Ruh-ul-Quran - Al-Kahf : 13
نَحْنُ نَقُصُّ عَلَیْكَ نَبَاَهُمْ بِالْحَقِّ١ؕ اِنَّهُمْ فِتْیَةٌ اٰمَنُوْا بِرَبِّهِمْ وَ زِدْنٰهُمْ هُدًىۗۖ
نَحْنُ : ہم نَقُصُّ : بیان کرتے ہیں عَلَيْكَ : تجھ سے نَبَاَهُمْ : ان کا حال بِالْحَقِّ : ٹھیک ٹھیک اِنَّهُمْ : بیشک وہ فِتْيَةٌ : چند نوجوان اٰمَنُوْا : وہ ایمان لائے بِرَبِّهِمْ : اپنے رب پر وَزِدْنٰهُمْ هُدًى : اور ہم نے اور زیادہ دی انہیں۔ ہدایت
(ہم آپ ﷺ کو ان کی سرگزشت ٹھیک ٹھیک سناتے ہیں، وہ (اصحابِ کہف) چند نوجوان تھے جو اپنے رب پر ایمان لائے، ہم نے ان کے ایمان میں برکت عطا فرمائی۔
نَحْنُ نَقُصُّ عَلَیْکَ نَبَاَھُمْ بِالْحَقِّ ط اِنَّھُمْ فِـتْیَۃٌ اٰمَنُوْا بِرَبِّھِمْ زِدْنٰـھُمْ ھُدًی۔ وَّرَبَطْنَا عَلٰی قُلُوْبِھِمْ اِذْقَامُوْا فَـقَالُوْا رَبُّنَا رَبُّ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ لَنْ نَّدْعُوَاْ مِنْ دُوْنِہٖٓ اِلٰـھًا لَّقَدْ قُلْنَـآ اِذًا شَطَطًا۔ (الکہف : 13، 14) (ہم آپ ﷺ کو ان کی سرگزشت ٹھیک ٹھیک سناتے ہیں، وہ (اصحابِ کہف) چند نوجوان تھے جو اپنے رب پر ایمان لائے، ہم نے ان کے ایمان میں برکت عطا فرمائی۔ اور ان کے دلوں کی گرہ مضبوطی سے باندھ دی، جب وہ اٹھ کھڑے ہوئے اور کہا کہ ہمارا رب وہی ہے جو آسمانوں اور زمین کا رب ہے، ہم اس کے سوا کسی اور کو ہرگز معبود کے طور پر نہیں پکاریں گے، اگر ہم نے ایسا کیا تو تب ہم کہیں گے حق سے نہایت ہٹی ہوئی بات۔ ) اجمال کے بعد تفصیل اس سے پہلے چار آیتوں میں اصحابِ کہف کے واقعہ کو نہایت اختصار سے بیان فرمایا۔ اب اسے تفصیل سے بیان فرمایا جارہا ہے، لیکن یہ تفصیل ایسی نہیں جس میں واقعات کی جزئیات پر زور دیا گیا ہو اور وہ باتیں بیان کی گئی ہوں جو زیب داستان کے لیے ضروری ہیں۔ بالحق سے دو باتوں کی طرف اشارہ معلوم ہوتا ہے۔ ایک تو یہ بات کہ اس واقعہ کے بارے میں اصحابِ کہف کے نام لیوائوں میں جو غلط باتیں مشہور ہوگئی ہیں انھیں نظرانداز کیا جائے یا کسی حد تک ان کی اصلاح کردی جائے۔ اور دوسری یہ بات کہ داستان سرائی کی بجائے وہ باتیں بیان کی جائیں جن کا تعلق اصل مقصود اور حکمت و موعظت سے ہے۔ اور جن باتوں سے قیامت تک صاحب ایمان لوگ اپنے ایمان کی سلامتی کے لیے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ فِـتْیَۃٌ کا مفہوم اس آیت میں سب سے پہلا لفظ جو ہماری توجہ اپنی طرف مبذول کرتا ہے، وہ فِـتْیَۃٌ کا لفظ ہے۔ یہ فتیً کی جمع ہے اور جمع قلت کا وزن ہے جس کا اطلاق دس سے کم عدد پر ہوتا ہے۔ اس سے ہمیں یہ اشارہ ملتا ہے کہ ان نوجوانوں کی تعداد آٹھ نو سے زیادہ نہیں تھی اور یہ سب نوخیز نوجوان تھے جن کی مسیں ابھی بھیگ رہی تھیں، جن کی اٹھتی جو انیاں ابھی شاید طوفانوں سے آشنا نہیں تھیں، لیکن اللہ تعالیٰ پر ایمان نے انھیں ایسا جری بنادیا کہ وہ یہ دیکھتے ہوئے کہ وقت کی حکومت انھیں برداشت کرنے کے لیے تیار نہیں۔ وہ بت پرستی کے مقابلے میں توحید کو اپنے لیے موت سمجھتے ہیں، لیکن جوان بچے چونکہ مفادات کے بوجھ تلے دبے ہوئے نہیں ہوتے اور مصلحت پرستی ابھی ان کا شعار نہیں بنا ہوتا۔ چناچہ جب وہ کسی حقیقت کو حقیقت سمجھ کر قبول کرلیتے ہیں تو اس کے لیے ہر قربانی دینے کے لیے تیار ہوجاتے ہیں۔ انھوں نے جب اس بات کو تسلیم کرلیا کہ شرک سراسر ایک واہمہ ہے اور توحید اس کائنات کی اصل حقیقت ہے تو پھر وہ ہر طرح کی مصلحتوں کا جال توڑ کر اللہ تعالیٰ کے راستے پر چلنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے، لیکن وقت کے اقتدار نے جب دیکھا کہ ان لڑکوں نے ایک مختلف راستہ اختیار کرلیا ہے تو انھوں نے ہر ممکن جبر سے ان کو دبانا چاہا۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ بادشاہ نے انھیں اپنے دربار میں طلب کیا اور انھوں نے جب صاف صاف اپنے مؤقف کا اظہار کیا، توحید کی حمایت کی اور شرک کے باطل ہونے پر دلائل دیئے تو بادشاہ نہایت برہم ہوا اور اس نے انھیں وارننگ دیتے ہوئے کہا کہ میں تمہیں تین دن کی مہلت دیتا ہوں، تم اپنے قدیم مذہب پر واپس آجاؤ ورنہ تمہیں سنگسار کردیا جائے گا۔ ان نوخیز نوجوانوں کے لیے یہ دھمکی کوئی معمولی بات نہ تھی۔ یقینا اس دھمکی سے ان کا ریشہ ریشہ کانپ اٹھا ہوگا، لیکن اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جب انھوں نے ہماری طرف آنے کا راستہ اختیار کرلیا تو ہم نے اس ہدایت میں پھر مزید اضافہ کردیا اور ان کے دلوں کی گرہ کو باندھ دیا۔ یہ ایک محاورہ ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے انھیں عزیمت کے راستے پر چلنے کا حوصلہ دیا اور ہر طرح کے خطرات سے بےنیاز ہو کر آگے بڑھنے کی ہمت دی۔ اللہ تعالیٰ کا قانون یہ ہے کہ جب کوئی شخص اس کے راستے پر اسباب سے بےنیاز ہو کر چل پڑتا ہے تو وہ اس کے لیے اسباب بھی خود فراہم کرتا ہے۔ وہ ترک اسباب کی تعلیم تو نہیں دیتا، لیکن جب ایمان کے راستے پر چلنے کے لیے اسباب کو چھوڑنا ضروری ہوجائے تو پھر وہ اس کی حوصلہ افزائی بھی کرتا ہے۔ قرآن کریم میں بھی ارشاد فرمایا گیا ہے کہ وَمَنْ یَتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَلْ لَہٗ مَخْرَجَاً اور جو شخص اللہ کا ہوجاتا ہے، اللہ اس کے لیے بند گلی میں سے راستہ نکال دیتا ہے۔ حضرت یوسف (علیہ السلام) نے جب دیکھا کہ زلیخا نے تمام دروازے مقفل کردیئے اور وہ گناہ کی دعوت دے رہی ہے تو آپ ( رض) نے اپنے ایمان اور حیا کو بچانے کے لیے صرف ایک ہی راستہ دیکھا کہ مجھے ہر دروازے تک دوڑ کر جانا چاہیے، ممکن ہے اللہ تعالیٰ دروازوں کے قفل کھول دے۔ چناچہ ایسا ہی ہوا کہ جس دروازے پر پہنچتے، قفل ٹوٹ کے گر جاتا۔ یہ وہ ہدایت میں اضافہ اور برکت ہے جو اللہ تعالیٰ اپنے بھروسہ کرنے والے بندوں کو عطا فرمایا کرتا ہے، لیکن اس راستے پر چلنے کے لیے چونکہ مضبوط حوصلے کی ضرورت ہوتی ہے اور نوجوان اپنی ناتجربہ کاری کے باعث اس سے آگاہ نہیں ہوتے تو اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہم نے ان کے دلوں کو مضبوط کردیا۔ جب انھوں نے بادشاہ یا لوگوں کے سامنے صاف صاف یہ کہا کہ ہمارا رب صرف وہ ہے جو ارض و سما کا رب ہے۔ ہم اس کے سوا اگر کسی اور کو معبود بنالیں تو اس سے زیادہ کوئی غلط اور حق سے ہٹی ہوئی بات نہیں ہوسکتی، کیونکہ نہ ہدایت یافتہ لوگ اسے تسلیم کرتے ہیں اور نہ ہی انسانی عقل، (اگر وہ بگڑ نہ چکی ہو) اس کائنات کے ایک رب کے سوا کسی دوسرے رب کو تسلیم کرنے کے لیے تیارہوسکتی ہے۔
Top