Ruh-ul-Quran - Al-Kahf : 7
اِنَّا جَعَلْنَا مَا عَلَى الْاَرْضِ زِیْنَةً لَّهَا لِنَبْلُوَهُمْ اَیُّهُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا
اِنَّا : بیشک ہم جَعَلْنَا : ہم نے بنایا مَا : جو عَلَي الْاَرْضِ : زمین پر زِيْنَةً : زینت لَّهَا : اس کے لیے لِنَبْلُوَهُمْ : تاکہ ہم انہیں آزمائیں اَيُّهُمْ : کون ان میں سے اَحْسَنُ : بہتر عَمَلًا : عمل میں
ہم نے بنایا ہے جو کچھ زمین پر ہے اس کے لیے سنگار تاکہ ہم لوگوں کا امتحان کریں کہ ان میں کون اچھا عمل کرتا ہے
اِنَّا جَعَلْنَا مَا عَلَی الْاَرْضِ زِیْنَۃً لَّھَا لِنَبْلُوَھُمْ اَیُّـھُمْ اَحْسَنُ عَمَلاً ۔ (الکہف : 7) (ہم نے بنایا ہے جو کچھ زمین پر ہے اس کے لیے سنگار تاکہ ہم لوگوں کا امتحان کریں کہ ان میں کون اچھا عمل کرتا ہے۔ ) کفار کے ایمان نہ لانے کا اصل سبب اس آیت کریمہ میں کفار کے ایمان نہ لانے کا اصل سبب بیان کیا گیا ہے۔ یہ سبب کہنے کو تو بہت معمولی ہے لیکن اپنے اثرات کے اعتبار سے بہت گہرا ہے۔ وہ سبب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو زمین پر اپنی مرضی کی زندگی گزارنے کے لیے نہیں بھیجا یا یوں کہہ لیجئے کہ صرف حیوانوں کی طرح شب و روز گزارنے کے لیے نہیں بھیجا بلکہ اس دنیا کو انسان کے لیے دارالامتحان بنایا ہے اور خود انسان کی زندگی اسی دنیا کے حوالے سے امتحان کا ایک پر چہ ہے جسے انسان نے سوچ سمجھ کر حل کرنا ہے اور اس پر مشکل یہ پیدا کردی گئی ہے کہ ایک طرف تو انسان کو عقل اور تمیز عطا کی گئی ہے تاکہ وہ اس سے کام لے کر خیر و شر میں تمیز کرے اور اس کا فیصلہ کرے کہ اسے اپنی خواہشوں کے اتباع میں زندگی گزارنا ہے یا اسے آخرت کا طالب بننا ہے۔ اور دوسری طرف حال یہ ہے کہ دنیا پر حسن و زیبائی کا ایک پُرفریب پردہ تان دیا گیا ہے۔ خواہشات میں ایک ایسا حسن رکھا گیا ہے جس کی گرفت سے بچ نکلنا آسان نہیں۔ پھر دنیا اور آخرت میں ایک عجیب تقابل ہے کہ دنیا کی ہر چیز میں ایک کشش اور ترغیب ہے۔ اور اس کا ہر نفع، نفعِ عاجل ہے۔ انسان کے گردوپیش میں اتنی نعمتیں ہیں، چاہے وہ مال و دولت کی صورت میں ہوں، چاہے زمین یا اس کی نباتات کی شکل میں اور چاہے وہ ترقیات اور مناصب کے نام سے ہوں۔ ان میں سے ہر چیز اپنے اندر ایک ترغیب رکھتی ہے۔ جو شخص اس کے جال میں پھنس جاتا ہے وہ نکلنا بھی چاہے تو آسانی سے نہیں نکل سکتا۔ اور دوسری طرف آخرت کے سفر میں قدم قدم پر امتحان ہے۔ اوامرونواہی ہیں، قواعد و ضوابط ہیں۔ اس کے منافع اور اس کی کامرانیاں اور کامیابیاں نقد نہیں بلکہ ادھار ہیں۔ اس راستے پر چلنے کے لیے آخرت پر مضبوط یقین کی ضرورت ہے۔ اور اللہ تعالیٰ پر بےپناہ توکل ہی راستے کا سرمایہ ہے۔ دنیا کے فریب کا اسیر شخص جو ہاتھوں پر سرسوں جمانا چاہتا ہے اس کے لیے ذمہ داریوں کا بوجھ اٹھانا، اس راستے میں قربانیاں دینا ایک لگی بندھی زندگی گزارنا، نگاہوں کو پاکیزہ رکھنا، دل و دماغ کو آوارگی سے بچانا، خواہشات کی پیروی کی بجائے حقیقی مقاصد کو سامنے رکھنا ایک مشکل کام ہے۔ کفار چونکہ دنیا کی آرام طلبیوں اور عیش و عشرت کے عادی ہوچکے ہیں اور ان کی نظر پیکرمحسوس کی خوگر ہوچکی ہے تو ان کے لیے آخرت کا یقین اور اس کے تقاضوں کے مطابق زندگی گزارنا چونکہ ایک فریب معلوم ہوتا ہے اس لیے وہ اسے قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔
Top