Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
74
75
76
77
78
79
80
81
82
83
84
85
86
87
88
89
90
91
92
93
94
95
96
97
98
99
100
101
102
103
104
105
106
107
108
109
110
111
112
113
114
115
116
117
118
119
120
121
122
123
124
125
126
127
128
129
130
131
132
133
134
135
136
137
138
139
140
141
142
143
144
145
146
147
148
149
150
151
152
153
154
155
156
157
158
159
160
161
162
163
164
165
166
167
168
169
170
171
172
173
174
175
176
177
178
179
180
181
182
183
184
185
186
187
188
189
190
191
192
193
194
195
196
197
198
199
200
201
202
203
204
205
206
207
208
209
210
211
212
213
214
215
216
217
218
219
220
221
222
223
224
225
226
227
228
229
230
231
232
233
234
235
236
237
238
239
240
241
242
243
244
245
246
247
248
249
250
251
252
253
254
255
256
257
258
259
260
261
262
263
264
265
266
267
268
269
270
271
272
273
274
275
276
277
278
279
280
281
282
283
284
285
286
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Ruh-ul-Quran - Al-Baqara : 236
لَا جُنَاحَ عَلَیْكُمْ اِنْ طَلَّقْتُمُ النِّسَآءَ مَا لَمْ تَمَسُّوْهُنَّ اَوْ تَفْرِضُوْا لَهُنَّ فَرِیْضَةً١ۖۚ وَّ مَتِّعُوْهُنَّ١ۚ عَلَى الْمُوْسِعِ قَدَرُهٗ وَ عَلَى الْمُقْتِرِ قَدَرُهٗ١ۚ مَتَاعًۢا بِالْمَعْرُوْفِ١ۚ حَقًّا عَلَى الْمُحْسِنِیْنَ
لَاجُنَاحَ
: نہیں گناہ
عَلَيْكُمْ
: تم پر
اِنْ
: اگر
طَلَّقْتُمُ
: تم طلاق دو
النِّسَآءَ
: عورتیں
مَالَمْ
: جو نہ
تَمَسُّوْھُنَّ
: تم نے انہیں ہاتھ لگایا
اَوْ
: یا
تَفْرِضُوْا
: مقرر کیا
لَھُنَّ
: ان کے لیے
فَرِيْضَةً
: مہر
وَّمَتِّعُوْھُنَّ
: اور انہیں خرچ دو
عَلَي
: پر
الْمُوْسِعِ
: خوش حال
قَدَرُهٗ
: اس کی حیثیت
وَعَلَي
: اور پر
الْمُقْتِرِ
: تنگدست
قَدَرُهٗ
: اس کی حیثیت
مَتَاعًۢا
: خرچ
بِالْمَعْرُوْفِ
: دستور کے مطابق
حَقًّا
: لازم
عَلَي
: پر
الْمُحْسِنِيْنَ
: نیکو کار
(تم پر کوئی گناہ نہیں اگر تم طلاق دو عورتوں کو اس وقت کہ ان کو ہاتھ بھی نہ لگایا ہو اور نہ مقرر کیا ہو ان کے لیے کچھ مہر۔ اور ان کو کچھ خرچ دو ۔ مقدور والے پر اس کے موافق ہے اور تنگی والے پر اس کے موافق۔ جو خرچ کے قاعدے کے موافق ہے۔ لازم ہے نیکی کرنے والوں پر
لاَ جُنَاحَ عَلَیْـکُمْ اِنْ طَلَّقْتُمُ النِّسَآئَ مَا لَمْ تَمَسُّوْہُنَّ اَوْ تَفْرِضُوْا لَہُنَّ فَرِیْضَۃً صلے ج وَّمَتِّعُوْھُنَّ ج عَلَی الْمُوْسِعِ قَدَرُہٗ وَعَلَی الْمُقْتِرِقَدَرُہٗ ج مَتَاعًا م بِالْمَعْرُوْفِ ج حَقًّا عَلَی الْمُحْسِنِیْنَ ۔ وَ اِنْ طَلَّقْتُمُوْہُنَّ مِنْ قَبْلِ اَنْ تَمَسُّوْہُنَّ وَقَدْ فَرَضْتُمْ لَہُنَّ فَرِیْضَۃً فَنِصْفُ مَا فَرَضْتُمْ اِلَّآ اَنْ یَّعْفُوْنَ اَوْیَعْفُوَا الَّذِیْ بِیَدِہٖ عُقْدَۃُ النِّـکَاحِ ط وَاَنْ تَعْفُوْٓا اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی ط وَلاَ تَنْسَوُا الْفَضْلَ بَیْنَـکُمْ ط اِنَّ اللّٰہَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ۔ (تم پر کوئی گناہ نہیں اگر تم طلاق دو عورتوں کو اس وقت کہ ان کو ہاتھ بھی نہ لگایا ہو اور نہ مقرر کیا ہو ان کے لیے کچھ مہر۔ اور ان کو کچھ خرچ دو ۔ مقدور والے پر اس کے موافق ہے اور تنگی والے پر اس کے موافق۔ جو خرچ کے قاعدے کے موافق ہے۔ لازم ہے نیکی کرنے والوں پر۔ اور اگر طلاق دو ان کو ہاتھ لگانے سے پہلے اور ٹھہرا چکے تھے تم ان کے لیے مہرتو لازم ہوا آدھا اس کا جو تم مقرر کرچکے تھے۔ مگر یہ کہ درگزر کریں عورتیں یا درگزر کرے وہ شخص کہ اس کے اختیار میں ہے گرہ نکاح کی یعنی خاوند۔ اور تم مرد درگزر کرو جو قریب ہے پرہیز گاری سے۔ اور اپنے درمیان ترجیح کو مت بھولو۔ بیشک اللہ جو کچھ تم کرتے ہو دیکھنے والا ہے) (236 تا 237) ان دونوں آیات کریمہ میں مزید چند احکام بیان فرمائے گئے ہیں اور ان احکام کا تعلق ایسی صورتوں سے ہے جو کم کم وقوع پذیر ہوتی ہیں۔ لیکن جیسے جیسے شریعت سے دوری ہوتی جا رہی ہے اور خواہشاتِ نفس بگٹٹ ہوتی جارہی ہیں اور حالات کے دبائو سے مزاج ناموافقت کا شکار ہوتے جا رہے ہیں ویسے ویسے اس طرح کے واقعات کے وقوع میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ خلوتِ صحیحہ سے پہلے ہی طلاق کے اسباب غور کرنے کی بات ہے کہ نکاح کوئی بچوں کا کھیل نہیں۔ آج کل تو ایک شادی کے مصارف سے کمر ٹوٹ جاتی ہے اور مزید یہ کہ اگر نکاح واقعی حسن نیت سے وقوع پذیر ہوتا ہے تو وہ یقینا اپنے اندر یہ تصور رکھتا ہے کہ یہ زندگی بھر کا نباہ ہے ‘ دو خاندانوں کی قربت کا ذریعہ ہے۔ اس کی کامیابی یا ناکامی سے نہ جانے کہاں کہاں اثرات پیدا ہوں گے۔ اس لیے لڑکا اور لڑکی دونوں ہی اس بارے میں نہایت سنجیدہ ہوتے ہیں اور دونوں کے خاندان اس نئے رشتے کی استواری اور پائیداری کے لیے دعا گو ہوتے ہیں۔ لیکن ان تمام حقائق کے باوجود اگر پہلی ہی رات میاں بیوی میں علیحدگی ہوجائے اور وہ دونوں ایک دوسرے کو دیکھنے سے پہلے یا دیکھتے ہی نباہ کے تمام ارادوں کی صف لپیٹ دیں تو سوچنے والے ذہنوں کو سوچنا چاہیے کہ آخر اس کا سبب کیا ہے ؟ اتنا بڑا واقعہ بےسبب تو نہیں ہوسکتا۔ پروردگار کے تو علم میں تھا کہ اس طرح کے واقعات ظہور پذیر ہوں گے اس لیے اس نے اپنی کتاب شریعت میں ان سے متعلق احکام نازل فرما دیئے۔ لیکن ان واقعات کا واقع ہونا کسی بھی معاشرے کی شہرت کو داغدار کردیتا ہے۔ اس لیے سوچنے والے ذہنوں کو ان اسباب کو ختم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے جن کی وجہ سے اس طرح کے واقعات وقوع پذیر ہوتے ہیں۔ ایسے خاندان جنھیں نئی نئی دولت میسر آتی ہے اور جو بڑی خاندانی روایات کے امین نہیں ہوتے ‘ ان کے یہاں تو اس طرح کے واقعات دولت سے پھوٹنے والی قباحتوں کا نتیجہ ہیں۔ ان کے نوجوان شادی بیاہ کو بھی دولت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ اس لیے اسے کھیل بنا لینے میں انھیں کوئی تأمل نہیں ہوتا۔ البتہ جن خاندانوں کی درخشاں روایات ہیں یا وہ عام لوگ جو ہمیشہ اچھی باتوں کی پیروی کی کوشش کرتے ہیں اور شرفاء کے پیچھے چلنا انھیں محبوب ہوتا ہے ‘ ان کے یہاں بھی اس قسم کے واقعات پیش آنے لگے ہیں۔ اس کے اسباب تو بہت سے ہیں لیکن ایک ایسا سبب جس کی عمر شاید بہت طویل نہیں۔ شادی کرانے والے کاروباری ادارے ہیں۔ جن کے پیش نظر کسی طرح بھی لڑکے لڑکی کو رشتہ ازدواج میں منسلک کر کے اپنی بڑی فیس ہتھیانا ہوتا ہے۔ وہ عموماً جانبین کو دھوکا دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہر طرح کا جھوٹ بول کر دونوں کو پھنسانے کی کوشش کرتے ہیں۔ بعض دفعہ لڑکی کوئی دکھائی جاتی ہے اور نکاح کسی کا کرایا جاتا ہے۔ اور جب کبھی اس مکروفریب پر احتجاج ہوتا ہے تو ملبہ سارا گھر والوں پر ڈال دیا جاتا ہے۔ اس سبب سے نہ جانے کتنے رشتے ناکام ہوئے اور کتنے گھر برباد ہوئے ہیں۔ ہمارے بیوٹی پارلروں نے بھی ایسے واقعات پیدا کرنے میں کردار ادا کیا ہے۔ وہ مصنوعی میک اپ سے اصلی شکل چھپا کر ایک مصنوعی شکل سے دوسروں کو شکار کرتے ہیں اور جب اصلی شکل دیکھنے کو ملتی ہے تو لڑکا مشتعل ہو کر طلاق دے دیتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ رشتوں کے انعقاد کا خاندانی نظام شکست و ریخت کا شکار ہوگیا ہے۔ ہر جگہ مختلف طریقوں سے اس کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں۔ بزرگوں کے واسطے سے جو رشتے طے ہوتے تھے وہ فریب دہی سے محفوظ بھی ہوتے تھے اور پھر ان کے انتخاب میں زندگی بھر کا تجربہ بھی شامل ہوتا تھا۔ بےعلمی کے باعث کہیں کہیں وہاں بھی غلطیاں ہوتی تھیں لیکن اہل علم اور اہل صلاح کے مشورے ان کی اصلاح کردیتے تھے۔ لیکن اب جو صورت حال تبدیل ہوئی ہے اس میں رشتے ان ہاتھوں میں چلے گئے ہیں جو ان رشتوں کی نزاکت کو سمجھتے ہیں نہ ان کے تقدس کو۔ نتیجہ اس کا یہ ہے کہ وہ واقعات پیش آنے لگے ہیں ‘ جن کا ذکر ان آیات کریمہ میں کیا گیا ہے۔ طلاق قبل الدخول اور مہر مقرر نہ ہونے کی صورت میں مہر کے احکام پہلی آیت کریمہ میں یہ فرمایا گیا کہ اگر کسی شخص نے نکاح کرتے ہوئے مہر مقرر نہیں کیا اور کوئی ایسا حادثہ ہوگیا کہ اس نے ابھی بیوی کو چھوا تک نہیں تھا ‘ یعنی اس سے خلوت صحیحہ نہیں ہوئی تھی ‘ تنہائی میسر نہیں آئی تھی ‘ ایک دوسرے کی قربت بھی نہیں ملی تھی کہ اس نے طلاق دے کر اس تعلق کو توڑ ڈالا۔ اب سوال یہ ہے کہ اسے مہر ادا کرنا ہوگا یا نہیں۔ ارشاد فرمایا گیا ہے کہ مہر مقرر نہ کرنے کا تو اسے کوئی گناہ نہیں ہوگا۔ کیونکہ اگر مہر مقرر نہ کیا جائے ‘ بھول جائے یا اور کوئی پیچ پڑجائے ‘ لیکن مہر ادا کرنے کا ارادہ ہو تو نکاح ہوجاتا ہے اور بعد میں مہر مثل ادا کیا جاتا ہے۔ مہر مثل سے مراد یہ ہے کہ اس خاندان کی لڑکیوں کا عام طور پر جتنا مہر مقرر ہوتا ہے وہی مہر اسے اپنی بیوی کا ادا کرنا ہوگا۔ لیکن اب چونکہ اس نے بغیر تعلق قائم کیے طلاق دی ہے تو اگر اس نے طلاق ظلماً دی ہے تو یقینا اللہ کے یہاں اس کی جواب دہی کرنا ہوگی اور اگر لڑکی والوں کی طرف سے کوئی ایسی حرکت ہوئی ہے جس نے اسے طلاق دینے پر مجبور کردیا ہے تو پھر مواخذہ لڑکی والوں سے ہوگا۔ البتہ مہر کے بارے میں اب حکم یہ ہے کہ اس کے ذمے کوئی مہر نہیں۔ ہاں یہ بھی مناسب نہیں کہ لڑکی کو یوں ہی گھر سے روانہ کردیا جائے۔ اس سے پہلے بھی یہ بات عرض کی جا چکی ہے کہ ہمارے لیے یہ بات سمجھنا آسان نہیں۔ کیونکہ ہمارے معاشرے میں طلاق کا کوئی واقعہ لڑائی جھگڑے کے بغیر پیش نہیں آتا۔ اس میں اس بات کا امکان کہاں ہوتا ہے کہ شوہر اپنی مطلقہ کو کچھ دے دلا کے رخصت کرے۔ وہاں تو ایک معرکہ برپا ہوتا ہے ‘ اپنی جانیں بچا کر نکل جانا غنیمت سمجھا جاتا ہے ‘ لیکن قرآن کریم بار بار اس بات پر زور دیتا ہے کہ تمہیں شائستہ لوگوں کی طرح ہر کام کرنا چاہیے۔ اگر باہمی طبیعتوں کی ناموافقت کے باعث نباہ نہیں ہوسکا تو مل بیٹھ کر علیحدگی کا فیصلہ کرلیا جائے۔ اور جانبین کے بزرگ یہ طے کردیں کہ بجائے گھل گھل کے مرنے کے بہتر ہے کہ تم دونوں علیحدہ ہوجاؤ۔ ایسی صورت میں شوہر کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی بیوی کو جاتے ہوئے کچھ نہ کچھ اخراجات دے۔ وہ کتنے ہونے چاہئیں ؟ ان کی قیمت کیا ہو ؟ اس کے بارے میں فرمایا کہ شوہر اگر دولت مند ہے تو اسے اپنی حیثیت کے مطابق دینا چاہیے اور اگر وہ تنگ دست ہے تو خالی ہاتھ پھر بھی نہ بھیجے۔ حضرت حسن ( رض) کے بارے میں مورخین نے لکھا ہے کہ ایسے ہی ایک موقع پر انھوں نے اپنی مطلقہ عورت کو بیس ہزار کا عطیہ دیا اور قاضی شریح جو عرصہ دراز تک منصب قضا پر فائز رہے ہیں۔ انھوں نے ایسے ہی کسی واقعہ پر پانچ سو درہم اپنی مطلقہ کو ادا کیے۔ اور حضرت عبداللہ ابن عباس ( رض) نے فرمایا کہ سب سے ادنیٰ درجہ یہ ہے کہ شوہر اپنی مطلقہ کو کپڑوں کا ایک جوڑا دے دے۔ طلاق قبل الدخول اور مہر مقرر ہونے کی صورت میں مہر کے احکام دوسری آیت کریمہ میں جو صورت مسئلہ بیان کی گئی ہے وہ یہ ہے کہ نکاح کے وقت مہر تو مقرر کیا گیا لیکن بیوی کے ساتھ مقاربت سے پہلے شوہر نے طلاق دے دی۔ ایسی صورت میں ارشاد فرمایا گیا ہے کہ تم نے جو مہر مقرر کیا ہے ‘ تم نے چونکہ اپنی بیوی سے کوئی تعلق قائم نہیں کیا اس لیے اب تم پر مقررہ مہر کا نصف ادا کرنا لازم ہے۔ لیکن ساتھ ہی نازک جذبات کو بھی چھیڑا گیا ہے ‘ وہ یہ کہ جس خاتون کو طلاق دی گئی ہے وہ اگر ایسی حوصلہ مند اور غیرت مند ہے کہ اس نے اس طلاق کو اپنے لیے ایک دھچکا محسوس کیا ہے تو ہوسکتا ہے وہ نصف مہر لینا پسند نہ کرے اور وہ بھی شوہر کو معاف کر دے۔ یہ گویا اس بات کا اظہار ہے کہ میں نے اپنی ذات اور اپنی عزت ان ٹکوں کے لیے تمہارے حوالے نہیں کی تھی ‘ میرے پیش نظر تو زندگی کا فیصلہ تھا۔ اب جب کہ وہ سارا طلسم ٹوٹ گیا تو یہ نصف مہر لینا میرے لیے ایک بھیانک خواب ہوگا۔ اس لیے میں اسے لینے سے انکار کرتی ہوں۔ اور دوسری صورت یہ بھی ممکن ہے کہ شوہر پورا مہر ادا کر دے۔ وہ یہ سوچے کہ میں تو اس خاتون کو بیوی بنا کے لایا تھا۔ اب اگر ایسا کوئی سبب پیدا ہوگیا ہے کہ ہم دونوں اکٹھے نہیں رہ سکتے تو میں نے جو مہر دینے کا فیصلہ کیا تھا میں اس میں کمی نہیں کرنا چاہتا۔ قرآن کریم میں اس کی ترغیب دیتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ تم اگر ایسا کرو تو یہ تقویٰ کے زیادہ قریب ہے۔ تقویٰ بہت سے اوصاف کا مجموعہ ہے۔ جن میں ایک بہت اعلیٰ صفت ایثار و قربانی ہے۔ معلوم ہوتا ہے یہاں تقویٰ سے اسی کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔ کہ تمہیں ایثار و قربانی کا ثبوت دیتے ہوئے پورا مہر ادا کرنا چاہیے۔ ویسے بھی تمہاری مردانگی ‘ فتوت اور شوہر ہونے کا بھی یہ تقاضا ہے کہ تم زیادہ سے زیادہ ایثار کرنے کی کوشش کرو۔ یعفونکا مفہوم آیتِ کریمہ میں دو لفظ ایسے استعمال ہوئے ہیں جن کی طرف توجہ دینا بہت ضروری ہے۔ ایک تو یہ کہ جس طرح بیویوں کے لیے ” یعفون “ کا لفظ استعمال ہوا جس کا مطلب یہ ہے ” کہ ممکن ہے بیویوں کا جو نصف مہر اللہ نے مقرر کیا ہے وہ اسے لینے کی بجائے معاف کردیں “ چناچہ بیویوں کے لیے اس لفظ کا استعمال تو سمجھ میں آتا ہے ‘ لیکن اس کے بعد شوہر کے لیے بھی اسی لفظ کا استعمال ہوا ہے۔ حالانکہ شوہر نے تو نصف مہر ادا کرنا ہے۔ اس کی طرف سے معافی کا کیا سوال ہے ؟ بات اصل میں یہ ہے کہ عربوں میں معمول یہ تھا کہ وہ نکاح کے موقع پر ہی پورا مہر ادا کردیا کرتے تھے۔ پیش نظر صورتحال میں چونکہ شوہر پورا مہر ادا کرچکا ہے اور مقاربت سے پہلے طلاق دے دینے کے باعث اب اس کے ذمے نصف مہر کی ادئیگی ہے جب کہ بیوی پورا مہر لے چکی ہے اب شوہر کو حق ہے کہ وہ بیوی سے نصف مہر واپس لے۔ اس حوالے سے فرمایا جا رہا ہے کہ شوہر اپنا دیا ہوا نصف مہر جو لے سکتا ہے اسے بھی معاف کر دے تو یہ شوہر ہونے کی حیثیت اور فضیلت کے اعتبار سے اس کے لیے بہت بہتر ہے۔ دوسرا لفظ جو قابل توجہ ہے وہ ہے ” بِیَدِہٖ عُقْدَۃُ النِّـکَاحِ “ یہ تعبیر شوہر کے لیے اختیار کی گئی ہے کہ شوہر وہ شخصیت ہے جس کے ہاتھ میں نکاح کی گرہ ہے۔ یہ نکاح مرد کے قبول کرنے سے بندھتا ہے اور اس کے طلاق دے دینے سے کھل جاتا ہے۔ اس کا اصل سر رشتہ مرد کے ہاتھ میں دیا گیا ہے۔ یہ بات یاد رہے کہ ” بِیَدِہٖ عُقْدَۃُ النِّـکَاحِ “ کی یہ تفسیر خود رسول کریم ﷺ نے فرمائی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا : ” ولی عقدۃ النکاح الزوج “ (عقدہ نکاح کا مالک شوہر ہے) یہ حدیث دارقطنی میں بروایت عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدہ منقول ہے۔ اور حضرت علی ( رض) اور حضرت ابن عباس ( رض) سے بھی اسی طرح مروی ہے۔ (قرطبی) شوہر کے لیے یہ تعبیر ہمارے لیے لمحہ فکریہ مہیا کرتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مرد کو شوہر کی حیثیت سے یہ اختیار دیا ہے کہ اسی کے ہاتھ میں نکاح کی گرہ ہے وہ جب چاہے اسے کھول سکتا ہے اور یہ اختیار اللہ نے بیوی کو عطا نہیں کیا۔ انسانی فطرت کا خالق خوب جانتا ہے کہ عورت صنف نازک ہے جو حالات کے دبائو کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ اس میں جذبات کی فراوانی ہے۔ اس کی طبیعت میں تنوع ہے۔ ہر واقعہ سے شدید تاثر لینا اس کی طبیعت کا خاصہ ہے۔ میاں بیوی کے تعلقات میں نشیب و فراز آتے رہتے ہیں۔ ہر وقت کی یکجائی کئی ناگواریاں بھی پیدا کرتی ہے۔ مرد کو جو حوصلہ اور تحمل دیا گیا ہے اس کی وجہ سے وہ بہت سی ناگوار باتوں کو برداشت کرجاتا ہے۔ لیکن عورت ان باتوں کو برداشت کرنے کی بجائے شدت تاثر کا شکار ہو کر جذبات میں ڈوب جاتی ہے۔ اگر عقدہ نکاح اس کے ہاتھ میں دیا جاتا کہ وہ جب چاہتی طلاق دے سکتی تو یقین جانئے کسی بھی نکاح کی عمر چند دنوں سے زیادہ نہ ہوتی۔ ہر گھر میں علیحدگی کی کہانی دہرائی جاتی۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرمایا کہ عقدہ نکاح ہم نے مرد کے ہاتھ میں دیا ہے عورت کو اس اختیار سے بہرہ ور نہیں کیا۔ مغربی دنیا میں مرد و عورت کے برابری کے فریبِ نظر نے طلاق کا حق بھی بیوی کو دلا دیا۔ جس کا نتیجہ وہاں کی عدالتوں کے ریکارڈ میں دیکھا جاسکتا ہے اور مغرب کے خاندانی نظام کی تباہی اس کا نوحہ پڑھتی ہوئی سنائی دیتی ہے۔ لیکن ہمارے نام نہاد دانشور انہی کے راستے پر چلتے ہوئے ہمارے یہاں بھی عورتوں کو یہ حق دلانا چاہتے ہیں۔ اور اسی کا اثر ہے کہ ہمارے نکاح کے فارموں میں باقاعدہ یہ شق شامل کردی گئی ہے کہ ” کیا تم بیوی کو طلاق کا حق تفویض کرتے ہو یا نہیں ؟ “ اکثر لوگوں کو تفویض کا معنی نہیں آتا۔ اس لیے وہ یہ نہیں سمجھتے کہ یہاں ہم سے کیا فیصلہ کروایا جا رہا ہے ؟ اے کاش ! ہم اپنا گھر اجاڑنے سے پہلے مغرب کے خاندانی نظام کی بربادی سے کچھ سیکھ سکیں اور محض مغرب کی نقالی میں اپنے گھر کو آگ لگانے سے باز آجائیں۔
Top