Ruh-ul-Quran - Al-Kahf : 46
اَلْمَالُ وَ الْبَنُوْنَ زِیْنَةُ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا١ۚ وَ الْبٰقِیٰتُ الصّٰلِحٰتُ خَیْرٌ عِنْدَ رَبِّكَ ثَوَابًا وَّ خَیْرٌ اَمَلًا
اَلْمَالُ : مال وَالْبَنُوْنَ : اور بیٹے زِيْنَةُ : زینت الْحَيٰوةِ الدُّنْيَا : دنیا کی زندگی وَالْبٰقِيٰتُ : اور باقی رہنے والی الصّٰلِحٰتُ : نیکیاں خَيْرٌ : بہتر عِنْدَ رَبِّكَ : تیرے رب کے نزدیک ثَوَابًا : ثواب میں وَّخَيْرٌ : اور بہتر اَمَلًا : آرزو میں
مال اور اولاد دنیوی زندگی کی زینت ہیں اور باقی رہنے والے اعمالِ صالحہ، باعتبارِ ثواب اور باعتبارِ امید تمہارے رب کے نزدیک بہتر ہیں۔
اَلْمَالُ وَالْبَنُوْنَ زِیْنَۃُ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا ج وَالْبٰـقِیٰتُ الصّٰلِحٰتُ خَیْرٌعِنْدَ رَبِّکَ ثَوَابًا وَّ خَیْرٌاَ مَلاً ۔ (الکہف : 46) (مال اور اولاد دنیوی زندگی کی زینت ہیں اور باقی رہنے والے اعمالِ صالحہ، باعتبارِ ثواب اور باعتبارِ امید تمہارے رب کے نزدیک بہتر ہیں۔ ) مال و اولاد اور اعمالِ صالحہ کا تقابل عرب میں جیسے پہلے عرض کرچکا ہوں چونکہ قبائلی زندگی تھی اس لیے ان کی تمام تر قوت کا دارومدار مال کی کثرت اور اولاد کی کثرت پر تھا۔ قحط کے زمانے میں قبیلے کا سردار اپنے جانوروں کے ریوڑ اپنے قبیلے کے لوگوں کے لیے ذبح کرنے سے دریغ نہیں کرتا تھا اور اس طرح سے ان کی بھوک کا علاج کرتا اور اپنی عظمت کے جھنڈے گاڑ دیتا۔ اور دوسروں پر اپنا رعب اور دبدبہ جمانے کے لیے اولاد میں کثرت کا خواہش مند ہوتا کیونکہ قبائل کی زندگی میں طاقت کی زبان ہی اصل زبان ہوتی ہے اور طاقت جس طرح دولت سے پیدا ہوتی ہے اسی طرح قبائلی زندگی میں بیٹوں کی کثرت بھی اس کا اہم سبب تھا۔ اس لیے وہ لوگ مال اور اولاد کو سب سے زیادہ عزیز رکھتے تھے اور ان پر فخر بھی کرتے تھے۔ قرآن کریم نے دونوں کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ تمہاری دنیوی زندگی کی زینت ہیں لیکن تم جانتے ہو کہ نہ تمہاری زندگی کو دوام حاصل ہے اور نہ ان چیزوں کو۔ دوام اگر میسر ہے تو ان پاکیزہ اعمال کو ہے جن کی یاد ہمیشہ باقی رہتی ہے اور جن کے اثرات سے انسانیت توانا ہوتی ہے۔ آنحضرت ﷺ نے اگرچہ بعض مواقع پر تسبیح و تہلیل اور بعض اذکار کو باقیات الصالحات قرار دیا اور کبھی بعض اعمال کو، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہر وہ عمل جو شریعت کے مطابق اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے کیا جائے وہ باقیات الصالحات میں شامل ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کبھی اسے ضائع نہیں ہونے دیتا۔ ہمدردی و غمخواری، رحم دلی و مروت، جودوسخاوت، قربانی و ایثار اور اطاعت و عبادت یہ تمام اعمال حُسنِ نیت کے ساتھ باقیات الصالحات میں شامل ہیں اور اپنے اصل کے اعتبار سے اللہ تعالیٰ کے یہاں تو یقینا ہمیشہ باقی رہنے والے ہیں، دنیا میں بھی اس کے اثرات تادیر قائم رہتے ہیں۔ اس لیے یہاں فرمایا گیا کہ اگر تم اللہ تعالیٰ کے یہاں بہترین اجر چاہتے ہو تو وہ بھی تمہیں اعمالِ صالحہ کے نتیجہ میں ملے گا اور اگر تم انسانیت کے لیے بہترین امید کے خواہاں ہو یا اپنے لیے اللہ تعالیٰ سے اچھے انجام کی امید رکھنا چاہتے ہو تو اس کی ضمانت بھی ایمان کے بعد اعمالِ صالحہ کے سوا کسی اور چیز سے نہیں دی جاسکتی۔ اس لیے اہل دنیا کو اگر انسانیت کی بھلائی مقصود ہے تو وہ ان چیزوں میں نہیں جو حیات دنیا کی زینت ہیں بلکہ ان اعمال میں ہے جو حیات دنیا کی بقاء کا ذریعہ اور اس کی پائیداری کا سبب ہیں۔
Top