Ruh-ul-Quran - An-Noor : 13
لَوْ لَا جَآءُوْ عَلَیْهِ بِاَرْبَعَةِ شُهَدَآءَ١ۚ فَاِذْ لَمْ یَاْتُوْا بِالشُّهَدَآءِ فَاُولٰٓئِكَ عِنْدَ اللّٰهِ هُمُ الْكٰذِبُوْنَ
لَوْلَا : کیوں نہ جَآءُوْ : وہ لائے عَلَيْهِ : اس پر بِاَرْبَعَةِ : چار شُهَدَآءَ : گواہ فَاِذْ : پس جب لَمْ يَاْتُوْا : وہ نہ لائے بِالشُّهَدَآءِ : گواہ فَاُولٰٓئِكَ : تو وہی لوگ عِنْدَ اللّٰهِ : اللہ کے نزدیک هُمُ الْكٰذِبُوْنَ : وہی جھوٹے
وہ لوگ اپنے الزام کے ثبوت میں چار گواہ کیوں نہ لائے، تو جب یہ لوگ گواہ نہیں لائے تو اللہ کے نزدیک وہی جھوٹے ہیں
لَوْلاَ جَآئُ وْ عَلَیْہِ بِاَرْبَعَۃِ شُھَدَآئَ ج فَاِذْلَمْ یَاْ تُوْا بِالشُّھَدَآئِ فَاُوْلٰٓئِکَ عِنْدَاللّٰہِ ھُمُ الْکٰذِبُوْنَ ۔ (النور : 13) (وہ لوگ اپنے الزام کے ثبوت میں چار گواہ کیوں نہ لائے، تو جب یہ لوگ گواہ نہیں لائے تو اللہ کے نزدیک وہی جھوٹے ہیں۔ ) شہادت ہی اصل ثبوت ہے ذہن میں اس بات کو تازہ کیجیے کہ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ( رض) ایک غلط فہمی کے باعث قافلے سے پیچھے رہ گئیں۔ حضرت صفوان ( رض) اپنے معمول کے مطابق قافلے کے بعد قافلے کے سامان کی دیکھ بھال کرتے ہوئے وہاں پہنچے۔ انھوں نے جیسے ہی آپ کو دیکھا، نہایت تاسف کا اظہار کیا، خاموشی سے قریب لا کر اونٹ بٹھایا، آپ ( رض) اس پر سوار ہوگئیں، وہ مہار پکڑ کر پیدل چلتے ہوئے قافلے تک جا پہنچے اور آپ ( رض) کو آنحضرت ﷺ کے پاس پہنچا دیا۔ جو شخص غیرجانبداری اور خالی الذہن ہو کر اس واقعہ کو دیکھے گا اسے اس میں دور دور تک کوئی ایسی بات دکھائی نہ دے گی جس سے الزام کی بو آتی ہو، اور کوئی شخص یہ سوچنے کی کبھی غلطی نہیں کرسکتا کہ حضرت عائشہ ( رض) قصداً پیچھے رہ گئی ہوں، کیونکہ آپ ( رض) کے نَعُوْذُبِاللّٰہِ مِنْ ذٰلِکَ حضرت صفوان سے کوئی تعلقات تھے۔ ایسی صورتحال میں اس واقعہ سے الزام کشید کرنا ایک مذموم اور مسموم ذہن کی کاوش تو ہوسکتی ہے اور کسی کی نہیں۔ اور ایسی کاوش کو اسی صورت میں درخوراعتنا سمجھا جاسکتا ہے جب الزام لگانے والا چار گواہوں سے اس الزام کو ثابت کرے۔ کیونکہ گواہوں کے علاوہ اس الزام کا کوئی قرینہ موجود نہیں۔ اور پھر یہ بات بھی ہے کہ سورة النساء میں ایسے الزامات کے ثبوت کے لیے چار گواہوں کی شرط پہلے سے اسلامی قانون کا حصہ بن چکی ہے۔ اس کے باوجود اگر یہ الزام لگانے والے گواہ پیش نہیں کرتے تو پھر اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے قانون کی نگاہ میں یہی لوگ جھوٹے ہیں، اور ان پر حدقذف جاری ہونی چاہیے۔ چہ جائیکہ ان کی باتوں کو سننے کے لیے دلچسپی کا اظہار کیا جائے۔
Top