Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - Al-Baqara : 232
وَ اِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآءَ فَبَلَغْنَ اَجَلَهُنَّ فَلَا تَعْضُلُوْهُنَّ اَنْ یَّنْكِحْنَ اَزْوَاجَهُنَّ اِذَا تَرَاضَوْا بَیْنَهُمْ بِالْمَعْرُوْفِ١ؕ ذٰلِكَ یُوْعَظُ بِهٖ مَنْ كَانَ مِنْكُمْ یُؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ١ؕ ذٰلِكُمْ اَزْكٰى لَكُمْ وَ اَطْهَرُ١ؕ وَ اللّٰهُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ
وَاِذَا
: اور جب
طَلَّقْتُمُ
: تم طلاق دو
النِّسَآءَ
: عورتیں
فَبَلَغْنَ
: پھر وہ پوری کرلیں
اَجَلَهُنَّ
: اپنی مدت (عدت)
فَلَا
: تو نہ
تَعْضُلُوْھُنَّ
: روکو انہیں
اَنْ
: کہ
يَّنْكِحْنَ
: وہ نکاح کریں
اَزْوَاجَهُنَّ
: خاوند اپنے
اِذَا
: جب
تَرَاضَوْا
: وہ باہم رضامند ہو جائیں
بَيْنَهُمْ
: آپس میں
بِالْمَعْرُوْفِ
: دستور کے مطابق
ذٰلِكَ
: یہ
يُوْعَظُ
: نصیحت کی جاتی ہے
بِهٖ
: اس سے
مَنْ
: جو
كَانَ
: ہو
مِنْكُمْ
: تم میں سے
يُؤْمِنُ
: ایمان رکھتا
بِاللّٰهِ
: اللہ پر
وَ
: اور
لْيَوْمِ الْاٰخِرِ
: یوم آخرت پر
ذٰلِكُمْ
: یہی
اَزْكٰى
: زیادہ ستھرا
لَكُمْ
: تمہارے لیے
وَاَطْهَرُ
: اور زیادہ پاکیزہ
وَاللّٰهُ
: اور اللہ
يَعْلَمُ
: جانتا ہے
وَاَنْتُمْ
: اور تم
لَا تَعْلَمُوْنَ
: نہیں جانتے
(اور جب تم طلاق دو عورتوں کو پھر وہ پوری کر چکیں اپنی عدت تو انھیں منع نہ کرو کہ وہ نکاح کرلیں اپنے (نئے) شوہروں سے۔ جب کہ وہ رضا مند ہوجائیں آپس میں دستور کے مطابق۔ یہ نصیحت اس کو کی جاتی ہے جو تم میں سے ایمان رکھتا ہے اللہ پر اور قیامت کے دن پر۔ یہ بہت پاکیزہ ہے تمہارے لیے اور بہت صاف ستھرا۔ اور اللہ تعالیٰ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے
وَاِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآئَ فَبَلَغْنَ اَجَلَہُنَّ فلَاَ تَعْضُلُوْہُنَّ اَنْ یَّـنْـکِحْنَ اَزْوَاجَھُنَّ اِذَا تَرَاضَوْا بَیْنَہُمْ بِالْمَعْرُوْفِ ط ذٰلِکَ یُوْعَظُ بِہٖ مَنْ کَانَ مِنْـکُمْ یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِط ذٰلِـکُمْ اَزْکٰی لَـکُمْ وَاَطْہَرُط وَاللّٰہُ یَعْلَمُ وَاَنْـتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ ۔ (اور جب تم طلاق دو عورتوں کو پھر وہ پوری کر چکیں اپنی عدت تو انھیں منع نہ کرو کہ وہ نکاح کرلیں اپنے (نئے) شوہروں سے۔ جب کہ وہ رضا مند ہوجائیں آپس میں دستور کے مطابق۔ یہ نصیحت اس کو کی جاتی ہے جو تم میں سے ایمان رکھتا ہے اللہ پر اور قیامت کے دن پر۔ یہ بہت پاکیزہ ہے تمہارے لیے اور بہت صاف ستھرا۔ اور اللہ تعالیٰ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے) (232) اس آیت کی وضاحت سے پہلے یہ بات ذہن میں رکھیے کہ ” عضل “ کا معنی تو روکنا اور منع کرنا ہوتا ہے لیکن یہ وہ روکنا ہے جسے ہم محاورے میں ” اڑنگے ڈالنا “ کہتے ہیں۔ یعنی مختلف طریقوں سے رکاوٹیں کھڑی کرنا۔ اور دوسری یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ یہاں ” ازواجہن “ سے مراد ان کے وہ شوہر بھی ہوسکتے ہیں جو انھیں طلاق دے چکے ہیں۔ اور وہ بھی ہوسکتے ہیں جن سے اب نئے سرے سے رشتہ قائم ہوجائے۔ طلاق ہوجانے کے بعد جتنی ممکن صورتیں ہوسکتی ہیں ان کا تعلق خواہ شوہر سے ہو خواہ بیوی سے۔ قرآن کریم ایک ایک کے بارے میں اصلاحی احکام دے رہا ہے۔ اگر ان کا تعلق شوہر سے ہے تو شوہر سے خطاب کیا جا رہا ہے اور اگر بیوی سے ہے تو بیوی سے خطاب ہو رہا ہے۔ اور جہاں کہیں دونوں میں سے کوئی بھی حدود سے تجاوز کر رہا ہے تو اسے حدود سے تجاوز کرنے سے روکا جا رہا ہے۔ اس آیت کریمہ میں شوہروں سے خطاب ہو رہا ہے ‘ کیونکہ اس میں جس بات سے روکا گیا ہے اس کا تعلق شوہروں سے ہے۔ وَاِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآئَ مطلق آیا ہے ‘ جس میں اس بات کی وضاحت نہیں کی گئی کہ تم نے جو طلاق دی ہے وہ طلاق رجعی ہے ‘ بائن ہے یا طلاق مغلظہ ہے ‘ لیکن اس کے بعد جو حکم دیا جا رہا ہے اسے دیکھتے ہوئے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں طلاق رجعی کا ذکر ہے یا زیادہ سے زیادہ طلاق بائن کا۔ مغلظہ کا تو کوئی سوال پیدا نہیں ہوتا۔ اور ہم یہ بات پڑھ چکے ہیں کہ پروردگار طہر میں صرف ایک طلاق دینے کو ناگزیر حالات میں پسند فرماتے ہیں اور دو طلاقوں کی اجازت دیتے ہیں۔ یکلخت طلاق بائن دے دینا سخت ناپسندیدہ ہے۔ اور تین طلاقوں کی صورت میں طلاق مغلظہ تو ناقابلِ برداشت حد تک مکروہ قرار دی گئی ہے۔ ان تمام باتوں کو دیکھتے ہوئے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں صرف طلاق رجعی مراد ہے جس پر عدت گزر جانے کے بعد نکاح کی گنجائش باقی رہتی ہے۔ طلاق کے بعد بیوہ یا مطلقہ پر ممکنہ مظالم کو روکنے کے لیے ہدایات اور احکام اس کے بعد جو حکم دیا جا رہا ہے اس سے ایک بہت بڑی قباحت اور ایک بہت بڑے ظلم کا راستہ روکنا مقصود ہے۔ عربوں میں یہ ظلم عام تھا اور ہمارے دور میں بھی اس میں کمی واقع نہیں ہوئی کہ جب کسی خاتون کو طلاق ہوجاتی تھی تو عموماً اس کے اولیاء اور اس کے اہل خانہ اس بات کو انتہائی ناپسند کرتے تھے کہ اب وہ دوبارہ نکاح کرے۔ نکاحِ بیوگان اکثر قوموں میں ہمیشہ مسئلہ بنا رہا ہے۔ عربوں میں اگرچہ یہ مسئلہ اس طرح کی شکل تو اختیار نہیں کرسکا تھا جیسی ہم ہندوئوں میں دیکھتے ہیں کہ ان میں اگر کوئی شخص مرجاتا تھا تو اس کی بیوی کو اس کے ساتھ ہی ” ستی “ کردیا جاتا تھا۔ ” ستی “ کا مطلب یہ ہے کہ جب مرنے والے کی چتا کو آگ لگائی جاتی تو اس بیچاری بیوہ کو بھی اس آگ میں کود جانے پر مجبور کیا جاتا۔ وہ اپنے خاندان کو آگ سے بچانے اور خود گنہگار ہونے سے بچنے کے لیے آگ میں کود کر جان دے دیتی اور اس کی اس حماقت پر اس کا خاندان ہمیشہ فخر کا اظہار کرتا۔ اور اگر کسی خاتون کو اس کا شوہر طلاق دے دیتا تو اب اس کے لیے دوسرا نکاح کرنا ایک بہت بڑا عیب سمجھا جاتا تھا۔ اس کے والدین اور اس کے بھائی اسے اپنی غیرت کے خلاف سمجھتے تھے۔ یہی حال ہمارے ملک میں بھی ہے۔ ہمارے کتنے تعلیم یافتہ گھرانے ہیں جن میں دوسرے نکاح کو ایک عیب سمجھا جاتا ہے۔ ایسے ہی مکروہ تصورات کے تحت خود مطلقہ خاتون نکاح کرنے کا کبھی حوصلہ نہیں کرتی۔ وہ جوانی میں اگر مطلقہ ہوگئی تو پوری عمر تنہائی اور بےبسی میں گزارنے پر اپنے آپ کو مجبور پاتی ہے۔ معاشرے کے بعض احساسات جو زبانوں سے نہیں نگاہوں سے پڑھے جاتے ہیں ‘ اتنے شدید اور ظالم ہوتے ہیں کہ آدمی نہ چاہتے ہوئے بھی اس کے جال میں پھنسے رہنے میں ہی عافیت سمجھتا ہے۔ اور ہمارے ایسے بھی پسماندہ علاقے ہیں جن میں اگر کسی بیوہ یا مطلقہ کو دوبارہ نکاح کی اجازت دی جاتی ہے تو اس شرط پر کہ اسے وہاں نکاح کرنا ہوگا جہاں اس کے والدین چاہیں گے۔ وہ کسی بوڑھے رنڈوے سے ایک بڑی رقم لے کر اپنی بیٹی اس کے نکاح میں دے دیتے ہیں اور یہ بیچاری لڑکی بےکسی سے یہ سارے مظالم برداشت کرتی ہے۔ اگر گہری نظر سے دیکھا جائے تو ان مظالم کے پیچھے ایک اور تصور بھی کار فرما ہے جس کا ذمہ دار پورا معاشرہ ہے ‘ وہ یہ ہے کہ جب کسی لڑکی کو طلاق ہوجاتی ہے تو یہ سمجھ لیا جاتا ہے کہ اس لڑکی کو ایک ایسا داغ لگ گیا ہے جس کی موجودگی میں کسی بھی معزز گھرانے کا کوئی تعلیم یافتہ نوجوان اس کی طرف رجوع کرنے کا تصور بھی نہیں کرتا۔ جس نے اسے طلاق دی ہے اسے معاشرہ نہیں پوچھتا کہ تم نے ظلم کیوں کیا ؟ لیکن جو لڑکی اس ظلم کا شکار ہوئی ہے اسے زندگی بھر کے دکھ سہنے کے لیے بےسہارا چھوڑ دیا جاتا ہے۔ عربوں میں بھی کم و بیش اس طرح کے تصورات پائے جاتے تھے۔ اس لیے عموماً وہ لڑکیوں کو اپنی مرضی اور اپنی چاہت سے دوسرا نکاح کرنے کی مشکل سے ہی اجازت دیتے تھے۔ اولیاء اور اہل خانہ کے علاوہ ایک ظلم اس پر سابقہ شوہر کی جانب سے ہوتا تھا جو اپنی بیوی کو چھوڑ چکا اور اب وہ نہیں چاہتا کہ اس خاتون کا کہیں اور نکاح ہو سکے۔ اس لیے جہاں بھی بات چلتی وہ غلط فہمیوں کا ایک طوفان کھڑا کردیتا اور نئے ہونے والے تعلق کو اگر ناممکن نہیں تو مشکل ضرور بنا دیتا۔ اور دوسری صورت یہ تھی کہ اگر طلاق کے بعد عدت کے دوران یا عدت سے فارغ ہو کر میاں بیوی دونوں محسوس کرتے کہ ہم نے ایک دوسرے سے علیحدہ ہو کر غلطی کی ہے یا شوہر یہ سمجھتا کہ میں نے طلاق دے کر ظلم کیا ہے تو شوہر اپنی مطلقہ سے بالواسطہ رابطہ پیدا کرتا اور اسے قائل کرلیتا کہ ہمیں دوبارہ نکاح کرلینا چاہیے تو لڑکی کے والدین یا اس کے بھائی اڑ جاتے کہ جس شخص نے تمہیں طلاق دے کر تمہاری اور ہماری توہین کی ہے اور تمام لوگوں میں ہماری رسوائی کا سامان کیا ہے اب دوبارہ ہم ایسے شخص کے ساتھ کسی قیمت پر بھی تمہاری شادی کرنے پر تیار نہیں ہوسکتے۔ اس آیت کریمہ میں مظالم کی ان تمام صورتوں سے روکا ہے۔ کہ جب ایک خاتون کو طلاق ہوجاتی ہے اور ابھی وہ اس عمر میں ہے کہ اسے دوسرا نکاح کر کے اپنا گھر بسا لینا چاہیے ‘ چاہے وہ پہلے شوہر سے دوبارہ نکاح کرنا چاہے یا نئی جگہ قسمت آزمانا چاہے۔ اگر وہ یہ سب کچھ معروف طریقے سے اسلامی احکام کے مطابق خاندان کی عزت و قار کو ملحوظ رکھتے ہوئے کر رہی ہے تو تمہیں ہرگز اس کے راستے میں اڑنگے نہیں ڈالنے چاہییں۔ چناچہ اس آیت کا شان نزول بھی ایسے ہی واقعات کو بیان کیا جاتا ہے۔ صحیح بخاری میں ہے کہ حضرت معقل بن یسار ؓ نے اپنی بہن کی شادی ایک شخص کے ساتھ کردی تھی۔ میاں بیوی میں ناچاقی پیدا ہوئی اور شوہر نے بیوی کو طلاق دے دی اور عدت بھی گزر گئی۔ اس کے بعد یہ شخص اپنے اس فیصلے پر نادم ہوا اور اس نے دوبارہ اپنی مطلقہ سے نکاح کرنے کا فیصلہ کیا۔ کسی رابطے سے مطلقہ بیوی کو راضی کرلیا۔ بیوی کی آمادگی کے بعد اس کے بھائی معقل بن یسار ( رض) کے پاس گیا کہ میں نے طلاق دے کر غلطی کی اب میں اس پر نادم ہوں اور میں دوبارہ آپ کی بہن سے نکاح کرنا چاہتا ہوں۔ حضرت معقل کو چونکہ اس کے طلاق دینے سے رنج ہوا تھا اس لیے انھوں نے نہایت برہمی کے ساتھ جواب دیا کہ میں نے تمہارا اعزاز کیا کہ اپنی بہن تمہارے نکاح میں دی اور تم نے اس کی یہ قدر کی کہ اس کو طلاق دے دی۔ اب تم دوبارہ میرے پاس آئے ہو ‘ اللہ کی قسم اب میری بہن تمہارے نکاح میں نہیں لوٹے گی۔ آیت کا شان نزول روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اسی طرح کا ایک واقعہ حضرت جابر بن عبداللہ ؓ کی چچا زاد بہن کا بھی پیش آیا۔ ان کے شوہر نے بھی دوبارہ نکاح کا ارادہ کیا تو حضرت جابر ( رض) اس نکاح میں حائل ہوگئے۔ چناچہ یہ آیت کریمہ نازل ہوئی جس میں ان حضرات کو توجہ دلائی گئی کہ طلاق واقعی ایک بڑی زیادتی ہے ‘ لیکن غلطیاں انسانوں سے ہی ہوتی ہیں ‘ اب دوبارہ اگر میاں بیوی مل بیٹھنا چاہتے ہیں تو تمہیں ان کی اس نیکی کے راستے میں رکاوٹ نہیں بننا چاہیے۔ صحابہ کرام ( رض) چونکہ اللہ تعالیٰ کے سچے بندے اور رسول اللہ ﷺ سے گہری محبت رکھنے والے تھے اس لیے جیسے ہی اس آیت کریمہ کا نزول ہوا حضرت معقل بن یسار ( رض) کا سارا غصہ جاتا رہا اور خود جا کر دوبارہ اسی طلاق دینے والے شخص سے اپنی بہن کا نکاح کردیا اور قسم کا کفارہ ادا کیا۔ حضرت جابر بن عبداللہ ( رض) نے بھی اسی طرح اس حکم کی تعمیل کی اور اپنے طرز عمل کو یکسر بدل ڈالا۔ اِذَا تَرَاضَوْا بَیْنَہُمْ بِالْمَعْرُوْفِ کا مفہوم اس حکم کے الفاظ پر غور کیجئے لڑکیوں کے اولیاء یا ان کے سابقہ شوہروں کو یہ حکم دیا جا رہا ہے کہ تم کسی طرح بھی دوبارہ نکاح کے راستے میں اڑنگے مت ڈالو۔ لیکن ساتھ ہی شرط لگائی اِذَا تَرَاضَوْا بَیْنَہُمْ بِالْمَعْرُوْفِ (جب وہ دونوں مرد و عورت معروف طریقے سے اس نئے تعلق پر رضامندی کا اظہار کریں) تو پھر انھیں نکاح سے روکنے کا کوئی جواز نہیں۔ لیکن اگر ان کا نکاح کرنا معروف کے مطابق نہ ہو یا سرے سے اس میں رضامندی شامل نہ ہو ‘ بلکہ لڑکی کے گھر والے زبردستی اسے کسی کے سپرد کر رہے ہوں اور وہ وہاں نکاح کے لیے تیار نہ ہو تو پھر جو کوئی بھی لڑکی کو اس ظلم سے بچا سکتا ہے اسے اس نکاح کو روکنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ یا وہ لڑکی کسی کے ساتھ بغیر نکاح کے ایسے تعلقات پیدا کرلے اور اس کے گھر میں بیوی بن کر بیٹھ جائے یا ایام عدت ہی میں کسی کے ساتھ نکاح کے لیے تیار ہوجائے ‘ یہ تمام صورتیں چونکہ شرعی احکام کے خلاف ہیں اس لیے روکنے والوں کو حق ہے کہ وہ اس رشتے کو روک سکتے ہوں تو روک دیں۔ ایک صورت یہ بھی ممکن ہے کہ لڑکی احکام شریعت کی مخالفت تو نہ کرے ‘ شرعی احکام کے مطابق ہی نکاح کیا جائے لیکن وہ اپنے اولیاء کے اجازت کے بغیر کسی ایسی جگہ نکاح کے لیے آمادہ ہوجائے جو اس کے خاندان کا ” کفو “ نہ ہو۔ یا وہ مہر مثل سے کم پر نکاح کرنے کے لیے تیار ہوجائے۔ جس سے اس کی خاندانی وجاہت پر حرف آتا ہو تو یہ بھی اسلامی شریعت کی سراسر خلاف ورزی ہے۔ اس صورت میں اولیاء کو شریعت نے حق دیا ہے کہ وہ لڑکی کو نکاح کرنے سے روک دیں۔ لیکن اس آیت کریمہ کی اصل روح جس پر زور محسوس ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ دوسرے نکاح کے لیے احکامِ شریعت کی پابندی بھی ہونی چاہیے ‘ خاندانی عزت و وقار کے لیے کوئی مسئلہ بھی پیدا نہیں ہونا چاہیے ‘ معاشرے کے ایسے کسی رسم و رواج کی مخالفت بھی نہیں ہونی چاہیے جسے اسلام برداشت کرتا ہے۔ لیکن یہ ظلم بھی کسی طور وقوع پذیر نہیں ہونا چاہیے کہ لڑکی کی رضا مندی اور اس کی مرضی اور اختیار کی کوئی پرواہ نہ کی جائے۔ اس کے جذبات کو سمجھنے کی بالکل کوشش نہ کی جائے ‘ اپنے مفادات اور خواہشات پر اس کے احساسات کو قربان کردیا جائے۔ یہ ظلم چونکہ جاہل معاشروں میں ہمیشہ ہوتا رہا ہے ‘ عربوں میں بھی ہوتا تھا اور آج بھی ہو رہا ہے اس لیے زیادہ زور اس ظلم کے روکنے پر دیا جا رہا ہے۔ ان معاشرتی ہدایات پر عمل کے لیے ایمان باللہ و ایمان بالآخرت ضروری ہے اسی کی تاکید کے لیے آگے فرمایا کہ جس بات کی تمہیں نصیحت کی جا رہی ہے یہ نصیحت درحقیقت اس آدمی کے لیے مفید ہے جس کے دل میں اللہ پر ایمان اور آخرت کا یقین موجود ہو۔ کیونکہ صدیوں کے جمے ہوئے رسم و رواج کو توڑنا اور معاشرے کی روایات کا خاتمہ کرنا نہایت مشکل کام ہے۔ یہ صرف وہی شخص کرسکتا ہے جسے اس بات کا یقین ہو کہ میرا ایک پروردگار ہے ‘ جو درحقیقت حاکم حقیقی ہے۔ اس کے حکم کے مقابلے میں کسی اور کا حکم نہیں چل سکتا ‘ جب اس نے عورت کو ایک خاص دائرے میں آزادی عطا فرمائی ہے اور اسے دوسرے نکاح کا حق بخشا ہے اور اس کی مرضی اور اختیار کے بغیر کوئی نکاح اس پر مسلط نہیں کیا جاسکتا تو پھر میرے لیے اس کے سوا کوئی دوسرا راستہ ممکن نہیں کہ میں اللہ کے حکم کے سامنے سر تسلیم خم کر دوں اور ایک محکوم کی طرح اس حاکم حقیقی کے سامنے جھک جاؤں۔ کیونکہ مجھے اس بات کا بھی یقین ہے کہ آج اگر میں اس حکم کی تعمیل نہیں کرتا اور اپنے نام نہاد تصورات اور روایات کی پوجا کرتا رہتا ہوں تو ایک دن ایسا بھی آئے گا جب میرے اس رویے کے بارے میں مجھ سے باز پرس ہوگی۔ اور باز پرس کرنے والی وہ ذات ہوگی جو اس کائنات کی خالق ومالک ہے۔ جس کے سامنے کسی کو دم مارنے کی مجال نہیں ہوگی۔ جہاں ایمان و عمل کے سوا کوئی سکہ کام نہیں دے گا۔ اللہ پر ایمان اور آخرت پر یقین یہی دو چیزیں ہیں جو اللہ کے احکام کی تعمیل کی ضمانت دیتی ہیں۔ یہ ہدایات معاشرے کو اخلاقی فساد سے محفوظ رکھنے کا سب سے موثر نسخہ ہیں دوسری بات یہ فرمائی کہ اس حکم کی تعمیل تمہارے لیے ازَکْیٰ بھی ہے اور اَطْھَرُ بھی۔ یعنی اسی پر عمل کرنے کے نتیجے میں تمہیں پاکیزگی کا وہ راستہ ملے گا جس سے بہتر کوئی راستہ نہیں اور تطہیر افکار اور تطہیر اخلاق کی وہ روشنی میسر آئے گی جس میں تم اجتماعی زندگی کے سفر کو نہایت کامیابی سے طے کرسکو گے۔ اور اگر تم نے صنف نازک پر یہ پابندیاں جاری رکھیں اور تم نے بات بات پر اسے غیرت اور ناک کا مسئلہ بنایا تو پھر یاد رکھو انسان کے اندر ایک نفس امارہ ہے ‘ جو اسے ہمیشہ برائی کا حکم دیتا ہے اور ایک شیطان ہے جو اسے ہمیشہ برائی پر اکساتا ہے۔ انسان کے اندر اللہ نے خواہشاتِ نفس بھی رکھی ہیں اور جنسی جذبات بھی۔ جب انھیں بروئے کار آنے کے لیے صحیح راستہ نہیں ملتا تو پھر نفس امارہ اور شیطان ان کے لیے غلط راستے تجویز کرتے ہیں۔ تم اپنی جوان خواتین کو ان کے فطری جذبات کے اظہار کی اگر جائز صورتوں سے محروم کردو گے تو تم خود ان کے لیے خطرات کے راستے کھولو گے ‘ شیطان کو اپنا کام کرنے کا موقع دو گے۔ ان کی تنہائیاں ان کے نفس امارہ کے حوالے ہوجائیں گی اور معاشرے کے وہ بگڑے ہوئے عناصر جو ہمیشہ شیطان کے ایجنٹوں کی طرح کام کرتے ہیں اور ان کو ہمیشہ ایسے مواقع کی تلاش رہتی ہے۔ وہ ایسی خواتین سے راہ و رسم پیدا کرنے کی کوشش کرینگے۔ جیسے ہی کوئی رخنہ پیدا ہوا کسی کواڑ کا پٹ سرکا ‘ کسی شگاف میں آنکھیں جھانکنے لگیں تو سمجھ لو تمہارے گھر میں برائی نے راستہ پیدا کرلیا ہے۔ شروع میں نامہ و پیام ہوگا ‘ پھر اکساہٹیں ہوں گی ‘ پھر اغوا تک نوبت پہنچے گی اور اگر اغوا کا بھید کھل گیا تو پھر قتل ہوں گے ‘ خاندانوں میں خون بہے گا۔ اس وقت شاید آپ کو اندازہ ہوگا کہ اس الائو کو چنگاری میں نے خود مہیا کی تھی۔ میں نے فطری راستے کو جب ظلم سے بند کیا تو اس نے غلط راستہ کھول کر میرے گھر کو آگ لگا دی۔ اس لیے فرمایا کہ ہم تمہیں جس بات کا حکم دے رہے ہیں ‘ یہ تمہارے گھر اور تمہارے معاشرے کو پاکیزہ و صاف ستھرا رکھنے کا ایک ذریعہ ہے اور اسے چھوڑنے کے جو نتائج ہوسکتے ہیں ‘ جن کی طرف ہم نے اشارے کیے انھیں اللہ جانتا ہے تم نہیں جانتے۔ اس لیے اللہ کے علم سے فائدہ اٹھائو اور اس کے احکام کی دل کی آمادگی سے تعمیل کرو۔
Top