Ruh-ul-Quran - Al-Baqara : 205
وَ اِذَا تَوَلّٰى سَعٰى فِی الْاَرْضِ لِیُفْسِدَ فِیْهَا وَ یُهْلِكَ الْحَرْثَ وَ النَّسْلَ١ؕ وَ اللّٰهُ لَا یُحِبُّ الْفَسَادَ
وَاِذَا : اور جب تَوَلّٰى : وہ لوٹے سَعٰى : دوڑتا پھرے فِي : میں الْاَرْضِ : زمین لِيُفْسِدَ : تاکہ فساد کرے فِيْهَا : اس میں وَيُهْلِكَ : اور تباہ کرے الْحَرْثَ : کھیتی وَ : اور النَّسْلَ : نسل وَاللّٰهُ : اور اللہ لَا يُحِبُّ : ناپسند کرتا ہے الْفَسَادَ : فساد
اور جب وہ تمہارے پاس سے ہٹتے ہیں ‘ ان کی ساری بھاگ دوڑ اس لیے ہوتی ہے کہ زمین میں فساد مچادیں اور کھیتی اور نسل کو تباہ کریں اور اللہ فساد کو پسند نہیں کرتا
وَاِذَا تَوَلّٰی سَعٰی فِی الْاَرْضِ لِیُفْسِدَ فِیْھَا وَیُھْلِکَ الْحَرْثَ وَالنَّسْلَ ط وَاللّٰہُ لَایُحِبُّ الْفَسَادَ ۔ (اور جب وہ تمہارے پاس سے ہٹتے ہیں ‘ ان کی ساری بھاگ دوڑ اس لیے ہوتی ہے کہ زمین میں فساد مچادیں اور کھیتی اور نسل کو تباہ کریں اور اللہ فساد کو پسند نہیں کرتا) (205) تَوَلّٰی کا مفہوم تَوَلّٰیکے دو معنی ہوسکتے ہیں۔ والی بننا اور پیٹھ پھیرنا۔ قاضی بیضاوی ( رح) نے اس کی تفسیر کرتے ہوئے فرمایا اَدْبَرَ وَانْصَرَفَ عَنْکَ وَ قِیْلَ اِذَا غَلَبَ وَ صَارَ وَالِـیًا قاضی صاحب نے دونوں معنی مراد لیے ہیں۔ یہاں بھی دونوں معنی مراد ہوسکتے ہیں۔ تو پھر اس کا مفہوم یہ ہوگا کہ منافقین کی خصلت یہ ہے کہ وہ بظاہر کتنا بھی اسلام اور پیغمبر کے ساتھ مخلص ہونے کا دعوی کریں اور دوسروں سے بڑھ چڑھ کر اپنی فدائیت کا یقین دلائیں لیکن حقیقت میں جب بھی انھیں کہیں اقتدار ملے گا یا کسی بھی دائرے میں غلبہ نصیب ہوگا تو وہ اسلام کے ساتھ اپنے تعلق کے دعوؤں کو بالکل بھول جائیں گے اور وہ وہی روش اختیار کریں گے جس کا اس آیت کریمہ میں ذکر کیا گیا ہے۔ یعنی اپنی طاقت کو اللہ کے دین کی سربلندی اور خلق خدا کی خدمت میں صرف کرنے کی بجائے ان کے پیش نظر صرف یہ ہوگا کہ وہ اپنے طاقت کے اظہار سے اپنی طاقت کا بھرم قائم کریں۔ انھیں اس کے لیے کوئی ایکشن کرنا پڑے ‘ کھیتیاں تباہ کرنی پڑیں ‘ قتل عام کرنا پڑے وہ کبھی اس سے دریغ نہیں کریں گے۔ آج ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں کہ اسلام سے جن کا تعلق محض زبانی حد تک ہے اور ان کے دل و دماغ میں اسلامی حمیت کا کوئی اثر نہیں تو انھیں اپنے اقتدار کو بچانے اور اپنی طاقت کا رعب بٹھانے کے لیے جو بھی کرنا پڑتا ہے وہ کر رہے ہیں۔ انھیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ ان کے ہاتھوں سے مسلمان مر رہے ہیں۔ مسلمانوں کی روایات تباہ ہو رہی ہیں، مسلمانوں کی تاریخ اندھیروں میں ڈوب رہی ہے۔ انھیں صرف اپنی اقتدار کی فکر ہے۔ اس کی خاطر اللہ کی بندگی کے مقابلے میں جس کی بھی بندگی کرنا پڑے اور جیسا بھی ظلم توڑنا پڑے ‘ انھیں اس سے دریغ نہیں۔ وہ بھول گئے ہیں کہ کسی مسلمان کا ناحق قتل قیامت کے دن کتنے بڑے عذاب کا باعث بنے گا۔ فساد فی الارض کا مفہوم آنحضرت ﷺ کے زمانے میں چونکہ منافقین کے پاس کوئی اختیار اور اقتدار نہیں تھا اور اس آیت میں براہ راست انہی کا تذکرہ ہے اگرچہ انہی کے تذکرہ تک یہ آیت محدود نہیں۔ بہرحال ان کے حوالے سے یہاں جو کچھ فرمایا گیا ہے ‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ منافقین دو طرح کے اعمال کا ارتکاب کر رہے ہیں۔ ایک تو یہ کہ جب بھی انھیں موقع ملتا ہے ‘ وہ مدینہ منورہ ‘ مکہ معظمہ یا پورے جزیرہ عرب میں کہیں نہ کہیں فساد کی آگ مچائے رکھتے ہیں۔ درپردہ مسلمانوں کی کھیتیوں اور فصلوں کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ ان کا بس چلے تو مسلمانوں کے قتل سے بھی نہیں چوکتے۔ مفسرین نے اخنس بن شریق جیسے لوگوں کا تذکرہ کیا ہے ‘ جو درپردہ اسی طرح کی حرکتوں کا ارتکاب کرتے رہتے تھے۔ آنحضرت ﷺ کے سامنے اپنے ایمان اور اخلاص کا ثبوت دینے کے لیے زبان وبیان کی ساری توانائیوں کو صرف کردیتے۔ لیکن حضور کے سامنے سے ہٹتے ہی جہاں کہیں انہیں اپنی حرکات شنیعہ کے ارتکاب کا موقع ملتا تھا تو وہ اس میں دریغ نہیں کرتے تھے۔ بعض اہل علم نے اس کا ایک اور مفہوم بیان کیا ہے ‘ وہ یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ جو دعوت لے کر آئے ہیں اس کا حاصل صرف یہ ہے کہ زمین پر اللہ کے سوا کسی اور کی غیر مشروط اطاعت نہ کی جائے۔ اس کی زمین پر اسی کے دین کا غلبہ ہو۔ اسی کے نام کا چرچا ہو اور زندگی کے تمام اداروں میں اسی کا دین حاکم ہو۔ اگر اس دعوت کو قبول کرلیا جاتا ہے تو زمین سے ہر طرح کا فساد اور ہر طرح کی انارکی ختم ہوجاتی ہے۔ کھیتیاں محفوظ ہوجاتی ہیں ‘ نسلیں مامون ہوجاتی ہیں۔ پوری کائنات کو دیکھئے۔ ہمیں کہیں بھی کوئی ظلم کوئی خرابی اور کوئی افراتفری نظر نہیں آتی۔ ہر ستارہ ہر سیارہ اور ہر کرہ اللہ کے قانون کی اطاعت میں بندھا ہوا ہے۔ اس اطاعت کاملہ کے باعث ایک مکمل امن دکھائی دیتا ہے۔ تمام مخلوقات میں کسی مخلوق کو کسی سے کوئی شکایت نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ کائنات میں امن کی ضمانت صرف اللہ کی اطاعت کاملہ ہے۔ زمین پر رہنے والوں کو چونکہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ اللہ کی اطاعت بھی کرسکتے ہیں اور نافرمانی بھی۔ اگر یہ اطاعت کرکے باقی کائنات کے ہم سفر ہوجائیں تو زمین بھی ہر طرح کے فساد سے محفوظ ہوجائے۔ لیکن جب یہ اللہ کی اطاعت کی بجائے غیر اللہ کی اطاعت میں حق تلفی اور حق شکنی کا ارتکاب کرتے ہیں تو وہیں سے فساد کا آغاز ہوجاتا ہے۔ پوری کائنات کا سفر اللہ کی اطاعت میں اس کی خوشنودی کی طرف رواں دواں ہے۔ لیکن جب انسان الٹی طرف سے چلنا شروع کرتا ہے تو چونکہ کائنات کا سفر یکطرفہ ہے جس کے مقابل کی طرف سے آنے کا کوئی جواز نہیں۔ تو یہیں سے تصادم کی کیفیت پیدا ہوجاتی ہے۔ منافقین کی ساری کوشش یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ دنیا میں امن قائم کرنے اور فساد سے بچانے کی جو دعوت لے کر آئے ہیں اور جو اللہ کی غیر مشروط اطاعت پر مشتمل ہے ‘ اسے ناکام کردیا جائے۔ چناچہ وہ آنحضرت ﷺ کے سامنے تو سرتاپا اطاعت بنے رہتے ہیں لیکن وہاں سے ہٹتے ہی اطاعت کی اس دعوت کو ناکام کرنے کے لیے لگ جاتے ہیں جس کا نتیجہ فساد اور حرث ونسل کی تباہی کے سوا اور کچھ نہیں ہوسکتا۔ چناچہ یہاں منافقین کے حوالے سے جو کہا جارہا ہے وہ اگرچہ بعض معاملات میں حقیقت بھی ہے لیکن مجموعی طور پر جو کچھ وہ کر رہے ہیں ‘ اس کے نتیجے کو حقیقت کی شکل میں بیان فرمایا گیا ہے۔ کہ تم بالفعل بیشک قتل و نہب کا ارتکاب نہ کرو لیکن جو کچھ کر رہے ہو اس کے نتیجہ میں یہی کچھ ہو کے رہے گا اور تمہیں یہ بات معلوم ہونی چاہیے کہ اللہ نے زمین بنائی اور بسائی ہے وہ کبھی یہ پسند نہیں کرتا کہ اس کی بسائی ہوئی زمین میں فساد مچایا جائے۔ اسی لیے وقتاً فوقتاً وہ اس کی اصلاح کے لیے پیغمبر بھیجتا رہتا ہے۔ اب جو شخص اس کی اصلاح کی دعوت اور اسکیم کو ناکام کرنے کی کوشش کرتا ہے وہ اصلاً فساد کا باعث بنتا ہے۔ ایسے لوگوں کو اللہ کبھی پسند نہیں فرماتا۔ مطلب یہ ہے کہ وہ ان سے نفرت کرتا ہے۔ یقینا ایک دن ایسا آئے گا جب وہ انھیں ان کے کیے کی سزا دے گا۔ یہ آیت ہمارے لیے ایک لمحہ فکریہ مہیا کرتی ہے کہ اگر اللہ کے دین کا غلبہ اللہ اور اس کے رسول کا محبوب اور مقصود ہے اور یہی انسانوں کے امن و عافیت کا باعث بھی ہے اور مزید یہ کہ اس غلبے کو ناکام کرنا اور اس کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کرنا بدترین منافقت ہے ‘ جس کی پروردگار ضرور سزا دیتا ہے۔ تو پھر ہمارا رویہ کیا ہے۔ ہمیں اللہ نے ملک دیا ہے اور ہم نے اس سے وعدہ کیا کہ ہم اس ملک میں تیرے دین کو نافذ کریں گے۔ یہاں کا آئین اسلامی شریعت ہوگا۔ لیکن ہم نے نصف صدی سے زیادہ کا عرصہ ان قوتوں کی کردارکشی اور انھیں ادھیڑنے کھدیڑنے میں صرف کیا جن کا جرم صرف یہ ہے کہ وہ بار بار حکومت سے اسلامی نظام کے نفاذ کا مطالبہ کرتے ہیں اور ہم نے اس نصف صدی میں صرف یہ کوشش کی ہے کہ اپنے تعلیمی اداروں ‘ پرنٹ میڈیاز اور الیکٹرانک میڈیاز کے ذریعے اسلام کے نفاذ کا تصور دلوں سے نکال دیں۔ بلکہ آہستہ آہستہ اسلامی حمیت سے دماغوں کو اتنا بیگانہ کردیں کہ اس ملک میں اسلام کے خلاف جو کچھ بھی ہوتا رہے ‘ لوگوں کو کبھی اس کے خلاف شکایت نہ ہو۔ چناچہ ہم ان کوششوں میں یقینا کامیاب رہے ہیں۔ ہمارا ٹیوی اور ہمارا کیبل سسٹم شب وروز زہر اگل رہے ہیں۔ ہمارے چوراہوں پر لگے ہوئے بڑے بڑے بورڈز اور بڑی بڑی ہورڈنگز پکار پکار کر کہہ رہی ہیں کہ اس ملک میں شرم وحیا کا جنازہ نکل گیا ہے اور یہاں کے بسنے والوں کا شرم وحیا سے کوئی رشتہ نہیں۔ ہماری اس منافقانہ روش نے ہمیں ایک دورا ہے پر لاکھڑا کیا ہے۔ ہم عوام کی خاطر اسلام کا نام لینے پر مجبور ہیں لیکن اپنی منافقت ‘ اپنے مفادات اور بیرونی دباؤ کے باعث اس نام کو تعبیر دینے اور اس کو عملی جامہ پہنانے کے لیے تیار نہیں اور یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ ہم نے پاکستان شاید صرف نام بدلنے کے لیے بنایا تھا ہمیں ہندوستان اچھا نہیں لگتا تھا۔ ہم نے اپنے علاقے کا نام پاکستان رکھ دیا۔ اگر صرف نام بدلنے سے کوئی کام ہوسکتا تو یقینا یہاں بھی ہر چیز درست ہوجاتی لیکن نام بدلنے سے تو کچھ نہیں ہوتا۔ ہمیں تو یہاں ہر غیر اسلامی چیز کو ختم کرکے اور ہر غیر اسلامی قانون کو بدل کر اللہ کے قانون کو نافذ کرنا تھا۔ کسی شاعر نے عوام کی ترجمانی کرتے ہوئے ٹھیک کہا تھا : ؎ ہم بدلنا چاہتے تھے نظم میخانہ تمام آپ نے بدلا ہے لیکن ایک میخانے کا نام یہ صورت حال ہمارے لیے لمحہ فکریہ مہیا کرتی ہے کاش ہم اس پر غور کرنے کے لیے تیار ہوجائیں۔
Top