Ruh-ul-Quran - Al-Baqara : 201
وَ مِنْهُمْ مَّنْ یَّقُوْلُ رَبَّنَاۤ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَةً وَّ فِی الْاٰخِرَةِ حَسَنَةً وَّ قِنَا عَذَابَ النَّارِ
وَمِنْهُمْ : اور ان سے مَّنْ : جو يَّقُوْلُ : کہتا ہے رَبَّنَآ : اے ہمارے رب اٰتِنَا : ہمیں دے فِي الدُّنْيَا : دنیا میں حَسَنَةً : بھلائی وَّفِي الْاٰخِرَةِ : اور آخرت میں حَسَنَةً : بھلائی وَّقِنَا : اور ہمیں بچا عَذَابَ : عذاب النَّارِ : آگ (دوزخ)
اور کچھ ایسے ہیں جن کی دعایہ ہوتی ہے کہ اے ہمارے رب ! ہمیں دنیا میں بھی بھلائی عطا فرما اور آخرت میں بھی بھلائی عطا فرما اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا
وَمِنْھُمْ مَّنْ یَّـقُوْلُ رَبَّـنَـآ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّفِی الْاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ ۔ (اور لوگوں میں سے ایسے بھی ہیں جو دعا کرتے ہیں اے ہمارے رب ہمیں دنیا میں بھلائی عطا فرما اور ہمیں آخرت میں بھلائی عطا فرما اور ہمیں جہنم کے عذاب سے بچا) (201) پسندیدہ دعا آیت کریمہ کے اس حصے میں بظاہر ان لوگوں کا تذکرہ ہے کہ جن کے دعا مانگنے کا انداز اور اسلوب بالکل صحیح ہے اور جو دعا میں وہ چیز مانگ رہے ہوں جو اللہ کی نگاہ میں بہتر ہے لیکن حقیقت میں لوگوں کے تذکرہ کے ساتھ ساتھ زاویہ نگاہ کی اصلاح بھی ہے۔ بتانا یہ مقصود ہے کہ جن لوگوں کا تذکرہ پہلے گزرچکا ہے وہ اپنے اللہ سے جو کچھ مانگتے تھے اس سے اندازہ ہوتا تھا کہ دین کے بارے میں اور اپنے پروردگار کے بارے میں ان کا رویہ اور ان کا زاویہ نگاہ بالکل غلط ہے۔ ان کے غلط زاویہ نگاہ نے ان کی پوری زندگی میں بگاڑ پیدا کردیا تھا۔ دنیا اور آخرت کے حوالے سے ان کے خیالات بگڑ گئے۔ اس بگاڑ کا نتیجہ یہ ہوا کہ حج جو خالصتا ایک عاشقانہ اور مخلصانہ عبادت ہے وہ بھی دنیاداری کی تصویر بن کر رہ گیا اور وہ مقدس مقامات جہاں مناسک حج ادا کیے جاتے ہیں وہ میلوں کی صورت میں تبدیل ہوگئے۔ اب اسی زاویہ نگاہ کی اصلاح کے لیے ایسے لوگوں کی تصویر کشی کی جارہی ہے جو اپنے پروردگار اور دین کے بارے میں صحیح تصور اور صحیح زاویہ نگاہ رکھتے ہیں اور اسی نے ان کی پوری دینی زندگی میں ایک ایسا حسن پیدا کردیا ہے جو اللہ کو مطلوب ہے۔ اس میں جو تصور دیا گیا ہے اس میں تین باتیں بہت نمایاں ہیں۔ پہلی بات تو یہ کہ اس سے پہلے متذکرہ لوگوں نے صرف دنیا مانگی جس میں آخرت کا کوئی ذکر نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ صرف دنیا پر یقین رکھتے ہیں۔ آخرت کے بارے میں شاید ان کا خیال یہ ہے کہ یہ محض ڈھکوسلہ ہے۔ مذہبی لوگوں نے جسے اختراع کر رکھا ہے۔ محض ایک مصنوعی تصور پر کون اپنی زندگی کا حسن غارت کرے۔ اسی دنیا کی خوشیاں اصل خوشیاں ہیں۔ یہیں کے غم اصل غم ہیں۔ یہاں کی کامیابیاں حقیقی کامیابیاں ہیں اور یہاں کی محرومیاں انسان کے لیے سب سے بڑا لمحہ فکریہ ہیں۔ اس لیے جس چیز کی حقیقت مسلم نہیں اللہ کے گھر کے سامنے یا دیگر مقامات مقدسہ میں اسے مانگنے کی ضرورت کیا ہے اور جس کی حقیقت مسلم ہے صرف اسی پر اکتفا نہ کرنے کی آخر وجہ کیا ہے۔ ہم محض بہلاو وں کے پیچھے بھاگنے والے لوگ نہیں۔ ؎ ہم کو معلوم ہے جنت کی حقیقت لیکن دل کے بہلانے کو غالب یہ خیال اچھا ہے پیش نظر آیت میں سب سے پہلی بات یہ بتائی گئی ہے کہ اللہ کو جو لوگ پسند ہیں اور جو زاویہ نگاہ پروردگار عطا فرمانا چاہتے ہیں اس میں صرف دنیا کا کوئی تصور نہیں۔ دنیا کے بعد آخرت بھی ایک حقیقت ہے اور یہ دنیا اسی کی تیاری کے لیے تخلیق کی گئی ہے۔ یہ دنیا انسان کے لیے دارالابتلاء ہے کہ وہ یہاں رہ کر اور یہاں کی نعمتوں میں مگن ہو کر اور یہاں کی دلچسپیوں میں کھو کر آخرت کو یاد رکھتا ہے یا بھول جاتا ہے۔ اصل زندگی آخرت کی زندگی ہے جس نے آخرت کو یاد رکھا اس کی دنیا کے معاملات بھی ٹھیک ہوگئے۔ اس نے اپنی دنیا کو آخرت کا مقدمہ بنادیا۔ اس نے دنیا کا ہر کام اس احتیاط سے کیا کہ اس کے لیے آخرت میں جواب دہی آسان ہوگئی۔ دوسری بات اس آیت کریمہ میں جو فرمائی گئی ہے وہ یہ کہ متذکرہ بالا لوگوں نے اللہ سے صرف دنیا مانگی اور دنیا میں بھی حسنہ کی دعا نہیں کی اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ ایسی دنیا چاہتے ہیں جس میں حسنہ کا کوئی تصور نہ ہو۔ چناچہ اس تصور کی اصلاح کرتے ہوئے فرمایا جارہا ہے کہ تم آخرت کے ساتھ ساتھ دنیا مانگو لیکن صرف دنیا نہ مانگو اس کے ساتھ حسنہ بھی مانگو۔ یہ وہ چیز ہے جو انسان کو دنیا کے مضر پہلوؤں سے بچاتی ہے کیونکہ حسنہ تمام ظاہری اور باطنی خوبیوں اور بھلائیوں کا نام ہے۔ مثلا دنیا کی حسنہ میں بدن کی صحت، اہل و عیال کی صحت، رزق حلال میں وسعت و برکت، سب ضروریات کا پورا ہونا، اعمال صالحہ، اخلاق محمودہ، علم نافع، عزت ووجاہت، عقائد کی درستی، صراط مستقیم کی ہدایت، عبادات میں اخلاص کامل سب داخل ہیں۔ ان چیزوں پر غور فرمائیے تو آپ یقینا اس نتیجہ پر پہنچیں گے کہ جو شخص دنیا میں حسنہ کے لیے دعا کرتا ہے وہ آخرت کے تصور سے بےبہرہ نہیں رہ سکتا۔ یہ صحیح ہے کہ اس آیت کریمہ میں دنیا کے ساتھ آخرت کے لیے دعا کرنے کا تصور دیا ہے لیکن میں نے جو تفصیل ” حسنہ “ کے سلسلے میں عرض کی ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ تصور بجائے خود آخرت کے تصور کا مقدمہ ہے اور پھر آخرت کے لیے دعا کا جو سلیقہ سکھایا گیا اس میں بھی حسنہ کا ذکر موجود ہے کہ دنیا میں بھی اللہ سے حسنہ مانگو اور آخرت میں بھی حسنہ مانگو اور آخرت کی حسنہ جنت اور اس کی بیشمار اور لازوال نعمتیں اور حق تعالیٰ کی رضا اور اس کا دیدار ہے۔ تیسری چیز جو آیت کریمہ کے اس حصے میں بیان فرمائی گئی ہے وہ یہ ہے کہ اللہ کے محبوب بندے جب اللہ سے دعا مانگتے ہیں تو وہ دنیا اور آخرت کی بھلائیاں مانگنے کے ساتھ ساتھ ایک بات کی دعا کرنا کبھی نہیں بھولتے وہ یہ ہے کہ اے ہمارے رب جہنم کے عذاب سے ہمیں بچانا۔ کیونکہ دنیا میں بھلائیاں آخرت کا پیش خیمہ ہیں اور آخرت کی بھلائیاں دنیا میں ایک کامیاب دینی زندگی کا نتیجہ ہیں۔ لیکن دونوں کا اصل مقصود صرف یہ ہے کہ اللہ ہمیں قیامت کی گرفت سے محفوظ فرمائے۔ ہمارے لیے حساب کتاب آسان کردے، ہمیں اپنے فضل و کرم سے نوازے۔ جس کا نتیجہ یہ ہونا چاہیے کہ ہمیں جہنم کے عذاب سے بچایا جائے۔ کیونکہ وہ چیز جس سے مومن کا دل پگھلتا اور پتہ پانی ہوتا ہے اور جس سے اس کی آنکھیں اشکبار ہوتی اور جس سے اس کی تنہائیاں شدت احساس میں ڈوب جاتی ہیں، وہ صرف یہ تصور ہے کہ میں اپنی بداعمالیوں کے نتیجے میں کہیں جہنم میں نہ جھونک دیا جاؤں۔ اس لیے اصل کامیابی جس کا تصور ایک مومن کرسکتا ہے، وہ یہی ہے کہ اللہ جہنم کے عذاب سے محفوظ رکھے۔ قرآن کریم نے بجا طور پر فرمایا : فمن زحزح عن النار و ادخل الجنۃ فقد فاز۔ جو شخص جہنم کے عذاب سے بچا لیا گیا اور جنت میں داخل کردیا گیا وہی کامیاب ٹھہرا۔ “ جہنم سے بچنے کے لیے جن چیزوں کو مقدمہ بنایا گیا وہ دنیا میں آخرت کی تیاری، ایمان اور حسن عمل کا سرمایہ ہے اور اس آیت کریمہ میں چونکہ انہی بنیادی باتوں کا ذکر فرمایا گیا ہے۔ اس لیے حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آنحضرت ﷺ بکثرت یہی دعا فرمایا کرتے تھے اور طواف کے دوران اس دعا کا زیادہ سے زیادہ مانگنا مسنون بھی ہے۔ اس آیت کریمہ میں چونکہ دنیا اور آخرت دونوں کی بھلائی مانگنے کا تصور دیا گیا ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں جس طرح صرف دنیا کی طلب ایک مومن کا نہیں ایک کافر کا شیوہ ہے اسی طرح یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ دنیا کو نظرانداز کرکے اللہ سے صرف آخرت کی بھلائی مانگنا یہ بھی صالح مومن کا طریقہ نہیں۔ اللہ کے نبیوں نے بھی ضروریات کی حد تک دنیا سے فائدہ اٹھایا۔ وہ بھی کھاتے پیتے رہے، اوڑھتے پہنتے رہے، انھوں نے بھی بیویوں سے تعلق رکھا۔ اللہ کی نعمتیں استعمال کیں تو ان کا شکر بھی ادا کیا۔ دنیا سے محبت نہیں کی نہ دنیا کو مقصود بنایا لیکن دنیا کو نظرانداز بھی نہیں کیا۔ کیونکہ آخرت یا دین کا مقصود دنیا کو نظرانداز کرنا نہیں اور نہ دنیا کو چھوڑنا ہے۔ بلکہ دنیا کو اس طرح برت کے دکھانا ہے جس سے معلوم ہو سکے کہ ایک مومن اور کافر کی دنیا بسری میں فرق کیا ہے۔ ایک مومن دنیا میں رہتا ضرور ہے لیکن وہ دنیا کو ایک مسافر خانہ سمجھتا ہے، اس کے ایک ایک معاملے میں دخل دیتا ہے لیکن اس سے دل نہیں لگاتا۔ وہ دنیا میں اس لیے رہتا ہے تاکہ دنیا کو سنوار دے۔ وہ دنیا سے لیتا کم ہے اسے دیتا زیادہ ہے۔ اس کا حال یہ ہوتا ہے : خاکی و نوری نہاد بندہ مولیٰ صفات ہر دو جہاں سے غنی اس کا دل بےنیاز اس کی امیدیں قلیل اس کے مقاصد جلیل اس کی ادا دلفریب اس کی نگہ دلنواز اس سے ان نام نہاد درویشوں اور صوفیوں کی اصلاح ہوجاتی ہے جو ترک دنیا میں دین کی معراج سمجھتے ہیں اور دنیا کے جھمیلوں میں شریک ہونا ان کے ہاں دین داری کے خلاف ہے۔
Top