Ruh-ul-Quran - Al-Baqara : 232
وَ اِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآءَ فَبَلَغْنَ اَجَلَهُنَّ فَلَا تَعْضُلُوْهُنَّ اَنْ یَّنْكِحْنَ اَزْوَاجَهُنَّ اِذَا تَرَاضَوْا بَیْنَهُمْ بِالْمَعْرُوْفِ١ؕ ذٰلِكَ یُوْعَظُ بِهٖ مَنْ كَانَ مِنْكُمْ یُؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ١ؕ ذٰلِكُمْ اَزْكٰى لَكُمْ وَ اَطْهَرُ١ؕ وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ
وَاِذَا : اور جب طَلَّقْتُمُ : تم طلاق دو النِّسَآءَ : عورتیں فَبَلَغْنَ : پھر وہ پوری کرلیں اَجَلَهُنَّ : اپنی مدت (عدت) فَلَا : تو نہ تَعْضُلُوْھُنَّ : روکو انہیں اَنْ : کہ يَّنْكِحْنَ : وہ نکاح کریں اَزْوَاجَهُنَّ : خاوند اپنے اِذَا : جب تَرَاضَوْا : وہ باہم رضامند ہو جائیں بَيْنَهُمْ : آپس میں بِالْمَعْرُوْفِ : دستور کے مطابق ذٰلِكَ : یہ يُوْعَظُ : نصیحت کی جاتی ہے بِهٖ : اس سے مَنْ : جو كَانَ : ہو مِنْكُمْ : تم میں سے يُؤْمِنُ : ایمان رکھتا بِاللّٰهِ : اللہ پر وَ : اور لْيَوْمِ الْاٰخِرِ : یوم آخرت پر ذٰلِكُمْ : یہی اَزْكٰى : زیادہ ستھرا لَكُمْ : تمہارے لیے وَاَطْهَرُ : اور زیادہ پاکیزہ وَاللّٰهُ : اور اللہ يَعْلَمُ : جانتا ہے وَاَنْتُمْ : اور تم لَا تَعْلَمُوْنَ : نہیں جانتے
(اور جب تم طلاق دو عورتوں کو پھر وہ پوری کر چکیں اپنی عدت تو انھیں منع نہ کرو کہ وہ نکاح کرلیں اپنے (نئے) شوہروں سے۔ جب کہ وہ رضا مند ہوجائیں آپس میں دستور کے مطابق۔ یہ نصیحت اس کو کی جاتی ہے جو تم میں سے ایمان رکھتا ہے اللہ پر اور قیامت کے دن پر۔ یہ بہت پاکیزہ ہے تمہارے لیے اور بہت صاف ستھرا۔ اور اللہ تعالیٰ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے
وَاِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآئَ فَبَلَغْنَ اَجَلَہُنَّ فلَاَ تَعْضُلُوْہُنَّ اَنْ یَّـنْـکِحْنَ اَزْوَاجَھُنَّ اِذَا تَرَاضَوْا بَیْنَہُمْ بِالْمَعْرُوْفِ ط ذٰلِکَ یُوْعَظُ بِہٖ مَنْ کَانَ مِنْـکُمْ یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِط ذٰلِـکُمْ اَزْکٰی لَـکُمْ وَاَطْہَرُط وَاللّٰہُ یَعْلَمُ وَاَنْـتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ ۔ (اور جب تم طلاق دو عورتوں کو پھر وہ پوری کر چکیں اپنی عدت تو انھیں منع نہ کرو کہ وہ نکاح کرلیں اپنے (نئے) شوہروں سے۔ جب کہ وہ رضا مند ہوجائیں آپس میں دستور کے مطابق۔ یہ نصیحت اس کو کی جاتی ہے جو تم میں سے ایمان رکھتا ہے اللہ پر اور قیامت کے دن پر۔ یہ بہت پاکیزہ ہے تمہارے لیے اور بہت صاف ستھرا۔ اور اللہ تعالیٰ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے) (232) اس آیت کی وضاحت سے پہلے یہ بات ذہن میں رکھیے کہ ” عضل “ کا معنی تو روکنا اور منع کرنا ہوتا ہے لیکن یہ وہ روکنا ہے جسے ہم محاورے میں ” اڑنگے ڈالنا “ کہتے ہیں۔ یعنی مختلف طریقوں سے رکاوٹیں کھڑی کرنا۔ اور دوسری یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ یہاں ” ازواجہن “ سے مراد ان کے وہ شوہر بھی ہوسکتے ہیں جو انھیں طلاق دے چکے ہیں۔ اور وہ بھی ہوسکتے ہیں جن سے اب نئے سرے سے رشتہ قائم ہوجائے۔ طلاق ہوجانے کے بعد جتنی ممکن صورتیں ہوسکتی ہیں ان کا تعلق خواہ شوہر سے ہو خواہ بیوی سے۔ قرآن کریم ایک ایک کے بارے میں اصلاحی احکام دے رہا ہے۔ اگر ان کا تعلق شوہر سے ہے تو شوہر سے خطاب کیا جا رہا ہے اور اگر بیوی سے ہے تو بیوی سے خطاب ہو رہا ہے۔ اور جہاں کہیں دونوں میں سے کوئی بھی حدود سے تجاوز کر رہا ہے تو اسے حدود سے تجاوز کرنے سے روکا جا رہا ہے۔ اس آیت کریمہ میں شوہروں سے خطاب ہو رہا ہے ‘ کیونکہ اس میں جس بات سے روکا گیا ہے اس کا تعلق شوہروں سے ہے۔ وَاِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآئَ مطلق آیا ہے ‘ جس میں اس بات کی وضاحت نہیں کی گئی کہ تم نے جو طلاق دی ہے وہ طلاق رجعی ہے ‘ بائن ہے یا طلاق مغلظہ ہے ‘ لیکن اس کے بعد جو حکم دیا جا رہا ہے اسے دیکھتے ہوئے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں طلاق رجعی کا ذکر ہے یا زیادہ سے زیادہ طلاق بائن کا۔ مغلظہ کا تو کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا۔ اور ہم یہ بات پڑھ چکے ہیں کہ پروردگار طہر میں صرف ایک طلاق دینے کو ناگزیر حالات میں پسند فرماتے ہیں اور دو طلاقوں کی اجازت دیتے ہیں۔ یکلخت طلاق بائن دے دینا سخت ناپسندیدہ ہے۔ اور تین طلاقوں کی صورت میں طلاق مغلظہ تو ناقابلِ برداشت حد تک مکروہ قرار دی گئی ہے۔ ان تمام باتوں کو دیکھتے ہوئے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں صرف طلاق رجعی مراد ہے جس پر عدت گزر جانے کے بعد نکاح کی گنجائش باقی رہتی ہے۔ طلاق کے بعد بیوہ یا مطلقہ پر ممکنہ مظالم کو روکنے کے لیے ہدایات اور احکام اس کے بعد جو حکم دیا جا رہا ہے اس سے ایک بہت بڑی قباحت اور ایک بہت بڑے ظلم کا راستہ روکنا مقصود ہے۔ عربوں میں یہ ظلم عام تھا اور ہمارے دور میں بھی اس میں کمی واقع نہیں ہوئی کہ جب کسی خاتون کو طلاق ہوجاتی تھی تو عموماً اس کے اولیاء اور اس کے اہل خانہ اس بات کو انتہائی ناپسند کرتے تھے کہ اب وہ دوبارہ نکاح کرے۔ نکاحِ بیوگان اکثر قوموں میں ہمیشہ مسئلہ بنا رہا ہے۔ عربوں میں اگرچہ یہ مسئلہ اس طرح کی شکل تو اختیار نہیں کرسکا تھا جیسی ہم ہندوئوں میں دیکھتے ہیں کہ ان میں اگر کوئی شخص مرجاتا تھا تو اس کی بیوی کو اس کے ساتھ ہی ” ستی “ کردیا جاتا تھا۔ ” ستی “ کا مطلب یہ ہے کہ جب مرنے والے کی چتا کو آگ لگائی جاتی تو اس بیچاری بیوہ کو بھی اس آگ میں کود جانے پر مجبور کیا جاتا۔ وہ اپنے خاندان کو آگ سے بچانے اور خود گنہگار ہونے سے بچنے کے لیے آگ میں کود کر جان دے دیتی اور اس کی اس حماقت پر اس کا خاندان ہمیشہ فخر کا اظہار کرتا۔ اور اگر کسی خاتون کو اس کا شوہر طلاق دے دیتا تو اب اس کے لیے دوسرا نکاح کرنا ایک بہت بڑا عیب سمجھا جاتا تھا۔ اس کے والدین اور اس کے بھائی اسے اپنی غیرت کے خلاف سمجھتے تھے۔ یہی حال ہمارے ملک میں بھی ہے۔ ہمارے کتنے تعلیم یافتہ گھرانے ہیں جن میں دوسرے نکاح کو ایک عیب سمجھا جاتا ہے۔ ایسے ہی مکروہ تصورات کے تحت خود مطلقہ خاتون نکاح کرنے کا کبھی حوصلہ نہیں کرتی۔ وہ جوانی میں اگر مطلقہ ہوگئی تو پوری عمر تنہائی اور بےبسی میں گزارنے پر اپنے آپ کو مجبور پاتی ہے۔ معاشرے کے بعض احساسات جو زبانوں سے نہیں نگاہوں سے پڑھے جاتے ہیں ‘ اتنے شدید اور ظالم ہوتے ہیں کہ آدمی نہ چاہتے ہوئے بھی اس کے جال میں پھنسے رہنے میں ہی عافیت سمجھتا ہے۔ اور ہمارے ایسے بھی پسماندہ علاقے ہیں جن میں اگر کسی بیوہ یا مطلقہ کو دوبارہ نکاح کی اجازت دی جاتی ہے تو اس شرط پر کہ اسے وہاں نکاح کرنا ہوگا جہاں اس کے والدین چاہیں گے۔ وہ کسی بوڑھے رنڈوے سے ایک بڑی رقم لے کر اپنی بیٹی اس کے نکاح میں دے دیتے ہیں اور یہ بیچاری لڑکی بےکسی سے یہ سارے مظالم برداشت کرتی ہے۔ اگر گہری نظر سے دیکھا جائے تو ان مظالم کے پیچھے ایک اور تصور بھی کار فرما ہے جس کا ذمہ دار پورا معاشرہ ہے ‘ وہ یہ ہے کہ جب کسی لڑکی کو طلاق ہوجاتی ہے تو یہ سمجھ لیا جاتا ہے کہ اس لڑکی کو ایک ایسا داغ لگ گیا ہے جس کی موجودگی میں کسی بھی معزز گھرانے کا کوئی تعلیم یافتہ نوجوان اس کی طرف رجوع کرنے کا تصور بھی نہیں کرتا۔ جس نے اسے طلاق دی ہے اسے معاشرہ نہیں پوچھتا کہ تم نے ظلم کیوں کیا ؟ لیکن جو لڑکی اس ظلم کا شکار ہوئی ہے اسے زندگی بھر کے دکھ سہنے کے لیے بےسہارا چھوڑ دیا جاتا ہے۔ عربوں میں بھی کم و بیش اس طرح کے تصورات پائے جاتے تھے۔ اس لیے عموماً وہ لڑکیوں کو اپنی مرضی اور اپنی چاہت سے دوسرا نکاح کرنے کی مشکل سے ہی اجازت دیتے تھے۔ اولیاء اور اہل خانہ کے علاوہ ایک ظلم اس پر سابقہ شوہر کی جانب سے ہوتا تھا جو اپنی بیوی کو چھوڑ چکا اور اب وہ نہیں چاہتا کہ اس خاتون کا کہیں اور نکاح ہو سکے۔ اس لیے جہاں بھی بات چلتی وہ غلط فہمیوں کا ایک طوفان کھڑا کردیتا اور نئے ہونے والے تعلق کو اگر ناممکن نہیں تو مشکل ضرور بنا دیتا۔ اور دوسری صورت یہ تھی کہ اگر طلاق کے بعد عدت کے دوران یا عدت سے فارغ ہو کر میاں بیوی دونوں محسوس کرتے کہ ہم نے ایک دوسرے سے علیحدہ ہو کر غلطی کی ہے یا شوہر یہ سمجھتا کہ میں نے طلاق دے کر ظلم کیا ہے تو شوہر اپنی مطلقہ سے بالواسطہ رابطہ پیدا کرتا اور اسے قائل کرلیتا کہ ہمیں دوبارہ نکاح کرلینا چاہیے تو لڑکی کے والدین یا اس کے بھائی اڑ جاتے کہ جس شخص نے تمہیں طلاق دے کر تمہاری اور ہماری توہین کی ہے اور تمام لوگوں میں ہماری رسوائی کا سامان کیا ہے اب دوبارہ ہم ایسے شخص کے ساتھ کسی قیمت پر بھی تمہاری شادی کرنے پر تیار نہیں ہوسکتے۔ اس آیت کریمہ میں مظالم کی ان تمام صورتوں سے روکا ہے۔ کہ جب ایک خاتون کو طلاق ہوجاتی ہے اور ابھی وہ اس عمر میں ہے کہ اسے دوسرا نکاح کر کے اپنا گھر بسا لینا چاہیے ‘ چاہے وہ پہلے شوہر سے دوبارہ نکاح کرنا چاہے یا نئی جگہ قسمت آزمانا چاہے۔ اگر وہ یہ سب کچھ معروف طریقے سے اسلامی احکام کے مطابق خاندان کی عزت و قار کو ملحوظ رکھتے ہوئے کر رہی ہے تو تمہیں ہرگز اس کے راستے میں اڑنگے نہیں ڈالنے چاہییں۔ چناچہ اس آیت کا شان نزول بھی ایسے ہی واقعات کو بیان کیا جاتا ہے۔ صحیح بخاری میں ہے کہ حضرت معقل بن یسار ؓ نے اپنی بہن کی شادی ایک شخص کے ساتھ کردی تھی۔ میاں بیوی میں ناچاقی پیدا ہوئی اور شوہر نے بیوی کو طلاق دے دی اور عدت بھی گزر گئی۔ اس کے بعد یہ شخص اپنے اس فیصلے پر نادم ہوا اور اس نے دوبارہ اپنی مطلقہ سے نکاح کرنے کا فیصلہ کیا۔ کسی رابطے سے مطلقہ بیوی کو راضی کرلیا۔ بیوی کی آمادگی کے بعد اس کے بھائی معقل بن یسار ( رض) کے پاس گیا کہ میں نے طلاق دے کر غلطی کی اب میں اس پر نادم ہوں اور میں دوبارہ آپ کی بہن سے نکاح کرنا چاہتا ہوں۔ حضرت معقل کو چونکہ اس کے طلاق دینے سے رنج ہوا تھا اس لیے انھوں نے نہایت برہمی کے ساتھ جواب دیا کہ میں نے تمہارا اعزاز کیا کہ اپنی بہن تمہارے نکاح میں دی اور تم نے اس کی یہ قدر کی کہ اس کو طلاق دے دی۔ اب تم دوبارہ میرے پاس آئے ہو ‘ اللہ کی قسم اب میری بہن تمہارے نکاح میں نہیں لوٹے گی۔ آیت کا شان نزول روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اسی طرح کا ایک واقعہ حضرت جابر بن عبداللہ ؓ کی چچا زاد بہن کا بھی پیش آیا۔ ان کے شوہر نے بھی دوبارہ نکاح کا ارادہ کیا تو حضرت جابر ( رض) اس نکاح میں حائل ہوگئے۔ چناچہ یہ آیت کریمہ نازل ہوئی جس میں ان حضرات کو توجہ دلائی گئی کہ طلاق واقعی ایک بڑی زیادتی ہے ‘ لیکن غلطیاں انسانوں سے ہی ہوتی ہیں ‘ اب دوبارہ اگر میاں بیوی مل بیٹھنا چاہتے ہیں تو تمہیں ان کی اس نیکی کے راستے میں رکاوٹ نہیں بننا چاہیے۔ صحابہ کرام ( رض) چونکہ اللہ تعالیٰ کے سچے بندے اور رسول اللہ ﷺ سے گہری محبت رکھنے والے تھے اس لیے جیسے ہی اس آیت کریمہ کا نزول ہوا حضرت معقل بن یسار ( رض) کا سارا غصہ جاتا رہا اور خود جا کر دوبارہ اسی طلاق دینے والے شخص سے اپنی بہن کا نکاح کردیا اور قسم کا کفارہ ادا کیا۔ حضرت جابر بن عبداللہ ( رض) نے بھی اسی طرح اس حکم کی تعمیل کی اور اپنے طرز عمل کو یکسر بدل ڈالا۔ اِذَا تَرَاضَوْا بَیْنَہُمْ بِالْمَعْرُوْفِ کا مفہوم اس حکم کے الفاظ پر غور کیجئے لڑکیوں کے اولیاء یا ان کے سابقہ شوہروں کو یہ حکم دیا جا رہا ہے کہ تم کسی طرح بھی دوبارہ نکاح کے راستے میں اڑنگے مت ڈالو۔ لیکن ساتھ ہی شرط لگائی اِذَا تَرَاضَوْا بَیْنَہُمْ بِالْمَعْرُوْفِ (جب وہ دونوں مرد و عورت معروف طریقے سے اس نئے تعلق پر رضامندی کا اظہار کریں) تو پھر انھیں نکاح سے روکنے کا کوئی جواز نہیں۔ لیکن اگر ان کا نکاح کرنا معروف کے مطابق نہ ہو یا سرے سے اس میں رضامندی شامل نہ ہو ‘ بلکہ لڑکی کے گھر والے زبردستی اسے کسی کے سپرد کر رہے ہوں اور وہ وہاں نکاح کے لیے تیار نہ ہو تو پھر جو کوئی بھی لڑکی کو اس ظلم سے بچا سکتا ہے اسے اس نکاح کو روکنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ یا وہ لڑکی کسی کے ساتھ بغیر نکاح کے ایسے تعلقات پیدا کرلے اور اس کے گھر میں بیوی بن کر بیٹھ جائے یا ایام عدت ہی میں کسی کے ساتھ نکاح کے لیے تیار ہوجائے ‘ یہ تمام صورتیں چونکہ شرعی احکام کے خلاف ہیں اس لیے روکنے والوں کو حق ہے کہ وہ اس رشتے کو روک سکتے ہوں تو روک دیں۔ ایک صورت یہ بھی ممکن ہے کہ لڑکی احکام شریعت کی مخالفت تو نہ کرے ‘ شرعی احکام کے مطابق ہی نکاح کیا جائے لیکن وہ اپنے اولیاء کے اجازت کے بغیر کسی ایسی جگہ نکاح کے لیے آمادہ ہوجائے جو اس کے خاندان کا ” کفو “ نہ ہو۔ یا وہ مہر مثل سے کم پر نکاح کرنے کے لیے تیار ہوجائے۔ جس سے اس کی خاندانی وجاہت پر حرف آتا ہو تو یہ بھی اسلامی شریعت کی سراسر خلاف ورزی ہے۔ اس صورت میں اولیاء کو شریعت نے حق دیا ہے کہ وہ لڑکی کو نکاح کرنے سے روک دیں۔ لیکن اس آیت کریمہ کی اصل روح جس پر زور محسوس ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ دوسرے نکاح کے لیے احکامِ شریعت کی پابندی بھی ہونی چاہیے ‘ خاندانی عزت و وقار کے لیے کوئی مسئلہ بھی پیدا نہیں ہونا چاہیے ‘ معاشرے کے ایسے کسی رسم و رواج کی مخالفت بھی نہیں ہونی چاہیے جسے اسلام برداشت کرتا ہے۔ لیکن یہ ظلم بھی کسی طور وقوع پذیر نہیں ہونا چاہیے کہ لڑکی کی رضا مندی اور اس کی مرضی اور اختیار کی کوئی پرواہ نہ کی جائے۔ اس کے جذبات کو سمجھنے کی بالکل کوشش نہ کی جائے ‘ اپنے مفادات اور خواہشات پر اس کے احساسات کو قربان کردیا جائے۔ یہ ظلم چونکہ جاہل معاشروں میں ہمیشہ ہوتا رہا ہے ‘ عربوں میں بھی ہوتا تھا اور آج بھی ہو رہا ہے اس لیے زیادہ زور اس ظلم کے روکنے پر دیا جا رہا ہے۔ ان معاشرتی ہدایات پر عمل کے لیے ایمان باللہ و ایمان بالآخرت ضروری ہے اسی کی تاکید کے لیے آگے فرمایا کہ جس بات کی تمہیں نصیحت کی جا رہی ہے یہ نصیحت درحقیقت اس آدمی کے لیے مفید ہے جس کے دل میں اللہ پر ایمان اور آخرت کا یقین موجود ہو۔ کیونکہ صدیوں کے جمے ہوئے رسم و رواج کو توڑنا اور معاشرے کی روایات کا خاتمہ کرنا نہایت مشکل کام ہے۔ یہ صرف وہی شخص کرسکتا ہے جسے اس بات کا یقین ہو کہ میرا ایک پروردگار ہے ‘ جو درحقیقت حاکم حقیقی ہے۔ اس کے حکم کے مقابلے میں کسی اور کا حکم نہیں چل سکتا ‘ جب اس نے عورت کو ایک خاص دائرے میں آزادی عطا فرمائی ہے اور اسے دوسرے نکاح کا حق بخشا ہے اور اس کی مرضی اور اختیار کے بغیر کوئی نکاح اس پر مسلط نہیں کیا جاسکتا تو پھر میرے لیے اس کے سوا کوئی دوسرا راستہ ممکن نہیں کہ میں اللہ کے حکم کے سامنے سر تسلیم خم کر دوں اور ایک محکوم کی طرح اس حاکم حقیقی کے سامنے جھک جاؤں۔ کیونکہ مجھے اس بات کا بھی یقین ہے کہ آج اگر میں اس حکم کی تعمیل نہیں کرتا اور اپنے نام نہاد تصورات اور روایات کی پوجا کرتا رہتا ہوں تو ایک دن ایسا بھی آئے گا جب میرے اس رویے کے بارے میں مجھ سے باز پرس ہوگی۔ اور باز پرس کرنے والی وہ ذات ہوگی جو اس کائنات کی خالق ومالک ہے۔ جس کے سامنے کسی کو دم مارنے کی مجال نہیں ہوگی۔ جہاں ایمان و عمل کے سوا کوئی سکہ کام نہیں دے گا۔ اللہ پر ایمان اور آخرت پر یقین یہی دو چیزیں ہیں جو اللہ کے احکام کی تعمیل کی ضمانت دیتی ہیں۔ یہ ہدایات معاشرے کو اخلاقی فساد سے محفوظ رکھنے کا سب سے موثر نسخہ ہیں دوسری بات یہ فرمائی کہ اس حکم کی تعمیل تمہارے لیے ازَکْیٰ بھی ہے اور اَطْھَرُ بھی۔ یعنی اسی پر عمل کرنے کے نتیجے میں تمہیں پاکیزگی کا وہ راستہ ملے گا جس سے بہتر کوئی راستہ نہیں اور تطہیر افکار اور تطہیر اخلاق کی وہ روشنی میسر آئے گی جس میں تم اجتماعی زندگی کے سفر کو نہایت کامیابی سے طے کرسکو گے۔ اور اگر تم نے صنف نازک پر یہ پابندیاں جاری رکھیں اور تم نے بات بات پر اسے غیرت اور ناک کا مسئلہ بنایا تو پھر یاد رکھو انسان کے اندر ایک نفس امارہ ہے ‘ جو اسے ہمیشہ برائی کا حکم دیتا ہے اور ایک شیطان ہے جو اسے ہمیشہ برائی پر اکساتا ہے۔ انسان کے اندر اللہ نے خواہشاتِ نفس بھی رکھی ہیں اور جنسی جذبات بھی۔ جب انھیں بروئے کار آنے کے لیے صحیح راستہ نہیں ملتا تو پھر نفس امارہ اور شیطان ان کے لیے غلط راستے تجویز کرتے ہیں۔ تم اپنی جوان خواتین کو ان کے فطری جذبات کے اظہار کی اگر جائز صورتوں سے محروم کردو گے تو تم خود ان کے لیے خطرات کے راستے کھولو گے ‘ شیطان کو اپنا کام کرنے کا موقع دو گے۔ ان کی تنہائیاں ان کے نفس امارہ کے حوالے ہوجائیں گی اور معاشرے کے وہ بگڑے ہوئے عناصر جو ہمیشہ شیطان کے ایجنٹوں کی طرح کام کرتے ہیں اور ان کو ہمیشہ ایسے مواقع کی تلاش رہتی ہے۔ وہ ایسی خواتین سے راہ و رسم پیدا کرنے کی کوشش کرینگے۔ جیسے ہی کوئی رخنہ پیدا ہوا کسی کواڑ کا پٹ سرکا ‘ کسی شگاف میں آنکھیں جھانکنے لگیں تو سمجھ لو تمہارے گھر میں برائی نے راستہ پیدا کرلیا ہے۔ شروع میں نامہ و پیام ہوگا ‘ پھر اکساہٹیں ہوں گی ‘ پھر اغوا تک نوبت پہنچے گی اور اگر اغوا کا بھید کھل گیا تو پھر قتل ہوں گے ‘ خاندانوں میں خون بہے گا۔ اس وقت شاید آپ کو اندازہ ہوگا کہ اس الائو کو چنگاری میں نے خود مہیا کی تھی۔ میں نے فطری راستے کو جب ظلم سے بند کیا تو اس نے غلط راستہ کھول کر میرے گھر کو آگ لگا دی۔ اس لیے فرمایا کہ ہم تمہیں جس بات کا حکم دے رہے ہیں ‘ یہ تمہارے گھر اور تمہارے معاشرے کو پاکیزہ و صاف ستھرا رکھنے کا ایک ذریعہ ہے اور اسے چھوڑنے کے جو نتائج ہوسکتے ہیں ‘ جن کی طرف ہم نے اشارے کیے انھیں اللہ جانتا ہے تم نہیں جانتے۔ اس لیے اللہ کے علم سے فائدہ اٹھائو اور اس کے احکام کی دل کی آمادگی سے تعمیل کرو۔
Top