Ruh-ul-Quran - Al-Baqara : 230
فَاِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهٗ مِنْۢ بَعْدُ حَتّٰى تَنْكِحَ زَوْجًا غَیْرَهٗ١ؕ فَاِنْ طَلَّقَهَا فَلَا جُنَاحَ عَلَیْهِمَاۤ اَنْ یَّتَرَاجَعَاۤ اِنْ ظَنَّاۤ اَنْ یُّقِیْمَا حُدُوْدَ اللّٰهِ١ؕ وَ تِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِ یُبَیِّنُهَا لِقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَ
فَاِنْ : پھر اگر طَلَّقَھَا : طلاق دی اس کو فَلَا تَحِلُّ : تو جائز نہیں لَهٗ : اس کے لیے مِنْ بَعْدُ : اس کے بعد حَتّٰي : یہانتک کہ تَنْكِحَ : وہ نکاح کرلے زَوْجًا : خاوند غَيْرَهٗ : اس کے علاوہ فَاِنْ : پھر اگر طَلَّقَھَا : طلاق دیدے اس کو فَلَاجُنَاحَ : تو گناہ نہیں عَلَيْھِمَآ : ان دونوں پر اَنْ : اگر يَّتَرَاجَعَآ : وہ رجوع کرلیں اِنْ : بشرطیکہ ظَنَّآ : وہ خیال کریں اَنْ : کہ يُّقِيْمَا : وہ قائم رکھیں گے حُدُوْدَ اللّٰهِ : اللہ کی حدود وَتِلْكَ : اور یہ حُدُوْدُ اللّٰهِ : اللہ کی حدود يُبَيِّنُھَا : انہیں واضح کرتا ہے لِقَوْمٍ يَّعْلَمُوْنَ : جاننے والوں کے لیے
پس اگر وہ اس کو (تیسری) طلاق دے دے تو وہ عورت اس کے بعد اس کے لیے جائز نہیں جب تک وہ اس کے سوا کسی دوسرے شوہر سے نکاح نہ کرے۔ پھر اگر وہ (دوسرا شوہر) اس کو طلاق دے دے تو پھر ان دونوں پر کوئی گناہ نہیں ہے کہ وہ رجوع کرلیں (آپس میں نکاح کرلیں) اگر یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ اللہ کی حدود پر قائم رہ سکتے ہیں۔ یہ اللہ کی مقرر کردہ حدود ہیں ‘ وہ ان کو واضح کر رہا ہے ان لوگوں کے لیے جو جاننا چاہتے ہیں
فَاِنْ طَلَّقَہَا فَلاَ تَحِلُّ لَـہٗ مِنْ م بَعْدُ حَتّٰی تَنْـکِحَ زُوْجًا غَیْرَہٗ ط فَاِنْ طَلَّقَہَا فَلاَ جُنَاحَ عَلَیْھِمَـآ اَنْ یَّتَرَاجَعَـآ اِنْ ظَنَّـآ اَنْ یُّـقِیْمَا حُدُوْدَاللّٰہِ ط وَ تِلْـکَ حُدُوْدُاللّٰہِ یُبَیِّنُہَا لِقَوْمٍ یَّعْلَمُوْنَ ۔ (پس اگر وہ اس کو (تیسری) طلاق دے دے تو وہ عورت اس کے بعد اس کے لیے جائز نہیں جب تک وہ اس کے سوا کسی دوسرے شوہر سے نکاح نہ کرے، پھر اگر وہ (دوسرا شوہر) اس کو طلاق دے دے تو پھر ان دونوں پر کوئی گناہ نہیں ہے کہ وہ رجوع کرلیں (آپس میں نکاح کرلیں) اگر یہ توقع رکھتے ہیں کہ وہ اللہ کی حدود پر قائم رہ سکتے ہیں، یہ اللہ کی مقرر کردہ حدود ہیں ‘ وہ ان کو واضح کر رہا ہے ان لوگوں کے لیے جو جاننا چاہتے ہیں) (230) تیسری طلاق کے احکام گزشتہ آیت کریمہ میں فرمایا گیا کہ طلاق دو مرتبہ ہے۔ یعنی تمہیں اگر طلاق ضرور ہی دینا ہے تو دو مرتبہ سے زیادہ طلاق مت دو ۔ کیونکہ دو مرتبہ طلاق کی صورت میں تم عدت کے دوران رجوع بھی کرسکتے ہو۔ اور عدت کے بعد دوبارہ نکاح بھی کرسکتے ہو۔ اور مکمل علیحدگی مطلوب ہے تو عدت گزرنے سے علیحدگی بھی ہوجائے گی۔ پھر تیسری طلاق کے تکلف کے کیا ضرورت ہے۔ وہ تو اپنے ہاتھ پائوں توڑ دینے کے مترادف ہے۔ کیونکہ حالات میں تبدیلی انسانی فطرت ہے۔ مزاج میں بھی تبدیلی عادات کا حصہ ہے۔ اگر علیحدگی کے بعد بھی دوبارہ یکجائی کی ضرورت کا احساس ہوجائے تو دو طلاقوں کی موجودگی میں ہی اس کا امکان ہوسکتا ہے۔ اس لیے تیسری طلاق کو پسند نہیں فرمایا۔ اب اس آیت کریمہ میں فرمایا جا رہا ہے۔ کہ اگر تم نے نفع و ضرر کے پیمانے توڑ کر اور مزاجِ شریعت کو نظر انداز کرتے ہوئے تیسری طلاق بھی دے ڈالی تو اب تمہیں آگاہ رہنا چاہیے کہ اب تمہاری بیوی تمہاری بیوی نہیں رہی۔ نہ تم اس سے رجوع کرسکتے ہو اور نہ دوبارہ نکاح کرسکتے ہو۔ یکجائی کی تمام صورتیں ختم ہوگئیں۔ اب اگر کبھی تمہیں حالات کے دبائو میں آ کر یا کسی اور وجہ سے دوبارہ نکاح کی ضرورت کا احساس ہوجائے تو اس کی ایک ہی صورت ہے کہ تمہاری مطلقہ بیوی عدت گزرنے کے بعد کسی اور شخص سے نکاح کرے۔ اور نکاح کے لفظ میں چونکہ زندگی بھر کے نباہ کا تصور گندھا ہوا ہے اس لیے اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ وہ زندگی بھر کے نباہ کے ارادے سے نکاح کرے۔ لیکن زندگی کے اس نئے سفر میں کہیں اختلافات ایسی شدت اختیار کر جائیں کہ علیحدگی تک نوبت پہنچ جائے اور وہ بیوی کو طلاق دے دے تو پھر خاتون عدت گزارنے کے بعد پہلے شوہر سے نکاح کرسکتی ہے۔ یہ سارا پر اسس بالکل اسی طریقے پر فطری انداز میں ہونا چاہیے جیسے عام نکاح میں ہوتا ہے۔ لیکن اگر اسے سوجھے سمجھے منصوبے کے مطابق بروئے کار لایا جائے کہ ایک شخص کو ڈھونڈھا جائے ‘ اسے اعتماد میں لے کر یہ کہا جائے کہ آپ اس خاتون سے نکاح کرلیں ‘ اور نکاح کے فوراً بعد اسے طلاق دے دیں۔ یعنی محض ایک کاغذی کارروائی سے حرام کو حلال بنا لیا جائے اس میں پہلی بات تو یہ ہے کہ نکاح کے تصور میں میاں بیوی کی تنہائی ‘ خلوت اور انتہائی قربت کا تصور شامل ہے۔ کسی بھی شخص سے پوچھ کر دیکھ لیجئے کہ تم ایک ایسی خاتون سے نکاح کرنا پسند کرو گے جس کے قریب جانے کی تمہیں اجازت نہیں۔ وہ حیران ہو کر پوچھے گا کہ پھر نکاح کس لیے کرنا ہے ؟ تو ہر شخص سمجھتا ہے کہ نکاح کے معنی میں یہ بات شامل ہے اور مزید یہ کہ آنحضرت ﷺ نے خود اس کی وضاحت فرمائی۔ جب ایک ایسے شخص کے متعلق پوچھا گیا جس نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دی تھیں۔ پھر اس عورت نے ایک دوسرے شخص سے نکاح کرلیا۔ اور اس دوسرے شوہر نے بھی مباشرت سے پہلے طلاق دے دی۔ کہ کیا یہ عورت اپنے شوہر کے لیے حلال ہے یا نہیں ؟ آپ ﷺ نے فرمایا لا حتی یذوق عسیلتہا کما ذاقہا الاول ” نہیں جب تک دوسرا شوہر اس سے ہم بستری کر کے لطف اندوز نہ ہوجائے جس طرح پہلے شوہر نے کیا تھا اس وقت تک طلاق دینے سے پہلے شوہر کے لیے حلال نہیں ہوگی۔ “ اور دوسری بات یہ کہ اگر اس دوسرے شوہر نے نکاح اور مباشرت کے بعد منصوبے کے مطابق طلاق دے دی تو تب بھی پہلے شوہر کے لیے حلال نہیں ہوگی۔ کیونکہ کسی مرد اور عورت کا وقت مقرر کے لیے ایک منصوبے کے تحت نکاح کرنا اسے نکاح نہیں کہتے بلکہ متعہ کہتے ہیں یا نکاح موقت کہتے ہیں اور یہ دونوں اسلام میں حرام ہیں۔ نکاح زندگی بھر کے سنجوگ کا نام ہے۔ اگر اسے ایک محدود مدت کے لیے منعقد کیا جائے اور مدت گزرنے کے بعد طلاق دے دی جائے تو اسے نکاح نہیں کہتے۔ اس میں اور زنا میں کوئی فرق نہیں۔ اس لیے آنحضرت ﷺ نے ایسا کرنے اور کرانے والے پر لعنت فرمائی ہے۔ اور یہی وہ چیز ہے جسے ہمارے معاشرہ میں حلالہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ اور ایسے کرنے والے کو آنحضرت ﷺ نے ” تَیسٌ مستعارٌ“ (کرائے کا سانڈ) قرار دیا ہے۔ لیکن ہمارے یہاں کتنے لوگ ہیں جو نہایت پردہ داری سے اس قسم کی حرکتیں کرتے ہیں۔ انھیں شاید اندازہ نہیں کہ وہ شاید اسے نیکی سمجھتے ہیں لیکن حقیقت میں وہ اللہ کے رسول کی لعنت کے مستحق ہوجاتے ہیں۔ پہلے شوہر سے نکاح کے حلال ہونے کے لیے یہ جو اتنی بڑی شرط لگائی ہے اس میں اگر آپ غور کریں تو آپ کو اندازہ ہوگا کہ یہ اتنا بڑا پہاڑ جو راستے میں حائل کردیا گیا ہے یہ اس لیے ہے تاکہ لوگ نکاح کی اہمیت اور طلاق کی حقیقت کو سمجھنے کی کوشش کریں اور وہ طلاق دیتے ہوئے اس بات کو کبھی نہ بھولیں کہ طلاق کا فیصلہ کرنا ایک ایسا خطرناک اقدام ہے کہ اگر اس میں ذرا سی بےاحتیاطی ہوگئی تو گھر کے اجڑنے میں دیر نہیں لگے گی۔ ایک ساتھ تین طلاق دینا سخت گناہ ہے متذکرہ بالا تفصیلات سے آپ کو یہ اندازہ ہوگیا ہوگا کہ طلاق کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ ہر طہر میں ایک طلاق دی جائے۔ اس طرح تیسری طلاق تیسرے طہر میں ہوگی۔ جس کے بعد یکجائی کے تمام امکانات ختم ہوجاتے ہیں۔ لیکن اگر کوئی شخص ہر طہر میں ایک طلاق دینے کی پابندی نہیں کرتا بلکہ وہ یک لخت تین طلاقیں دے دیتا ہے تو اس سلسلے میں دو باتیں پوری طرح ذہن نشین کر لینی چاہییں۔ ایک تو یہ بات کہ تین طلاقوں کا بیک وقت دینا اللہ کے رسول ﷺ کے نزدیک انتہائی سخت برہمی کا باعث ہے۔ حدیث شریف میں آتا ہے امام نسائی نے محمود بن لبید کی روایت سے اس حدیث کو نقل کیا ہے کہ رسول کریم ﷺ کو ایک آدمی کے بارے میں خبر دی گئی کہ اس نے اپنی بیوی کو ایک ساتھ تین طلاقیں دے دی ہیں۔ آپ ﷺ غضبناک ہو کر اٹھ کھڑے ہوئے اور ارشاد فرمایا اَ یُلْعَبُ بِکِتَابِ اللّٰہِ وَ اَنَا بَیْنَ اَظْہُرکُمْ ” کیا کتاب اللہ کے ساتھ کھیلا جا رہا ہے حالانکہ میں تمہارے درمیان موجود ہوں “ آپ ﷺ کی اس حالت غضب کو دیکھتے ہوئے ایک آدمی کھڑا ہوگیا اور کہنے لگا ” اے اللہ کے رسول ﷺ ! کیا میں اس شخص کو قتل نہ کر دوں ؟ “ اس حدیث سے آپ اندازہ کیجئے کہ ایک ساتھ تین طلاقیں دینا کتنا بڑا گناہ ہے ‘ جس سے رحمۃ اللعالمین سرتاپا حلم ‘ بردبار اور رحمت ہونے کے باوجود سراپا غضب بن جاتے ہیں۔ ایک ساتھ تین طلاقیں بھی تین ہی واقع ہوتی ہیں دوسری بات جس کا یاد رکھنا انتہائی ضروری ہے وہ یہ ہے کہ ایک ساتھ تین طلاقوں پر آنحضرت ﷺ کی برہمی کا ذکر تو آپ سن چکے ہیں ‘ لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے اس برہمی کے باوجود ان تین طلاقوں کو مسترد نہیں فرمایا اور طلاق دینے والے کو یہ کہہ کر اس کی بیوی سپرد نہیں فرمائی کہ یہ طلاقیں چونکہ واقع نہیں ہوئیں یا ایک واقع ہوئی ہے اور تم اس سے رجوع کرلو ‘ بلکہ آپ ﷺ نے ان تین طلاقوں کو واقع فرمایا۔ کیونکہ قاضی ابوبکر ابن عربی نے متذکرہ بالا محمود بن لبید کی حدیث کے متعلق یہ الفاظ نقل کیے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے حضرت عویمر کی تین طلاقوں کی طرح اس کی بھی تین طلاقوں کو نافذ فرما دیا تھا۔ ان کے الفاظ یہ ہیں ” فلم یردہ النبی ﷺ بل امضاہ کما فی حدیث عویمر العجلانی فی اللعان حیث امضی طلاقہ الثلاث و لم یردہ “ (رسول کریم ﷺ نے اسے رد نہیں کیا بلکہ اسے نافذ فرما دیا جیسا کہ عویمر العجلانی کی لعان والی حدیث میں ہے کہ آپ ﷺ نے ان کی تین طلاقوں کو نافذ فرما دیا تھا اور رد نہیں کیا تھا) (تہذیب سنن ابی دائود طبع مصر صفحہ 129 ج 2) حضرت عویمر العجلانی نے اپنی بیوی سے لعان کیا تھا ‘ جب لعان کی کارروائی مکمل ہوگئی اور جانبین نے قسمیں کھا لیں تو حضرت عویمر نے آنحضرت ﷺ سے عرض کیا کذبت علیہا یارسول اللہ ان امسکتہا فطلقہا ثلاثا قبل ان یأمرہ النبی ﷺ ” اے اللہ کے رسول اب اگر میں اپنی بیوی کو اپنے پاس رکھوں تو پھر اس میں قسم کھانے میں جھوٹا ہوں گا یہ کہہ کر حضرت عویمر نے اسے تین طلاقیں دے دیں اس سے پہلے کہ نبی کریم ﷺ حکم دیتے “ اور احادیث میں آیا ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ان تین طلاقوں کو نافذ فرما دیا اور میاں بیوی میں علیحدگی کردی۔ ایسی ہی بعض دوسری روایات سے یہ ثابت ہوتا ہے اگر کسی شخص نے ایک ساتھ تین طلاقیں دیں اور وہ معاملہ آنحضرت ﷺ کے سامنے آیا تو آپ ﷺ نے نا خوشی کا اظہار فرمانے کے ساتھ ساتھ تین طلاقوں کو واقع بھی فرمایا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ تین طلاقوں کو تین قرار دینا خود آنحضرت ﷺ کا فیصلہ ہے اور اسی وجہ سے بجز اہل حدیث حضرات کے امت میں کسی قابل ذکر امام ‘ مجتہد ‘ فقیہ یا عالم نے اس سے اختلاف نہیں کیا۔ مسائل میں فقہاء میں اختلاف ایک معمول کی بات ہے لیکن تین طلاقوں کا تین ہی واقع ہونا ایسا مسئلہ ہے جس میں امام ابوحنیفہ ‘ امام شافعی ‘ امام مالک اور امام احمد بن حنبل رحمہم اللہ تعالیٰ سب یکساں رائے رکھتے ہیں اور سب کے نزدیک ایک ساتھ تین طلاقوں سے عورت حرام ہوجاتی ہے جس سے دوسرے نکاح کے لیے بجز اس کے کوئی صورت باقی نہیں رہتی کہ وہ کسی اور جگہ نکاح کرے اور پھر اتفاق سے طلاق ہوجائے۔ اس لیے حافظِ حدیث امام ابن عبدالبِر مالکی نے اس پر اجماع نقل کیا ہے۔ ایک غلط فہمی کا ازالہ لیکن اس سلسلے میں حضرت عبداللہ ابن عباس ( رض) کی روایت سے ایک غلط فہمی پیدا ہوئی ہے جسے بعض لوگوں نے دلیل بنا لیا۔ اس روایت کے الفاظ یہ ہیں عن ابن عباس رضی اللّٰہ عنہ قال کان الطلاق علی عہد رسول اللّفہ ﷺ و ابی بکر و سنتین من خلافۃ عمر طلاق الثلاث واحدۃ فقال عمر بن الخطاب ان الناس قد استعجلوا فی امر کانت لہم فیہ اناۃ فلو امضینا علیہم فامضاہ علیہم (حضرت ابن عباس ( رض) سے روایت ہے کہ رسول کریم ﷺ کے زمانہ میں اور حضرت ابوبکر ( رض) کے عہد خلافت میں اور حضرت عمر ( رض) کی خلافت کے ابتدائی دو سالوں میں طلاق کا یہ طریقہ تھا کہ تین طلاقوں کو ایک قرار دیا جاتا تھا۔ تو حضرت عمر ( رض) نے فرمایا کہ لوگ جلدی کرنے لگے ہیں ایک ایسے معاملہ میں جس میں ان کے لیے مہلت تھی تو مناسب رہے گا ہم اس کو ان پر نافذ کردیں تو آپ ( رض) نے ان پر نافذ کردیا ) ۔ اس روایت کو پیش نظر رکھیں اور پھر چند نکات پر غور فرمائیں : 1 فاروقِ اعظم مسلمانوں کے خلیفہ ثانی ہیں۔ آنحضرت ﷺ کی شہادت کے مطابق آپ ( رض) فاروق ہیں اور حق اللہ نے آپ ( رض) کی زبان پر کھول دیا تھا۔ ایک عام مومن رسول اللہ ﷺ کے فیصلے سے انحراف کا تصور نہیں کرسکتا چہ جائے کہ خلیفہ ثانی کے بارے میں ایسا گمان کیا جائے۔ 2 آپ ( رض) نے یہ فیصلہ اپنے حاکمانہ اختیارات استعمال کرتے ہوئے کسی سرکلر کی شکل میں نہیں کیا ‘ بلکہ آپ ( رض) نے صحابہ اور تابعین کے مجمع عام میں خطبہ جمعہ میں اس کا اعلان فرمایا جس میں بڑے بڑے فقہاء صحابہ موجود تھے۔ لیکن کسی نے اس پر انکار نہیں کیا۔ حالانکہ اسلامی احکام کے بارے میں خلافتِ راشدہ میں جو آزادی حاصل تھی اس کا اس ایک واقعہ سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ حضرت عمر فاروق ( رض) نے خطبہ جمعہ میں ارشاد فرمایا کہ لوگ مہر میں بڑی بڑی رقمیں باندھنے لگے ہیں اس سے غرباء کے لیے مشکل پیدا ہو رہی ہے۔ اگر بڑی بڑی رقمیں مہر میں دینا کوئی عزت کی بات ہوتی تو آنحضرت ﷺ اپنی بیویوں کو زیادہ سے زیادہ مہر دیتے۔ اس لیے میں لوگوں کو ہدایت کرتا ہوں کہ زیادہ مہر باندھنا بند کردیں۔ یہ سن کر نمازیوں کی صفوں میں سے پچھلی صف سے ایک خاتون اٹھیں انھوں نے حضرت عمر ( رض) کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا : اتق اللہ یا عمر ” اے عمر اللہ سے ڈر “ قرآن کریم کہتا ہے وَ اَتَیْتُمْ اِحْدَا ھُنَّ قِنْطَاراً فلَاَ تَـأخُذُوْا مِنْہُ شَیْئاً ” تم اپنی بیویوں اگر خزانہ بھی دے چکے ہو تو علیحدگی کے بعد ان سے واپس نہ لینا “ خزانے کی واپسی سے روکا جا رہا ہے۔ اگر خزانہ دینے کی ممانعت ہوتی تو واپسی سے کیوں روکا جاتا۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ مہر میں بیوی کو خزانہ بھی دیا جاسکتا ہے تو عمر ( رض) آپ پابندی لگانے والے کون ہوتے ہیں۔ حضرت عمر ( رض) کی ہیبت اور جلال ایک مشہور بات ہے لیکن اس خاتون نے جس جرأت سے بات کی وہ اسلام کی عطا کردہ ہے۔ اور حضرت عمر ( رض) نے جس بردباری سے سنا وہ بھی اسلام کا حکم ہے۔ آپ ( رض) نے خاتون کی بات سنتے ہی سر جھکا لیا اور فرمایا ” اصابت امراۃ و اخطأ عمر “ (خاتون نے ٹھیک کہا اور عمر نے غلطی کی) غور فرمایئے جہاں آزادیِ رائے کا یہ حال ہو وہاں حضرت عمر فاروق ( رض) کے اس خطبے کو سن کر تمام فقہائِ صحابہ کا خاموش رہنا بلکہ اسے قبول کرلینا کیا معنی رکھتا ہے۔ اسی بات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے امامِ طحاوی نے شرح معانی الآثار میں ارشاد فرمایا جس کا ترجمہ یہ ہے ” پس حضرت عمر ( رض) نے اس کے ساتھ لوگوں کو مخاطب فرمایا اور ان لوگوں میں رسول کریم ﷺ کے وہ صحابہ بھی تھے جن کو اس سے پہلے رسول کریم ﷺ کے زمانے کے طریقے کا علم تھا۔ تو ان میں سے کسی انکار کرنے والے نے انکار نہ کیا اور کسی رد کرنے والے نے اس کو رد نہیں کیا) ۔ ان نکات پر غور کرنے سے ایک ساتھ تین طلاقوں کے بارے میں تو حکم بالکل واضح ہوجاتا ہے اور اسی لیے صحابہ اور تابعین کا اس پر اجماع ہوگیا کہ تین طلاقیں بیک وقت دینا اگرچہ غیر مستحسن اور رسول اللہ ﷺ کی ناراضگی کا سبب ہے مگر اس کے باوجود جس نے اس غلطی کا ارتکاب کیا اس کی بیوی اس پر حرام ہوجائے گی اور بغیر کسی دوسرے شخص کے طلاق و نکاح کے اس کے لیے حلال نہ ہوگی۔ لیکن حضرت عبداللہ ابن عباس ( رض) کی روایت کے حوالے سے علمی اور نظری طور پر یہاں دو سوال پیدا ہوتے ہیں۔ ہم معارف القرآن سے استفادہ کرتے ہوئے اس کی تفصیل یہاں نقل کرتے ہیں : حضرت ابن عباس ( رض) کی روایت سے پیدا ہونے والے دو سوال اور ان کا جواب اول تو یہ کہ سابقہ تحریر میں متعدد روایاتِ حدیث کے حوالے سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ تین طلاق بیک وقت دینے والے پر خود رسول اللہ ﷺ نے تین طلاق کو نافذ فرمایا ہے۔ اس کو رجعت یا نکاح جدید کی اجازت نہیں دی۔ پھر اس واقعہ میں حضرت عبداللہ ابن عباس ( رض) کے اس کلام کا کیا مطلب ہوگا کہ عہد رسالت میں اور عہد صدیقی میں اور دو سال تک عہد فاروقی میں تین طلاق کو ایک ہی مانا جاتا تھا ‘ لیکن فاروقِ اعظم ( رض) نے تین طلاق کا فیصلہ فرمایا۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ اگر واقعہ اس طرح تسلیم کرلیا جائے کہ عہد رسالت ‘ عہد صدیقی میں تین طلاق کو ایک مانا جاتا تھا تو فاروق اعظم ( رض) نے اس فیصلہ کو کیسے بدل دیا اور بالفرض ان سے کوئی غلطی بھی ہوگئی تھی تو تمام صحابہ کرام ( رض) نے اس کو کیسے تسلیم کرلیا ؟ ان دونوں سوالوں کے حضرات فقہاء و محدثین نے مختلف جوابات دیئے ہیں۔ ان میں صاف اور بےتکلف جواب وہ ہے جس کو امام نووی ( رح) نے شرح مسلم میں اصح کہہ کر نقل کیا ہے کہ فاروق اعظم ( رض) کا یہ فرمانا اور اس پر صحابہ کرام ( رض) کا اجماع طلاق ثلاث کی ایک خاص صورت کے متعلق قرار دیا جائے ‘ وہ یہ کہ کوئی شخص تین مرتبہ تجھ کو طلاق تجھ کو طلاق تجھ کو طلاق کہے یا میں نے طلاق دی طلاق دی طلاق دی کہے۔ یہ صورت ایسی ہے کہ اس کے معنی میں دو احتمال ہوتے ہیں۔ ایک یہ کہ کہنے والے نے تین طلاق دینے کی نیت سے یہ الفاظ کہے ہوں۔ دوسرے یہ کہ تین مرتبہ محض تاکید کے لیے مکرر کہا ہو ‘ تین طلاق کی نیت نہ ہو اور یہ ظاہر ہے کہ نیت کا علم کہنے والے ہی کے اقرار سے ہوسکتا ہے۔ رسول کریم ﷺ کے عہد مبارک میں صدق و دیانت عام اور غالب تھی ‘ اگر ایسے الفاظ کہنے کے بعد کسی نے یہ بیان کیا کہ میری نیت تین طلاق کی نہیں تھی ‘ بلکہ محض تاکید کے لیے یہ الفاظ مکرر بولے تھے تو آپ ﷺ اس کے حلفی بیان کی تصدیق فرما دیتے اور اس کو ایک ہی طلاق قرار دیتے تھے۔ اس کی تصدیق حضرت رکانہ ( رض) کی حدیث سے ہوتی ہے۔ جس میں مذکور ہے کہ انھوں نے اپنی بیوی کو لفظ البتۃ کے ساتھ طلاق دیدی تھی۔ یہ لفظ عرب کے عرف عام میں تین طلاق کے لیے بولا جاتا تھا ‘ مگر تین اس کا مفہوم صریح نہیں تھا اور حضرت رکانہ نے کہا کہ میری نیت تو اس لفظ سے تین طلاق کی نہیں تھی ‘ بلکہ ایک طلاق دینے کا قصد تھا ‘ آنحضرت ﷺ نے ان کو قسم دی ‘ انھوں نے اس پر حلف کرلیا ‘ تو آپ ﷺ نے ایک ہی طلاق قرار دیدی۔ یہ حدیث ترمذی ‘ ابو دائود ‘ ابن ماجہ ‘ دارمی ‘ میں مختلف سندوں اور مختلف الفاظ کے ساتھ منقول ہے۔ بعض الفاظ میں یہ بھی ہے کہ حضرت رکانہ نے اپنی بیوی کو تین طلاق دیدی تھیں۔ مگر ابو دائود نے ترجیح اس کو دی ہے کہ دراصل رکانہ ( رض) نے لفظ البتۃ سے طلاق دی تھی۔ یہ لفظ چونکہ عام طور پر تین طلاق کے لیے بولا جاتا تھا ‘ اس لیے کسی راوی نے اس کو تین طلاق سے تعبیر کردیا ہے۔ بہرحال اس حدیث سے یہ بات بالاتفاق ثابت ہے کہ حضرت رکانہ ( رض) کی طلاق کو رسول اللہ ﷺ نے ایک اس وقت قرار دیا جب کہ انھوں نے حلف کے ساتھ بیان دیا کہ میری نیت تین طلاق کی نہیں تھی۔ اس سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ انھوں نے تین طلاق کے الفاظ صریح اور صاف نہیں کہے تھے ورنہ پھر تین کی نیت نہ کرنے کا کوئی احتمال ہی نہ رہتا ‘ نہ ان سے سوال کی کوئی ضرورت رہتی۔ اس واقعہ نے یہ بات واضح کردی کہ جن الفاظ میں یہ احتمال ہو کہ تین کی نیت کی ہے یا ایک ہی کی تاکید کی ہے ‘ ان میں آپ ﷺ نے حلفی بیان پر ایک قرار دیدیا ‘ کیونکہ زمانہ صدق و دیانت کا تھا۔ اس کا احتمال بہت بعید تھا کہ کوئی شخص جھوٹی قسم کھالے۔ صدیق اکبر ( رض) کے عہد میں اور فاروق اعظم ( رض) کے ابتدائی عہد میں دو سال تک یہی طریقہ جاری رہا۔ پھر حضرت فاروق اعظم ( رض) نے اپنے زمانے میں یہ محسوس کیا کہ اب صدق و دیانت کا معیار گھٹ رہا ہے اور آئندہ حدیث کی پیشنگوئی کے مطابق اور گھٹ جائے گا ‘ دوسری طرف ایسے واقعات کی کثرت ہوگئی کہ تین مرتبہ الفاظِ طلاق کہنے والے اپنی نیت صرف ایک طلاق کی بیان کرنے لگے تو یہ محسوس کیا گیا کہ اگر آئندہ اسی طرح طلاق دینے والے کے بیان سے نیت کی تصدیق کر کے ایک طلاق قرار دی جاتی رہی تو بعید نہیں کہ لوگ شریعت کی دی ہوئی اس سہولت کو بےجا استعمال کرنے لگیں اور بیوی کو واپس لینے کے لیے جھوٹ کہہ دیں کہ نیت ایک ہی کی تھی۔ فاروق اعظم ( رض) کی فراست اور انتظامِ دین میں دور بینی کو سبھی صحابہ ( رض) نے درست سمجھ کر اتفاق کیا۔ یہ حضرات رسول اللہ ﷺ کے مزاج شناس تھے۔ انھوں نے سجھا کہ اگر ہمارے اس دور میں رسول اللہ ﷺ موجود ہوتے تو یقینا وہ بھی اب دلوں کی مخفی نیت اور صاحب معاملہ کے بیان پر مدار رکھ کر فیصلہ نہ فرماتے۔ اس لیے قانون یہ بنادیا کہ اب جو شخص تین مرتبہ لفظ طلاق کا تکرار کرے گا اس کی تین ہی طلاقیں قرار دی جائینگی۔ اس کی یہ بات نہ سنی جائے گی کہ اس نے نیت صرف ایک طلاق کی کی تھی۔ حضرت فاروق اعظم ( رض) کے مذکورہ الصدر واقعہ میں جو الفاظ منقول ہیں وہ بھی اسی مضمون کی شہادت دیتے ہیں ‘ انھوں نے فرمایا ” ان الناس قد اسعتجلوا فی امر کانت لہم فیہ اناۃ فلو امضینا علیم۔ “ (لوگ جلدی کرنے لگے ہیں ایک ایسے معاملہ میں جس میں ان کے لیے مہلت تھی ‘ تو مناسب رہے گا کہ ہم اس کو ان پر نافذ کردیں۔ “ حضرت فاروق اعظم ( رض) کے اس فرمان اور اس پر صحابہ کرام کے اجماع کی یہ توجیہہ جو بیان کی گئی ہے اس کی تصدیق روایات سے بھی ہوتی ہے اور اس سے ان دونوں سوالوں کا خود بخود حل نکل آتا ہے کہ روایات حدیث میں آنحضرت ﷺ سے تین طلاق کو تین ہی قرار دے کر نافذ کرنا متعدد واقعات سے ثابت ہے۔ تو حضرت ابن عباس ( رض) کا یہ فرمانا کیسے صحیح ہوسکتا ہے کہ عہد رسالت میں تین کو ایک ہی مانا جاتا تھا۔ کیونکہ معلوم ہوا کہ ایسی طلاق جو تین کے لفظ سے دی گئی یا تکرارِ طلاق تین کی نیت سے کیا گیا اس میں عہد رسالت ﷺ میں بھی تین ہی قرار دی جاتی تھیں۔ ایک قرار دینے کا تعلق ایسی طلاق سے ہے جس میں ثلاث کی تصریح نہ ہو یا تین طلاق دینے کا اقرار نہ ہو ‘ بلکہ تین بطور تاکید کے کہنے کا دعویٰ ہو۔ اور یہ سوال بھی ختم ہوجاتا ہے کہ جب آنحضرت ﷺ نے تین کو ایک قرار دیا تھا تو فاروق اعظم ( رض) نے اس کی مخالفت کیوں کی اور صحابہ کرام ( رض) نے اس سے اتفاق کیسے کرلیا۔ کیونکہ اس صورت میں فاروق اعظم ( رض) نے رسول اللہ ﷺ کی دی ہوئی سہولت کے بےجا استعمال سے روکا ہے۔ معاذ اللہ آپ ﷺ کے کسی فیصلہ کے خلاف کا یہاں کوئی شائبہ نہیں۔
Top