Ruh-ul-Quran - Al-Kahf : 47
وَ یَوْمَ نُسَیِّرُ الْجِبَالَ وَ تَرَى الْاَرْضَ بَارِزَةً١ۙ وَّ حَشَرْنٰهُمْ فَلَمْ نُغَادِرْ مِنْهُمْ اَحَدًاۚ
وَيَوْمَ : اور جس دن نُسَيِّرُ : ہم چلائیں گے الْجِبَالَ : پہار وَتَرَى : اور تو دیکھے گا الْاَرْضَ : زمین بَارِزَةً : کھلی ہوئی (صاف میدن) وَّحَشَرْنٰهُمْ : اور ہم انہیں جمع کرلیں گے فَلَمْ نُغَادِرْ : پھر نہ چھوڑیں گے ہم مِنْهُمْ : ان سے اَحَدًا : کس کو
اس دن کا خیال کرو جس دن ہم پہاڑوں کو چلا دیں گے اور تو زمین کو دیکھے گا بالکل عریاں اور ہم ان سب کو اکٹھا کریں گے تو ان میں سے کسی کو چھوڑیں گے نہیں۔
وَیَوْمَ نُسَیِّرُالْجِبَالَ وَتَرَی الْاَرْضَ بَارِزَۃً لا وَّ حَشَرْنٰـہُمْ فَلَمْ نُغَادِرْمِنْھُمْ اَحَدًا۔ وَعُرِضُوْا عَلٰی رَبِّکَ صَفًّا ط لَقَدْ جِئْتُمُوْنَا کَمَا خَلَقْنٰـکُمْ اَوَّلَ مَرَّۃٍ ز م بَلْ زَعَمْتُمْ اَلَّنْ نَّجْعَلَ لَکُمْ مَّوْعِدًا۔ (الکہف : 47، 48) (اس دن کا خیال کرو جس دن ہم پہاڑوں کو چلا دیں گے اور تو زمین کو دیکھے گا بالکل عریاں اور ہم ان سب کو اکٹھا کریں گے تو ان میں سے کسی کو چھوڑیں گے نہیں۔ اور وہ سب تیرے رب کے سامنے پیش کیے جائیں گے صف بستہ، ہم ان سے کہیں گے کہ تم ہمارے پاس آئے ہو جس طرح ہم نے تمہیں پہلی مرتبہ پیدا کیا تھا بلکہ تم نے گمان کیا تھا کہ ہرگز تمہارے لیے ہم کوئی یوم موعود مقرر نہیں کریں گے۔ ) آنے والے دن کی فکر کرو دنیا کی ہر چیز جب موت کا شکار ہوجاتی ہے تو پھر دوبارہ اسے زندگی نہیں ملتی، لیکن جن و انس کا معاملہ اس سے مختلف ہے، انھیں صرف اس بات کو یاد نہیں رکھنا چاہیے کہ ایک نہ ایک دن انھیں موت آنے والی ہے بلکہ ان کی اصل یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ موت کے بعد ایک مدت تک وہ عالم برزخ میں رہیں گے۔ وہ بظاہر فنا ہوجائیں گے لیکن حقیقت میں جب قیامت برپا ہوگی تو انھیں زندہ کرکے اٹھایا جائے گا۔ انھیں درحقیقت اس دن کو یاد رکھنا چاہیے، کیونکہ یہی وہ دن ہے جس دن ہر شخص اپنے اعمال کا حساب دے گا۔ اس لیے کفار کو تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا جارہا ہے کہ تم دنیا کی زیب وزینت پر مرتے ہو اور تمہارا جینا مرنا اسی دنیا کے حوالے سے ہے۔ اسی کی خوشیاں تمہاری خوشیاں ہیں اور اسی کے غم تمہارے لیے اصل غم ہیں۔ لیکن تمہیں کبھی بھی اس بات کا خیال نہیں آتا کہ ہمیں اس دن کی فکر کرنی چاہیے جس دن کی ہولناکی کا عالم یہ ہوگا کہ اس دن اللہ تعالیٰ کی قدرت سے پہاڑ چلتے ہوئے دکھائی دیں گے۔ قرآن میں ایک دوسری جگہ فرمایا گیا ہے وَتَریٰ الْجِبَالَ تَحْسَبُھَا جَامِدَۃً وَھِیَ تَمُرُّمَرَّالْسَّحَاب ” تم پہاڑوں کو دیکھتے اور گمان کرتے ہو انھیں زمین پر جما ہوا اور وہ ( قیامت کے دن) اس طرح چلیں گے جیسے بادل چلتے ہیں۔ “ اور سورة القارعہ میں کہا گیا کہ قیامت کے دن پہاڑ روئی کے گالوں کی طرح اڑتے پھریں گے۔ ہر چیز تباہ و برباد ہوجائے گی۔ اس کے بعد قیامت کے دوسرے مرحلے میں نئی زمین وجود میں آئے گی، نئی کائنات ہوگی۔ ایک بہت بڑے میدان میں سب انسانوں کو جمع کیا جائے گا اور اس میدان میں اللہ تعالیٰ اس طرح سب کو جمع کرے گا کہ کسی کو پیچھے رہ جانے کی مجال نہیں ہوگی۔ اور اس روز زمین بالکل برہنہ ہوجائے گی یعنی آج جبکہ زمین پر پہاڑ گڑے ہوئے ہیں، سربفلک محلات کھڑے ہیں، نہایت مضبوط قلعے ایستادہ ہیں، باغوں اور چمنوں سے آراستہ ہے لیکن قیامت کے دن ہر چیز اکھاڑ پھینکی جائے گی اور زمین صفا چٹ میدان بن جائے گی جس میں لوگوں کو قطار در قطار صف بستہ اللہ تعالیٰ کے حضور کھڑا کیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ ان سے فرمائے گا کہ جس طرح تم دنیا میں خالی ہاتھ گئے تھے، اسی طرح آج ہمارے پاس خالی ہاتھ آگئے ہو۔ جس دولت اور جن اشیاء پر تمہیں ناز تھا ان میں سے کچھ بھی تمہارے پاس نہیں۔ آج نہ تمہارے ساتھ خدم و حشم ہیں اور نہ وہ مال و اسباب جن پر تم اتراتے تھے۔ اب تم اللہ تعالیٰ کے سامنے غلاموں کی طرح ہاتھ باندھے کھڑے ہو جبکہ دنیا میں اپنے پٹھوں پر ہاتھ نہیں دھرنے دیتے تھے۔ تمہارا گمان تو یہ تھا کہ ہمیں دنیا میں اللہ تعالیٰ نے خودرو پودوں کی طرح اٹھایا ہے جن کا کوئی مقصد زندگی نہیں۔ جن کے لیے کوئی قیامت برپا نہیں ہوگی جہاں انھیں حساب کتاب کے لیے بلایا جائے لیکن آج تم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہو کہ اللہ تعالیٰ کے رسولوں نے جو کچھ فرمایا تھا وہ سب صحیح اور حق تھا۔
Top