Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - Al-Kahf : 60
وَ اِذْ قَالَ مُوْسٰى لِفَتٰىهُ لَاۤ اَبْرَحُ حَتّٰۤى اَبْلُغَ مَجْمَعَ الْبَحْرَیْنِ اَوْ اَمْضِیَ حُقُبًا
وَاِذْ
: اور جب
قَالَ
: کہا
مُوْسٰي
: موسیٰ
لِفَتٰىهُ
: اپنے جوان (شاگرد) سے
لَآ اَبْرَحُ
: میں نہ ہٹوں گا
حَتّٰى
: یہانتک
اَبْلُغَ
: میں پہنچ جاؤ
مَجْمَعَ الْبَحْرَيْنِ
: دو دریاؤں کے ملنے کی جگہ
اَوْ
: یا
اَمْضِيَ
: چلتا رہوں گا
حُقُبًا
: مدت دراز
(اور اس وقت کو یاد کرو جب موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے خادم سے کہا تھا میں اپنا سفر ختم نہ کروں گا جب تک دونوں دریائوں کے سنگم پر نہ پہنچ جائوں یا میں مدتوں چلتا رہوں گا۔
وَاِذْ قَالَ مُوْسٰی لِفَـتٰـہُ لَآاَبْرَحُ حَیّٰٓ اَبْلُغَ مَجْمَعَ الْبَحْرَیْنِ اَوْ اَمْضِیَ حُقُبًا (الکہف : 60) (اور اس وقت کو یاد کرو جب موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنے خادم سے کہا تھا میں اپنا سفر ختم نہ کروں گا جب تک دونوں دریائوں کے سنگم پر نہ پہنچ جاؤں یا میں مدتوں چلتا رہوں گا۔ ) آیت کا پس منظر یہاں سے ان واقعات کا بیان شروع ہورہا ہے جو حضرت موسیٰ اور حضرت خضر (علیہما السلام) کے درمیان پیش آئے جنھیں مسلسل قرآن کریم نے دو رکوعوں میں پیش فرمایا ہے۔ عوام میں ان واقعات کو قصہ موسیٰ و خضر کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ سابقہ آیات کو پڑھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ نبی کریم ﷺ کی دعوت اس دور میں داخل ہوچکی تھی جبکہ اہل مکہ کی جانب سے آنحضرت ﷺ اور مسلمانوں کی مخالفت دشمنی کی صورت اختیار کرتی جارہی تھی۔ اذیتوں کی بھٹی پوری طرح گرم ہوچکی تھی۔ آنحضرت ﷺ جیسے جیسے دعوت و تبلیغ میں تیزی پیدا کرتے جارہے تھے ویسے ویسے مشرکین کی جانب سے انکار اور اذیت رسانی کے عمل میں بھی تیزی آتی جارہی تھی حتیٰ کہ نبی کریم ﷺ نے قریش کو یہ وارننگ دینا ضروری سمجھا کہ تم لوگوں نے اگر اپنے رویئے میں تبدیلی نہ کی اور تمہاری مخالفتیں اسی طرح جاری رہیں تو مجھے اندیشہ ہے کہ تمہیں حق کی قبولیت سے محروم نہ کردیا جائے، یعنی تمہارے دلوں پر محرومی کی مہر نہ لگا دی جائے۔ اسی صورت میں پھر یہ خطرہ یقین کی صورت اختیار کرجاتا ہے کہ اب اللہ تعالیٰ کا عذاب دور نہیں، وہ کسی وقت بھی تم پر نازل ہوسکتا ہے اور اسی طرح مسلمانوں کو بھی یہ بات یاد دلانا ضروری تھا کہ تمہیں کفار کی اذیت رسانیوں کے مقابلے میں صبر اور حوصلے سے کام لینا ہوگا۔ بظاہر تم دیکھ رہے ہو کہ مخالفتوں کے ہجوم میں حوصلے ٹوٹنے لگتے ہیں اور کفار کی اذیت رسانیاں بڑھتی چلی جاتی ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ کفار جب دیکھتے ہیں کہ مسلمانوں کے لیے کوئی جائے پناہ نہیں اور کوئی ذات ہمارا ہاتھ روکنے والی نہیں تو وہ اپنے کافرانہ رویئے میں اور دلیر ہوجاتے ہیں اور مسلمان جب دیکھتے ہیں کہ ہماری مظلومیت روز بروز بڑھتی جارہی ہے تو وہ اسلام کے مستقبل کے بارے میں سوچنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ ایسے نازک وقت میں اس سے پہلے کہ کوئی غلط فیصلہ حالات کی رفتار پر اثرانداز ہو اللہ تعالیٰ کی جانب سے ایسی رہنمائی ملنی چاہیے جس سے جانبین کو صحیح بات سمجھنے اور صحیح رائے اختیار کرنے میں آسانی ہو۔ چناچہ ایسے ہی حالات میں یہ واقعات مسلمانوں کو سنائے گئے کہ تم بظاہر دیکھ رہے ہو کہ مسلمانوں کی مظلومیت گہری ہوتی جارہی ہے اور انھیں کہیں سے کسی مدد ملنے کی امید دکھائی نہیں دیتی۔ اور دوسری طرف کافروں کا ہاتھ پکڑنے والا کوئی دکھائی نہیں دیتا۔ اس سے تو یوں معلوم ہوتا ہے کہ یہ کوئی اندھیر نگری ہے جس میں کسی چوپٹ راجے کی حکومت ہے، جس میں طاقت کی بات چلتی ہے اور مظلومیت زخم چاٹتی رہ جاتی ہے۔ کوئی حق، حق نہیں۔ اور کوئی باطل، باطل نہیں۔ اگر حق کمزور ہے تو اس کا کوئی پرسانِ حال نہیں اور باطل طاقتور ہے تو اسے کوئی روکنے والا نہیں۔ انھیں ان واقعات سے یہ بتانا مقصود ہے کہ تم ظاہر بیں نگاہ سے جو کچھ دیکھ رہے ہو وہ دراصل حقیقت نہیں اور جو حقیقت ہے وہ تمہاری نگاہوں سے مخفی ہے۔ اس قصے میں پروردگار نے اپنی مشیت کے گوشے سے پردہ اٹھا کر یہ دکھایا ہے کہ تم جو کچھ ظاہر میں دیکھتے ہو ضروری نہیں کہ حقیقت بھی وہی ہو، ان واقعات کے آئینہ میں دیکھو کہ بظاہر واقعہ کیا پیش آیا ہے اور بعد میں اس کی تعبیر کیسی سامنے آئی ہے۔ اس سے یہ حقیقت سمجھنے میں مدد ملتی ہے کہ انسان جو کچھ بظاہر دیکھتا ہے ضروری نہیں کہ انجام کے اعتبار سے بھی وہی ہو۔ شانِ نزول ہماری اس گزارش سے تو صرف یہ معلوم ہوتا ہے کہ گزشتہ آیات سے ان واقعات کا یہ ربط ہے اور اس پس منظر میں ان واقعات کو بیان کیا گیا ہے۔ رہی یہ بات کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے سفر کا فوری سبب کیا ہوا تو بعض اہل علم نے ایسے ہی پس منظر کو اس کا سبب قرار دیا ہے اور جو سبب صراحتاً حدیث میں بیان فرمایا گیا ہے اس کا نہ صرف انکار کیا ہے بلکہ کسی حد تک استخفاف بھی کیا ہے۔ یہ ایک بڑی جسارت ہے، اللہ تعالیٰ اس سے اپنی پناہ میں رکھے۔ اس کے فوری سبب کی تفصیل صحیح بخاری و مسلم باب التفسیر میں حضرت ابی بن کعب ( رض) کی روایت میں بیان کی گئی ہے۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ ایک مرتبہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اپنی قوم بنی اسرائیل میں خطبہ دینے کے لیے کھڑے ہوئے تو لوگوں نے آپ ( رض) سے یہ سوال کیا کہ تمام انسانوں میں سب سے زیادہ علم والا کون ہے ؟ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا کہ میں سب سے زیادہ علم والا ہوں۔ اللہ تعالیٰ اپنی مقرب بارگاہ بندوں بالخصوص انبیائے کرام کو ایسی تربیت سے نوازتے ہیں جس سے وہ پوری دنیا کے لیے منارہ نور بن جاتے ہیں۔ اس لیے یہ بات اللہ تعالیٰ کو پسند نہ آئی کیونکہ ادب کا مقتضیٰ یہ تھا کہ اس کو اللہ تعالیٰ کے علم کے حوالے کرتے یعنی یہ کہہ دیتے کہ اللہ تعالیٰ ہی جانتے ہیں کہ ساری مخلوق میں سب سے بڑا عالم کون ہے۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے اس جواب پر اللہ تعالیٰ نے انھیں تنبہ فرمایا اور آپ ( علیہ السلام) پر وحی نازل کی کہ ہمارا ایک بندہ مجمع البحرین پر ہے، وہ آپ ( علیہ السلام) سے بڑا عالم ہے۔ اس پر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ سے ان کا اتہ پتہ معلوم کیا اور پھر ان سے استفادہ کے لیے ایک طویل سفر کیا جس کی تفصیل ان دو رکوعوں میں بیان کی گئی ہے۔ بائبل کی خاموشی، تلمود کی بیخبر ی بائبل چونکہ اس واقعہ کے باب میں بالکل خاموش ہے۔ البتہ تلمود میں اس کا ذکر ہے، مگر وہ اسے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی بجائے، ربی یہوحانان بن لاوی کی طرف منسوب کرتی ہے اور اس کا بیان یہ ہے کہ ربی مذکور کو یہ واقعہ حضرت الیاس (علیہ السلام) کے ساتھ پیش آیا۔ اس کی تفصیل پڑھتے ہوئے صاف معلوم ہوتا ہے کہ تلمود نے ان واقعات کو محفوظ نہیں رکھا بلکہ اس کی کڑیاں کہیں سے کہیں جا کر جوڑ دی ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بائبل اور تلمود وغیرہ صرف شرعی احکام کے بارے میں ہی غیرمعتبر نہیں بلکہ تاریخی واقعات کے بارے میں بھی ان پر اعتماد کرنا مشکل ہے، لیکن تلمود کی اس روایت سے متأثر ہو کر مسلمانوں میں سے بعض لوگوں نے یہ کہہ دیا ہے کہ قرآن میں اس مقام پر موسیٰ سے مراد حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نہیں بلکہ کوئی اور موسیٰ ہے۔ تعجب کی بات ہے کہ قرآن کریم نے بیسیوں دفعہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا تفصیل سے ذکر فرمایا۔ ان کی زندگی کی ضروری تفصیلات تک قرآن کریم میں موجود ہیں، تو کیا صرف یہی ایک واقعہ ایسا تھا کہ جسے کسی مجہول الحال موسیٰ کی طرف منسوب کرکے اس طرح بیان کیا جاتا کہ جس میں کوئی اشارہ بھی اس بات کا نہ ہوتا کہ یہ صاحب کوئی اور موسیٰ ہیں۔ اس لیے قرآن کریم کا اپنا انداز قطعی طور پر اس کی تردید کے لیے کافی ہے، لیکن مزید اطمینان کے لیے یہ کہہ دینا کافی ہے کہ صحیحین میں حضرت سعید بن جبیر ( رض) کی یہ روایت بیان کی گئی ہے کہ انھوں نے حضرت ابن عباس ( رض) سے اس موسیٰ کے بارے میں دریافت کیا اور انھیں بتایا کہ نوفل بکالی کا خیال ہے کہ اس واقعہ میں جس موسیٰ کا ذکر ہے وہ موسیٰ بنی اسرائیل نہیں بلکہ یہ موسیٰ بن افراثیم بن یوسف ہے۔ حضرت ابن عباس ( رض) نے یہ سن کر فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے دشمن نے جھوٹ بکا، ہمیں حضرت ابی ابن کعب ( رض) نے بتایا کہ انھوں نے رسول اللہ ﷺ کو یہ فرماتے ہوئے سنا اور اس کے بعد وہ پوری روایت بیان فرمائی جس کا ہم اس سے پہلے صحیحین کے حوالے سے ذکر کرچکے ہیں۔ فتیٰ کا مفہوم اور مراد اس آیت کریمہ میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ہمسفر کو فتیٰ کے لفظ سے یاد فرمایا گیا ہے۔ فتیٰ کا لفظی معنی نوجوان ہوتا ہے۔ جب یہ لفظ کسی خاص شخص کی طرف منسوب کرکے استعمال کیا جائے تو پھر اس سے مراد عام طور پر اس کا خادم یا شاگرد ہوتا ہے اور اس کو فتیٰاس لیے کہا جاتا ہے کیونکہ خادم یا نوکر اکثر قوی جوان کو دیکھ کر ہی رکھا جاتا ہے جو ہر طرح کے کام کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو۔ حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں فتیٰسے مراد یوشع بن نون ہیں۔ یہ وہ نوجوان ہیں جو سفروحضر میں حضرت کلیم اللہ کی خدمت میں رہا کرتے تھے۔ بعض لوگوں نے انھیں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا بھتیجا قرار دیا ہے، لیکن اس پر کوئی ثقہ روایت موجود نہیں۔ یہی نوجوان ہیں جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی وفات کے بعد نبوت سے سرفراز کیے گئے۔ کہا جاتا ہے کہ انھوں نے 110 سال کی عمر میں وفات پائی اور اردن میں مدفون ہوئے۔ آج بھی ان کی قبر محفوظ سمجھی جاتی ہے۔ مجمع البحرین سے مراد اس آیت کریمہ میں مجمع البحرین کا لفظ آیا ہے جس کا معنی ہے دو دریائوں کا سنگم۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو یہاں پہنچ کر اپنے ایک بندے سے ملنے کا حکم دیا تھا۔ سوال یہ ہے کہ یہ مجمع البحرین کون سی جگہ ہے ؟ دنیا میں ایسی جگہ بیشمار ہیں جہاں دو دریا آپس میں ملتے ہیں۔ قرآن و حدیث میں چونکہ اس کا تعین نہیں فرمایا گیا اس لیے مفسرین کے اس میں مختلف اقوال ہیں۔ حضرت قتادہ ( رض) نے فرمایا کہ بحرفارس و روم کے ملنے کی جگہ مراد ہے۔ ابن عطیہ ( رض) نے آذربائیجان کے قریب ایک جگہ کو کہا۔ بعض نے بحر اردن اور بحر قلزم کے ملنے کی جگہ بتلائی ہے۔ بعض نے کہا یہ مقام طنجہ میں واقع ہے۔ حضرت ابی ابن کعب ( رض) سے منقول ہے کہ یہ افریقہ میں ہے۔ بعض اہل علم کا خیال یہ ہے کہ یہ خلیج عقبہ اور سویز کا وہ مقام اتصال ہے جہاں سے بعد کے مراحل میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بنی اسرائیل کے ساتھ گزرے۔ مولانا مودودی کا گمان یہ ہے کہ غالباً حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا یہ سفر سوڈان کی جانب تھا اور مجمع البحرین سے مراد وہ مقام ہے جہاں موجودہ شہر خرطوم کے قریب دریائے نیل کی دو بڑی شاخیں البحرالابیض اور البحرالازرق آکر ملتی ہیں۔ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اپنی پوری زندگی جن علاقوں میں گزاری ہے ان میں یا تو یہ جگہ مجمع البحرین سے مراد لی جاسکتی ہے اور یا اس سے خلیج عقبہ اور سویز کا مقام اتصال مراد لیا جاسکتا ہے، لیکن زیادہ قرین قیاس مولانا مودودی کی رائے معلوم ہوتی ہے۔ واللہ اعلم۔ حُقُب کا مفہوم حُقُب کے معنی زمانہ، سال، 80 سال یا اس سے بھی زیادہ مدت کے لیے یہ لفظ بولا جاتا ہے۔ اس سفر کی ہدایت چونکہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو وحی کے ذریعے کی گئی تھی۔ ظاہر ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی نگاہ میں اس کی تعمیل نہ صرف ضروری تھی بلکہ ذوق و شوق کی حامل بھی تھی۔ اس لیے آپ ( علیہ السلام) نے نہایت عزم و جزم کے ساتھ اپنے خادم سے کہا کہ یا تو میں مجمع البحرین میں اس مقام تک پہنچ جاؤں گا جہاں مجھے جانے کا حکم دیا گیا ہے اور وہاں میں اس اللہ تعالیٰ کے عظیم بندے سے استفادہ کروں گا جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف سے خاص علم عنایت فرمایا ہے اور یا پھر میں مدت العمر چلتا رہوں گا اور یا یوں بھی کہہ سکتے ہیں کہ برسوں چلتا رہوں گا۔ اس میں ذوق و شوق کا اظہار بھی ہے اور عزم صمیم کا بھی۔ اس سے پیشتر کہ ہم اگلی آیات کی مدد سے اس واقعہ کی تفصیلات عرض کریں، مناسب معلوم ہوتا ہے کہ مستشرقینِ مغرب نے اس قصے کے مآخذ کا کھوج لگاتے ہوئے اپنے جس خبث باطن کا اظہار کیا ہے اور جس سے ان کی نام نہاد علمی تحقیق کا پول کھلتا ہے اس کا کسی حد تک ذکر کردیں۔ تفہیم القرآن میں مولانا مودودی رقم طراز ہیں۔ مستشرقین کی یا وہ گوئی اور اس کا رد مستشرقینِ مغرب نے اپنے معمول کے مطابق قرآن مجید کے اس قصے کے بھی مآخذ کا کھوج لگانے کی کوشش کی ہے اور تین قصوں پر انگلی رکھ دی ہے کہ یہ ہیں وہ مقامات جہاں سے محمد ﷺ نے نقل کرکے یہ قصہ بنا لیا ہے اور پھر دعویٰ کردیا کہ یہ تو میرے اوپر بذریعہ وحی نازل ہوا ہے۔ ایک داستانِ گلگامیش، دوسرے سکندر نامہ سریانی اور تیسرے وہ یہودی روایت جس کا ہم نے اوپر ذکر کیا ہے لیکن یہ بدطینت لوگ علم کے نام سے جو تحقیقات کرتے ہیں اس میں پہلے اپنی جگہ یہ طے کرلیتے ہیں کہ قرآن کو بہرحال منزل من اللہ تو نہیں ماننا ہے اب کہیں نہ کہیں سے اس امر کا ثبوت بہم پہنچانا ضروری ہے کہ جو کچھ محمد ﷺ نے اس میں پیش کیا ہے۔ یہ فلاں فلاں مقامات سے چرائے ہوئے مضامین اور معلومات ہیں۔ اس طرز تحقیق میں یہ لوگ اس قدر بےشرمی کے ساتھ کھینچ تان کر زمین آسمان کے قلابے ملاتے ہیں کہ بےاختیار گھن آنے لگتی ہے اور آدمی کو مجبوراً کہنا پڑتا ہے کہ اگر اسی کا نام علمی تحقیق ہے تو لعنت ہے اس علم پر اور اس تحقیق پر۔ ان کی اس متعصبانہ افترا پردازی کا پردہ بالکل چاک ہوجائے اگر کوئی طالب علم ان سے صرف چار باتوں کا جواب طلب کرلے : اول یہ کہ آپ کے پاس وہ کیا لیل ہے جس کی بنا پر آپ دو چار قدیم کتابوں میں قرآن کے کسی بیان سے ملتا جلتا مضمون پا کر یہ دعویٰ کردیتے ہیں کہ قرآن کا بیان لازماً انہی کتابوں سے مآخوذ ہے ؟ دوسرے یہ کہ مختلف زبانوں کی جتنی کتابیں آپ لوگوں نے قرآن مجید کے قصوں اور دوسرے بیانات کی ماخذ قرار دی ہیں اگر ان کی فہرست بنائی جائے تو اچھے خاصے ایک کتب خانے کی فہرست بن جائے۔ کیا ایسا کوئی کتب خانہ مکہ میں اس وقت موجود تھا اور مختلف زبانوں کے مترجمین بیٹھے ہوئے محمد ﷺ کے لیے مواد فراہم کررہے تھے ؟ اگر ایسا نہیں ہے اور آپ کا سارا انحصار ان دو تین سفروں پر ہے جو نبی کریم ﷺ نے نبوت سے کئی سال پہلے عرب سے باہر کیے تھے، تو سوال یہ ہے کہ آخر ان تجارتی سفروں میں آنحضرت ﷺ کتنے کتب خانے نقل یا حفظ کر لائے تھے۔ ؟ اور اعلانِ نبوت سے ایک دن پہلے تک بھی آنحضرت ﷺ کی ایسی معلومات کا کوئی نشان آپ ﷺ کی بات چیت میں نہ پائے جانے کی کیا معقول وجہ ہے ؟ تیسرے یہ کہ کفار مکہ اور یہودی اور نصرانی، سب آپ ہی لوگوں کی طرح اس تلاش میں تھے کہ محمد ﷺ یہ مضامین کہاں سے لاتے ہیں۔ کیا آپ بتاسکتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کے معاصرین کو اس سرقے کا پتہ نہ چلنے کی کیا وجہ ہے ؟ انھیں تو بار بار تحدی کی جارہی تھی کہ یہ قرآن منزل من اللہ ہے، وحی کے سوا اس کا کوئی ماخذ نہیں ہے، اگر تم اسے بشر کا کلام کہتے ہو تو ثابت کرو کہ بشر ایسا کلام کہہ سکتا ہے۔ اس چیلنج نے آنحضرت ﷺ کے معاصر دشمنانِ اسلام کی کمر توڑ کر رکھ دی مگر وہ ایک ماخذ کی بھی نشاندہی نہ کرسکے جس سے قرآن کے ماخوذ ہونے کا کوئی معقول آدمی یقین تو درکنار شک ہی کرسکتا۔ سوال یہ ہے کہ معاصرین اس سراغ رسانی میں ناکام کیوں ہوئے اور ہزار بارہ سو برس کے بعد آج معاندین کو اس میں کیسے کامیابی نصیب ہورہی ہے ؟ آخری اور سب سے اہم سوال یہ ہے کہ اس بات کا امکان تو بہرحال ہے ناکہ قرآن منزل من اللہ ہو اور وہ پچھلی تاریخ کے انہی واقعات کی صحیح خبریں دے رہا ہو جو دوسرے لوگوں تک صدیوں کے دوران میں زبانی روایت سے مسخ ہوتی ہوئی پہنچی ہوں اور افسانوں میں جگہ پا گئی ہوں۔ اس امکان کو کس معقول دلیل کی بنا پر بالکل ہی خارج از بحث کردیا گیا اور کیوں صرف اسی ایک امکان کو بنائے بحث و تحقیق بنا لیا گیا کہ قرآن ان قصوں ہی سے ماخوذ ہو جو لوگوں کے پاس زبانی روایات اور افسانوں کی شکل میں موجود تھے ؟ کیا مذہبی تعصب اور عناد کے سوا اس ترجیح کی کوئی دوسری وجہ بیان کی جاسکتی ہے ؟ ان سوالات پر جو شخص بھی غور کرے گا وہ اس نتیجے تک پہنچے بغیر نہ رہ سکے گا کہ مستشرقین نے ” علم “ کے نام سے جو کچھ پیش کیا ہے وہ درحقیقت کسی سنجیدہ طالب علم کے لیے قابل التفات نہیں ہے۔
Top