Ruh-ul-Quran - Al-Baqara : 211
سَلْ بَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ كَمْ اٰتَیْنٰهُمْ مِّنْ اٰیَةٍۭ بَیِّنَةٍ١ؕ وَ مَنْ یُّبَدِّلْ نِعْمَةَ اللّٰهِ مِنْۢ بَعْدِ مَا جَآءَتْهُ فَاِنَّ اللّٰهَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ
سَلْ : پوچھو بَنِىْٓ اِسْرَآءِ يْلَ : بنی اسرائیل كَمْ : کس قدر اٰتَيْنٰھُمْ : ہم نے انہیں دیں مِّنْ : سے اٰيَةٍ : نشانیاں بَيِّنَةٍ : کھلی وَ : اور مَنْ : جو يُّبَدِّلْ : بدل ڈالے نِعْمَةَ : نعمت اللّٰهِ : اللہ مِنْۢ بَعْدِ : اس کے بعد مَا : جو جَآءَتْهُ : آئی اس کے پاس فَاِنَّ : تو بیشک اللّٰهَ : اللہ شَدِيْدُ : سخت الْعِقَابِ : عذاب
( بنی اسرائیل سے پوچھو ہم نے ان کو کتنی کھلی کھلی نشانیاں دیں اور جو اللہ کی نعمت کو اس کے پانے کے بعد بدل ڈالے تو اللہ سخت عذاب دینے والا ہے
سَلْ بَنِیْٓ اِسْرَآئِیْلَ کَمْ اٰتَیْنٰـھُمْ مِّنْ اٰیَۃٍ م بَیِّنَۃٍ ط وَمَنْ یُّـبَدِّلْ نِعْمَۃَ اللّٰہِ مِنْ م بَعْدِ مَاجَآئَ تْـہُ فَاِنَّ اللّٰہَ شَدِیْدُالْعِقَابِ ۔ ( بنی اسرائیل سے پوچھو ہم نے ان کو کتنی کھلی کھلی نشانیاں دیں اور جو اللہ کی نعمت کو اس کے پانے کے بعد بدل ڈالے تو اللہ سخت عذاب دینے والا ہے) (211) روئے سخن کس کی طرف ہے سیاق کلام سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس آیت کا روئے سخن بھی منافقین کی طرف ہے۔ لیکن اس کے مفہوم کو اگر غور سے سمجھا جائے تو ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ساتھ ساتھ مسلمانوں سے بھی کچھ کہا جارہا ہے۔ بات لپیٹ کے کہی جارہی ہے لیکن روشنی کا سامان دونوں کے لیے ہے اور اس سے دو آیتیں پہلے خطاب بھی یٰٓـاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْاکہہ کر کیا گیا ہے جس میں منافقین اور مسلمان دونوں شریک ہیں۔ رسول کریم ﷺ کے صحابہ جس ایمان کامل اور اخلاص تام کے حامل تھے ‘ انہیں تو ایسی باتیں کہنے کی ضرورت نہیں تھی۔ لیکن چونکہ آئے دن اسلام کے قافلے میں نئے نئے لوگوں کو اضافہ ہو رہا تھا۔ تو یہ بات بالکل سامنے کی ہے کہ اسلام کی آغوش میں آنے والا ہر شخص ایک ہی سطح کا تو نہیں ہوسکتا۔ تربیت سے آہستہ آہستہ ان باتوں کی اصلاح ہوتی ہے جو اسلامی مزاج کے خلاف ہیں اور پھر آئندہ بھی امت مسلمہ کا قافلہ رکنے والا تو نہیں تھا۔ ان ہدایات کی ضرورت تو ہمیشہ باقی رہنے والی تھی۔ اس لیے وہ باتیں جو آج کچھ لوگوں میں موجود ہیں یا آئندہ کچھ لوگوں میں ہوسکتی ہیں ‘ ان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بنی اسرائیل کی تاریخ کا حوالہ دیا ہے۔ اس میں ممکن ہے یہ حکمت بھی شامل ہو کہ منافقین یا تو بنی اسرائیل ہی سے تعلق رکھتے تھے اور یا بیشتر ایسے تھے جن کے بنی اسرائیل سے گہرے تعلقات تھے اور وہ ان کے زیراثر ہونے کی وجہ سے اسلام کے بارے میں یکسو نہیں ہورہے تھے۔ مختصر یہ کہ منافقین ہوں یا کمزور مسلمان یا آئندہ ان کمزوریوں کے حامل مسلمان سب سے یہ فرمایا جارہا ہے کہ ہم تمہیں معذب قوموں کی تاریخ پڑھنے کی دعوت نہیں دے رہے اور نہ ہم یہ چاہتے ہیں کہ تم پرانی تہذیبوں کے کھنڈرات میں تاریخ تلاش کرتے پھرو بلکہ ہم تمہارے سامنے ایک ایسی قوم کو پیش کر رہے ہیں ‘ جو ایک زندہ قوم ہے لیکن اپنی بداعمالیوں کے باعث دوسروں کے لیے عبرت بن چکی ہے۔ بنی اسرائیل کو بطور عبرت پیش کیا جارہاہے ذرا اس قوم کو دیکھئے ان کا انتساب اللہ کے ایک جلیل القدر نبی کی طرف ہے۔ ان کی تاریخ کا اصل آغاز حامل دعوت ہونے کے حوالے سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے زمانے سے ہوا۔ موسیٰ (علیہ السلام) نے برسوں تک فرعون کے سامنے کلمہ حق کہا اور اللہ کے دین کو قبول کرنے کی دعوت دی۔ اس کے انکار بلکہ تمرد کے باعث جس طرح مختلف شکلوں میں اہل مصر پر عذاب آتے رہے اور پھر موسیٰ (علیہ السلام) کی دعا سے دور ہوتے رہے ان میں سے ایک ایک نشانی کو بنی اسرائیل نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اور پھر جب موسیٰ (علیہ السلام) بنی اسرائیل کو لے کر ہجرت کے ارادے سے نکلے تو ایک طرف بحرقلزم کی موجوں نے ان کا راستہ روک لیا اور دوسری طرف فرعون کی فوجیں سر پر آپہنچیں اور پھر جس طرح اللہ نے بحر قلزم میں بنی اسرائیل کے لیے راستے نکالے اور ان کے پار اترجانے کے بعد ان کی آنکھوں کے سامنے فرعون اور اس کی فوجوں کو غرق کیا وہ بھی انھوں نے بچشم سر دیکھا۔ پھر وادی تیہ اور صحرائے سینا میں جس طرح اللہ نے ان کے سر پر بادلوں کا چھتر تان دیا ‘ من وسلویٰ سے انھیں غذا پہنچائی۔ ایک چٹان سے ان کے لیے بارہ چشمے نکالے۔ کوہ طور کو ان کے لیے شق کیا۔ تورات جیسی کتاب عطا فرمائی۔ غرضیکہ بیشمار معجزات انھوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھے۔ ایسے کھلے کھلے معجزات دیکھنے کے بعد ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ان کی قوت ایمان میں کوئی کمی نہ رہتی ‘ ان کا ایک ایک عمل تقویٰ کی تصویر ہوتا لیکن اس کے برعکس ان کی بےاعتقادی ‘ ایمان کی کمزوری ‘ ناشکری کی عادت اور بےصبری کی خصلت برابر ان کے سروں پر مسلط رہی اور پھر اسی پر بس نہیں انھیں اللہ تعالیٰ نے کتاب ہدایت دے کر حامل دعوت امت کا منصب بخشا۔ ساری دنیا میں توحید کی امانت انھیں سپرد کی گئی۔ لیکن انھوں نے اس امانت کا حق ادا کرنے میں صدیوں تک جو کمزوریاں دکھائیں وہ تاریخ کا حصہ ہیں۔ لیکن حیرت کی بات تو یہ ہے کہ اللہ کی یہ نعمت یعنی کتاب اللہ اور شریعت کی نعمت اور حامل دعوت ہونے کا منصب آہستہ آہستہ بدل ڈالا۔ وہ رفتہ رفتہ اس بات کو بالکل بھول گئے کہ اللہ نے ہمارے سپرد جو عظیم ذمہ داری کی تھی ‘ ہم نے اس کے ساتھ کیا حشر کیا ہے۔ ہر دور میں نبی آتے رہے اور انہیں جنجھوڑتے رہے لیکن سلیمان (علیہ السلام) کے دور کے بعد جو بنی اسرائیل کا انتہائی عروج کا دور ہے۔ جب ان کے زوال میں انتہا درجے کی تیزی آگئی۔ ایک سلطنت کی بجائے دو سلطنتیں قائم کرڈالیں اور پھر آپس میں لڑ لڑ کر اس طرح کمزور ہوگئے کہ جب کوئی حکمران چاہتا ان پر چڑھ دورتا۔ حتی کہ بخت نصر نے ان کی بساط ہی لپیٹ کر رکھ دی۔ اس کے بعد بھی مختلف وقتوں میں دوسرے حکمران ان پر عذاب الٰہی بن کر مسلط ہوتے رہے۔ اس تاریخ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا جارہا ہے کہ یہ زندہ قوم تمہارے لیے اس حقیقت کو واضح کرنے کے لیے کافی ہے کہ اللہ جب کسی امت کو شریعت دیتا ہے ‘ نبوّت اور کتاب سے نوازتا ہے تو انہیں ساتھ حکومت و سلطنت بھی عطا کرتا ہے۔ لیکن اگر وہ اس نعمت کا حق ادا نہیں کرتے تو پھر اللہ کا عذاب بڑا شدید ہے۔ اس کی شدت ملاحظہ کرنی ہو تو تاریخ کے مختلف ادوار میں بنی اسرائیل پر برسنے والے عذاب کے کوڑوں کو دیکھ لیجئے ‘ اس سے مسلمانوں کو متنبہ رہنا چاہیے کہ اب ہمیں بھی ایک حامل دعوت امت کے منصب پر فائز کیا گیا ہے۔ ہمیں بھی ملک عظیم عطا کیا جارہا ہے۔ اگر ہم نے بنی اسرائیل کی طرح اس امانت اور نعمت کا حق ادا کیا تو ہمارا انجام بھی اس سے مختلف نہیں ہوگا۔ اگلی آیت کریمہ میں اس بنیادی بیماری کی اطلاع دی گئی ہے جس میں عموماً قومیں اور افراد مبتلا ہوتے ہیں اور پھر اس میں ڈوبتے چلے جاتے ہیں۔ کیونکہ اس کے بعد زندگی کے پیمانے بدل جاتے ہیں۔
Top