Ruh-ul-Quran - Al-Baqara : 198
لَیْسَ عَلَیْكُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَبْتَغُوْا فَضْلًا مِّنْ رَّبِّكُمْ١ؕ فَاِذَاۤ اَفَضْتُمْ مِّنْ عَرَفٰتٍ فَاذْكُرُوا اللّٰهَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ١۪ وَ اذْكُرُوْهُ كَمَا هَدٰىكُمْ١ۚ وَ اِنْ كُنْتُمْ مِّنْ قَبْلِهٖ لَمِنَ الضَّآلِّیْنَ
لَيْسَ : نہیں عَلَيْكُمْ : تم پر جُنَاحٌ : کوئی گناہ اَنْ : اگر تم تَبْتَغُوْا : تلاش کرو فَضْلًا : فضل مِّنْ : سے رَّبِّكُمْ : اپنا رب فَاِذَآ : پھر جب اَفَضْتُمْ : تم لوٹو مِّنْ : سے عَرَفٰتٍ : عرفات فَاذْكُرُوا : تو یاد کرو اللّٰهَ : اللہ عِنْدَ : نزدیک الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ : مشعر حرام وَاذْكُرُوْهُ : اور اسے یاد کرو كَمَا : جیسے ھَدٰىكُمْ : اسنے تمہیں ہدایت دی وَاِنْ : اور اگر كُنْتُمْ : تم تھے مِّنْ قَبْلِهٖ : اس سے پہلے لَمِنَ : ضرور۔ سے الضَّآلِّيْنَ : ناواقف
تم پر کوئی گناہ نہیں کہ تم اپنے رب کا فضل تلاش کروپس جب عرفات سے چلو تو اللہ کو یاد کرومشعرِحرام کے پاس اور اس کو اس طرح یاد کروجس طرح اللہ نے تم کو ہدایت کی ہے، اس سے پہلے بلاشبہ تم گمراہوں میں سے تھے
لَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَبْتَغُوْا فَضْلاً مِّنْ رَّبِّکُمْ ط فَاِذَآ اَفَضْتُمْ مِّنْ عَرَفٰتٍ فَاذْکُرُواللّٰہَ عِنْدَالْمَشْعَرِالْحَرَامِ ص وَاذْکُرُوْہُ کَمَا ھَدٰکُمْ ج وَاِنْ کُنْتُمْ مِنْ قَبْلِہٖ لَمِنَ الضَّآلِّیْنَ ۔ (تم پر کوئی گناہ نہیں کہ تم اپنے رب کا فضل تلاش کروپس جب عرفات سے چلو تو اللہ کو یاد کرومشعرِحرام کے پاس اور اس کو اس طرح یاد کروجس طرح اللہ نے تم کو ہدایت کی ہے، اس سے پہلے بلاشبہ تم گمراہوں میں سے تھے) (198) حج میں حصول رزق کی اجازت گزشتہ آیت کریمہ میں سب سے زیادہ زور اس بات پر دیا گیا ہے کہ حج کا اصل مقصود تقویٰ ہے۔ اس کا زاد راہ بھی تقویٰ ہے۔ اس لیے حج کے دوران کوئی ایسا کام نہیں ہونا چاہیے جس سے تقویٰ کی کیفیت کو نقصان پہنچے اور دل کی وہ کیفیت جس میں اللہ کا خوف اور محبت بسی ہونی چاہیے اس میں کسی طرح کی کمی آئے۔ اس دور کے مسلمان جنھیں ہم اصحابِ رسول کے نام سے یاد کرتے ہیں ان کی خصوصیت ہی یہ تھی کہ وہ قرآن کی ہر ہدایت کو حرزجان بنا لیتے تھے اور رسول اللہ ﷺ کی تربیت ان کا اصل سرمایہ تھی۔ انھوں نے جب قرآن کریم اور آنحضرت کی تربیت کا سارا زور تقویٰ پر دیکھا تو وہ یہ سمجھے کہ حج کے دوران کسی طرح کا بھی کام جس سے مقصود کچھ کمانا اور فائدہ اٹھانا ہو نہیں ہونا چاہیے۔ حالات چاہے مالی لحاظ سے کتنے ہی ناموافق ہوں ہمیں ساری توجہ مناسکِ حج کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ زیادہ سے زیادہ ذکر اللہ اور عبادت پر رکھنی چاہیے۔ چناچہ صحابہ میں سے جو لوگ حج کے دوران جائز طریقے سے تجارت کے ذریعے یا مزدوری کرکے اپنی کچھ ضرورتیں پوری کرلیتے تھے۔ انھوں نے بھی اس سے ہاتھ کھینچ لیا اور جن لوگوں کا حج کے دوران کوئی کاروبار تھا ان کے لیے پریشانی پیداہوئی اور ان میں سے بعض لوگوں نے اس کے بارے سوال بھی کرنا چاہا۔ ایسے ہی لوگوں میں سے ایک صاحب حضرت عبداللہ ابن عمر ( رض) کے پاس آئے اور یہ سوال کیا کہ ہمارا پیشہ پہلے سے یہ ہے کہ ہم کرایہ پر اونٹ چلاتے ہیں۔ کچھ لوگ ہمارے اونٹ حج کے لیے کرایہ پرلے جاتے ہیں، ہم ان کے ساتھ جاتے ہیں اور حج کرتے ہیں۔ کیا ہمارا حج صحیح نہیں ہوگا ؟ حضرت عبداللہ ابن عمر ( رض) نے فرمایا کہ ایک شخص رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہوا تھا اور آپ سے وہی سوال کیا تھا جو تم مجھ سے کررہے ہو۔ آنحضرت ﷺ نے اس وقت اس کو کوئی جواب نہیں دیا یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی۔ اس وقت آپ نے اس شخص کو بلایا اور فرمایا کہ ہاں ! تمہارا حج صحیح ہے۔ مختصر یہ کہ اس آیت نے مسلمانوں کے لیے ایک سہولت پیدا کردی اور بتایا کہ حج یقینا اللہ کی عبادت کا نام ہے اور عبادت نہایت مخلصانہ ہونی چاہیے اور آئندہ زندگی کی اصلاح کے لیے حج کو ذریعہ بن جانا چاہیے۔ وہ اسی صورت میں بن سکتا ہے کہ اس میں زیادہ سے زیادہ للہیت، اخلاص، اللہ اس کے رسول اور اس کے دین سے وارفتگی اور مرکز اسلام سے بےپناہ تعلق اور دینی ذمہ داریوں کے حوالے سے ایک تڑپ پیدا ہو۔ لیکن اگر اس دوران ضروریات کے حصول کے لیے کوئی چھوٹی موٹی تجارت یا کوئی مزدروی کرلی جائے تو اس میں تمہارے لیے کوئی گناہ نہیں۔ البتہ ! اس میں دو باتوں کی احتیاط ضروری ہے۔ ایک تو یہ کہ یہ تجارت اور مزدوری حج کی مصروفیات پر غالب نہ آنے پائے اور تعلق باللہ کو کمزور کرنے کا باعث نہ بنے اور دوسری یہ کہ تجارت یا مزدوری یاکسبِ معاش کا کوئی طریقہ اسلام کے بتائے ہوئے جائز اور حلال طریقوں کے خلاف نہیں ہونا چاہیے۔ چناچہ جو کسب اور اکتساب اور کمائی حلال طریقے اور باہمی رضامندی سے ہوتی ہے اسے قرآن کریم نے اللہ کا فضل قرار دیا ہے۔ یہاں بھی فضل کا لفظ بول کر اسی جانب اشارہ ہے اور مزید یہ بات کہ لَیْسَ عَلَیْـکُمْ جُنَاحٌ کہہ کر یہ بتایا گیا ہے کہ یہ کام کرنا حج کے دوران بہت پسندیدہ تو نہیں لیکن اگر ضرورت کے تحت تم کرلوتو تمہیں اس کا گناہ بھی نہیں ہوگا۔ اس لیے علماء کرام نے احتیاط سکھاتے ہوئے یہ نصیحت کی ہے کہ خاص ان پانچ ایام میں جن میں افعال ِ حج ادا کیے جاتے ہیں ان میں تجارت یا مزدوری کی کوئی مشغولیت نہیں ہونی چاہیے بلکہ ان ایام کو خالص عبادت اور ذکر میں گزارا جائے۔ بعض علماء نے شدت احساس کے پیش نظر ان ایام میں تجارت اور مزدوری کو ممنوع قرار دیا ہے۔ فَاِذَآ اَفَضْتُمْ مِّنْ عَرَفٰتٍ فَاذْکُرُواللّٰہَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرَامٍ : ” پھر جب تم عرفات سے واپس آنے لگو تو مشعر حرام کے پاس اللہ تعالیٰ کی یاد کرو “۔ یہ دوسرا حکم ہے جو اس آیت کریمہ میں دیا گیا ہے۔ اس میں عرفات اور مشعرحرام کا ذکرآیا ہے۔ سب سے پہلے انھیں سمجھ لیجیے۔ عرفات اور مشعرالحرام کا تعارف ” عرفات “ وہ میدان ہے جو مکہ معظمہ سے تقریباً نو میل کے فاصلے پر ہے۔ 9 ذی الحج کو حجاج کرام عرفات پہنچتے ہیں۔ اگر امام کے ساتھ ظہر کی نماز پڑھیں تو ظہر اور عصر اکٹھی پڑھتے ہیں اور حج کا خطبہ سنتے ہیں اور اگر اپنے خیموں میں پڑھیں توظہر اور عصر کو اپنے اپنے وقتوں میں پڑھتے ہیں۔ زوال آفتاب سے مغرب تک یہاں قیام کرنا حج کا اہم ترین فرض ہے۔ جس کے فوت ہونے کا کوئی کفارہ اور فدیہ نہیں ہوسکتا اس طرح سے صعوبتِ سفر اٹھانے اور مصارفِ حج ادا کرنے کے باوجود حاجی حج سے محروم رہتا ہے اور اگلے سال یا جب توفیق ہو اس حج کی قضا کرنا لازم ہوتا ہے۔ اسی میدان میں ” جبلِ رحمت “ ہے، جس کے دامن میں حضور نے دعائیں مانگی تھیں اور اونٹنی پر خطبہ حج ارشاد فرمایا تھا۔ اور وہ خطبہ ،” خطبہ حجۃ الوداع “ کے نام سے مسلمانوں کی ہدایت کا بہت بڑ اسرمایہ اور انسانیت کا عظیم ورثہ ہے۔ عرفات کی وجہ تسمیہ کے بارے میں کوئی ایک بات کہنا بہت مشکل ہے۔ لوگوں نے مختلف باتیں کہی ہیں جن میں کوئی بھی مصدقہ نہیں۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ حضرت آدم (علیہ السلام) اور حضرت حوا (علیہا السلام) زمین پر اترنے کے بعد یہیں ایک دوسرے سے ملے تھے اور ہوسکتا ہے یہیں کہیں ان کا قیام رہا ہو۔ اس لیے کہ حضرت حوا کی قبر جدہ میں بتائی جاتی ہے اور جدہ کو حضرت حوا کی نسبت کی وجہ سے شاید جدہ (دادی) کہا جاتا ہے۔ لیکن تاریخی طور پر ان میں کوئی بات یقینی نہیں۔ بعض علماء کا خیال یہ ہے کہ اسے عرفات کہنے کی وجہ یہ ہے کہ اس میدان میں انسان اپنے رب کی معرفت اور بذریعہ عبادت اور ذکر اللہ تعالیٰ کا تقرب حاصل کرتا ہے۔ نیز مشرق ومغرب کے مسلمانوں کو آپس میں تعارف کا ایک موقعہ ملتا ہے۔ 9 تاریخ کی شام غروب آفتاب کے ساتھ ہی مغرب کی نماز ادا کیے بغیر وہاں سے نکلنا ہوتا ہے۔ مکہ معظمہ کی طرف آتے ہوئے عرفات سے تین میل کے فاصلے پر ایک میدان آتا ہے جسے ” مزدلفہ “ کہا جاتا ہے یہ مزدلفہ وہ میدان ہے جو مشعرالحرام کے اردگرد پھیلاہوا ہے اور مشعرالحرام ایک پہاڑ ہے۔ مشعر کا معنی ” شعار اور علامت “ کے ہیں۔ اور حرام ” محترم اور مقدس “ کو کہتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ یہ پہاڑ شعار اسلام کے اظہار کے لیے ایک مقدس مقام ہے۔ اس پہاڑ کے قریب میدان کے کسی حصہ میں رات گزارنا اور مغرب اور عشاء دونوں نمازوں کا ایک وقت میں پڑھنا واجب ہے۔ یہاں پہنچتے پہنچتے رات ڈھلنے لگتی ہے مغرب کی نماز کا وقت گزرچکا ہوتا ہے لیکن اسے قضا نہیں کیا جاتا بلکہ باری باری دونوں نمازیں امام کے پیچھے جماعت کے ساتھ پڑھی جاتی ہیں۔ مشعرالحرام کے پاس ایک مسجد ہے جس میں امام وقت نماز پڑھاتا ہے لیکن دور دور پھیلے ہوئے لوگ اپنے طور پر نماز پڑھ لیتے ہیں یا جماعت کا انتظام کرلیتے ہیں۔ اس آیت کریمہ میں یہ حکم دیا گیا ہے کہ تم عرفات سے واپسی پر نہ تو سیدھے منیٰ نکل جاؤ اور نہ ایسا کرو کہ تم مزدلفہ میں اپنی خواہشات کے مطابق اپنی دلچسپیوں میں رات گزار دو ۔ دور جاہلیت میں عربوں کا طریقہ یہ تھا کہ وہ جب مزدلفہ میں پہنچتے آگ جلاتے، مجلسیں جماتے، مشاعروں کی مجالس منعقد ہوتیں، پوری رات مختلف تفریحات میں گزار دی جاتی۔ وہ احرام میں ہوتے ہوئے بھی یہ بات بھول جاتے تھے کہ احرام کا تقاضا کیا ہے اور ہم صرف اللہ کی یاد کے لیے ان دنوں گھر سے نکلے ہوئے ہیں۔ اس لیے انھیں حکم دیا جارہا ہے کہ مشعرالحرام کا پہاڑ اپنے نام سے ہی تمہیں کچھ پیغام دے رہا ہے کہ تمہیں یہاں صرف اللہ کا ذکر کرنا چاہیے خواہشات پر مبنی مصروفیات اور تفریحات اس میدان میں نہیں ہونی چاہئیں۔ ذکر اللہ کا صحیح طریقہ دوسرا حکم یہ دیا گیا ہے وَاذْکُرُوْہُ کَمَا ھَدٰکُمْ ” تم نے اگر ایک طرف حج کو بھی تفریح میں بدل دیا ہے تو دوسری طرف تمہارا حال یہ ہے کہ تم میں جو لوگ اللہ کا ذکر کرنا چاہتے بھی ہیں وہ بھی اپنی مرضی اور اپنی منشا کو سب سے بڑا رہنما سمجھتے ہیں۔ جو ان کے جی میں آتا ہے اور جیسا مناسب سمجھتے ہیں ویسے اللہ کو یاد کرتے ہیں اب مسلمانوں سے کہا جارہا ہے اب تم اللہ کو اس طرح یاد کروجس طرح اس نے تمہیں ہدایت دی۔ ان میں سب سے بڑی ہدایت یہ ہے کہ تم مغرب اور عشا کو ملاکر مزدلفہ میں ادا کرو کیونکہ یہ اس رات اور اس میدان کی مخصوص عبادت ہے اور پھر جس طرح آنحضرت ﷺ نے اس رات میں دعائیں مانگیں اور نماز فجر کے بعد طلوع آفتاب تک آپ ذکر اللہ میں مصروف رہے یہ وہ طریقہ ہے جو مسلمانوں کو سکھایا گیا ہے۔ اس جملے سے ہمیں ایک اصولی ہدایت ملتی ہے کہ ذکر اللہ اور عبادت کی ادائیگی میں انسان خودمختار نہیں کہ جس طرح چاہے اور جس وقت چاہے اللہ کو یاد کرے بلکہ اس کے ذکر اور اس کی عبادت کے خاص آداب ہیں ان کے موافق ادا کرنا ہی عبادت ہے اس کے خلاف کرنا جائز نہیں۔ اس میں کمی بیشی یاتکریم و تعظیم کسی طرح روا نہیں۔ عربوں نے بھی اس میں یہی غلطی کی تھی کہ ملت ابراہیم میں ان کو جو مناسکِ حج سکھائے گئے تھے اور ذکر اللہ کا جو طریقہ بتایا تھا ان میں اپنی مرضی سے کمی بیشی کرڈالی۔ مسلمانوں سے بھی یہ کہا جارہا ہے کہ تم یہ غلطی نہ کرو اور یہ ہدایت فریضہ حج کے ساتھ ہی خاص نہیں بلکہ باقی تمام عبادات میں بھی یہی اصول پیش نظر رہنا چاہیے کہ اس میں عقل کام نہیں دیتی اور نہ اس میں اپنی مرضی چلتی ہے۔ اذان، نماز، زکوٰۃ، روزہ، حج اور اس کے ذکر کے طریقے یہ سب عبادات ہیں۔ اس میں قرآن وسنت نے جس طرح ہدایات دی ہیں ہم اس کے پابند ہیں۔ اس میں اپنی طرف سے یہ سمجھ کر اضافہ کرنا کہ اس سے شاید زیادہ ثواب ملے گا اور اللہ خوش ہوگا یہی وہ گمراہی ہے جس نے امتوں کو صراط مستقیم سے دور کیا ہے۔ مسلمانوں کو اس سے بچنا چاہیے اور اللہ سے پناہ مانگنی چاہیے۔
Top