Ruh-ul-Quran - Al-Faatiha : 4
مٰلِكِ یَوْمِ الدِّیْنِؕ
مَالِكِ : مالک يَوْمِ : دن الدِّينِ : بدلہ
(جزا اور سزا کے دن کا مالک)
مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ (جزا اور سزا کے دن کا مالک) امام بیضاوی نے " مالک " کا معنی بیان کرتے ہوئے فرمایا المتصرف فی اعیان المملوکۃ کیف شاء ” وہ ذات جو اپنی مملوکہ چیزوں میں جس طرح چاہے تصرف کرنے کی قدرت رکھتی ہو “ یعنی اسے ایسا قبضہ حاصل ہو کہ اس کے تصرف کو نہ کوئی روک سکے اور نہ اسے ناجائز کہہ سکے اس آیت کریمہ میں پروردگار نے اپنے آپ کو جزا اور سزا کے دن کا مالک قرار دیا ہے۔ حالانکہ اس دنیا اور دنیا کی ہر چیز اور پھر آنے والی دنیا اور اس کی ہر چیز کا بھی اللہ ہی مالک ہے تو پھر بطور خاص اپنے آپ کو روز جزا کا مالک کہنے سے کیا مراد ہے ؟ بات یہ ہے کہ یوں تو پروردگار کائنات کے ذرے ذرے کا مالک ہے ہر چیز کو اسی کے حکم سے وجود ملا ہے ‘ اسی کی عنایت سے اس کی زندگی وابستہ ہے اور ہر چیز کی بقاء اللہ ہی کے رحم و کرم پر ہے۔ لیکن یہ اس کی حکمت ہے کہ اس نے مخلوقات کو کسی نہ کسی حد تک ملکیت کا حق دے رکھا ہے۔ جنگل کے جانور طاقت کے بل بوتے پر جس بھٹ ‘ بل یا آشیانے پر قبضہ کرلیں وہ اس کو اپنی ملک سمجھتے ہیں۔ اسی طرح انسان بھی بعض حوالوں سے بہت ساری چیزوں کو اپنی ملکیت خیال کرتا ہے اور شریعت نے بھی ہر جائز ملکیت کے حقوق تسلیم کیے ہیں۔ لیکن ایک تو یہ ملکیت چند روزہ ہے، زندگی کے خاتمے کے ساتھ ختم ہوجائے گی اور دوسری یہ بات کہ یہ ایک ناقص ملکیت ہے اگر کامل ملکیت ہوتی تو قیامت کے دن اس کے بارے میں جواب دہی نہ کرنا پڑتی۔ پروردگار نے اس ناقص ملکیت کا بھی لحاظ فرمایا اس لیے انسانی زندگی اور اس کے زیر تصرف چیزوں پر کامل ملکیت رکھنے کے باوجود بھی ملکیت کا ذکر نہیں فرمایا۔ بلکہ اپنے آپ کو یوم الدین کا مالک کہا جس سے اشارہ اس جانب ہے کہ وہ دن ایسا ہوگا جس دن اللہ کی صفت عدالت پوری طرح ظہور میں آچکی ہوگی اور وہ ہر شخص کو عدالت کے کٹھرے میں بلا کر جواب طلبی کرے گا۔ اس دن ناقص ملکیت رکھنے والے جو اپنی محدود ملکیتوں پر ناز کرتے تھے وہ اس کے سامنے دست بستہ کھڑے ہوں گے اور وہ بڑے بڑے حکمران جنھیں ان کے اقتدار نے فریب میں مبتلا کر رکھا تھا، اس کے سامنے سرجھکائے سہمے ہوئے ایستادہ ہوں گے۔ پھر وہ اس دن اعلان فرمائے گا کہ باوجود اس کے کہ دنیا میں بھی اصل ملکیت اور حکومت میری تھی اور میں فی الحقیقت مالک ہوتے ہوئے ہر چیز کا حکمران تھا۔ لیکن تم نے اپنی ناقص حکمرانی سے دھوکہ کھا کر میری حکمرانی کو نظر انداز کیا۔ آج بتائو وہ تمہاری حکمرانیاں کہاں گئیں اور آنکھیں کھول کے دیکھو کہ آج کس کی حکومت ہے کہ اس کے مقرب بندے بھی سر جھکائے کھڑے ہیں اور اس کے انبیا و رسل بھی زبان کھولنے کی ہمت نہیں کر پا رہے۔ اسی کے بارے میں قرآن کریم میں ارشاد فرمایا گیا : یَوْمَ ھُمْ بَارِزُوْنَ 5 ج لاَ یَخْفٰی عَلَی اللہِ مِنْھُمْ شَیْئٌ ط لِمَنِ الْمُلْکَ الْیَوْمِ ط لِلّٰہِ الْوَاحِدِالقَھَّار۔ اَلْیَوْم تُجْزیٰ کُلُّ نَفْسٍ م بِمَا کَسَبَتْ ط لاَ ظُلْمَ الْیَوْمَ ط اِنَّ اللہ َ سَرِیْعُ الْحِسَابِ ۔ ” جس دن سب لوگ (خدا کے) سامنے آموجود ہوں گے (کہ) ان کی کوئی بات خدا سے (صورۃً ) بھی مخفی نہ رہے گی ‘ آج کے روز کس کی حکومت ہوگی ؟ بس اللہ ہی کی ہوگی ‘ جو یکتا اور غالب ہے۔ آج ہر شخص کو اسکے کیے کا بدلہ دیا جائے گا ‘ آج کسی پر ظلم نہ ہوگا ‘ اللہ تعالیٰ بہت جلد حساب لینے والے ہیں۔ “ (المومن آیت 40 : 16۔ 7) اس آیت کریمہ کا دوسرا لفظ ہے یوم الدین ” جزا و سزا کا دن “۔ اس لفظ پر غور کرتے ہوئے سب سے پہلی بات جو ذہن میں آتی ہے۔ وہ یہ ہے کہ جزا اور سزا کا دن وہ ہوگا۔ جب اس دنیا کی بساط لپیٹ دی جائے گی اور ہم سب اللہ کی بارگاہ میں جواب دہی کے لیے کھڑے ہوں گے اور جہاں تک اس دنیا کا تعلق ہے، جس میں اب ہم رہ رہے ہیں، یہ جزا و سزا کا دن نہیں، یہ دار العمل ہے۔ یہاں ہمیں مہلت ِعمل میسر ہے تاکہ ہم آنے والے دن کی تیاری کرسکیں۔ یہاں جو کچھ ہم کریں گے اس کا صلہ آنے والے دن میں پائیں گے نیکی کریں گے۔ تو اس کا صلہ اچھا ملے گا اور برائی کریں گے تو اس کے نتیجے میں برائی ملے گی۔ اس لیے اس دنیا میں ہر زندہ شخص کو یہ سوچ کر زندگی گزارنی ہے کہ یہاں میں صرف اعمال کا مکلف ہوں اللہ نے مجھ پر جو ذمہ داریاں عائد کی ہیں مجھے اپنی زندگی میں انھیں ادا کرنا ہے۔ وہ چاہے انفرادی ذمہ داریاں ہوں چاہے اجتماعی ذمہ داریاں۔ ان کی ادائیگی مجھ پر واجب ہے اور اسی حوالے سے کل کو مجھے جزا اور سزا ملے گی۔ آج کسی عمل کے بارے میں بھی مجھے یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ اسی دنیا میں مجھے اس کی جزا بھی ملے گی۔ اس بات کو سمجھ لینے سے آدمی ایک بڑی غلط فہمی سے بچ جاتا ہے۔ عموماً دیکھا گیا ہے کہ اگر کوئی نیکی کرنے والا شخص کسی مصیبت میں گرفتار ہوتا ہے تو وہ خود بھی اور اسے جاننے والے بھی اس غلط فہمی میں مبتلا ہونے لگتے ہیں کہ نیکی کا صلہ تو اللہ بہتر اجر کی صورت میں دیتا ہے، یہ نیک شخص آخر اس مصیبت میں مبتلا کیوں ہے۔ اس سوچ کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ یا تو اس نیک شخص کے بارے میں بدگمانی پیدا ہونے لگتی ہے اور یا اللہ کے بارے میں آدمی بدگمان ہوجاتا ہے کہ مذہب غلط کہتا ہے کہ نیکی کا صلہ اجر وثواب کی صورت میں ملتا ہے اور دنیا میں ایک اچھی زندگی عطا ہوتی ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو نیک لوگ مصیبتوں میں مبتلا کیوں ہوتے۔ اسی طرح اگر کوئی برا آدمی دولت میں کھیلتا ہے اور آئے دن اس کے کاروبار میں ترقی ہوتی ہے یا اس کا عہدہ و منصب بڑھتا ہے تو تب بھی لوگ اس غلط فہمی میں مبتلا ہونے لگتے ہیں کہ اگر برائی کا نتیجہ برا ہوتا تو اس شخص کو یہ آسانیاں اور سہولتیں تو میسر نہیں آنی چاہئیں تھیں۔ اس لیے یہاں فرمایا گیا ہے کہ تم جس دنیا میں زندگی گزار رہے ہو یہ دار الجزاء نہیں، دارالعمل ہے۔ تمہارا کام یہاں اچھے سے اچھا عمل کرنا ہے۔ اس کی جزا تمہیں قیامت میں ملے گی۔ اس لیے اگر آج نیکی کی جزا نہیں مل رہی تو مایوسی کی کوئی وجہ نہیں اور اگر کسی کو گناہ یا ظلم کی سزا نہیں مل رہی تو اس میں بھی ظالم کی خوشی کا کوئی موقع نہیں۔ البتہ ایک بات اور سمجھ لینی چاہیے کہ بعض دفعہ یہاں کبھی نہ کبھی نیکی کا صلہ مل بھی جاتا ہے اور کبھی کسی مجرم کو دنیا ہی میں سزا سے بھی دوچار ہونا پڑتا ہے۔ اس کے بارے میں قرآن کریم ہمیں بتاتا ہے کہ دنیا میں کسی نیکی کا صلہ در حقیقت جزا نہیں۔ بلکہ نیکی کرنے والے کی حوصلہ افزائی ہے۔ اس کا تعلق قانون جزا سے نہیں بلکہ اللہ کے فضل و رحمت سے ہے۔ اسی طرح کسی بدعملی کی سزا کا ملنا وہ بھی حقیقت میں جزا اور سزا کے قانون کا ظہور نہیں، بلکہ محض متنبہ کرنے کے لیے ہوتا ہے جو اصل سزا اور عذاب ہوگا۔ وہ تو قیامت کے دن ہی ہوگا قرآن کریم نے اس کے بارے میں ہمیں بتایا ہے : وَلَنُذِیْقَنَّھُمْ مِّنَ الْعَذَابِ الْاَدْنٰی دُوْنَ الْعَذَابِ الْاَکْبَرِ لَعَلَّھُمْ یَرْجِعُوْنَ ۔ ” یعنی ہم لوگوں کو (آخرت کے) بڑے عذاب سے پہلے (بعض اوقات) دنیا میں ایک عذاب چھوٹے عذاب قریب کا مزہ چکھا دیتے ہیں تاکہ وہ باز آجائیں “۔ (سجدہ 32 : 21) کَذٰلِکَ الْعَذَابُ ط وَلَعَذَابُ الْاٰخِرَۃِ اَکْبَرُ م لَوْکَانُوْا یَعْلَمُوْنَ ۔ ع ” ایسا ہوتا ہے عذاب اور آخرت کا عذاب بہت بڑا ہے ‘ کاش وہ سمجھیں “۔ (قلم 28 : 33) الغرض دنیا کی راحت و مصیبت بعض اوقات تو امتحان اور آزمائش ہوتی ہے اور کبھی عذاب بھی ہوتی ہے۔ مگر وہ عمل کا پورا بدلہ نہیں ہوتا، بلکہ ایک نمونہ ہوتا ہے۔ کیونکہ یہ سب کچھ چند روزہ اور محض عارضی ہے۔ اصل بدلہ وہ راحت و کلفت ہے جو ہمیشہ قائم رہنے والی ہے اور جو اس عالم سے گزرنے کے بعد عالم آخرت میں آنے والی ہے۔ اسی کا نام روز جزاء ہے اور جب یہ معلوم ہوگیا کہ نیک و بد عمل کا بدلہ یا پورا بدلہ اس دنیا میں نہیں ملتا اور عدل و انصاف اور عقل کا تقاضا ہے کہ نیک و بد اچھا اور برا برابر نہ رہے بلکہ ہر عمل کی مکمل جزا یا سزا ملنی چاہیے۔ اس لیے ضروری ہے کہ اس عالم کے بعد کوئی دوسرا عالم، ہو جس میں ہر چھوٹے بڑے اور اچھے برے عمل کا حساب اور اس کی جزا یا سزا، انصاف کے مطابق ملے۔ اسی کو قرآن کی اصطلاح میں روز جزا یا قیامت یا آخرت کہا جاتا ہے۔ قرآن نے خود اس مضمون کو سورة مومن میں وضاحت سے بیان فرمایا ہے۔ وَمَا یَسْتَوِی الْاَعْمٰی وَالْبَصِیْرُ 5 لا وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَلَا الْمُسِیْٓئُ ط قَلِیْلًا مَّا تَذَکَّرُوْنَ ۔ اِنَّ السَّاعَۃَ لَاٰ تِیَۃٌ لاَرَیْبَ فِیْھَا وَلٰکِنَّ اَکْثَرَالنَّاسِ لاَ یُؤْمِنُوْنَ ۔ ” یعنی بینا اور نابینا اور (ایک) وہ لوگ جو ایمان لائے اور انھوں نے اچھے کام کیے اور (دوسرے) بدکردار باہم برابر نہیں ہوسکتے ‘ تم لوگ بہت ہی کم سمجھتے ہو ‘ قیامت تو ضرور ہی آکر رہے گی (تاکہ ہر ایک عمل کا پورا بدلہ ہر عمل کرنے والے کو مل جائے) ‘ اس کے آنے میں کسی طرح کا شک ہے ہی نہیں ‘ مگر اکثر لوگ نہیں جانتے “۔ (المؤمن 40 : 58۔ 59) سورة فاتحہ میں آخرت یا قیامت کو یوم الدین کے نام سے ذکر فرمایا گیا ہے۔ اس میں نزول قرآن کے وقت لوگوں کی ایک عام غلط فہمی کا ازالہ کرنا مقصود تھا۔ جس کا ذکر میں آگے چل کر کروں گا۔ سب سے پہلے آخرت کا تعارف کرانا چاہتا ہوں۔ آخرت کا تعارف اسلامی عقائد کی آخری کڑی آخرت پر ایمان لانا ہے۔ قرآن پاک میں ایمان باللہ کے بعد اس کی اہمیت پر سب سے زیادہ زور دیا گیا ہے۔ کیونکہ موجودہ دنیا کے تمام اعمال اور ان کے نتائج کی اصلی اور دائمی بنیاد اسی آئندہ دنیا کے گھر کی بنیاد پر قائم ہے۔ اگر یہ بنیاد متزلزل ہوجائے تو اعمال انسانی کے نتائج کا ریشہ ریشہ بیخ و بن سے اکھڑ جائے۔ قرآن کریم نے اسے الیوم الآخر یا آخرت کے نام سے تعبیر کیا ہے۔ مراد اس سے آخرت کا گھر یا آخرت کی زندگی ہے۔ عربی میں طریقہ یہ ہے کہ اوصاف کو موصوف کا قائم مقام کر کے اکثر موصوف کو حذف کردیتے ہیں۔ اس طریقے کے مطابق قرآن کریم نے ” ا لآخرت “ کا لفظ استعمال کیا ہے جو ” الحیاۃ “ یا ” الدار “ کی صفت ہے۔ مراد اس سے آخرت کا گھر یا آخرت کی زندگی ہے۔ قرآن پاک میں تقریباً 113 مقامات پر یہ لفظ انہی معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ الآخر یا آخرت کا معنی ہے پچھلی زندگی یا پچھلا گھر یا پچھلی دنیا۔ اس پچھلی دنیا سے مراد موت کے بعد کی دنیا ہے، جسے قرآن کریم نے دو دوروں میں تقسیم کیا ہے۔ پہلے دور سے مرادموت سے لے کر قیامت تک کا دور ہے اور دوسرے دور سے مراد قیامت سے لے کر ابد تک کا دور۔ جس میں پھر موت اور فنا نہیں۔ پہلے دورکا نام برزخ ہے اور دوسرے دور کا نام بعث بعد الموت یا حشر و نشر اور قیامت ہے اور ان کے معنی جی اٹھنے ‘ اکٹھے کیے جانے اور کھڑے ہونے کے ہیں۔ ان سب سے مقصود ایک ہی حقیقت کی طرف اشارہ ہے اور وہ موجودہ دنیا کے خاتمے کے بعد دوسری دنیا کی زندگی ہے۔ جسے قرآن کریم میں الدار الآخرہ اور عقبی الدار وغیرہ کے ناموں سے یاد کیا گیا ہے۔ قرآن و سنت میں آخرت کی جو تفصیلات آئی ہیں، ان پر اگر ہم غور کریں تو چند چیزیں ہمارے سامنے واضح ہوتی ہیں جن میں سب سے پہلی چیز موت کا تصور اور حقیقت ہے۔ موت اس احساس کو دلوں میں مستحضر کرنا مقصود معلوم ہوتا ہے کہ جو زندگی انسان گزار رہا ہے، یہ زندگی ہمیشہ قائم نہیں رہے گی۔ اگرچہ علم کی حد تک ہر آدمی جانتا ہے کہ موت سے بہرحال ہمکنار ہونا ہے۔ کیونکہ ہر آدمی کے سامنے جنازے اٹھتے ہیں، موت وحیات کا سلسلہ جاری وساری رہتا ہے۔ بایں ہمہ انسان کو اپنی موت کا خیال اور یقین بہت کم پیدا ہوتا ہے۔ آدمی زندگی کی ہما ہمی میں اس طرح مستغرق رہتا ہے کہ اسے بھول کر بھی یہ خیال نہیں آتا کہ ایک دن زندگی کے ان ہنگاموں کا خاتمہ بھی ہونے والا ہے۔ اس لیے آخرت کے تصور سے اسلام اپنے ماننے والوں میں یہ تصور راسخ کرنا چاہتا ہے کہ تم زندگی اور موت کے فاصلے کو زیادہ نہ جانو۔ زندگی کی حیثیت ایک حباب کی سی ہے جو ہوا کے ایک جھونکے سے کسی وقت بھی ٹوٹ سکتا ہے۔ اس لیے زندگی سے فائدہ ضرور اٹھائو، مگر آنے والے وقت کو ہر وقت یاد رکھو۔ حضرت عبد اللہ ابن مسعود فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ حضور ﷺ رفع حاجت کے لیے نکلے۔ میں پانی کا برتن لے کر ہمراہ ہوگیا۔ حضور ﷺ آبادی سے نکل کر کھجوروں کے جھنڈ میں داخل ہوئے۔ رفع حاجت سے فارغ ہو کر باہر نکلتے ہی زمین پر بیٹھ کر آپ نے تیمم فرمایا پھر مجھ سے پانی طلب کیا اور پانی استعمال فرمایا۔ میں نے بصد ادب عرض کی حضور ﷺ میں آپ سے بہت قریب تھا اور پانی میرے پاس آپ کے استعمال کے لیے حاضر تھا۔ پھر آپ نے تیمم کیوں فرمایا ؟ آپ نے ارشاد فرمایا : ” عبد اللہ ! کیا مجھے اس بات کا یقین ہوسکتا تھا کہ میں پانی تک پہنچنے سے پہلے یا پانی مجھ تک پہنچنے سے پہلے اللہ کو پیارا نہ ہوجاؤں گا “۔ اس سے تصور یہ دینا مقصود تھا کہ موت کو ہر وقت اپنے قریب جانو۔ اس لیے آخرت کے تصور میں پہلا تو یہ تصور ہے جو دلوں میں اتارنا مقصود ہے اور ساتھ ہی یہ بات بھی کہ موت اصلاً زندگی کی فنا کا نام نہیں بلکہ تمہیں جن ذمہ داریوں کی ادائیگی کے لیے دنیا میں بھیجا گیا تھا اور تمہیں اس زندگی کی صورت میں ایک مہلت عمل دی گئی تھی۔ موت اصلاً اس کے خاتمے کا نام ہے۔ یعنی یہ اس طرح کی فنا نہیں ہے۔ جیسی فنا دوسری غیر مکلف مخلوقات پر طاری ہوتی ہے۔ جس طرح ایک حباب ٹوٹتا ہے ‘ پھول مرجھا کے ٹہنی سے گر جاتا ہے ‘ پتے خزاں میں جھڑنے لگتے ہیں یا کوئی حیوان اپنی طبعی عمر کو پہنچ کر سفر حیات ختم کردیتا ہے۔ کیونکہ ایک پھول کو چند روزہ بہار کے لیے پیدا کیا گیا تھا، سو وہ پوری ہوگئی۔ پتوں کو چند دنوں تک سایہ دینا تھا، وہ دے چکے۔ ہر حیوان کو اپنی جبلی ذمہ داریاں پورا کرنا تھیں، وہ کرچکا۔ اب اس کے لیے فنا کے سوا اور کچھ نہیں۔ مگر انسانی موت فنا نہیں بلکہ اپنی ذمہ داریوں سے واپسی سے عبارت ہے کہ اسے ایک خاص مقصد حیات اور ذمہ داریاں دے کر دنیا میں بھیجا گیا تھا۔ اب اسے اس سے واپس بلایا جا رہا ہے۔ اس لیے قرآن کریم نے اس واپسی کو اللہ کی طرف روح کی بازگشت قرار دیا ہے۔ سورة جمعہ میں ارشاد فرمایا : قُلْ اِنَّ الْمَوْتَ الَّذِیْ تَفِرُّوْنَ مِنْہ فَاِنَّہٗ مُلٰـقِیْکُمْ ثُمَّ تُرَدُّوْنَ اِلٰی عٰلِمِ الْغَیْبِ وَالشَّھَادَۃِ فَیُنَبِّئُکُمْ بِمَا کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ ۔ (جمعہ 62۔ 8) ” کہہ دیجئے بیشک وہ موت جس سے تم بھاگتے ہو، اس سے ملنا ہی ہے۔ پھر تم اس خدا کے پاس لوٹائے جاؤ گے جو حاضر و غائب کو جاننے والا ہے اور وہ تم کو تمہارے کرتوت بتائے گا۔ “ ہم سورة البقرہ کی اس آیت کو اکثر اپنی زبانوں سے دھراتے رہتے ہیں اِنَّالِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ ” ہم سب خدا کے ہیں اور اسی کی طرف لوٹ کر جائیں گے “۔ اس میں بھی اسی حقیقت کا اعادہ کیا گیا ہے۔ سورة مائدہ میں ارشاد فرمایا : اِلَی اللّٰہِ مَرْ جِعُکُمْ جَمِیْعاً ( المائدہ 5۔ 48) ” تم سب کو خدا ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے “ اور پھر یہ اللہ کی طرف لوٹنا ہر صورت میں ہوگا چاہے آدمی اس کی خواہش رکھتا ہو یا اس سے نفرت کرتا ہو۔ یہ ایک اٹل سنت اللہ ہے جس سے کبھی مفر نہیں۔ سورة القیامہ کی ایک آیت میں اس کے بارے میں خوب نقشہ کھینچا گیا ہے۔ ارشاد فرمایا : کَلَّآاِذَا بِلَغَتِ التَّرَاقِیَ ۔ لا وَقِیْلَ مَنْ سکۃ رَاقٍ ۔ لا وَطَنَّ اَنَّہُ الْفِرَاقُ ۔ لا وَالْتَفَّتِ السَّاقُ اِلٰی رَبِّکَ یَوْمَئِذِنِ الْمَسَاقُ ۔ ع (75 : 29۔ 30) ” ہرگز نہیں جب روح ہنسلی تک آپہنچے اور لوگ کہیں اب کون ہے جھاڑ پھونک کر بچانے والا اور سمجھو کہ اب جدائی کا وقت آگیا اور پنڈلی پنڈلی سے لپٹ گئی ‘ اس دن تمہیں پروردگار کی طرف ہانکا جانا ہے “۔ البتہ فرق یہ ہے کہ وہ بدنصیب جنھوں نے کفر اور شرک کی زندگی گزاری اور ان کو کبھی اس بات کا خیال نہیں آیا کہ اللہ کی طرف لوٹ کر بھی جانا ہے ان کی واپسی تو اسی طرح ہوگی جیسے کسی جانور کو ہانک کرلے جایا جاتا ہے جس طرح سورة انعام میں ارشاد فرمایا : وَلَوْ تَرٰٓی اِذِاالظّٰلِمُوْنَ فِیْ غَمَرٰتِ الْمَوْتِ وَالْمَلٰٓئِکَۃُ بَاسِطُوْٓا اَیْدِیْھِمْ ج اَخْرِجُوْ اَنْفُسَکُمْ ط اَلْیَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْھُوْنِ بِمَا کُنْتُمْ تَقُوْلُوْنَ عَلیَ اللہِ غَیْرَالْحَقِّ وَکُنْتُمْ عَنْ اٰیٰـتِہٖ تَسْتَکْبِرُوْنَ ۔ وَلَقَدْجِئْتُمُوْنَا فُرَادٰی کَمَا خَلَقْنٰـکُمْ اَوَّلَ مَرَّۃٍ وَّ تَرَکْتُُمْ مَّا خَوَّلْنٰـکُمْ وَرَآئَ ظُہُوْرِکُمْ ج (6 : 93۔ 94) ” اور اگر تم دیکھو جس وقت گنہگار موت کی بےہوشی میں ہونگے اور فرشتے ہاتھ کھولے کہہ رہے ہوں گے کہ نکالو اپنے جسموں کے اندر سے اپنی روحوں کو آج تم کو اس پر ذلت کی سزا ملے گی کہ تم خدا کی شان میں جھوٹی باتیں کہتے تھے اور اس کے حکموں کو ماننے سے غرور کرتے تھے اور تم ایک ایک کر کے تنہا جیسے ہم نے پہلی بار تم کو پیدا کیا تھا، ہمارے پاس آئے ہو اور جو سامان و اسباب تم کو دیا تھا، جس نے تم کو مغرور بنایا تھا اس کو پیچھے چھوڑ آئے ہو “ (الانعام۔ 93، 94) لیکن جو سعید اور نیکو کار روحیں اپنے آنے والے انجام کو یاد رکھتی ہیں، بلکہ اللہ سے ملاقات کی متمنی رہتی ہیں انھیں آخری وقت یہ صدا سنائی دیتی ہے۔ یٰٓاَیَّتُھَا النَّفْسُ الْمُطْمَئِنَّۃَُ ۔ ق ارْجِعِیْٓ اِلٰی رَبِّکِ رَاضِیَۃً مَّرْضِیَّۃً ۔ ج ” اے مطمئن روح تو اپنے مالک سے خوش اور تیرا مالک تجھ سے خوش تو اپنے مالک کے پاس واپس چلی جا “ (الفجر 89 : 27۔ 28) برزخ اسی طرح مومن اور کافر دونوں اپنی مہلت عمل کے خاتمے پر اپنے اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہوجاتے ہیں اور پھر انھیں ایک ایسی جگہ رکھا جاتا ہے، جسے ہم برزخ کہتے ہیں اور اسی کو احادیث مبارکہ میں اور تمام سامی قوموں کے محاورے میں قبر کا نام دیا گیا ہے۔ لیکن اس قبر سے مقصود وہ خاک کا تودہ نہیں جس کے نیچے کسی مردہ کی ہڈیاں پڑی رہتی ہیں، بلکہ وہ دنیا ہے جس میں مرنے والوں کی روحوں کو قیامت تک رکھا جائے گا۔ کوئی مرنے والا چاہے خاک میں دفن ہو یا قعر دریا میں ڈوب جائے یا کسی درند یا پرند کے پیٹ میں اس کے جسم کو جگہ ملے، یہی اس کی قبر ہے اور یہی وہ دنیا ہے جسے برزخ کے نام سے یاد کیا گیا ہے اور اسی برزخ یعنی قبر سے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن تمام مرنے والوں کو اٹھائے گا۔ ارشاد خداوندی ہے : وَاَنَّ اللّٰہَ یَبْعَثُ مَنْ فِی الْقُبُوْرِ ۔ (22 : 7) ” بیشک اللہ ان کو جو قبروں میں ہیں اٹھائے گا “ (الحج۔ 7) ۔ ظاہر ہے کہ یہ اٹھایا جانا صرف انہی مردوں کے لیے مخصوص نہیں جو تودہ خاک کے اندر دفن ہیں، بلکہ ہر میت کے لیے ہے۔ خواہ وہ کیسی حالت اور کیسے عالم میں ہو۔ اب سوال یہ ہے کہ اس برزخ کا مفہوم کیا ہے ؟ برزخ کا لفظ قرآن کریم میں تین جگہ استعمال ہوا ہے۔ (1) سورة الرحمن (2) سورة الفرقان (3) سورة المومنون میں۔ ہر جگہ اس سے دو چیزوں کے درمیان پردہ حاجب اور حائل مراد ہے مثلاً سورة الفرقان آیت 53 میں فرمایا : وَھُوَالَّذِیْ مَرَجَ الْبَحْرَیْنِ ھٰذَا عَذْبٌ فُرَاتٌ وَّھٰذَا مِلحٌ اُجَاجٌ وَجَعَلَ بَیْنَھُمَا بَرْزَخًا وَّحِجْرًا مَّحْجُوْرًا (الفرقان : 25۔ 53) ” اور اسی نے دو دریائوں کو ملا کر چلایا یہ میٹھا اور پیاس بجھاتا ہے اور وہ کھاری کڑوا ہے اور ان کے بیچ میں ایک پردہ اور روکی ہوئی اوٹ بھی بنائی ہے۔ “ تو اس برزخ سے مراد موجود زندگی اور آئندہ زندگی کے درمیان جو حائل اور رکاوٹ ہے، اسی کو برزخ کہا گیا ہے۔ یعنی جب آدمی مرجاتا ہے تو اس کی زندگی ختم ہوجاتی ہے۔ اب دوبارہ وہ زندہ اس وقت ہوگا جب قیامت برپا ہوگی۔ ان دونوں زندگیوں کے درمیان ایک مدت حائل ہے، جو انسان پر ایک خاص قسم کی موت کا دور ہے۔ اس کا نام برزخ ہے۔ یہاں یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ قیامت کے آنے تک یہ برزخی دور باقی رہے گا۔ لیکن یہ زندگی کا دور نہیں بلکہ یہ موت کا زمانہ ہے۔ کیونکہ قرآن کریم نے دو مدتوں اور دو زندگیوں کا ہمیں تصور دیا ہے۔ سورة بقرہ میں ارشاد فرمایا کَیْفَ تَکْفُرُوْنَ بِ اللہ ِ وَکُنْتُمْ اَمْوَاتاً فَاَحْیَا کُمْ ج ثُمَّ یُمِْیتُکُمْ ثُمَّ یُحْیِیْکُمْ ثُمَّ اِلَیْہِ تُرْجَعُوْنََ ۔ (البقرہ : 2۔ 28) ” کیسے تم اللہ کا انکار کرتے ہو ؟ حالانکہ تم پہلے مردہ تھے تو پھر اس نے تم کو زندہ کیا۔ (یعنی انسان بنا کر پیدا کیا) ‘ پھر تم کو مار دے گا ‘ پھر تم کو زندہ کرے گا ‘ پھر اس کی طرف لوٹائے جاؤ گے “ (البقرہ۔ 28) ۔ پہلی موت تو ہر انسان کی پیدائش سے پہلے کا وقت ہے۔ جب وہ مادہ یا عنصر کی شکل میں تھا۔ پھر زندہ ہو کر اس دنیا میں پیدا ہوا۔ یہ اس کی پہلی زندگی ہے۔ پھر موت آئی روح نے مفارقت کی اور جسم اپنی اگلی مادی صورت میں منتقل ہوگیا۔ یہ اس کی دوسری موت ہے اور اسی کو برزخی زندگی کہا گیا ہے۔ پھر اللہ خود اس کی روح کو جسم سے ملا کر زندہ کرے گا۔ یہ اس کی دوسری زندگی ہے، جس کے بعد پھر کبھی اسے موت نہیں آئے گی۔ اب رہی یہ بات کہ یہ دور قیامت تک چلے گا اس کا ثبوت بھی ہمیں قرآن کریم سے ملتا ہے۔ ارشاد خداوندی ہے : وَمِنْ وَّرَآئَہِمْ بَرْ زَخٌ اِلٰی یَوْمَ یُبْعَثُوْنَ ۔ (المومنون : 22۔ 100) ” اور ان کے پیچھے برزخ ہے، اس دن تک جب وہ اٹھائے جائیں گے۔ “ یعنی قیامت تک۔ تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ انسان کی تین منزلیں ہیں۔ دنیا ‘ برزخ اور قیامت۔ ان تینوں میں جو فرق ہے اسے یوں بیان کیا جاسکتا ہے کہ موجودہ دنیا میں جسم یعنی مادہ نمایاں اور روح پوشیدہ ہے اور روح کو جو کچھ مسرت و تکلیف یہاں پہنچتی ہے، وہ صرف اس مادی جسم کے وجود سے پہنچتی ہے، ورنہ درحقیقت اس کی براہ راست لذت و راحت کا اس مادی دنیا میں کوئی امکان نہیں۔ دوسرے عالم میں جس کو برزخ کہا گیا ہے۔ روح نمایاں ہوگی اور جسم چھپ جائے گا۔ وہاں جو راحت و تکلیف پہنچے گی وہ دراصل روح کو پہنچے گی اور جسم اس کی تبعیت میں ضمناً اس سے متاثر ہوگا۔ لیکن تیسرے عالم یعنی قیامت میں جہاں سے حقیقی اور غیر فانی زندگی شروع ہوتی ہے روح اور جسم دونوں نمایاں ہوں گے اور دونوں کی لذت و راحت کے مظاہر بالکل الگ ہوں گے۔ عالمِ برزخ میں سوال و جواب کی کیفیت یہ بات تو واضح ہوگئی کہ برزخی دنیا زندگی کا دور نہیں، بلکہ موت کا دور ہے۔ لیکن ہمیں اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اس میں مرنے والے کو سوال و جواب کے ایک مختصر مرحلے سے بھی گزرنا ہوگا اور اسے کسی نہ کسی حد تک عذاب وثواب سے واسطہ بھی پڑے گا (جسکی تفصیل ہم آگے ذکر کریں گے) ۔ اب سوال یہ ہے کہ اگر یہ دور زندگی کا نہیں بلکہ موت کا دور ہے تو پھر اس میں سوال و جواب اور عذاب وثواب کا تحقق کیسے ہوگا ؟ اسے سمجھنے کے لیے ضروری ہے کہ موت کی حقیقت کو سمجھ لیا جائے۔ اسی موت کے واسطے سے مرنے والا برزخ کی وادی میں داخل ہوتا ہے۔ اس لیے برزخی زندگی کی وہی حقیقت ہوگی، جو اس موت کی حقیقت ہے۔ چناچہ ہم دیکھتے ہیں کہ قران پاک میں موت کو نیند سے تشبیہ دی گئی ہے۔ سورة زمر میں ارشاد فرمایا گیا۔ اِللّٰہُ یَتَوَفیَّ الْاَنْفُسَ حِیْنَ مَوْتِھَا وَالَّتِیْ لَمْ تَمُتْ فِیْ مَنَامِھَا فَیُمْسِکُ الَّتِیْ قَضٰی عَلَیْھَا الْمَوْتَ وَیُرْسِیْلُ الْاُخْرٰٓی اِلٰٓی اَجَلِ مُّسَمّیً ط اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمِ یَّتَفَکَّرُوْنََ ۔ (39۔ 42) ” وہ اللہ ہی ہے جو روحوں کو ان کی موت کے وقت وفات دیتا ہے اور جو نہیں مری ہیں ان کو نیند میں ہی وفات دے دیتا ہے۔ تو جس پر موت کا حکم اس نے جاری کیا اس کو روک لیتا ہے اور دوسری روح کو جس پر موت کا حکم نہیں یعنی نیند والی کو ایک مدت معینہ کے لیے چھوڑ دیتا ہے۔ بیشک اس میں سوچنے والوں کے لیے نشانیاں ہیں، اس آیت کریمہ میں موت کو نیند سے تشبیہ دی گئی ہے۔ بلکہ دونوں کو ایک ہی سطح پر رکھ کر ذکر فرمایا گیا ہے۔ اسی طرح برزخی زندگی کو قرآن کریم نے نیند سے تعبیر فرمایا۔ یعنی قیامت میں جب لوگ دوسری زندگی پا کر قبروں سے اٹھیں گے تو گنہگاروں کی زبانوں پر یہ فقرہ ہوگا یٰـوَیْلَنَا مَنْ م بَعَثَنَا مِنْ مَّرْقَدِنَا (یٰسٓ۔ 52) ” اے ہماری خرابی کس نے ہم کو ہماری نیند کی جگہ سے اٹھا دیا “۔ (یٰسٓ۔ 52) مرقد ہم قبر کے لیے بولتے ہیں حالانکہ اس کا معنی سونے کی جگہ ہے۔ اب اس کو دیکھئے قبر کو بستر سے تشبیہ دی گئی ہے۔ اس طرح قرآن کریم میں دوسری زندگی یعنی قیامت کے لیے اکثر بعث کا لفظ استعمال ہوا ہے جس کے معنی جگانے اور بیدار کرنے کے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ موت اپنی حقیقت میں نیند کے قریب واقع ہوئی ہے۔ اب ہمیں اس پر غور کرنا چاہیے کہ ایک سونے والے کی کیفیت کیا ہوتی ہے ؟ اور نیند سے اس میں کس طرح کی تبدیلیاں پیدا ہوتی ہیں۔ چناچہ ہم دیکھتے ہیں کہ انسان جب سوتا ہے تو اس کے ادراک و احساس کے آلات اپنی مادی دنیا سے عارضی طور پر بیخبر ہوجاتے ہیں۔ مگر اس کے ادراک و احساس کی تخیلی ‘ تمثالی یا ذہنی دنیا اس کے سامنے بالکل اسی مادی دنیا کی طرح متشکل ہوتی ہے۔ اس میں وہ خود اپنے جسم سے الگ مگر ہوبہو وہی جسم دیکھتا ہے جو آتا جاتا ہے۔ اس کے سامنے کھانے پینے اور لطف انگیزی کے سب سامان ہوتے ہیں نیز اس میں درد و رنج اور تکلیف کی تمام وہی صورتیں ہوتی ہیں جو مادی دنیا میں ہیں۔ اس کے خیالی جسم کو اگر اس عالم میں تکلیف ہوتی ہے تو وہ چیخ اٹھتا ہے۔ اور اگر اس میں لذت ملتی ہے تو لطف اندوز ہوتا ہے اور ان دونوں کے اثرات اس کو اپنے مادی جسم میں جاگنے کے بعد بھی نظر آتے ہیں۔ غرض عالم خواب کی خیالی دنیا اور اس کی خوشی اور رنج اور لذت و الم اور اس مادی دنیا کی جسمانی و مادی خوشی اور رنج اور لذت و الم میں کوئی فرق نہیں ہوتا۔ اگر کچھ فرق ہے تو یہ ہے کہ عالم خواب کی لذت و تکلیف بیداری کے بعد ختم ہوجاتی ہے اور مادی دنیا کی تکلیف و لذت احساس و ادراک کے وجود تک قائم رہتی ہے اور جس طرح مادی بیداری والی لذت و تکلیف خواب میں معدوم ہوجاتی ہے اس طرح خواب والی لذت و تکلیف بیداری میں رخصت ہوجاتی ہے۔ برزخی زندگی کو بھی انہی احوال و کیفیات کے آئینہ میں دیکھنا چاہیے۔ یہ ایک طویل اور گہری نیند ہے جو موت کی صورت میں انسان پر طاری کردی جاتی ہے۔ اس میں جو کچھ واردات گزرتی ہیں ان کا تعلق براہ راست روح سے ہوتا ہے۔ البتہ اس میں یہ لمبی نیند سونے والا ایک جسم کو بھی دیکھتا ہے اس کے اعمال کی رعایت سے مناسب صورت میں اسے ملتا ہے۔ اس میں اگر اسے سوال و جواب سے گزارا جاتا ہے تو وہ خواب کی طرح اس سوال و جواب کے ماحول سے گزرتا ہے اور اگر اسے لذت و راحت سے واسطہ پڑتا ہے تو وہ خواب ہی کی طرح اسے محسوس کرتا ہے اور محظوظ ہوتا ہے اور اگر اسے تکلیف و عذاب سے گزرنا پڑتا ہے تو وہ خواب ہی کی طرح اس کی شدت کو محسوس کرتا ہے۔ اصل سوال یہ نہیں کہ ثواب و عذاب کو محسوس کرنے کا ذریعہ کیا ہے بلکہ اصل سوال یہ ہے کہ کیا اسے ثواب و عذاب کا احساس ہوتا ہے یا نہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ دونوں طرح کے احساسات وہ عالم بیداری میں بھی رکھتا ہے اور نیند میں بھی۔ جس طرح اپنی مرغوب چیز پا کر عالم بیداری میں مسرت و شادمانی محسوس کرتا ہے اور تکلیف دہ صورتحال سے دوچار ہو کر پریشانی اور کرب کا شکار ہوتا ہے بالکل یہی کیفیت اس کی نیند کی حالت میں بھی ہوتی ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ نیند کی حالت کے تغیرات نیند کھل جانے سے ختم ہوجاتے ہیں تو آدمی انھیں جلدی بھول جاتا ہے، اور بیداری کے تغیرات دیرپا ہوتے ہیں اس لیے انھیں دیر تک یاد رکھتا ہے۔ یہ برزخی زندگی چونکہ قیامت تک طویل ہوگی اس لیے اس میں پیش آمدہ تغیرات چاہے وہ خوشی کی شکل میں ہوں یا تکلیف کی شکل میں، دیرپا ہوں گے اور گہرے تاثرات چھوڑیں گے کیونکہ اب قیامت سے پہلے یہ صورتحال بدلنے والی نہیں اور یہ نیند کھلنے والی نہیں۔ قرآن و سنت میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ مرنے کے بعد ہر مرنے والا ایک مختصر امتحان سے گزرے گا یعنی اس سے کچھ سوال و جواب کیے جائیں گے۔ احادیث میں آیا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا کہ مرنے کے بعد قبر میں دو فرشتے آتے ہیں اور وہ مردوں سے توحید و رسالت کی نسبت سوال و جواب کرتے ہیں۔ یعنی وہ اس سے اس کے دین اور رب کے بارے میں بھی پوچھتے ہیں اور نبی کریم ﷺ کے بارے میں بھی۔ اگر اس نے زندگی ایمان و عمل کے ساتھ گزاری ہوگی تو اسے صحیح جواب دینے کی توفیق ملے گی، ورنہ ہمیشہ کی نامرادی اس کا مقدر بن جائے گی اور قرآن کریم سے ہمیں ان باتوں کی تصدیق بھی ہوتی ہے اور کچھ مزید باتوں کا بھی پتہ چلتا ہے تصدیق تو اس بات کی ہوتی ہے کہ ایمان واعمل کی زندگی گزارنے والے مرنے کے بعد فرشتوں کی دعائوں اور ان کے تہنیتی کلمات سے مستفید اور شادکام ہونگے۔ اور وہ آنے والے وقت کی بشارت بھی دیں گے اور مزید جس بات کی قرآن پاک ہمیں خبر دیتا ہے ان میں سے ایک بات تو یہ ہے کہ مرنے والوں میں وہ بدنصیب جنھوں نے ایمان لانے کی بجائے کفر کا راستہ اختیار کیا۔ فرشتے صرف ان کی جان ہی نہیں نکالیں گے بلکہ ساتھ ساتھ ماریں پیٹیں گے بھی اور جان نکالتے ہی انھیں عذاب سے دوچار کردیا جائے گا۔ سورة انفال میں ہے : وَلَوْتَرٰٓی اِذْیَتَوَفَّی الَّذِیْنَ کَفَرُوا لا الْمَلٰٓئِکَۃُ یَضْرِبُوْنَ وَجُوْہَہُمْ وَاَدْبَا رَہُمْ وَذُوْقُوْا عَذَابَ الْحَرِیْقََ ۔ (الانفال : 8۔ 50) ” اور اگر تو دیکھے جب فرشتے کافروں کی روح قبض کرتے ہیں ‘ مارتے ہیں ان کے منہ اور پیٹھ پر اور کہتے ہیں کہ چکھ جلنے کا مزا۔ “ اس آیت سے جہاں یہ ثابت ہوتا ہے کہ کافروں پر موت کے بعد ہی سے عذاب شروع ہوجاتا ہے، وہاں یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ یہ مار ان کے منہ اور پیٹھ پر پڑتی ہے۔ مگر یہ منہ اور پیٹھ وہ نہیں ہے جو بےجان لاشہ کی صورت میں ہمارے سامنے ہے، بلکہ اس آیت میں کافر کی روح کو جانور سے تشبیہ دی گئی ہے کہ جس طرح جانور کو تیز ہنکاتے وقت کبھی آگے منہ پر اور پیچھے پیٹھ پر مارتے ہیں اسی طرح کافر روح کو زبردستی فرشتے مارتے ہوئے اور ہنکاتے ہوئے لے چلیں گے اور کہیں گے کہ چل عذاب کا مزا چکھ۔ اسی طرح سورة اعراف میں ہے : حَتّیٰٓ اِذَاجَآئَ تْھُمْ رُسُلُنَا یَتَوَفَّوْنَھُمْ قَالُوْآ اَیْنَ مَاکُنْتُمْ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللہِ ط قَالُوْاضَلُّوْا عَنَّاوَشَھِدُوْا عَلٰٓی اَنْفُسِھِمْ اَنَّھُمْ کَانُوْا کٰفِرِیْنَ ۔ قَالَ ادْخُلُوْا فِیْ ٓ اُمَمٍ قَدْخَلَتْ مِنْ قَبْلِکُمْ مِّنَ الْجِنِّ وَالْاِنْسِ فِی النَّار ط (الاعراف 7 : 37۔ 38) ” یہاں تک کہ جب جھٹلانے والوں کے پاس ہمارے فرشتے ان کی روحوں کو قبض کرنے کے لیے آئیں گے اور کہیں گے کہ کہاں ہیں، وہ جن کو تم خدا کے علاوہ پکارتے تھے۔ تو اس وقت وہ مشرک کہیں گے کہ ہمارے وہ دیوتا ہم سے کنارہ کش ہوگئے ہیں اور انھوں نے اپنے اوپر خود گواہی دی کہ وہ کافر تھے تب خدا فرمائے گا کہ تم بھی ان لوگوں میں جا ملو جو جن و انس میں سے تم سے پہلے آگ میں جا چکے ہیں۔ اور جو لوگ ناموافق حالات کا بہانہ بنا کر اللہ کے دین پر چلنے سے کتراتے ہیں ان کے بارے میں سورة النساء میں فرمایا۔ بیشک فرشتوں نے جن کی روحوں کو اس حالت میں قبض کیا کہ وہ جانوں پر ظلم کر رہے تھے۔ فرشتے ان سے کہیں گے کہ تم کس حالت میں تھے۔ وہ جواب دیں گے کہ ہم ملک میں بےیارومددگار تھے۔ فرشتے کہیں گے کہ کیا اللہ کی زمین کشادہ نہ تھی کہ تم اپنا وطن چھوڑ کر باہر چلے جاتے۔ یہی لوگ ہیں جن کا ٹھکانہ جہنم ہے۔ عالمِ برزخ میں ارواح کا مقام برزخ کے حوالے سے اب ایک سوال یہ باقی رہ جاتا ہے کہ برزخ میں ارواح انسانی کا مسکن کہاں ہوگا ؟ قرآن پاک میں اس کا جواب متعدد آیات میں ملتا ہے۔ کافروں کے بارے میں تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان کی روحوں کو کائنات کی وسعتوں میں اس طرح آوارہ پھرنے کے لیے چھوڑ دیا جائے گا کہ جیسے بےخانماں اور محروم لوگ پھرا کرتے ہیں۔ لیکن وہ جہاں بھی ہوں گے وہاں سے ہر وقت دوزخ کے نظارے کریں گے اور ہر وقت اللہ کے عذاب کا نقشہ ان کی نگاہوں کے سامنے رہے گا اور ایک عجیب عذاب کی کیفیت ان پر طاری رہے گی۔ لیکن جہاں تک پاکباز مومنوں کا تعلق ہے قرآن کریم سے معلوم ہوتا ہے کہ اولاً تو ان کی موت ہی اس طرح واقع ہوگی کہ ایک طرف جان ان کے جسم سے نکالی جا رہی ہوگی اور دوسری طرف رحمت الٰہی کا فرشتہ مژدہ جانفزا ان کے کانوں میں انڈیل رہا ہوگا۔ پھر ان میں بھی ایسی پاکباز اور سعید روحیں ہیں جنھیں شہداء کہا جاتا ہے۔ انھیں خدا کی طرف سے ایک تمثالی جسم غیر فانی زندگی اور روحانی عیش و عشرت کی لازوال دولت عنایت کی جائے گی۔ وہ اللہ کے یہاں خاص قسم کا رزق بھی پائیں گے اور خوشی و مسرت ہر دم ان کے ساتھ ہوگی اور اس مضمون کی متعدد آیات قرآن کریم میں موجود ہیں۔ احوالِ قیامت اور اس کے وقوع کے دلائل افراد اور جماعتوں کو تو ہم ہر روز اپنی آنکھوں کے سامنے اخری سفر پر روانہ ہوتے ہوئے دیکھتے ہیں اور ہمیں کسی حد تک یقین ہوجاتا ہے کہ موت ایک ایسی حقیقت ہے جس سے مفر کی کوئی صورت نہیں۔ لیکن اس سے بھی بڑی ایک حقیقت اور بھی ہے جسے ہم قیامت کہتے ہیں۔ اس کا مفہوم ہے تمام دنیا اور تمام کائنات کا چشم زدن میں ختم ہوجانا اور پھر ایک مدت معینہ کے بعد از سر نو زندہ ہونا اور پھر اللہ کے حضور حساب کتاب کے لیے پیش ہونا اور حسب اعمال جزا و سزا کے مراحل سے گزرنا۔ موت تو کبھی اچانک آتی ہے اور کبھی دھیرے دھیرے بیماری کی شکل میں اپنا احساس دلا کے آتی ہے۔ اس لیے مرنے والا بالعموم پہلے سے اس سے کسی حد تک آگاہ ہوتا ہے اور پسماندگان بھی ذہنی طور پر اس صدمے کے لیے تیار ہوتے ہیں لیکن جہاں تک قیامت کے وقوع کا تعلق ہے وہ تو اس طرح کا حادثہ ہوگا کہ جس کو قرآن کریم کہتا ہے : وَمَا اَمرُالسَّاعَۃِ اِلَّا کَلَمْحِ الْبَصَرِ اَوْھُوَاَقْرَبُ ط (النحل : 16۔ 77) ” اور وہ قیامت کا معاملہ آنکھ جھپکنے کی طرح ہوگا یا اس سے بھی جلدی۔ “ قیامت کا آغاز صور اسرافیل سے ہوگا اور یہ اس قدر اچانک ہوگا کہ خود حضرت اسرافیل کو علم نہیں کہ کب مجھے اس کے پھونکنے کا حکم دیا جائے گا۔ وہ تعمیل حکم کے لیے ہر دم مستعد کھڑے ہیں۔ ایک حدیث میں حضرت ابو سعید خدری ؓ روایت کرتے ہیں کہ ” رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ میں مزے کی زندگی کیسے گزاروں ؟ َحالانکہ صور والے فرشتے نے صور منہ میں لے رکھا ہے اور اللہ کے حکم کی طرف کان لگا رکھا ہے اور پیشانی جھکا رکھی ہے اور اس انتظار میں ہے کہ کب صور پھونکنے کا حکم ہوجائے اور میں فوراً صورپھونک دوں "۔ حضرت ابی ابن کعب ؓ فرماتے ہیں کہ جب تہائی رات باقی رہ جاتی تھی تو آنحضرت ﷺ فرماتے " اے لوگو ! اللہ کو یاد کرو ‘ اللہ کو یاد کرو۔ پہلا صور پھونکا جانے والا ہے اور اس کے بعد دوسرا پھونکا جائے گا۔ موت اپنی سختیاں لے کر آپہنچی ہے “۔ قرآن کریم میں دو دفعہ صور پھونکے جانے کا ذکر ہے۔ سورة زمر آیت 68 تا 69 میں ارشاد خدا وندی ہے : وَنُفِخَ فِی الصُّوْرِفَصَعِقَ مَنْ فِی السَّمٰوٰتِ وَمَنْ فِی الْاَرْضِ اِلَّا مَنْ شَآئَ اللہ ُ ط ثُمَّ نُفِخَ فِیْہِ اُخْرٰی فَاِذَاھُمْ قِیَامٌ یَّنْظُرُوْنَ ۔ وَاَشْرَقَتِ الْاَرْضُ بِنُوْرِ رَبِّھَا وَوُضِعَ الْکِتٰبُ وَجِآئی بِالنَّبِیّٖنَ وَالشُّھَدَآئِ وَقُضِیَ بَیْنَھُمْ بِالْحَقِّ وَھُمْ لاَ یُظْلَمُوْنَ ۔ (39 : 68۔ 69) ” صور دو دفعہ پھونکا جائے گا۔ پہلی بار ارض و سما کی تمام مخلوق بےہوش ہوجائے گی سوائے ان کے جنھیں خدا خود بچائے۔ دوسری مرتبہ تمام لوگ اٹھ کر ادھر ادھر دیکھنے لگیں گے۔ اس وقت اللہ کے نور سے زمین جگمگا اٹھے گی ‘ نامہ اعمال کھل جائے گا ‘ انبیا اور شہداء کو حاضر کیا جائے گا ‘ انھیں ان کی خدمات کا پورا پورا اجر ملے گا اور کسی سے ظلم نہیں کیا جائے گا “۔ ان آیات سے صور اسرافیل کی کیفیات اور اس کا دو دفعہ پھونکا جانا معلوم ہوتا ہے۔ لیکن سَیّد قطب شہید ( رح) نے سورة یٰسٓ کی آیت نمبر 48 تا 53 سے تین دفعہ صور اسرافیل کی تفصیل بیان کی ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ دین حق کی تکذیب کرنے والے پوچھتے ہیں کہ مَتٰی ھٰذَا الْوَعَدُ اِنْ کُنْتُمْ صَادِقِیْنَ (یٰسٓ: 36۔ 48) ” اگر تم سچے ہو تو یہ وعدے کا دن کب آئے گا ؟ “ ان کا جواب آنکھ جھپکنے میں تیزی سے گزر جانے والا یہ منظر ہے ‘ یہ لو۔ یہ صور پھونکنے کی ایک آواز ہی تو ہے کہ دفعتہ وہ انھیں اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ نہ تو اپنے اہل و عیال کو وصیت ہی کر پاتے ہیں اور نہ ان میں واپس لوٹ کر آسکتے ہیں۔ بلکہ ان کے سامنے ان کے ہاتھوں میں موت کا پیالہ پی لیتے ہیں۔ صور کی پہلی آواز کے بعد قیامت کا پہلا منظر آنکھوں کے سامنے آجاتا ہے۔ پھر دوسری بار صور کی آواز گونجتی ہے۔ دفعتہ وہ اپنی قبروں سے مٹی جھاڑتے ہوئے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں۔ خوف و دہشت کے عالم میں تیزی سے قدم بڑھاتے ایک دوسرے سے پوچھتے چلے ہیں کہ ہمیں ہماری قبروں سے کس نے نکال باہر کیا۔ پھر آنکھیں ملتے ہوئے فضائے بسیط میں گونجنے والی اس حقیقت کا اعتراف اور اس کی توثیق کرتے ہیں ھٰذَا مَاوَعَدَالّرَحْمٰنُ وَصَدَقَ الْمُرْسَلُوْنَ ” ہاں ! یہ وہ دن ہے جس کا وعدہ رحمن نے کیا تھا اور جس کی تصدیق اس کے رسولوں نے کی تھی “۔ آج قبروں سے نکل کر کھڑے ہونے کا سبب یہی ہے۔ پھر تیسری بار صور کی آواز گونجتی ہے۔ فَاِذَا ھُمْ جَمِْیعُ لَّدَیْنَا مُحْضَرُوٰنُ (یٰسٓ: 36۔ 53) ” ابھی فوراً وہ سب ہمارے حضور میں حاضر ہونے والے ہیں “۔ لو دیکھو آنکھ جھپکنے میں پیشی کا بندوبست ہوگیا۔ لوگوں کی قطاریں لگ گئیں۔ سب کے سب مہر بلب شہنشاہ عالم کا اعلان عام کان لگا کر سن رہے ہیں کہ آج کسی کے ساتھ کسی قسم کی زیادتی نہیں ہوگی۔ دنیا میں جو اعمال کرتے رہے تھے، آج اس کی جزا دی جائے گی۔ یہاں کسی ناانصافی کا کوئی سوال نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پہلے صور اسرافیل سے تمام کائنات کا نظام درہم برہم ہوجائے گا۔ ہر مخلوق موت کا شکار ہوجائے گی سوائے اس کے جس کو اللہ بچانا چاہے اور دوسری دفعہ صور اسرافیل کے بعد از سر نو زندگی وجود میں آئے گی۔ لوگ آنکھیں ملتے ہوئے اٹھیں گے اور حیرانی و پریشانی کے عالم میں ایک دوسرے کا منہ دیکھیں گے۔ پھر جب تیسرا صور پھونکا جائے گا تو تمام بارگاہ ایزدی میں حاضری کے لیے چل پڑیں گے اور اللہ کی عدالت قائم ہوجائے گی اور زندگی کے اعمال کا حساب کتاب شروع ہوجائے گا۔ چناچہ اس سلسلہ میں پیدا ہونے والے تغیرات اور مختلف مراحل میں پیش آنے والی کیفیات کا قرآن کریم میں متعدد جگہ ذکر فرمایا گیا۔ نفخہ اولٰی کے بعد کی کیفیت سورة الحاقہ میں نفخہ اولی کے بعد کی کیفیت کو بیان کرتے ہوئے فرمایا : فَاِذَا نُفِخَ فِی الصُّوْرِنَفْخَۃٌ وَّاحِدَۃٌ۔ لا وَحْمِلَتِ الْاَرْضُ وَالْجِبَالُ فَدُکَّتَادَکَّۃً وَّاحِدَۃً ۔ لا فَیَوْمَئِذٍ وَّقَعَتِ الْوَاقِعَۃُ ۔ لا وَانْشَقَّتِ السَّمَآئُ فَھِیَ یَوْمَئِذٍ وَّاھِیَۃٌ۔ لا وَّالْمَلَکُ عَلٰٓی اَرْجَآئِھَا ط وَیَحْمِلُ عَرْشَ رَبِّکَ فَوْقَھُمْ یَوْمَئِذٍ ثَمٰنِیَۃٌ یَوْمَئِذٍ تُعْرَضُوْنَ لاَ تَخْفٰی مِنْکُمْ خَافِیَہٌ (الحاقہ 69 : 13۔ 18) ” جس وقت صور پھونکا جائے گا اور اللہ زمین کو پہاڑوں سمیت اٹھا کر یوں پٹخے گا کہ سب کچھ ریزہ ریزہ ہوجائے گا۔ اس روز آسمان پھٹ کر ڈھیلا ہوجائے گا۔ فرشتے اطراف آسمان پر جمع ہوجائیں گے۔ اور اللہ کے تخت کو آٹھ فرشتے اٹھا کر لائیں گے اس وقت تم اللہ کے سامنے پیش کیے جاؤ گے اور تم سے کوئی راز مخفی نہیں رہے گا۔ سورة القارعہ میں اس کی نقشہ کشی یوں کی گئی ہے کہ ” وہ متنبہ کرنے والی چیز ‘ وہ کیا ہے متنبہ کرنے والی چیز ؟ اور تم کو کس نے بتایا کہ کیا ہے متنبہ کرنے والی ؟ یہ وہ چیز ہے جب لوگ پریشان پروانوں کی طرح اور پہاڑ روئی کے گالوں کی طرح ہوں گے۔ “ سورة ابراہیم میں فرمایا ” جب یہ زمین دوسری زمین سے بدل دی جائے گی اور لوگ نکلیں گے اللہ کی طرف ' جو ایک ہے، قہار ہے۔ “ (14 : 48) سورة المعارج میں فرمایا ” جب آسمان پگھلے ہوئے تانبے کی طرح اور جب پہاڑ روئی کے گالوں کی مانند ہوجائیں گے۔ “ (70 : 8۔ 9) سورة قیامہ میں فرمایا گیا۔ ” روز قیامت کی قسم اور گناہ پر ملامت کرنے والے نفس کی قسم (یوم الحساب آکر رہے گا) کیا انسان کا خیال یہ ہے کہ ہم اس کی بوسیدہ ہڈیوں کو دوبارہ ترتیب نہ دے سکیں گے ؟ کیا وہ جانتا نہیں کہ اس کے پوروں کو ترتیب دینے والے ہم ہی ہیں۔ انسان کی تمنا یہ ہے کہ وہ کچھ کرے اور اپنا مستقبل تباہ کر دے۔ اس لیے (طنزاً ) پوچھتا ہے کہ قیامت کب آئے گی ؟ اسے کہو اس دن جب آنکھیں پتھرا جائیں گی۔ چاند سیاہ ہوجائے گا اور شمس و قمر اکٹھے کردیئے جائیں گے۔ اس وقت انسان پوچھے گا ہے کوئی راہ فرار ؟ ہرگز نہیں آج کوئی جائے پناہ نہیں۔ سب اللہ کے سامنے پیش کیے جائیں گے اور انھیں اگلے پچھلے اعمال کی خبر دی جائے گی۔ “ (75 : 1۔ 13) سورة تکویر میں فرمایا ” جب آفتاب بےنور ہوجائے گا۔ ” جب ستارے تاریک ہوجائیں گے ' جب پہاڑ چلائے جائیں گے۔ “ (81 : 1۔ 3) سورة انفطار میں فرمایا گیا ” جب آسمان پھٹ جائیں گے اور جب ستارے بکھر جائیں گے اور جب سمندر چلائے جائیں گے اور جب قبر کے لوگ زندہ کیے جائیں گے ' اس وقت روح نے جو کچھ پہلے اور پیچھے بھیجا ہے اس کو جان لے گی۔ “ (82 : 1۔ 5) سورة انشقاق میں فرمایا : ” جب آسمان پھٹ جائیں گے اور وہ اپنے مالک کی فرمانبرداری کریں گے اور وہ فرمانبرداری کے ہی لائق ہے جب زمین پھیلائی جائے گی اور جو کچھ اس میں ہے اگل دے گی اور خالی ہوجائے گی۔ “ (84 : 1۔ 4) سورة زلزال میں فرمایا گیا جب زمین خوب ہلائی جائے گی اور وہ اپنا بوجھ نکال دے گی اور انسان کہے گا زمین کو کیا ہوگیا ہے ؟ َاس دن وہ اپنی حالت بیان کرے گی۔ “ (99 : 1۔ 4) مندرجہ بالا تفصیلات سے آپ کو اندازہ ہوا ہوگا کہ نفخ اولی کے بعد کس طرح کائنات کی ہر چیز شکست و ریخت کا شکار ہوگی اور کس طرح ایک ہمہ گیر تباہی جملہ مخلوقات اور ہر ذی روح کو اپنی گرفت میں لے لے گی اور یہ سب کس قدر اچانک چشم زدن میں ہوگا۔ ہر دور کی طرح آج بھی عقل کے پرستار اس تمام صورتحال کو سمجھنے سے قاصر ہیں اور وہ اسے ناقابل وقوع اور خلاف عقل گردانتے ہیں۔ حالانکہ یہ صرف ان کی عقل کا پھیر اور عدم علم کا نتیجہ ہے۔ ہم یہاں نفخ اولیٰ کے بعد کی مکمل تباہی پر چند شواہد اور بعض پیش یا افتادہ دلائل ذکر کرتے ہیں۔ مثلاً قرآن کریم نے قیامت کے پہلے مرحلے کو ایک زمینی زلزلے سے تعبیر فرمایا ہے۔ ارشاد ہوتا ہے : یٰٓااَیُّھَاالنَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّکُمْ ج اِنَّ زَلْزَلَۃَ السَّاعَۃِ شَیْ ئٌ عَظِیْمٌ۔ ” اے لوگو ! اللہ سے ڈرو کہ قیامت کا زلزلہ نہایت ہولناک شے ہے “۔ وہ زلزلہ جسے خود پروردگار ہولناک فرما رہا ہے اس کی تباہ کاری اور ہمہ گیری کا انسان کیا اندازہ کرسکتا ہے ؟ ہم یہاں چھوٹے موٹے زلزلوں کو وقوع پذیر ہوتے دیکھتے ہیں اور ان کی تباہ کاریوں سے چیخ اٹھتے ہیں۔ 1924 ء کے زلزلہ جاپان میں 16 لاکھ نفوس ہلاک ہوگئے تھے اور 1935 ء کے زلزلہ کوئٹہ میں 51000 اور ہماری قریبی تاریخ میں ایسے ہی کئی ہولناک زلزلے آچکے ہیں۔ ہر زلزلہ ایک قیامت ہوتی ہے اس سے بلندیاں پست اور پستیاں بلند ہوجاتی ہیں۔ دریائوں کے رخ مڑ جاتے ہیں ‘ کئی جزیرے ڈوب جاتے ہیں اور کئی نئے نکل آتے ہیں۔ بعض زلزلوں سے پہاڑ پھٹ جاتے ہیں اور ان سے ابلتے ہوئے لاوے کا ایک دریا بہہ نکلتا ہے اور انسان ان حادثات کے مقابلے میں اس قدر بےبس ہے کہ وہ آج تک انھیں روکنے کی کوئی سبیل نہیں سوچ سکا اور اسے یقین ہے کہ زمین کا مالک زمین کو تباہ کرنے پر پوری طرح قادر ہے۔ علماء زمین شناس کا نظریہ، یہ ہے کہ آج سے لاکھوں سال پہلے جب زمین سورج سے الگ ہوئی تھی تو اس کا درجہ حرارت، حرارتِ سورج کے برابر تھا۔ یہ حرارت آج بھی بطن زمین میں موجود ہے اور لاوے کا درجہ حرارت وہی ہے جو آغاز میں زمین کا تھا۔ یعنی بارہ ہزار فارن ہائیٹ۔ اب اگر کسی زلزلے سے سارا لاوا باہر آجائے تو سطح زمین ایک کھولتے ہوئے جہنم میں بدل جائے۔ اس سے آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ زمین کی تباہی کے لیے اس کو پیدا کرنے والے نے کس قدر امکانات پیدا کر رکھے ہیں اور جہاں تک فضا ‘ خلا اور آسمانوں کا تعلق ہے اس کی تباہی کوئی ایسی بات نہیں جو سمجھ میں نہ آنے والی ہو۔ خلاء میں کروڑوں بلین ستارے حیرت انگیز رفتار سے محو پرواز ہیں۔ ان میں سے بعض زمین سے دس گنا اور بعض ایک کروڑ گنا بڑے ہیں۔ ان کا نظام پرواز اتنا مکمل ہے کہ آج تک کوئی ستارہ دوسرے سے متصادم نہیں ہوا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا وہ طاقت جس نے ان ستاروں کو بنایا اور پھر ان کی راہیں متعین کیں اس بات پر قادر نہیں کہ انھیں باہم ٹکرا دے اور سب کچھ تباہ کر دے ؟ سائنس دان کہتے ہیں کہ نظام عالم کی پوری گاڑی جس انجن سے چل رہی ہے وہ گرم آفتاب ہے۔ جس کی گرمی روز بروز کم ہوتی جا رہی ہے۔ اب سائنس دانوں نے اندازہ لگانا شروع کردیا ہے کہ اس بات کا امکان ہے کہ ایک دن ایسا آئے گا جب یہ انجن بالکل ٹھنڈا ہوجائے گا اور ساری گاڑی ٹوٹ پھوٹ جائے گی اور یہ بات بھی سائنسدان کہتے ہیں کہ یہ پورا نظام کائنات کشش ثقل کے ستون پر قائم ہے اور یہ کشش ثقل بھی روز بروز مدہم پڑتی جا رہی ہے۔ چناچہ ایک دن آئے گا کہ تمام کرّے ایک دوسرے کے قریب ہو کر ٹکرا جائیں گے اور یہ تصادم ان کو چور چور کر دے گا۔ یہ تو وہ حقائق ہیں جن کی بنیاد بہرحال مستقبل کے اندازوں پر ہے۔ لیکن یہ بات تو امر واقعہ ہے کہ خود انسان کیسے کیسے تباہ کن آلات پیدا کرچکا ہے کہ ان کی تباہی خود انسان کے ہاتھوں کوئی دورنظر نہیں آتی۔ انہی ایجادات میں جوہری بم کی ایجاد بھی شامل ہے۔ لارڈبر ٹرینڈرسل نے اسی کے اندر دنیا کی مکمل تباہی دیکھ لی تھی۔ انھوں نے 1848 ء کے موسم سرما میں بی بی سی ریڈیو سے تقریر نشر کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر جوہری بم زیادہ تعداد میں پھینکے گئے (اور زمین پر جنگوں کا سلسلہ جاری رہا تو ظاہر ہے کہ پھینکے جائیں گے) تو بعض ماہرین طبیعات کا خیال یہ ہے (اور ان کی رائے واجب احترام ہے) کہ یہ بم تابکار پیدا کریں گے۔ جو ہوا سے گھل مل کر اڑتے اور ادھر سے ادھر گزرتے ہوئے زندگی کی ہر صورت کو ختم کردیں گے اور چند سال بعد ہماری زمین انسانوں ‘ جانوروں اور پودوں سے بالکل خالی ہوجائے گی۔ انہی برٹرینڈ رسل نے (مذہب اور سائنس) میں ایک قدم آگے بڑھایا اور لکھا کہ وہ قوانین جو ترقی کا باعث ہوتے ہیں تنزل کا سبب بھی بن جاتے ہیں۔ ایک دن سورج سرد پڑجائے گا۔ زمین پر حیوانی اور نباتاتی زندگی کی پوری تاریخ کچھ بہت گرم اور بہت سرد زمانوں کے بیچ کا واقعہ ہے۔ مسلسل ارتقاء کوئی کلیہ نہیں بلکہ تنزل اور ترقی کا پنڈولم ادھر ادھر حرکت کر رہا ہے جس میں بلا شبہ کائناتی قوتوں کے انتشار کی وجہ سے نیچے کی طرف ایک خفیف سا رجحان پایا جاتا ہے۔ نفخہ ثانیہ کے بعد کی کیفیت اور اس کے دلائل دوسری مرتبہ صور اسرافیل پھونکے جانے کے بعد زندگی وجود میں آئے گی۔ لوگ اپنی اپنی قبروں سے اٹھیں گے اور اللہ کے اذن اور حکم سے میدان حشر کی طرف چل پڑیں گے۔ وہاں ان کے ہاتھوں میں ان کا نامہ اعمال دیا جائے گا۔ عقل کے پرستاروں کو جس طرح کائنات پر ایک ہمہ گیر موت کے طاری ہونے پر اعتراض ہے اسی طرح اس کے دوبارہ زندہ ہونے پر اور پھر نامہ اعمال میزان اور حساب کتاب پر بھی اعتراض ہے۔ ظاہر ہے کہ ان کے ان اعتراضات کی وجہ یہ نہیں ہے کہ علمی طور پر ان کے غلط ہونے کی کوئی دلیل ان کے ہاتھ آگئی ہے۔ بلکہ اس انکار کی وجہ سراسر بےعلمی اور جہالت ہے۔ قرآن کریم کہتا ہے : بَلْ کَذَّبُوْابِمَا لَمْ یُحِیْطُوْا بِعِلْمِہٖ ( یونس : 10۔ 39) ” انھوں نے صرف اس لیے اس حقیقت کو جھٹلایا کہ ان کا علم اس کا احاطہ نہ کرسکا۔ اگر کسی چیز کا علم نہ ہونا اس چیز کے وجود پر انکار کی دلیل ہوسکتا ہے تو پھر اس انکار کی بھی کوئی علمی توجیہ ممکن ہے۔ لیکن اگر ایسا نہیں ہے تو قرآن کریم کہتا ہے کہ اس وقت کا انتظار کرنا چاہیے، جب تمہاری آنکھوں سے حجابات اٹھا لیے جائیں گے اور ہر حقیقت تمہارے سامنے جلوہ گر ہوجائے گی اور کوئی راز ‘ راز نہ رہے گا۔ سورة الکہف میں فرمایا : وَنُفِخَ فِی الصُّوْرِ ط ذٰلِکَ یَوْمُ الْوَعِیْدِ ۔ وَجَآئَ تْ کُلُّ نَفْسٍ مَّعَھَا سَآئِقٌ وَّ شَہِیْدٌ۔ لَقَدْکُنْتَ فِیْ غَفْلَۃٍ مِّنْ ھٰذَا فَـکَشَفْنَا عَنْکَ غِطَـآئَ کَ فَبَصَرُکَ الْیَوْمَ حَدِیْدٌ۔ (الکہف 18: 20۔ 22) ” وہ صور پھونک دیا گیا ‘ وہ وعدے کا دن طلوع ہوگیا۔ ہر فرد محشر میں اس حال میں آئے گا کہ اس کے ہمراہ ہانکنے والا ہوگا اور ایک گواہ بھی۔ تم اس صورتحال سے بیخبر تھے سو آج ہم نے تمام حجابات اٹھا دیئے اور اب تمہاری نگاہ بہت تیز ہوگئی “۔ نگاہ کی اس تیزی کا انتظار کرنا چاہیے۔ تاہم اگر غیر جانبداری سے غور کیا جائے اور علمی حدود کو ملحوظ خاطر رکھا جائے تو آج بھی بیشمار شواہد ایسے ہیں جو قیامت کے ایک ایک مرحلہ کی دلیل ہیں۔ ہم نہایت اختصار سے چند دلائل ذکر کرتے ہیں۔ 1 مثلاً جو لوگ اللہ کی ذات اور اسکی صفات کے قائل ہیں وہ اس بات کا انکار نہیں کرسکتے کہ اللہ کی ایک صفت ہر چیز پر قادرہونا ہے۔ یعنی وہ قدرت کاملہ کا مالک ہے۔ اب جو آدمی اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ کا یقین رکھتا ہے اور یہ بھی مانتا ہے کہ اسی نے اس کائنات کو اور اس کی ایک ایک مخلوق کو پیدا فرمایا ہے تو اس کے لیے اس بات کو ماننے میں کوئی دقت نہیں ہونی چاہیے کہ جو اس کائنات کا خالق ہے آخروہ اس کو ہلاک کرنے اور پھر زندہ کرنے پر قادر کیوں نہیں ؟ سورة نازعات آیت 27 تا 33 میں فرمایا : ” کیا تمہاری تخلیق مشکل ہے یا آسمان کی ؟ َ اللہ نے آسمان کو پیدا کیا اور اس نے چھت کو بلند کرنے کے بعد اس کو استحکام بخشا۔ رات کو تاریک اور دن کو روشن بنایا۔ اس کے بعد زمین کو بچھایا ‘ ان میں سے پانی نکالا ‘ چارہ پیدا کیا اور پہاڑوں کو اس پر کھڑا کردیا۔ یہ سب کچھ تمہارے اور تمہارے مویشیوں کے لیے متاع ہے۔ یعنی جو خالق ومالک ان تمام باتوں پر قدرت رکھتا ہے آخر وہ تمہاری ہمہ گیر موت اور دوبارہ زندگی پر قدرت کیوں نہیں رکھتا ؟ سورة بنی اسرائیل میں فرمایا : وَقَالُوْٓا ئَ اِذَا کُنَّا عِظَامًا وَّرُفَاتًائَ اِنَّالَمَعْبُوْثُوْنَ خَلْقًا جَدِیْدًا۔ (بنی اسرائیل 17: 49) ” اور وہ بولے کہ جب ہم ہڈی اور چورا ہوجائیں گے تو پھر کیسے ازسرنو زندہ کیے جائیں گے۔ کیا یہ نہیں دیکھتے کہ وہ اللہ جس نے آسمانوں اور زمین کو بنایا وہ ان جیسے لوگوں کو دوبارہ بھی بنا سکتا ہے۔ سورة روم میں فرمایا کہ خدا وہی ہے جو خلق کو آغاز کرتا ہے، پھر اس کو دوبارہ خلق کرے گا اور یہ دوبارہ خلق کرنا اس کے لیے آسان ہے۔ (روم 30: 27) سورة یٰسٓ میں فرمایا : قَالَ مَنْ یُّحْیِ الْعِظَامَ وَھِیَ رَمِیْمٌ۔ قُلْ یُحْیِِیْھَا الَّذِیْ ٓ اَنْشَاَھَآ اَوَّلَ مَرَّۃٍ ۔ ط (یٰسٓ36: 78۔ 79) (وہ بولے کون ان کھوکھلی و سڑی ہڈیوں کو زندہ کرے گا، آپ کہہ دیجئے وہی جس نے پہلی دفعہ ان کو بنایا) سورة قیامہ میں ارشاد فرمایا : ایحسب الانسان ان لن نجمع عظامہ بلی قادرین علی ان نسوی بنانہ (75: 3۔ 4) ” کیا انسان کا خیال یہ ہے کہ ہم اس کی ہڈیوں کو پھر جمع نہ کرسکیں گے۔ ہم تو اس بات پر بھی قادر ہیں کہ چھوٹی ہڈیوں ‘ ریشوں اور رگوں سے اس کی انگلیوں کے پورے بنا ڈالیں “۔ یعنی جس پروردگار نے چھوٹی ہڈیوں ‘ ریشوں اور رگوں سے ایسے پوروں کو ترتیب دیا ہے کہ جو آج بھی دستاویزی ثبوت کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔ اربوں کھربوں انسانوں کی تخلیق کے باوجود کسی ایک انسان کے انگوٹھے کا نشان دوسرے انسان سے نہیں ملتا۔ جو خالق کائنات اس بات پر قادر ہے کیا وہ تمہیں دوبارہ زندہ کرنے پر قادر نہیں ہے ؟ 2 پروردگار کی صفات کو ماننے والے اس کی صفت عدل کو بھی تسلیم کرتے ہیں۔ عدل کا ایک معنی ہے تلافی مافات۔ یعنی نقصان کو پورا کرنا۔ اس عدل کے بیشمار مناظر ہمارے سامنے ہیں۔ جب ہم کسی درخت کی شاخوں کو کاٹ دیتے ہیں تو نئی شاخیں ان کی جگہ لے لیتی ہیں۔ جب ہم کسی جنگل کا کوئی قطعہ درختوں سے صاف کردیتے ہیں تو وہاں نئے پودے اور بوٹیاں اگ آتی ہیں۔ جب تلوار وغیرہ سے کسی حصہ جسم کا گوشت کٹ جاتا ہے تو قدرت نیا گوشت دے دیتی ہے۔ ہم کنویں سے کتنا ہی پانی نکالیں زمین کی رگوں سے اتنا ہی پانی اس میں آجاتا ہے۔ یہ حقیقت عدل جو حیات کی ہر سطح میں پائی جاتی ہے اور جس پر ارض و سما کا نظام قائم ہے۔ اس عدل کا تقاضا ہے کہ جب ہم سے یہ دنیا چھن جائے تو ہمیں ایک اور ایسی دنیا ملنی چاہیے جہاں اس زندگی کی تمام ناانصافیوں کی تلافی ہو۔ اس لحاظ سے جب ہم دیکھتے ہیں کہ اس دنیا میں جو لوگ انسانیت کے سب سے بڑے محسن رہے ہیں ان میں انبیا بھی ہیں اور مصلحین امت بھی۔ وہ سب سے زیادہ ستائے گئے۔ انھوں نے انسان کو راہ راست دکھانے اور پنجہ استبداد سے چھڑانے کے لیے بےاندازہ مصائب اٹھائے۔ لیکن اس کے بدلے میں جن پر انھوں نے احسان کیا ان کی طرف سے انھیں کیا ملا ؟ کوئی سپرد دار ہوا اور کوئی سپرد نار۔ کسی کو قتل کیا گیا تو کسی کو زندہ دیوار میں چن دیا گیا۔ انھیں اس زندگی میں سوائے مصیبتوں اور تکلیفوں کے کچھ نہیں ملا۔ بقول شاعر زمانہ یونہی اپنے محسنوں کو تنگ کرتا ہے وہ درس صلح دیتے ہیں یہ ان سے جنگ کرتا ہے اور ان کے مقابلے میں وہ لوگ جنھوں نے انسانیت کو تباہ و برباد کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی وہ دنیا میں ظلم و استبداد کی علامت بن کر رہے اور جنھوں نے خالق کائنات کے مقابلے میں اپنی ربوبیت کا صور پھونکا۔ وہ ہمیشہ عیش و عشرت کی زندگی گزارتے اور زندگی کی نعمتوں سے فیضیاب ہوتے رہے۔ آپ نے پڑھا ہوگا کہ جب چنگیز کے پوتے ہلاکو خان نے 1258 ء میں بغداد پر حملہ کیا تھا تو وہاں سات دن میں 19 لاکھ شہری موت کے گھاٹ اتار دیئے گئے تھے۔ سوال یہ ہے کہ ہلاکو اور اسی نوع کے دیگر قذاقوں اور قاتلوں کو ان جرائم کی سزا کیا ملی ؟ اسی طرح ہم دیکھتے ہیں کہ ایک بیوہ کا اکلوتا بیٹا جو اس کے بڑھاپے کا سہارا تھا کسی قاتل کی گولی کا شکار ہوجاتا ہے۔ وہ باقی زندگی پولیس کے چکر کاٹتی ‘ دربدر ٹھوکریں کھاتی اور شب و روز آنسو بہاتی گزار دیتی ہے۔ اولاً تو اسکے قاتل پکڑے نہیں جاتے اور پکڑے بھی جائیں تو انھیں سزا نہیں ملتی۔ وہ رات دن یہ کہہ کہہ کر تخت الٰہی کو ہلاتی رہتی ہے۔ ؎ تو قادر و عادل ہے مگر تیرے جہاں میں ہیں تلخ بہت بندہ مظلوم کے اوقات اور پھر کتنے لوگ ایسے ہیں جو تخت اقتدار پر بیٹھ کر لاکھوں آدمیوں کی محرومیوں کا باعث بنتے ہیں یا ان کے قتل کا سبب ٹھہرتے ہیں اور کتنے ایسے تخریب کار ہیں جو گاڑی کی پٹڑی اکھاڑ کر یا بم پھینک کر سینکڑوں اور ہزاروں آدمیوں کو لقمہء اجل بنا دیتے ہیں۔ اولاً تو ان کو سزا نہیں ملتی اور اگر ملتی بھی ہے تو ان کی ایک جان سینکڑوں اور ہزاروں جانوں کا عوض تو نہیں بن سکتی۔ ایک جان تو ایک جان کا بدلہ ہوسکتی ہے، باقیوں کا بدلہ کون دے گا ؟ اگر اللہ عادل ہے اور عدل اس کی صفت ہے تو اسی صفت عدل کا تقاضا ہے کہ ایسی دنیا ہونی چاہیے اور ایک ایسی عدالت قائم ہونی چاہیے جہاں انسانیت کے محسنوں اور قاتلوں کو اپنے اپنے کیے کا بدلہ ملے۔ محسن لافانی مسرتوں سے ہمکنار ہوں اور مجرم قہر و عذاب کا شکار ہوں۔ 3 امریکہ کے مشہور فلسفی ولیم جیمز آغاز میں آخرت کے منکر تھے۔ لیکن بڑھاپے میں معتقد ہوگئے۔ دلیل یہ دی کہ انسان بڑھاپے میں علم و دانش کی بلندیوں پر پہنچ جاتا ہے اور ایک نیا شعور حاصل کرلیتا ہے۔ اللہ ان باکمال لوگوں پر زندگی کا دروازہ بند نہیں کرے گا۔ ایسی اقالیم ہونی چاہئیں جہاں یہ اپنی صلاحیتوں کو کام میں لا کر نئی بلندیوں کو سر کرسکیں۔ یہ بلندیاں اس خفیہ براعظم میں ہیں جو ہمارے حاشیہ خیال سے پرے واقع ہے۔ انسان میں بقا کی آرزو فطری ہے۔ اس مقصد کے لیے کوئی کتابیں لکھتا ہے ‘ کوئی عمارات اور تصاویر بناتا ہے کوئی عبادت کرتا ہے اور کوئی گیت تراشتا ہے۔ کائنات میں بےاندازہ معقولیت ہے۔ اس لیے یہ سمجھنا کہ موت کی ایک پھونک سے شمع حیات گل ہوجائے گی یا انسان چند جملے بول کر ہمیشہ کے لیے خاموش ہوجائے گا۔ بہت نامعقول سی بات ہے۔ 4 ہم ہر روز اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھتے ہیں کہ موسم گرما یا موسم سرما میں اگر بارش برسنے میں دیر ہوجائے تو ایسے لگتا ہے کہ ہر چیز اپنی موت آپ مرگئی۔ زمین سبزے سے محروم ہوجاتی ہے جوہڑوں میں پلنے والی مخلوق یعنی مینڈک وغیرہ ختم ہوجاتے ہیں۔ زمین پر اٹھتی ہوئی دھول اس وقت موت کی غماز بن جاتی ہے۔ پھر اچانک ہم دیکھتے ہیں کہ گھٹا اٹھتی ہے برستی ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے زمین سبز مخمل کی وردی پہن لیتی ہے۔ صاف نظر آتا ہے کہ زندگی از سر نو وجود میں آئی ہے اور مردہ زمین زندہ ہوگئی ہے۔ تو جو پروردگار مردہ زمین کو بارش کے چند چھینٹوں سے نئی زندگی عطا فرما سکتا ہے وہ انسانوں کو دوبارہ زندہ کیوں نہیں کرسکتا ؟ یہی بات سورة فاطر آیت نمبر 9 میں فرمائی گئی : وَ اللہ ُ الَّذِیْ ٓ اَرْسَلَ الرِّیٰحَ فَتُثِیْرُ سَحَابًا فَسُقْنٰـہُ اِلٰی بَلَدٍمَّیِّتٍ فَاَحْیَیْنَا بِہِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِھَا ط کَذٰلِکَ النُّشُوْرُ ۔ (25۔ 9) ” اللہ وہ ہے جو ہوائوں کو بھیج کر پہلے بادل بناتا ہے اور پھر ہانک کر کسی مردہ بستی کی طرف لے جاتا ہے پھر ہم مردہ زمین کو اس سے زندہ کرتے ہیں اور قیامت کے دن مردے بھی اسی طرح زندہ ہوں گے۔ 5 کائنات کی سب سے بڑی حقیقت تغیر اور اختلاف حالات ہے۔ کوئی چیز یہاں ایک حالت پر قائم نہیں رہتی۔ مسلسل ارتقاء یا مسلسل تنزل یہاں کی حقیقت نہیں۔ عروج اور زوال دو ایسی حقیقتیں ہیں جن کی افراد اور قوموں میں ہمیشہ رونمائی ہوتی رہتی ہے۔ موسم بدلتے ہیں، صبح و شام میں تبدیلی آتی ہے۔ یہ سب اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ یہاں قرار کسی چیز کو نہیں، بلکہ ثبات اور قرار اگر کسی کو ہے تو بقول شاعر : ثبات اک تغیر کو ہے زمانے میں یہ تغیر اور عدم ثبات دراصل اس بات کی دلیل ہے کہ ثابت اور قائم رہنے والی ذات صرف ایک ہے، جس کی صفت الحیٔ اور القیوم ہے۔ وہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گی، اسی کی ذات کو دوام اور ثبات ہے۔ باقی ہر چیز اس کی ذات اور اس کے قانون کی گرفت میں ہے اس کا قانون یہ ہے کہ وہ ہر دم چیزوں کو ‘ افراد کو اور قوموں کو تغیر کا شکار کرتا رہتا ہے۔ اگر یہ واقعی ایک حقیقت ہے تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ کائنات کی یہ زندگی ہمیشہ کے لیے رہے اور پھر جب اس زندگی پر موت کا پردہ چھا جائے تو یہ پردہ کبھی تارتار نہ ہو، یعنی یہاں نہ تو زندگی کو ثبات ہے اور نہ موت کو ثبات ہوگا۔ جس طرح یہاں ہر صبح شام میں ڈھل جاتی ہے اسی طرح کوئی شام بھی دوام کا مقدر لے کر نہیں آئی بلکہ اللہ کے قانون کے مطابق ضرور صبح طلوع ہوتی ہے۔ اس لیے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ جب اس صبح حیات پر موت کی رات طاری کردی جائے گی تو پھر ایک ایسا وقت آئے گا جب پھر اس کی صبح طلوع ہوگی۔ کیونکہ اس زندہ اور قائم رہنے والی ذات کی اصل صفت زندگی ہے اور چونکہ روح اس کا امر ہے اس لیے کوئی وجہ نہیں کہ اس روح کو ہمیشہ کی زندگی نصیب نہ ہو اور یہ زندگی چونکہ قیامت کے بعد ہوگی اس لیے اس کا لازمی تقاضا ہے کہ قیامت بھی ضرور برپا ہو۔ یہی بات اقبال کہتے ہیں ؎ جوہرِ انساں عدم سے آشنا ہوتا نہیں آنکھ سے غائب تو ہوتا ہے فنا ہوتا نہیں یہ اگر آئینِ ہستی ہے کہ ہو ہر شام صبح مرقدِ انساں کی شب کا کیوں نہ ہو انجام صبح 6 اگر مزید غور کیا جائے تو خود انسان کا جسم اس بات کی دلیل ہے کہ قیامت ایک حقیقت ہے۔ کیونکہ قیامت صغریٰ یعنی موت وحیات کی کشمکش اور حشر و نشر خود انسان کے جسم کے اندر برپا رہتا ہے۔ میڈیکل سائنس کہتی ہے کہ انسانی جسم کے ترکیبی اجزاء کو خلیہ (سیل) کہتے ہیں۔ ایک اوسط درجے کا جسم اندازاً 26 ارب ملین خلیوں کا مجموعہ ہوتا ہے۔ ورزش ‘ محنت اور مطالعہ سے یہ خلیے ٹوٹتے اور ان کی جگہ نئے خلیے بنتے رہتے ہیں۔ ماہرین ابدان کا اندازہ یہ ہے کہ ہر سات سال کے بعد جسم کی مکمل تجدید ہوجاتی ہے۔ پرانے خلیے مرجاتے ہیں اور ان کی جگہ اور نئے خلیے لے لیتے ہیں۔ جو شخص یہاں عمر کے ستر سال گزارتا ہے وہ گویا دس مرتبہ مرچکا ہوتا ہے۔ لیکن موت کے ان مسلسل حملوں کے باوجودوہ زندہ رہتا ہے۔ کیا یہ ممکن نہیں کہ موت کے اخری حملے کے بعد بھی وہ زندہ رہے۔ موت تجدیدِ مذاق زندگی کا نام ہے خواب کے پردے میں بیداری کا اک پیغام ہے 7 قرآن کریم نے بعض ایسی تاریخی شہادتیں بیان فرمائی ہیں جو ” بعث بعدالموت “ یعنی دوبارہ جی اٹھنے پر مضبوط دلائل فراہم کرتی ہیں اور پھر یہ واقعات ایسے ہیں کہ تمام آسمانی مذاہب اس کی تصدیق بھی کرتے ہیں۔ حضرت عزیر (علیہ السلام) جو بنی اسرائیل کے ایک جلیل القدر نبی گزرے ہیں بلکہ بنی اسرائیل کی تباہی اور تورات کے جلائے جانے کے بعد انھوں نے تجدید و احیائے دین کا زبردست کارنامہ انجام دیا۔ ان کے بارے میں قرآن کریم سورة البقرہ آیت نمبر 258 میں بتاتا ہے کہ حضرت عزیر (علیہ السلام) کا گزر ایک ایسی بستی پر ہوا جو مکمل تباہ ہوچکی تھی۔ انھوں نے اسے دیکھ کر (شاید دل میں) کہا یہ آبادی جو ہلاک ہوچکی ہے، اسے اللہ تعالیٰ کس طرح دوبارہ زندگی بخشے گا ؟ اس پر اللہ نے ان کی روح قبض کرلی اور وہ سو برس تک مردہ پڑے رہے پھر اللہ نے انھیں دوبارہ زندگی بخشی اور ان سے پوچھا کہ کتنی مدت یہاں پڑے رہے ہو ؟ انھوں نے کہا کہ ایک دن یا چند گھنٹے رہا ہوں گا۔ پروردگار نے فرمایا تم پر سو برس اسی حالت میں گزر چکے ہیں۔ اب ذرا اپنے کھانے اور پانی کو دیکھو کہ اس میں ذرا تغیر نہیں آیا اور اپنے گدھے کو بھی دیکھو (جس پر وہ سوار ہو کر آئے تھے۔ کہ اس کا پنجر تک بوسیدہ ہوگیا ہے) اور یہ ہم نے اس لیے کیا ہے کہ ہم تمہیں لوگوں کے لیے ایک نشانی بنادینا چاہتے ہیں۔ پھر دیکھو کہ ہڈیوں کے اس پنجر پر ہم کس طرح گوشت پوست چڑھاتے ہیں۔ اس طرح جب حقیقت ان کے سامنے بالکل نمایاں ہوگئی تو انھوں نے کہا میں جانتا ہوں کہ اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔ یعنی اس طرح حضرت عزیر (علیہ السلام) کو زندگی اور موت کے مرحلے سے گزار کے آنے والی دنیا کے لیے ایک نشانی بنادیا گیا اور یہ واضح کردیا گیا کہ میری قدرت کے سامنے یہ بات کوئی مشکل نہیں کہ ایک جیتے جاگتے انسان کو اچانک موت دے دوں اور پھر سو برس کے بعد اسے زندہ کردوں اور اس سو سال کے عرصہ میں اس کے کھانے پانی کو باسی تک نہ ہونے دوں اور اس کے گدھے کی ہڈی ہڈی الگ کر دوں اور پھر دوبارہ اس پر گوشت پوست چڑھا کر اس کو جیتا جاگتا اٹھا کھڑا کروں۔ یہ سب میری قدرت کے کرشمے ہیں۔ اس سے تم اندازہ کرسکتے ہیں کہ تمہیں مارنے اور پھر دوبارہ زندہ کرنے پر پروردگار ہر طرح قاد رہے۔ اسی طرح البقرۃ آیت نمبر 26 میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا واقعہ بیان کیا کہ جب ابراہیم (علیہ السلام) نے پوچھا کہ پروردگار مجھے دکھا دے کہ تو مردوں کو کیسے زندہ کرتا ہے ؟ تو اس پر پروردگار نے حکم دیا کہ تم چار پرندے لے لو اور ان کو اپنے سے مانوس کرلو۔ پھر ان کے اجزاء کاٹ کر ان کا ایک ایک جزو ایک ایک پہاڑ پر رکھ دو ۔ پھر ان کو پکارو وہ تمہارے پاس دوڑے چلے آئیں گے۔ اور جب ایسا ہوجائے تو خوب جان لو کہ اللہ نہایت غالب اور حکمت والا ہے۔ یعنی اس دنیا میں رہتے ہوئے ہمارے لیے ممکن تو نہیں ہے کہ زندگی اور موت کا راز پالیں۔ لیکن ان واقعات سے صرف یہ بتلانا مقصود ہے کہ اللہ ہر چیز پر غالب ہے اور وہ اپنی حکمت و دانش کے مطابق زندگی اور موت کے فیصلے کرتا ہے۔ اس طرح قرآن کریم میں سورة الکہف میں چند نوجوانوں کا ذکر کیا گیا ہے جو تاریخ میں اصحابِ کہف کے نام سے مشہور ہیں جو کہ تقریباً تین صدیوں تک غار میں سوئے رہے۔ پھر انھیں نیند سے جگایا گیا لوگوں سے ملے پورے شہر کے لوگ اکٹھے ہو کر انھیں دیکھنے آئے۔ شہر کے حکمران نے ان سے ملاقات کی، پھر وہ اپنے غار میں جا کر سوگئے اور بعد والوں نے یادگار کے طور پر غار کے دھانے پر ایک مسجد تعمیر کردی اور مورخین کی شہادت کے مطابق آج بھی ان کے آثار زندہ ہیں۔ نئی تحقیق کے مطابق اردن میں عمان شہر کے قریب ایک پہاڑ پر یہ غار دریافت ہوگیا ہے۔ یہ غار عمان شہر سے سات کلومیٹر جنوب میں واقع ہے اور اردن کی مرکزی شاہراہ جو عقبہ سے عمان تک گئی ہے اس سے اس کا فاصلہ تین کلومیٹر ہے۔ یہ حیرت انگیز واقعہ بجائے خود اس بات کی کتنی بڑی دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ اسباب کی اس دنیا میں اگر چاہے تو بغیر کسی سبب کے چند نوجوانوں کو صدیوں تک سلائے رکھ سکتا ہے اور پھر انھیں زندہ اٹھا کر لوگوں پر حجت تمام کرسکتا ہے اور یہ پورا واقعہ اسی شہر میں پیش آیا تھا جس شہر کے رہنے والے دوبارہ اٹھنے یا نہ اٹھنے یعنی قیامت کے حق و باطل ہونے میں بری طرح جھگڑ رہے تھے اور اللہ تعالیٰ نے اس طریقے سے قیامت کے برحق ہونے کی پر ان پر ایک حجت تمام کردی اور قرآن کریم نے اسے بیان فرما کر قیامت تک آنے والوں کے لیے قیامت کے سمجھنے کو آسان کردیا۔ قرآن کریم کہتا ہے : وَکَذٰلِکَ اَعْثَرْنَا عَلَیْھِمْ لِیَعْلَمُوْ ٓا اَنَّ وَعْدَ اللہ ِحَقٌّ وَّاَنَّ السَّاعَۃَ لَا رَیْبَ فِیْھَا جق (الکہف : 18۔ 12) ” اس واقعہ اصحاب کہف سے ہم نے انھیں صرف اس لیے آگاہ کیا تاکہ وہ جان لیں کہ اللہ کا وعدہ حق ہے اور قیامت کے آنے میں کوئی شبہ نہیں۔ 1 قیامت کے وقوع پر اگر ہم ایک اور حوالے سے غور کریں تو پھر قیامت کے وجود کو تسلیم کرنا نہ صرف مذہبی فریضہ ٹھہرتا ہے ، بلکہ عقل اور اخلاق کا تقاضا بھی بن جاتا ہے۔ کیونکہ انسان کی اجتماعی زندگی میں حسن عمل کا سرمایہ یا اخلاقی زندگی کا بیش بہا خزانہ صرف اس وقت تک موجود ہے اور رہے گا جب تک انسان میں ایک بات کا تصور زندہ رہے گا۔ وہ یہ کہ میں جو کچھ کر رہا ہوں یا جو کچھ کروں گا میرا ہر عمل اپنی مکافات بھی رکھتا ہے۔ جس طرح میں اس کائنات کا ایک حصہ ہوں، اسی طرح میرے اعمال بھی اس کائنات کے باقی حقائق کی طرح ان کا ایک حصہ ہیں۔ جس طرح اللہ کا قانون یہاں ہم کارفرما دیکھتے ہیں کہ ہر حالت کوئی نہ کوئی اثر رکھتی ہے اور ہر چیز کا کوئی نہ کوئی خاصہ ہے۔ ممکن نہیں جہاں کوئی شے اپنا وجود رکھتی ہے وہ اثرات و نتائج کے سلسلہ سے باہر ہو۔ پس جس طرح خدا نے اجسام و مواد میں خواص و نتائج رکھے ہیں۔ یعنی آگ جلاتی ہے ‘ پانی ٹھنڈک پیدا کرتا ہے ‘ سنکھیا کھانے سے موت اور دودھ پینے سے طاقت آتی ہے۔ کونین سے بخار رک جاتا ہے۔ اسی طرح اعمال میں بھی خواص و نتائج ہیں اور جس طرح جسم انسانی کے قدرتی انفعالات ہیں اسی طرح روح انسانی کے لیے بھی قدرتی انفعالات ہیں۔ جسمانی موثرات جسم پر مرتب ہوتے ہیں اور معنوی موثرات میں روح متاثر ہوتی ہے۔ لیکن چونکہ ہم اجسام و مواد کے خواص و نتائج کو دیکھنے کے عادی ہوگئے ہیں تو ہمیں ان کے خواص و نتائج پر بھی شبہ نہیں ہوتا مثلاً ہم گیہوں بوتے ہیں تو ہمارے دل میں یہ خدشہ کبھی نہیں گزرتا کہ گیہوں پیدانہ ہوگا اور اگر ہم سے کوئی کہے کہ ممکن ہے گیہوں کی جگہ جوار پیدا ہوجائے تو ہم اسے پاگل سمجھیں گے۔ اس لیے کہ فطرت کے قانون مکافات کا یقین ہماری طبیعت میں راسخ ہوچکا ہے اور ہمیں یہ کبھی وہم و گمان بھی نہیں گزرتا کہ فطرت گیہوں لے کر اس کے بدلے میں جوار دے گی۔ اتنا ہی نہیں بلکہ ہم یہ بھی ماننے کو تیار نہیں ہوتے کہ اچھی قسم کا گیہوں لے کر فطرت بری قسم کا گیہوں دے سکتی ہے۔ کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ وہ بدلہ دینے میں قطعی اور شک و شبہ سے بالا تر ہے۔ لیکن اعمال کے قدرتی خواص و نتائج جنھیں سزا و جزا سے تعبیر کیا گیا ہے یعنی اچھے اعمال کا نتیجہ اچھائی ہے، جس پر ثواب ملے گا اور برے اعمال کا نتیجہ برائی ہے، جس پر عذاب ملے گا اور پھر اچھے اعمال کے نتیجے میں اچھے اعمال برگ و بار لائیں گے تو انسانی معاشرت میں صحتمند توانائی بروئے کار آئے گی اور انسانی زندگی خوشحالی اور اعتدال سے ہم آہنگ ہوگی اور اگر برائی کریں گے تو اس کا نتیجہ برائی ہوگا اور اس کے رد عمل کے طور پر برائی پھیلے گی اور معاشرہ غیر صحت مند صورت حال کا شکار ہو کر تباہی اور بربادی کا راستہ اختیار کرے گا۔ یہ چیزیں چونکہ ہمیں آنکھ سے دکھائی نہیں دیتیں اور اس کے لیے گہرے غور و فکر کی ضرورت ہوتی ہے، اس لیے ہمیں ان باتوں کا یقین نہیں آتا۔ پروردگار ہمیں یہ بتاتا ہے کہ قیامت اصلاً ” یوم الدین ‘ ہے اور دین کا معنی ہے جزا اور سزا ‘ بدلہ اور مکافات۔ یوم الدین کا معنی ہوگا ” جزا اور سزا اور بدلہ اور مکافات کا دن “۔ یعنی یہ دن ہم نے اس لیے رکھا ہے تاکہ تمہیں اس بات کا اندازہ ہو کہ تم دنیا میں اچھی زندگی گزارنے اچھائیوں کو سپورٹ کرنے ‘ اچھائیوں کو فروغ دینے ‘ اچھائیوں کو سر بلند کرنے کے لیے بھیجے گئے ہو اور یہ تمہارے اعمال دنیا میں بھی اپنے اثرات و نتائج رکھتے ہیں۔ جس سے ایک صحت مند معاشرہ وجود میں آتا ہے اور آخرت میں انہی اعمال کے حوالے سے ہم تمہیں جزا و سزا دیں گے۔ نزول قرآن سے پہلے پیروان مذہب کا عالم گیر اعتقاد یہ تھا کہ جزا و سزا محض اللہ کی خوشنودی اور اس کے قہر و عذاب کا نتیجہ ہے۔ اعمال کے نتائج کا اس میں دخل نہیں۔ الوہیت اور شہنشاہیت کے تشابہ سے تمام مذاہب دیگر تصورات کی طرح اس معاملہ میں بھی گمراہی فکر کے مرتکب ہوئے تھے۔ لوگ دیکھتے تھے کہ ایک مطلق العنان بادشاہ کبھی خوش ہو کر انعام و اکرام دینے لگتا ہے، کبھی بگڑ کر سزائیں دینے لگتا ہے۔ اس لیے خیال کرتے تھے کہ خدا کا بھی ایسا ہی حال ہے۔ وہ کبھی ہم سے خوش ہوجاتا ہے کبھی غصہ و غضب میں آجاتا ہے۔ طرح طرح کی قربانیوں اور چڑھاؤوں کی رسم اسی اعتقاد سے پڑی لوگ دیوتائوں کا جوش و غضب ٹھنڈا کرنے کے لیے قربانیاں کرتے اور ان کی نظر التفات حاصل کرنے کے لیے نذریں چڑھاتے۔ لیکن قرآن کریم نے جزاء و سزا کا اعتقاد ایک دوسری ہی شکل و نوعیت کا پیش کیا ہے۔ وہ اسے خدا کا کوئی ایسا فعل قرار نہیں دیتا جو کائنات ہستی کے عام قانونی نظام سے الگ ہو۔ بلکہ اسی کا ایک قدرتی گوشہ قرار دیتا ہے۔ اب آپ اندازہ فرمایئے کہ اس حقیقت کو جو اوپر بیان کی گئی ہے اگر نظر انداز کردیا جائے اور جس کا نتیجہ بہ ہر صورت قیامت کا وجود ہے تو کیا دنیا میں نیکی اور بدی کا تصور امتیاز باقی رہ سکتا ہے پھر تو اچھائی اور برائی یکساں ہوجائیں گی اور نیک اور بد برابر ٹھہریں گے۔ اس کو قرآن کریم کہتا ہے : اَمْ حَسِبَ الَّذِیْنَ اجْتَرَحُوْا السَّیِِّٰاتِ اَنْ نَّجْعَلَھُمْ کَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوالصّٰلِحٰتِلا سَوَآئً مَّحْیَاھُمْ وَ مَمَا تُھُمْ ط سَآئَ مَایَحْکُمُوْنَ ۔ ع وَخَلَقَ اللہ ُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ بِالْحَقِّ وَلِتُجْزٰی کُلُّ نَفْسٍ م بِمَا کَسَبَتْ وَھُمْ لَایُظْلَمُوْنَ ۔ (الجاثیہ 45: 21۔ 22) ” جو لوگ برائیاں کرتے ہیں وہ سمجھتے ہیں ہم انھیں ایسے لوگوں جیساکر دیں گے، جو ایمان رکھتے ہیں اور جن کے اعمال اچھے ہیں۔ دونوں برابر ہوجائیں گے۔ زندگی میں اور موت میں بھی ؟ اگر ان لوگوں کی فہم و دانش کا یہی فیصلہ ہے تو افسوس ان کے اس فیصلے پر اور اللہ نے زمین اور آسمان کو بےکار اور عبث نہیں بنایا، بلکہ حکمت و مصلحت کے ساتھ بنایا ہے اور اس لیے بنایا ہے کہ ہر جان کو اس کی کمائی کے مطابق بدلہ ملے اور یہ بدلہ ٹھیک ٹھیک ملے گا ‘ کسی پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔ “ یہ صحیح ہے کہ اسلامی زندگی کے برپا ہونے سے کسی حد تک دنیا میں بھی ایسا ہوگا۔ لیکن حقیقی جزا و سزا کی مکمل صورت صرف قیامت کی شکل میں وجود میں آئے گی۔ اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے قرآن کہتا ہے : اِنَّ السَّاعَۃَ اٰتِیَۃٌ اَکَادُ اُخْفِیْھَا لِتُجْزٰی کُلُّ نَفْسٍم بِمَا تَسْعٰی۔ (طٰہٰ : 20۔ 15) ” قیامت یقینا آنے والی ہے میں نے اسے مخفی رکھا ہے تاکہ ہر نفس کو اس کی سعی و کاوش کا بدلہ دیا جائے۔ “ مختصر یہ کہ جس طرح دنیا میں ہر چیز کی ایک خاصیت ہے اور جب وہ یہاں پر وجود پذیر ہوتی ہے تو اس کے ساتھ اسکے خواص و آثار بھی پیدا ہوتے ہیں۔ اسی طرح انسان کی اندرونی کیفیات و اعمال کے بھی کچھ آثار و لوازم ہیں، جو اس سے الگ نہیں ہوسکتے۔ غرور اور خاکساری ‘ بخل اور فیاضی ‘ انتقام اور عفو ‘ شجاعت اور بزدلی ‘ تقویٰ اور فسق ‘ ایمان اور کفر، ہر ایک کا ایک نہ ایک اثر و نتیجہ ہے اور ہر ایک کے کچھ نہ کچھ خصائص و لوازم ہیں، جو اس سے کسی طرح الگ نہیں ہوسکتے۔ جس طرح سنکھیا سے سمیت ‘ شکر سے مٹھاس اور آگ سے حرارت جدا نہیں ہوسکتی، اسی طرح ان معنوی روحانی اور نفسیاتی چیزوں میں بھی علت و معلول کا وہی لزوم ہے، جو جسمانی ‘ مادی اور طبیعاتی اشیا میں ہے۔ اب کوئی وجہ نہیں کہ ہم جسمانی، مادی اور طبیعاتی اشیا کے علت و معلول کے رشتے کو جانیں اور اس پر یقین بھی کریں۔ لیکن قیامت جو اس کا منطقی نتیجہ اور عقلی تقاضا ہے اسکو سمجھنے سے انکار کردیں اور اس پر اشتباہات و ارد کریں۔ بقیہ تفسیر اگلی آیت میں۔
Top