام انسان کے لیے کیا ہے وہ انسانوں کو یونہی شتر بےمہار کی طرح نہیں چھوڑے رکھے گا بلکہ اس کی نیکی یا بدی کے فیصلے کے لیے فیصلہ کا ایک دن بھی لائے گا۔ اسی طرح جب ہم اس کی صفت رحمت کے مناظر کو دیکھتے اور اس کی صفت رحمت کے ظہور کی صورتوں کو جاننے کی کوشش کرتے ہیں تو اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ جس طرح اس کی رحمت کا ظہور کائنات کی ایک ایک چیز میں ہوا ہے۔ اسی طرح اس کی رحمت کا تعلق انسانی اعمال اور اس کے نتائج سے بھی ہے۔ دنیا میں دو طرح کے لوگ پائے جاتے ہیں۔ ایک وہ جو دنیا میں نیکی کے پیکر بن کر نیکی کو فروغ دیتے ہیں۔ نیکی کی کیسی بھی قیمت ادا کرنی پڑے وہ اس سے دریغ نہیں کرتے۔ اللہ کے دین کی سربلندی کے لیے قربانیاں دیتے اور لوگوں کی طرف سے مصائب کو برداشت کرتے ہیں اور دوسری طرف وہ لوگ ہیں جو خواہشات نفس کے بندے اور درہم و دینار کے پرستار ہیں۔ ان کی زندگی کا مقصد عیش و عشرت کے سوا کچھ نہیں۔ انھیں اگر اقتدار ملتا ہے تو کمزوروں پر ظلم کرتے ہیں اور اگر اقتدار نہیں ملتا تو اپنی محرومیوں کا انتقام جرائم کی صورت میں معاشرے سے لیتے ہیں۔ اس کے لیے انھیں انسانی زندگیوں سے بھی کھیلنا پڑے تو دریغ نہیں کرتے۔ ان دونوں طرح کے لوگوں کی حالت پر غور کیجئے۔ اگر پہلی طرح کے لوگ ایک اچھی ‘ پاکیزہ لیکن کٹھن زندگی گزار کر دنیا سے چلے جاتے ہیں اور انھیں دنیا میں سوائے محرومیوں کے اور کچھ نہیں ملا اور آخرت کا بھی ان کے یہاں کوئی تصور نہ ہو تو اندازہ فرمایئے کہ انھوں نے جن مقاصد کی خاطر اپنی زندگی کی راحتیں قربان کیں اور بعض دفعہ زندگی بھی نچھاور کر ڈالی انھیں اس کا کیا صلہ ملا اور دوسری طرف وہ لوگ جنھوں نے زندگی بھر ظلم توڑے اور عیش و عشرت کو مقصد زندگی بنائے رکھا انھیں کھلی چھٹی دے دی گئی اور ان سے کوئی باز پرس کا دن مقرر نہ کیا تو کیا یہ اللہ کی صفت رحمت کے خلاف نہیں ہوگا ؟ اس کی رحمت کا تقاضہ تو یہ ہے کہ اس کی خاطر جان دینے والوں کو ایک نہ ایک دن صلہ ملے اور اس سے انحراف کرنے والوں کو ایک نہ ایک دن انحراف کی سزا ملے اور اگر دونوں کو بغیر کسی باز پرس کے کھلی چھٹی دے دی جائے اور اسی طرح زندگی کا یہ کارخانہ ختم کردیا جائے اور جزا اور سزا اور انعام و انتقام کا کوئی دن کبھی نہ آئے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ معاذ اللہ اس دنیا کے پیدا کرنے والے کی نگاہوں میں متقی اور مجرم دونوں برابر ہیں بلکہ مجرم نسبتاً اچھے ہیں جن کو جرم کرنے اور فساد کرنے کے لیے اس نے بالکل آزاد چھوڑ رکھا ہے اور یہ چیز ظاہر ہے کہ اللہ کی صفت رحمت کے یکسر خلاف ہے اس لیے پروردگار نے فرمایا : اَفَنَجْعَلُ الْمُسْلِمِیْنَ کَالْمُجْرِمِیْنَ ۔ مَا لَکُمْ وقفۃ کَیْفَ تَحْکُمُوْنَ ۔ ” کیا ہم اطاعت کرنے والوں کو مجرموں کی طرح کردیں گے۔ تمہیں کیا ہوگیا ہے ‘ تم کیسا فیصلہ کرتے ہو ؟ “ (قلم 36) کَتَبَ عَلٰی نَفْسِہِ الرَّحْمَۃَ ط لَـیَجْمَعَنَّـکُمْ اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰـمَۃِ لاَ رَیْبَ فِیْہِ ” اس نے اپنے اوپر رحمت واجب کرلی ہے ‘ وہ قیامت تک جس کے آنے میں کوئی شبہ نہیں ہے ‘ تم کو ضرور جمع کر کے رہے گا۔ “ (انعام : 12) حاصل کلام یہ کہ اللہ کی صفت ربوبیت اور اس کی صفت رحمت کا یہ تقاضا ہے کہ ایک دن ایسا ضرور آئے جس میں ہر شخص سے اس کی گزری ہوئی زندگی کا حساب لیا جائے۔ حسن عمل کے سرمایہ داروں کو بیش از بیش صلہ ملے اور اللہ کے منکروں اور انسانیت کے دشمنوں کو ان کے کرتوتوں کی سزا ملے۔ کیونکہ جس طرح نیکی کرنے والوں کو ان کی نیکی کا صلہ ملنا رحمت کا تقاضہ ہے اسی طرح انسانیت کے دشمنوں کو ان کے کیے کی سزا ملنا بھی رحمت کا تقاضہ ہے۔ تاکہ وہ سزا کے خوف سے اپنی بداطواری سے باز آجائیں اور اپنا انجام بہتر کرلیں اور باقی نوع انسانی ان کے شرور سے محفوظ رہ سکے۔ اسی لیے اب اس کے بعد اللہ کی صفت عدالت کو ذکر کیا جا رہا ہے۔
Top