Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - Al-Baqara : 198
لَیْسَ عَلَیْكُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَبْتَغُوْا فَضْلًا مِّنْ رَّبِّكُمْ١ؕ فَاِذَاۤ اَفَضْتُمْ مِّنْ عَرَفٰتٍ فَاذْكُرُوا اللّٰهَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ١۪ وَ اذْكُرُوْهُ كَمَا هَدٰىكُمْ١ۚ وَ اِنْ كُنْتُمْ مِّنْ قَبْلِهٖ لَمِنَ الضَّآلِّیْنَ
لَيْسَ
: نہیں
عَلَيْكُمْ
: تم پر
جُنَاحٌ
: کوئی گناہ
اَنْ
: اگر تم
تَبْتَغُوْا
: تلاش کرو
فَضْلًا
: فضل
مِّنْ
: سے
رَّبِّكُمْ
: اپنا رب
فَاِذَآ
: پھر جب
اَفَضْتُمْ
: تم لوٹو
مِّنْ
: سے
عَرَفٰتٍ
: عرفات
فَاذْكُرُوا
: تو یاد کرو
اللّٰهَ
: اللہ
عِنْدَ
: نزدیک
الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ
: مشعر حرام
وَاذْكُرُوْهُ
: اور اسے یاد کرو
كَمَا
: جیسے
ھَدٰىكُمْ
: اسنے تمہیں ہدایت دی
وَاِنْ
: اور اگر
كُنْتُمْ
: تم تھے
مِّنْ قَبْلِهٖ
: اس سے پہلے
لَمِنَ
: ضرور۔ سے
الضَّآلِّيْنَ
: ناواقف
تم پر کوئی گناہ نہیں کہ تم اپنے رب کا فضل تلاش کروپس جب عرفات سے چلو تو اللہ کو یاد کرومشعرِحرام کے پاس اور اس کو اس طرح یاد کروجس طرح اللہ نے تم کو ہدایت کی ہے، اس سے پہلے بلاشبہ تم گمراہوں میں سے تھے
لَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَبْتَغُوْا فَضْلاً مِّنْ رَّبِّکُمْ ط فَاِذَآ اَفَضْتُمْ مِّنْ عَرَفٰتٍ فَاذْکُرُواللّٰہَ عِنْدَالْمَشْعَرِالْحَرَامِ ص وَاذْکُرُوْہُ کَمَا ھَدٰکُمْ ج وَاِنْ کُنْتُمْ مِنْ قَبْلِہٖ لَمِنَ الضَّآلِّیْنَ ۔ (تم پر کوئی گناہ نہیں کہ تم اپنے رب کا فضل تلاش کروپس جب عرفات سے چلو تو اللہ کو یاد کرومشعرِحرام کے پاس اور اس کو اس طرح یاد کروجس طرح اللہ نے تم کو ہدایت کی ہے، اس سے پہلے بلاشبہ تم گمراہوں میں سے تھے) (198) حج میں حصول رزق کی اجازت گزشتہ آیت کریمہ میں سب سے زیادہ زور اس بات پر دیا گیا ہے کہ حج کا اصل مقصود تقویٰ ہے۔ اس کا زاد راہ بھی تقویٰ ہے۔ اس لیے حج کے دوران کوئی ایسا کام نہیں ہونا چاہیے جس سے تقویٰ کی کیفیت کو نقصان پہنچے اور دل کی وہ کیفیت جس میں اللہ کا خوف اور محبت بسی ہونی چاہیے اس میں کسی طرح کی کمی آئے۔ اس دور کے مسلمان جنھیں ہم اصحابِ رسول کے نام سے یاد کرتے ہیں ان کی خصوصیت ہی یہ تھی کہ وہ قرآن کی ہر ہدایت کو حرزجان بنا لیتے تھے اور رسول اللہ ﷺ کی تربیت ان کا اصل سرمایہ تھی۔ انھوں نے جب قرآن کریم اور آنحضرت کی تربیت کا سارا زور تقویٰ پر دیکھا تو وہ یہ سمجھے کہ حج کے دوران کسی طرح کا بھی کام جس سے مقصود کچھ کمانا اور فائدہ اٹھانا ہو نہیں ہونا چاہیے۔ حالات چاہے مالی لحاظ سے کتنے ہی ناموافق ہوں ہمیں ساری توجہ مناسکِ حج کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ زیادہ سے زیادہ ذکر اللہ اور عبادت پر رکھنی چاہیے۔ چناچہ صحابہ میں سے جو لوگ حج کے دوران جائز طریقے سے تجارت کے ذریعے یا مزدوری کرکے اپنی کچھ ضرورتیں پوری کرلیتے تھے۔ انھوں نے بھی اس سے ہاتھ کھینچ لیا اور جن لوگوں کا حج کے دوران کوئی کاروبار تھا ان کے لیے پریشانی پیداہوئی اور ان میں سے بعض لوگوں نے اس کے بارے سوال بھی کرنا چاہا۔ ایسے ہی لوگوں میں سے ایک صاحب حضرت عبداللہ ابن عمر ( رض) کے پاس آئے اور یہ سوال کیا کہ ہمارا پیشہ پہلے سے یہ ہے کہ ہم کرایہ پر اونٹ چلاتے ہیں۔ کچھ لوگ ہمارے اونٹ حج کے لیے کرایہ پرلے جاتے ہیں، ہم ان کے ساتھ جاتے ہیں اور حج کرتے ہیں۔ کیا ہمارا حج صحیح نہیں ہوگا ؟ حضرت عبداللہ ابن عمر ( رض) نے فرمایا کہ ایک شخص رسول اللہ کی خدمت میں حاضر ہوا تھا اور آپ سے وہی سوال کیا تھا جو تم مجھ سے کررہے ہو۔ آنحضرت ﷺ نے اس وقت اس کو کوئی جواب نہیں دیا یہاں تک کہ یہ آیت نازل ہوئی۔ اس وقت آپ نے اس شخص کو بلایا اور فرمایا کہ ہاں ! تمہارا حج صحیح ہے۔ مختصر یہ کہ اس آیت نے مسلمانوں کے لیے ایک سہولت پیدا کردی اور بتایا کہ حج یقینا اللہ کی عبادت کا نام ہے اور عبادت نہایت مخلصانہ ہونی چاہیے اور آئندہ زندگی کی اصلاح کے لیے حج کو ذریعہ بن جانا چاہیے۔ وہ اسی صورت میں بن سکتا ہے کہ اس میں زیادہ سے زیادہ للہیت، اخلاص، اللہ اس کے رسول اور اس کے دین سے وارفتگی اور مرکز اسلام سے بےپناہ تعلق اور دینی ذمہ داریوں کے حوالے سے ایک تڑپ پیدا ہو۔ لیکن اگر اس دوران ضروریات کے حصول کے لیے کوئی چھوٹی موٹی تجارت یا کوئی مزدروی کرلی جائے تو اس میں تمہارے لیے کوئی گناہ نہیں۔ البتہ ! اس میں دو باتوں کی احتیاط ضروری ہے۔ ایک تو یہ کہ یہ تجارت اور مزدوری حج کی مصروفیات پر غالب نہ آنے پائے اور تعلق باللہ کو کمزور کرنے کا باعث نہ بنے اور دوسری یہ کہ تجارت یا مزدوری یاکسبِ معاش کا کوئی طریقہ اسلام کے بتائے ہوئے جائز اور حلال طریقوں کے خلاف نہیں ہونا چاہیے۔ چناچہ جو کسب اور اکتساب اور کمائی حلال طریقے اور باہمی رضامندی سے ہوتی ہے اسے قرآن کریم نے اللہ کا فضل قرار دیا ہے۔ یہاں بھی فضل کا لفظ بول کر اسی جانب اشارہ ہے اور مزید یہ بات کہ لَیْسَ عَلَیْـکُمْ جُنَاحٌ کہہ کر یہ بتایا گیا ہے کہ یہ کام کرنا حج کے دوران بہت پسندیدہ تو نہیں لیکن اگر ضرورت کے تحت تم کرلوتو تمہیں اس کا گناہ بھی نہیں ہوگا۔ اس لیے علماء کرام نے احتیاط سکھاتے ہوئے یہ نصیحت کی ہے کہ خاص ان پانچ ایام میں جن میں افعال ِ حج ادا کیے جاتے ہیں ان میں تجارت یا مزدوری کی کوئی مشغولیت نہیں ہونی چاہیے بلکہ ان ایام کو خالص عبادت اور ذکر میں گزارا جائے۔ بعض علماء نے شدت احساس کے پیش نظر ان ایام میں تجارت اور مزدوری کو ممنوع قرار دیا ہے۔ فَاِذَآ اَفَضْتُمْ مِّنْ عَرَفٰتٍ فَاذْکُرُواللّٰہَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرَامٍ : ” پھر جب تم عرفات سے واپس آنے لگو تو مشعر حرام کے پاس اللہ تعالیٰ کی یاد کرو “۔ یہ دوسرا حکم ہے جو اس آیت کریمہ میں دیا گیا ہے۔ اس میں عرفات اور مشعرحرام کا ذکرآیا ہے۔ سب سے پہلے انھیں سمجھ لیجیے۔ عرفات اور مشعرالحرام کا تعارف ” عرفات “ وہ میدان ہے جو مکہ معظمہ سے تقریباً نو میل کے فاصلے پر ہے۔ 9 ذی الحج کو حجاج کرام عرفات پہنچتے ہیں۔ اگر امام کے ساتھ ظہر کی نماز پڑھیں تو ظہر اور عصر اکٹھی پڑھتے ہیں اور حج کا خطبہ سنتے ہیں اور اگر اپنے خیموں میں پڑھیں توظہر اور عصر کو اپنے اپنے وقتوں میں پڑھتے ہیں۔ زوال آفتاب سے مغرب تک یہاں قیام کرنا حج کا اہم ترین فرض ہے۔ جس کے فوت ہونے کا کوئی کفارہ اور فدیہ نہیں ہوسکتا اس طرح سے صعوبتِ سفر اٹھانے اور مصارفِ حج ادا کرنے کے باوجود حاجی حج سے محروم رہتا ہے اور اگلے سال یا جب توفیق ہو اس حج کی قضا کرنا لازم ہوتا ہے۔ اسی میدان میں ” جبلِ رحمت “ ہے، جس کے دامن میں حضور نے دعائیں مانگی تھیں اور اونٹنی پر خطبہ حج ارشاد فرمایا تھا۔ اور وہ خطبہ ،” خطبہ حجۃ الوداع “ کے نام سے مسلمانوں کی ہدایت کا بہت بڑ اسرمایہ اور انسانیت کا عظیم ورثہ ہے۔ عرفات کی وجہ تسمیہ کے بارے میں کوئی ایک بات کہنا بہت مشکل ہے۔ لوگوں نے مختلف باتیں کہی ہیں جن میں کوئی بھی مصدقہ نہیں۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ حضرت آدم (علیہ السلام) اور حضرت حوا (علیہا السلام) زمین پر اترنے کے بعد یہیں ایک دوسرے سے ملے تھے اور ہوسکتا ہے یہیں کہیں ان کا قیام رہا ہو۔ اس لیے کہ حضرت حوا کی قبر جدہ میں بتائی جاتی ہے اور جدہ کو حضرت حوا کی نسبت کی وجہ سے شاید جدہ (دادی) کہا جاتا ہے۔ لیکن تاریخی طور پر ان میں کوئی بات یقینی نہیں۔ بعض علماء کا خیال یہ ہے کہ اسے عرفات کہنے کی وجہ یہ ہے کہ اس میدان میں انسان اپنے رب کی معرفت اور بذریعہ عبادت اور ذکر اللہ تعالیٰ کا تقرب حاصل کرتا ہے۔ نیز مشرق ومغرب کے مسلمانوں کو آپس میں تعارف کا ایک موقعہ ملتا ہے۔ 9 تاریخ کی شام غروب آفتاب کے ساتھ ہی مغرب کی نماز ادا کیے بغیر وہاں سے نکلنا ہوتا ہے۔ مکہ معظمہ کی طرف آتے ہوئے عرفات سے تین میل کے فاصلے پر ایک میدان آتا ہے جسے ” مزدلفہ “ کہا جاتا ہے یہ مزدلفہ وہ میدان ہے جو مشعرالحرام کے اردگرد پھیلاہوا ہے اور مشعرالحرام ایک پہاڑ ہے۔ مشعر کا معنی ” شعار اور علامت “ کے ہیں۔ اور حرام ” محترم اور مقدس “ کو کہتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ یہ پہاڑ شعار اسلام کے اظہار کے لیے ایک مقدس مقام ہے۔ اس پہاڑ کے قریب میدان کے کسی حصہ میں رات گزارنا اور مغرب اور عشاء دونوں نمازوں کا ایک وقت میں پڑھنا واجب ہے۔ یہاں پہنچتے پہنچتے رات ڈھلنے لگتی ہے مغرب کی نماز کا وقت گزرچکا ہوتا ہے لیکن اسے قضا نہیں کیا جاتا بلکہ باری باری دونوں نمازیں امام کے پیچھے جماعت کے ساتھ پڑھی جاتی ہیں۔ مشعرالحرام کے پاس ایک مسجد ہے جس میں امام وقت نماز پڑھاتا ہے لیکن دور دور پھیلے ہوئے لوگ اپنے طور پر نماز پڑھ لیتے ہیں یا جماعت کا انتظام کرلیتے ہیں۔ اس آیت کریمہ میں یہ حکم دیا گیا ہے کہ تم عرفات سے واپسی پر نہ تو سیدھے منیٰ نکل جاؤ اور نہ ایسا کرو کہ تم مزدلفہ میں اپنی خواہشات کے مطابق اپنی دلچسپیوں میں رات گزار دو ۔ دور جاہلیت میں عربوں کا طریقہ یہ تھا کہ وہ جب مزدلفہ میں پہنچتے آگ جلاتے، مجلسیں جماتے، مشاعروں کی مجالس منعقد ہوتیں، پوری رات مختلف تفریحات میں گزار دی جاتی۔ وہ احرام میں ہوتے ہوئے بھی یہ بات بھول جاتے تھے کہ احرام کا تقاضا کیا ہے اور ہم صرف اللہ کی یاد کے لیے ان دنوں گھر سے نکلے ہوئے ہیں۔ اس لیے انھیں حکم دیا جارہا ہے کہ مشعرالحرام کا پہاڑ اپنے نام سے ہی تمہیں کچھ پیغام دے رہا ہے کہ تمہیں یہاں صرف اللہ کا ذکر کرنا چاہیے خواہشات پر مبنی مصروفیات اور تفریحات اس میدان میں نہیں ہونی چاہئیں۔ ذکر اللہ کا صحیح طریقہ دوسرا حکم یہ دیا گیا ہے وَاذْکُرُوْہُ کَمَا ھَدٰکُمْ ” تم نے اگر ایک طرف حج کو بھی تفریح میں بدل دیا ہے تو دوسری طرف تمہارا حال یہ ہے کہ تم میں جو لوگ اللہ کا ذکر کرنا چاہتے بھی ہیں وہ بھی اپنی مرضی اور اپنی منشا کو سب سے بڑا رہنما سمجھتے ہیں۔ جو ان کے جی میں آتا ہے اور جیسا مناسب سمجھتے ہیں ویسے اللہ کو یاد کرتے ہیں اب مسلمانوں سے کہا جارہا ہے اب تم اللہ کو اس طرح یاد کروجس طرح اس نے تمہیں ہدایت دی۔ ان میں سب سے بڑی ہدایت یہ ہے کہ تم مغرب اور عشا کو ملاکر مزدلفہ میں ادا کرو کیونکہ یہ اس رات اور اس میدان کی مخصوص عبادت ہے اور پھر جس طرح آنحضرت ﷺ نے اس رات میں دعائیں مانگیں اور نماز فجر کے بعد طلوع آفتاب تک آپ ذکر اللہ میں مصروف رہے یہ وہ طریقہ ہے جو مسلمانوں کو سکھایا گیا ہے۔ اس جملے سے ہمیں ایک اصولی ہدایت ملتی ہے کہ ذکر اللہ اور عبادت کی ادائیگی میں انسان خودمختار نہیں کہ جس طرح چاہے اور جس وقت چاہے اللہ کو یاد کرے بلکہ اس کے ذکر اور اس کی عبادت کے خاص آداب ہیں ان کے موافق ادا کرنا ہی عبادت ہے اس کے خلاف کرنا جائز نہیں۔ اس میں کمی بیشی یاتکریم و تعظیم کسی طرح روا نہیں۔ عربوں نے بھی اس میں یہی غلطی کی تھی کہ ملت ابراہیم میں ان کو جو مناسکِ حج سکھائے گئے تھے اور ذکر اللہ کا جو طریقہ بتایا تھا ان میں اپنی مرضی سے کمی بیشی کرڈالی۔ مسلمانوں سے بھی یہ کہا جارہا ہے کہ تم یہ غلطی نہ کرو اور یہ ہدایت فریضہ حج کے ساتھ ہی خاص نہیں بلکہ باقی تمام عبادات میں بھی یہی اصول پیش نظر رہنا چاہیے کہ اس میں عقل کام نہیں دیتی اور نہ اس میں اپنی مرضی چلتی ہے۔ اذان، نماز، زکوٰۃ، روزہ، حج اور اس کے ذکر کے طریقے یہ سب عبادات ہیں۔ اس میں قرآن وسنت نے جس طرح ہدایات دی ہیں ہم اس کے پابند ہیں۔ اس میں اپنی طرف سے یہ سمجھ کر اضافہ کرنا کہ اس سے شاید زیادہ ثواب ملے گا اور اللہ خوش ہوگا یہی وہ گمراہی ہے جس نے امتوں کو صراط مستقیم سے دور کیا ہے۔ مسلمانوں کو اس سے بچنا چاہیے اور اللہ سے پناہ مانگنی چاہیے۔
Top