Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - Al-Kahf : 21
وَ كَذٰلِكَ اَعْثَرْنَا عَلَیْهِمْ لِیَعْلَمُوْۤا اَنَّ وَعْدَ اللّٰهِ حَقٌّ وَّ اَنَّ السَّاعَةَ لَا رَیْبَ فِیْهَا١ۗۚ اِذْ یَتَنَازَعُوْنَ بَیْنَهُمْ اَمْرَهُمْ فَقَالُوا ابْنُوْا عَلَیْهِمْ بُنْیَانًا١ؕ رَبُّهُمْ اَعْلَمُ بِهِمْ١ؕ قَالَ الَّذِیْنَ غَلَبُوْا عَلٰۤى اَمْرِهِمْ لَنَتَّخِذَنَّ عَلَیْهِمْ مَّسْجِدًا
وَكَذٰلِكَ
: اور اسی طرح
اَعْثَرْنَا
: ہم نے خبردار کردیا
عَلَيْهِمْ
: ان پر
لِيَعْلَمُوْٓا
:تا کہ وہ جان لیں
اَنَّ
: کہ
وَعْدَ اللّٰهِ
: اللہ کا وعدہ
حَقٌّ
: سچا
وَّاَنَّ
: اور یہ کہ
السَّاعَةَ
: قیامت
لَا رَيْبَ
: کوئی شک نہیں
فِيْهَا
: اس میں
اِذْ
: جب
يَتَنَازَعُوْنَ
: وہ جھگڑتے تھے
بَيْنَهُمْ
: آپس میں
اَمْرَهُمْ
: ان کا معاملہ
فَقَالُوا
: تو انہوں نے کہا
ابْنُوْا
: بناؤ
عَلَيْهِمْ
: ان پر
بُنْيَانًا
: ایک عمارت
رَبُّهُمْ
: ان کا رب
اَعْلَمُ بِهِمْ
: خوب جانتا ہے انہیں
قَالَ
: کہا
الَّذِيْنَ غَلَبُوْا
: وہ لوگ جو غالب تھے
عَلٰٓي
: پر
اَمْرِهِمْ
: اپنے کام
لَنَتَّخِذَنَّ
: ہم ضرور بنائیں گے
عَلَيْهِمْ
: ان پر
مَّسْجِدًا
: ایک مسجد
اسی طرح ہم نے ان پر لوگوں کو مطلع کردیا تاکہ لوگ جان لیں کہ اللہ کا وعدہ حق ہے، اور قیامت کے آنے میں کوئی شبہ نہیں، وہ وقت بھی یاد کرو جب وہ آپس میں جھگڑ رہے تھے ان کے معاملے میں، پھر کہنے لگے ان پر ایک عمارت بنادو، ان کا رب انھیں خوب جانتا ہے، کہا ان لوگوں نے جو ان کے معاملے میں غالب آگئے کہ ہم تو ان کے غار پر ایک مسجد بنائیں گے۔
وَکَذٰلِکَ اَعْثَرْنَاعَلَیْھِمْ لِیَعْلَمُوْٓااَنَّ وَعْدَاللّٰہِ حَقٌّ وَّ اَنَّ السَّاعَۃَ لاَرَیْبَ فِیْھَاق ج اِذْ یَتَنَازَعُوْنَ بَیْنَھُمْ اَمْرَھُمْ فَقَالُوْا ابْنُوْا عَلَیْھِمْ بُنْیَانًا ط رَبُّھُمْ اَعْلَمُ بِہِمْ ط قَالَ الَّذِیْنَ غَلَبُوْا عَلٰٓی اَمْرِھِمْ لَنَتَّخِذَنَّ عَلَیْھِمْ مَّسْجِدًا۔ (الکہف : 21) (اسی طرح ہم نے ان پر لوگوں کو مطلع کردیا تاکہ لوگ جان لیں کہ اللہ کا وعدہ حق ہے، اور قیامت کے آنے میں کوئی شبہ نہیں، وہ وقت بھی یاد کرو جب وہ آپس میں جھگڑ رہے تھے ان کے معاملے میں، پھر کہنے لگے ان پر ایک عمارت بنادو، ان کا رب انھیں خوب جانتا ہے، کہا ان لوگوں نے جو ان کے معاملے میں غالب آگئے کہ ہم تو ان کے غار پر ایک مسجد بنائیں گے۔ ) ایک اور کرم فرمائی یہاں بھیکذٰ لِکَکا لفظ لا کر یہ بتلانا مقصود ہے کہ جس طرح اصحابِ کہف کو طویل نیند سلانا اور پھر انھیں نیند سے بیدار کرنا اللہ تعالیٰ کے کمال قدرت کا اظہار تھا، اسی طرح یہ بھی اس کے کمال قدرت کی ایک شان تھی کہ ہرچند جاگنے والوں نے اپنے تئیں ہر طرح کی احتیاط کی اور بازار جانے والے کو ہر طرح کی تاکید کرکے بھیجا کہ دیکھنا کہیں اپنا راز کھلنے نہ دینا، لیکن انھیں کیا خبر تھی کہ ہم نے انھیں اٹھایا ہی اس لیے ہے تاکہ لوگوں کو ان کے بیدار ہونے اور لمبی نیند کے بعد جاگنے کا علم ہو اور اس سے آخرت اور قیامت پر استشہاد کیا جاسکے۔ یہاں پروردگار نے ان واقعات کو بیان نہیں فرمایا جو شہر جانے والے اصحابِ کہف کے ساتھی کو پیش آئے اور جس سے ان کا راز افشا ہوا، لیکن تاریخی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اصحابِ کہف جس شہر سے نکل کے گئے تھے وہ بت پرستوں کا شہر تھا اور بعض روایات کے مطابق اس کا نام افسس یا افسوس تھا اور بعض اہل علم کے نزدیک اس شہر کا نام رقیم تھا۔ اور اس میں جو حکمران تھا جس کے ظلم نے ان نوجوانوں کو نکلنے پر مجبور کیا تھا اس کا نام دقیانوس تھا، لیکن جب اصحابِ کہف اپنی نیند سے بیدار کیے گئے تو اس وقت یہ شہر مسیحی دعوت کو قبول کرچکا تھا اور اس کی آبادی کا بیشتر حصہ دین توحید پر قائم تھا اور تفسیرِمظہری کے مطابق اس وقت جو حکمران اس شہر پر حکومت کر رہا تھا وہ ایک صالح آدمی تھا، اس کا نام بیدوسیس تھا۔ اس کی حکومت میں اگرچہ توحید کو بالادستی حاصل تھی لیکن ابھی تک رومی شرک و بت پرستی اور یونانی فلسفہ کے اثرات کافی طاقتور تھے جن کی وجہ سے بہت سے لوگ آخرت سے انکار یا اس کے ہونے میں شک کا اظہار کرتے تھے، پھر شک و انکار کو سب سے زیادہ جو چیز تقویت پہنچا رہی تھی وہ یہ تھی کہ اس شہر میں یہودیوں کی بڑی آبادی تھی، ان میں سے ایک فرقہ جسے صدوقی کہا جاتا تھا آخرت کا کھلم کھلا منکر تھا۔ یہ فرقہ تورات سے آخرت کے انکار پر دلیل لاتا تھا اور مسیحی علماء کے پاس اس کے مقابلے میں مضبوط دلائل موجود نہ تھے۔ یہ صورتحال دیکھ کر اس وقت کے نیک دل بادشاہ نے اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کیا۔ روایات کے مطابق اس نے ٹاٹ کے کپڑے پہنے اور راکھ کے ڈھیر پر بیٹھ کر اللہ تعالیٰ سے دعا کی اور الحاح وزاری کی کہ یا اللہ ! آپ کی کوئی ایسی صورت پیدا فرما دیں کہ ان لوگوں کا عقیدہ صحیح ہوجائے اور یہ لوگ راہ راست پر آجائیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی دعا اس طرح قبول فرمائی کہ اصحابِ کہف کو بیدا کردیا اور انھوں نے اپنا ایک آدمی جس کا نام تملیخا بتلایا جاتا ہے، اسے بازار میں کھانا خریدنے کے لیے بھیجا۔ جب وہ کسی دکان پر پہنچا اور تین سو برس پہلے بادشاہ دقیانوس کے زمانے کا سکہ کھانے کی قیمت میں پیش کیا تو دکاندار حیران رہ گیا کہ یہ سکہ کہاں سے آیا، اسے گمان ہوا کہ اس شخص کو کہیں سے کوئی خزانہ ہاتھ آیا ہے اور اس سے یہ سکہ نکال کے لایا ہے۔ اس نے دوسرے دکانداروں کو اکٹھا کرلیا۔ یہ نوجوان بیچارہ پریشان، ہرچند اس نے اپنی صفائی پیش کی لیکن لوگ مطمئن نہ ہوئے۔ انھوں نے اسے گرفتار کر کے بادشاہ کے حضور پیش کیا۔ بادشاہ کو جب اصل صورتحال کا علم ہوا تو اسے چونکہ اس شہر سے چند نوجوانوں کے غائب ہوجانے کا علم تھا اور کہا جاتا ہے کہ ان کے ناموں کی تختی خزانے میں محفوظ تھی جسے بادشاہ دیکھ چکا تھا۔ اس نے ان کی بیداری کو اللہ تعالیٰ کی نعمت سمجھا اور وہ اس کے ساتھیوں سے ملاقات کے لیے غار پر گیا۔ بہت سے اہل شہر بھی اس کے ہمراہ تھے۔ جب وہ غار کے قریب آیا تو تملیخا نے کہا کہ آپ ذرا ٹھہریں، میں ذرا جا کے اپنے ساتھیوں کو حقیقتِ معاملہ سے باخبر کردوں کہ اب بادشاہ مسلمان موحد ہے اور قوم بھی مسلمان ہے، وہ ملنے کے لیے آئے ہیں، ایسا نہ ہو کہ اطلاع کے بغیر آپ پہنچیں تو وہ سمجھیں کہ ہمارا دشمن بادشاہ چڑھ آیا ہے۔ اس کے مطابق تملیخا نے پہلے جا کر ساتھیوں کو تمام حالات سنائے تو وہ لوگ اس سے بہت خوش ہوئے۔ بادشاہ کا استقبال تعظیم کے ساتھ کیا، پھر وہ اجازت لے کر اپنے غار کی طرف لوٹ گئے اور اکثر روایات میں یہ ہے کہ غار میں لیٹتے ہی ان کی وفات ہوگئی، لیکن اس واقعہ سے جو مقصود تھا وہ پورا ہوگیا۔ ان کا تین سو سال کے بعد زندہ حالت میں اٹھنا قیامت کے آنے اور انسانوں کے دوبارہ زندہ اٹھائے جانے کی ایسی دلیل تھی جس کا جواب کسی کے پاس نہ تھا۔ کیونکہ منکرینِ قیامت کو انسانوں کے دوبارہ اٹھنے کا کسی طرح یقین نہ آتا تھا۔ اس واقعہ نے انھیں اس پر یقین لانے پر مجبور کردیا اور لوگ آخرت کے قائل ہوگئے۔ یادگار کے بارے میں اختلاف اصحابِ کہف کے دوبارہ غار میں سو جانے یا موت کا شکار ہوجانے کے بعد جو لوگ ان کی زیارت کے لیے گئے تھے ان میں اختلاف پیدا ہوا کہ اب ان کے ساتھ کیا معاملہ کیا جائے۔ ایک رائے یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ ہی ان کے مقام و مرتبہ سے واقف ہے، تم ان کا معاملہ خدا کے سپرد کرو۔ البتہ ان کی یادگار کے لیے غار کے سامنے ایک عمارت بنادو تاکہ لوگوں کو معلوم ہوتا رہے کہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی تھے اور ان کا وجود قیامت کی بہت بڑی دلیل تھا۔ اور دوسرے لوگوں نے کہا کہ ہم اس غار کے قریب ایک مسجد بنائیں گے۔ چناچہ ان کی رائے غالب آئی تو انھوں نے غار پر ایک مسجد بنادی۔ اس سے بعض علماء نے استدال کیا ہے کہ اولیا و صلحاء کی قبور کے پاس نماز کے لیے مسجد بنادینا کوئی گناہ نہیں اور جس حدیث میں قبور انبیاء کو مسجد بنانے والوں پر لعنت کے الفاظ آئے ہیں اس سے مراد خود قبور کو سجدہ گاہ بنادینا ہے جو بالاتفاق شرک اور حرام ہے، لیکن بعض اہل علم کا خیال ہے کہ یہاں جن لوگوں کے مسجد بنانے کا ذکر ہے اور ان کے بارے میں یہ کہا گیا ہے کہ وہ ان کے معاملے پر غالب تھے وہ اصل میں اربابِ اقتدار تھے اور انھوں نے مسجد بنا کر درحقیقت اللہ تعالیٰ کے نیک بندوں کی پوجا پاٹ کا ایک انتظام کردیا تھا۔ اس خیال کی تائید میں صاحب تفہیم القرآن نے جو نوٹ لکھا ہے وہ بھی قابل توجہ ہے، اس لیے ہم اسے یہاں نقل کیے دیتے ہیں۔ اس سے مراد رومی سلطنت کے اربابِ اقتدار اور مسیحی کلیسا کے مذہبی پیشوا ہیں جن کے مقابلے میں صالح العقیدہ عیسائیوں کی بات نہ چلتی تھی۔ پانچویں صدی کے وسط تک پہنچتے پہنچتے عام عیسائیوں میں اور خصوصاً رومن کیتھولک کلیسا میں شرک اور اولیاء پرستی اور قبر پرستی کا پورا زور ہوچکا تھا۔ بزرگوں کے آستانے پوجے جارہے تھے اور مسیح ( علیہ السلام) ، مریم اور حواریوں کے مجسمے گرجوں میں رکھے جارہے تھے۔ اصحابِ کہف کے بعث سے چند ہی سال پہلے 431 ء میں پوری عیسائی دنیا کے مذہبی پیشوائوں کی ایک کونسل اسی افسس کے مقام پر منعقد ہوئی تھی جس میں مسیح (علیہ السلام) کی الوہیت اور حضرت مریم ( علیہ السلام) کے ” مادرِخدا “ ہونے کا عقیدہ چرچ کا سرکاری عقیدہ قرار پایا تھا۔ اس تاریخ کو نگاہ میں رکھنے سے صاف معلوم ہوجاتا ہے کہ اَلَّذِیْنَ غَلَبُوْا عَلٰٓی اَمْرِھِمْسے مراد وہ لوگ ہیں جو سچے پیروانِ مسیح کے مقابلے میں اس وقت عیسائی عوام کے رہنما اور سربراہ کار بنے ہوئے تھے اور مذہبی و سیاسی امور کی باگیں جن کے ہاتھوں میں تھیں یہی لوگ دراصل شرک کے علم بردار تھے اور انھوں نے ہی فیصلہ کیا کہ اصحابِ کہف کا مقبرہ بنا کر اس کو عبادت گاہ بنایا جائے۔ مسلمانوں میں سے بعض لوگوں نے قرآن مجید کی اس آیت کا بالکل الٹا مفہوم لیا ہے۔ وہ اسے دلیل ٹھہرا کر مقابرِ صلحاء پر عمارتیں اور مسجدیں بنانے کو جائز قرار دیتے ہیں حالانکہ یہاں قرآن ان کی اس گمراہی کی طرف اشارہ کر رہا ہے کہ جو نشانی ان ظالموں کو بعث بعدالموت اور امکان آخرت کا یقین دلانے کے لیے دکھائی تھی اسے انھوں نے ارتکابِ شرک کے لیے ایک خداداد موقع سمجھا اور خیال کیا کہ چلو، کچھ اور دلی پوجا پاٹ کے لیے ہاتھ آگئے۔ پھر آخر اس آیت سے قبور صالحین پر مسجدیں بنانے کے لیے کیسے استدلال کیا جاسکتا ہے جبکہ نبی کریم ﷺ کے یہ ارشادات اس کی نہی میں موجود ہیں : لعن اللہ تعالیٰ زائرت القبور والمتخذین علیھا المساجد والسرج۔ (احمد، ترمذی، ابوداؤد، نسائی۔ ابن ماجہ) اللہ نے لعنت فرمائی ہے قبروں کی زیارت کرنے والی عورتوں پر، اور قبروں پر مسجدیں بنانے اور چراغ روشن کرنے والوں پر۔ الاوان من کان قبلکم کانوا یتخذون قبورانبیاء ھم مساجد فانی انھکم عن ذلک (مسلم) خبردار رہو، تم سے پہلے لوگ اپنے انبیاء کی قبروں کو عبادت گاہ بنا لیتے تھے، میں تمہیں اس حرکت سے منع کرتا ہوں۔ لعن اللہ تعالیٰ الیھود والنصاریٰ اتخذوا قبور انبیآء ھم مساجدا۔ (احمد، بخاری، مسلم، نسائی) اللہ نے لعنت فرمائی یہود اور نصاریٰ پر، انھوں نے اپنے انبیاء کی قبروں کو عبادت گاہ بنا لیا۔ ان اولئک اذا کان فیہم الرجل الصالح فمات بنوا علی قبرہ مسجدا وصوروافیہ تلک الصوراولئک شرارالخلق یوم القیٰمۃ۔ (احمد، بخاری، مسلم، نسائی) ان لوگوں کا حال یہ تھا کہ اگر ان میں کوئی مردصالح ہوتا تو اس کے مرنے کے بعد اس کی قبر پر مسجدیں بناتے اور اس کی تصویریں تیار کرتے تھے۔ قیامت کے روز بدترین مخلوقات ہوں گے۔ نبی کریم ﷺ کی ان تصریحات کی موجودگی میں کون خدا ترس آدمی یہ جرأت کرسکتا ہے کہ قرآن مجید میں عیسائی پادریوں اور رومی حکمرانوں کے جس گمراہانہ فعل کا حکایتہ ذکر کیا گیا ہے اس کو ٹھیک وہی فعل کرنے کے لیے دلیل و حجت ٹھہرائے ؟ اس موقع پر یہ ذکر کردینا بھی خالی از فائدہ نہیں کہ 1834 ء میں ریورنڈ ٹی ارنڈیل (Arundell) نے ” ایشیائے کو چک کے اکتشافات “ (Discoveries ni Asia Minor) کے نام سے اپنے جو مشاہدات شائع کیے تھے ان میں وہ بتاتا ہے کہ قدیم شہر افسس کے کھنڈرات سے متصل ایک پہاڑی پر اس نے حضرت مریم اور ” سات لڑکوں “ (یعنی اصحابِ کہف) کے مقبروں کے آثار پائے ہیں۔
Top