Ruh-ul-Quran - Al-Kahf : 35
وَ دَخَلَ جَنَّتَهٗ وَ هُوَ ظَالِمٌ لِّنَفْسِهٖ١ۚ قَالَ مَاۤ اَظُنُّ اَنْ تَبِیْدَ هٰذِهٖۤ اَبَدًاۙ
وَدَخَلَ : اور وہ داخل ہوا جَنَّتَهٗ : اپنا باغ وَهُوَ : اور وہ ظَالِمٌ : ظلم کر رہا تھا لِّنَفْسِهٖ : اپنی جان پر قَالَ : وہ بولا مَآ اَظُنُّ : میں گمان نہیں کرتا اَنْ : کہ تَبِيْدَ : برباد ہوگا هٰذِهٖٓ : یہ اَبَدًا : کبھی
اور (ایک دن) وہ اپنے باغ میں اس حال میں داخل ہوا کہ وہ اپنی جان پر ظلم ڈھا رہا تھا، اس نے کہا کہ میں خیال نہیں کرتا کہ یہ (سرسبزوشاداب باغ) کبھی برباد ہوگا۔
وَدَخَلَ جَنَّـتَـہٗ وَھُوَ ظَالِمٌ لِّـنَفْسِہٖ ج قَالَ مَآ اَظُنُّ اَنْ تَبِیْدَ ھٰذِہٖٓ اَبَدًا۔ وَّمَآ اَظُنُّ السَّاعَۃَ قَـآئِمَۃً لا وَّلَئِنْ رُّدِدْتُّ اِلٰی رَبِّیْ لَاَجِدَنَّ خَیْرًا مِّنْھَا مُنْقَلَـبًا۔ (الکہف : 35، 36) (اور (ایک دن) وہ اپنے باغ میں اس حال میں داخل ہوا کہ وہ اپنی جان پر ظلم ڈھا رہا تھا، اس نے کہا کہ میں خیال نہیں کرتا کہ یہ (سرسبزوشاداب باغ) کبھی برباد ہوگا۔ اور میں یہ گمان بھی نہیں کرتا کہ کبھی قیامت بھی برپا ہوگی اور اگر میں اپنے رب کی طرف لوٹایا بھی گیا تو اس سے بھی بہتر مرجع پائوں گا۔ ) کافر اور مومن کی ذہنیت کا فرق ان آیات میں مومن اور کافر کی ذہنیت کے فرق کو نمایاں کیا گیا ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ کافر اس دنیا کو کس نگاہ سے دیکھتا ہے اور مومن دنیاکو کس نگاہ سے دیکھتا ہے۔ چناچہ ایک کافر کے دنیا کے بارے میں تصورات اور خصوصیات کو بیان کرتے ہوئے پہلی یہ بات ارشاد فرمائی گئی ہے کہ اس کے نزدیک دنیا کا ٹھاٹ باٹ اور کروفر اور دولت کی فراوانی حاصل زندگی ہے۔ اسی کے لیے وہ جیتا اور مرتا ہے، اسی کو وہ عزت کا معیار سمجھتا ہے اور عنداللہ اور آخرت میں بھی وہ اسی کو کامیابی کی ضمانت گردانتا ہے اور اسی دنیا کو جنت قرار دیتا ہے۔ اس کا خیال یہ ہے کہ آج جو شخص خوشحال ہے وہ قیامت میں بھی خوشحال ہوگا اور جو آج بدحال ہے وہ قیامت میں بھی بدحال ہوگا۔ اور دوسری خصوصیت اس آیت کریمہ میں یہ بتائی گئی ہے کہ وہ جس طرح دنیا کی محبت میں انسانیت سے تہی دامن ہوجاتا ہے اور انسانی اقدار کو انسان کے لیے ضروری سمجھنے کی بجائے دولت دنیا کو ضروری سمجھتا ہے۔ اس طرح سے اس کی اپنی شخصیت دنیا میں گم ہوجاتی ہے۔ اور یہ فساد بڑھتے بڑھتے یہاں تک پہنچتا ہے کہ ایک معمولی عقل کا آدمی بھی سمجھتا ہے کہ اس دنیا میں کوئی چیز ہمیشہ رہنے والی نہیں، ہر بڑے اور چھوٹے آدمی کو موت آئے گی، لیکن اس کے فسادِعقل و فکر کا نتیجہ یہ ہے کہ وہ اپنی دولت اور اپنے باغات کے بارے میں یہ گمان رکھتا ہے کہ یہ کبھی ہلاک نہیں ہوں گے اور ان پر کبھی زوال نہیں آئے گا۔ اس کے اس فکری فساد کی تیسری خصوصیت یہ ہے کہ وہ یہ سمجھتا ہے کہ قیامت کبھی نہیں آئے گی۔ اس لیے زندگی کے بارے میں کبھی حساب کتاب نہیں ہوگا اور کبھی بازپرس نہیں کی جائے گی۔ جس طرح یہاں ایک حیوان زندگی گزارتا ہے کہ جبلت اس کو جس طرف کھینچتی ہے وہ اس طرف چل دیتا ہے۔ اس کا نہ کوئی مقصد زندگی ہے اور نہ شعور زندگی۔ یہ بھی بالکل حیوان کی طرح زندگی کے عیش و عشرت کے سوا اور کسی چیز سے سروکار نہیں رکھتا۔ وہ دنیا میں آنے کا مقصد صرف یہ سمجھتا ہے کہ اس کی نعمتوں سے فائدہ اٹھایا جائے، خواہشِ نفس کی پیروی کی جائے اور ہر وہ کام کیا جائے جو طبیعت چاہے۔ چاہے انسانیت اس کی اجازت دے یا نہ دے۔ اس اندازِ فکر سے بنیادی تبدیلی یہ آتی ہے کہ انسان بندہ خدا بننے کی بجائے بندہ درہم و دینار اور بندہ شکم بن جاتا ہے۔ اب اس کا محور و مدار بلکہ مطاف معدہ ٹھہرتا ہے۔ وہ دماغ سے کم اور معدہ سے زیادہ سوچتا ہے، اس کے عزائم قلب کی گہرائیوں سے نہیں بلکہ معدہ سے پھوٹتے ہیں اور یہ فرق اس قدر خطرناک ہے کہ صرف زندگی کے تصورات ہی کو نہیں بدلتا بلکہ قسمت اور انجام کو بھی بدل دیتا ہے۔ اقبال نے اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا : دل کی آزادی شہنشاہی، شکم سامانِ موت فیصلہ تیرا ترے ہاتھوں میں ہے، دل یا شکم اسی غلط طرزفکر کی انتہا یہ ہے کہ اس کافر شخص نے یہ کہا کہ اولاً تو قیامت قائم نہیں ہوگی اور اگر بفرضِ محال قیامت آہی گئی تو تب بھی میرے لیے فکر کی کوئی بات نہیں کیونکہ میں جانتا ہوں کہ وہاں بھی مجھے بہتر مقام و مرتبہ ملے گا، بلکہ دنیا سے بھی زیادہ اعزازو اکرام سے نوازا جائے گا اور امرواقعہ یہ ہے کہ گمراہ لوگوں کا سہارا یہی طرز فکر ہے بالخصوص طبقہ امراء کے لیے یہ ایک ایسی دلیل ہے جو وہ ہمیشہ ہر اس صاحب ایمان شخص کے سامنے پیش کرنے میں کوئی قباحت نہیں سمجھتے جو ایمان کی دولت تو رکھتا ہے لیکن ان کی طرح دولت کی فراوانی اس کے پاس نہیں۔ امیر لوگ ایسے غریبوں پر طنز کرتے ہوئے یہ کہتے ہیں کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کا محبوب ہوتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کے لیے یہ کبھی نہیں چاہتا کہ وہ لوگوں میں دھکے کھائے اور دنیا کے ہاتھوں ذلیل ہو۔ اس لیے جسے اس نے دنیا میں عزت دی ہے وہ یقینا اس کا محبوب ہے۔ اور جسے دنیا میں تہی دامن رکھا ہے وہ یقینا اس کی نگاہوں سے گرا ہوا ہے۔
Top