Ruh-ul-Quran - Al-Kahf : 67
قَالَ اِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِیْعَ مَعِیَ صَبْرًا
قَالَ : اس نے کہا اِنَّكَ : بیشک تو لَنْ تَسْتَطِيْعَ : ہرگز نہ کرسکے گا تو مَعِيَ : میرے ساتھ صَبْرًا : صبر
حضرت خضر نے کہا کہ آپ میرے ساتھ صبر کرنے کی طاقت نہیں رکھتے۔
قَالَ اِنَّـکَ لَنْ تَسْتَطِیْعَ مَعِیَ صَبْرًا۔ وَکَیْفَ تَصْبِرُ عَلٰی مَا لَمْ تُحِطْ بِہٖ خُبْرًا۔ قَالَ سَتَجِدُنِیْٓ اِنْ شَآئَ اللّٰہُ صَابِرًا وَّ لَآاَعْصِیْ لَکَ اَمْرًا۔ قَالَ فَاِنِ اتَّبَعْتَنِیْ فَلاَ تَسْئَلْنِیْ عَنْ شَیْ ئٍ حَتّٰیٓ اُحْدِثَ لَکَ مِنْہُ ذِکْرًا۔ (الکہف : 67 تا 70) (حضرت خضر نے کہا کہ آپ میرے ساتھ صبر کرنے کی طاقت نہیں رکھتے۔ اور آپ صبر کر بھی کیسے سکتے ہیں اس بات پر جس کی آپ کو پوری طرح خبر نہیں۔ آپ نے کہا انشاء اللہ آپ مجھے صابر پائیں گے، میں کسی معاملے میں آپ کے حکم کی خلاف ورزی نہیں کروں گا۔ حضرت خضر نے کہا کہ اگر آپ میرے ساتھ رہنا چاہتے ہیں تو کسی چیز کے متعلق مجھ سے اس وقت تک کچھ نہ پوچھئے جب تک میں خود ہی اس کا ذکر نہ چھیڑوں۔ ) حضرت موسیٰ اور حضرت خضر (علیہما السلام) کے درمیان معاہدہ رفاقت حضرت خضر (علیہ السلام) نے کہا کہ مجھے آپ ( علیہ السلام) کو اپنے ساتھ رکھنے میں تو کوئی اعتراض نہیں لیکن مشکل یہ ہے کہ آپ ( علیہ السلام) میرے ساتھ رہ نہیں سکیں گے اور پھر اس کی وجہ بھی بیان فرما دی کہ آپ ( علیہ السلام) ان باتوں پر کیسے صبر کرسکیں گے جن کے بارے میں آپ ( علیہ السلام) کچھ نہیں جانتے۔ حضرت خضر (علیہ السلام) کو معلوم تھا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) ایک صاحب شریعت رسول ہیں۔ میں جب کوئی ایسا کام کروں گا جو علم تکوین کے مطابق تو صحیح ہو لیکن علم شریعت کے خلاف ہو تو آپ ( علیہ السلام) رسول ہونے کی حیثیت سے یقینا اسے برداشت نہیں کر پائیں گے اور ضرور مجھ پر اعتراض کریں گے اور جب معاملہ اعتراض تک پہنچ جائے یعنی شاگرد استاد پر اعتراض کرنے لگے تو پھر افادہ و استفادہ کا دروازہ بند ہوجاتا ہے۔ اس لیے تفسیر مظہری میں صوفیائے کرام کا یہ قول نقل کیا گیا ہے اِنَّہُ یَجِبُ عَلَی الْمُرِیْدِ تَرْکَ الْاَعْتِرَاضْ عَلَی الشَّیْخ ” مرید پر لازم ہے کہ اپنے شیخ پر اعتراض نہ کرے۔ “ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے حضرت خضر (علیہ السلام) سے وعدہ کیا کہ آپ ( علیہ السلام) مجھے ہر مرحلہ پر انشاء اللہ صابر پائیں گے اور میں کسی معاملے میں آپ ( علیہ السلام) کی خلاف ورزی نہیں کروں گا۔ حضرت خضر (علیہ السلام) نے اس وعدے پر ایک شرط کا اضافہ کیا اور آپ ( علیہ السلام) کو اپنے ساتھ رہنے کی اجازت دے دی۔ شرط یہ تھی کہ میں جو کچھ بھی کروں وہ چاہے آپ ( علیہ السلام) کے نزدیک صحیح ہو یا غلط، آپ ( علیہ السلام) مجھ سے اس کے بارے میں کوئی سوال نہ کریں جب تک کہ میں خود اس کا ذکر نہ چھیڑوں اور اس کی وضاحت نہ کروں۔ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے یہ وعدہ اس اعتماد پر کرلیا ہوگا کہ حضرت خضر (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کے مقرب بندے ہیں وہ یقینا کوئی ایسا کام تو نہیں کریں گے جو شریعت کی نگاہ میں حلال یا جائز نہ ہو، لیکن ان کا دھیان شاید اس طرف نہیں گیا کہ حضرت خضر (علیہ السلام) کا تعلق تکوینی معاملات سے ہے جن کے لیے براہ راست اللہ تعالیٰ کی طرف سے احکام آتے ہیں، اس لیے شریعت سے ان کا استثنیٰ ہوجاتا ہے اور وہ مخصوص واقعات شرعی احکام سے مستثنیٰ ہوجاتے ہیں۔ مثلاً بےگناہ کا قتل ہر شریعت میں حرام ہے، لیکن حضرت خضر (علیہ السلام) نے ( جیسے آگے آرہا ہے) ایک لڑکے کو قتل کر ڈالا تو شریعت کی نگاہ میں ان کا یہ فعلِ حرام کا ارتکاب تھا، لیکن چونکہ انھوں نے ایسا اللہ تعالیٰ کے حکم سے کیا تھا تو یہ کہنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کے حکم نے اس لڑکے کے قتل کو قتل نفس کے حکم سے مستثنیٰ کردیا۔
Top