Ruh-ul-Quran - An-Noor : 17
یَعِظُكُمُ اللّٰهُ اَنْ تَعُوْدُوْا لِمِثْلِهٖۤ اَبَدًا اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَۚ
يَعِظُكُمُ : تمہیں نصیحت کرتا ہے اللّٰهُ : اللہ اَنْ : کہ تَعُوْدُوْا : تم پھر کرو لِمِثْلِهٖٓ : ایسا کام اَبَدًا : کبھی بھی اِنْ كُنْتُمْ : اگر تم ہو مُّؤْمِنِيْنَ : ایمان والے
اللہ تعالیٰ تمہیں نصیحت کرتا ہے کہ دوبارہ اس قسم کی بات ہرگز نہ کرنا، اگر تم مومن ہو
یَعِظُـکُمُ اللّٰہُ اَنْ تَعُوْدُوْالِمِثْلِـہٖٓ اَبَدًا اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ ۔ وَیُبَیِّنُ اللّٰہُ لَـکُمُ الْاٰیٰتِ ط وَاللّٰہُ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ۔ (النور : 17، 18) (اللہ تعالیٰ تمہیں نصیحت کرتا ہے کہ دوبارہ اس قسم کی بات ہرگز نہ کرنا، اگر تم مومن ہو۔ اللہ تعالیٰ تمہارے لیے اپنی آیات کھول کھول کر بیان کرتا ہے اور اللہ سب کچھ جاننے والا بڑا دانا ہے۔ ) گزشتہ تین آیات کی طرح اس آیت میں بھی تنبیہ فرمائی گئی ہے اور یہ تنبیہات کا بار بار آنا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ افک کا جو واقعہ پیش آیا انسانی زندگی کے عام معمولات کے اعتبار سے وہ کوئی حیرت انگیز اور تاریخ کا پہلا واقعہ نہیں۔ اس طرح کے واقعات پیش آتے ہی رہتے ہیں اور ہر معاشرہ اپنے طریقے کے مطابق ان سے عہدہ برآ ہوتا رہتا ہے، لیکن یہ واقعہ اس لحاظ سے نہایت تکلیف دہ اور حیرت انگیز ہے کہ اس کے پیچھے یہود کی سازش کارفرما ہے اور اس کے لیے منافقین کو آلہ کار بنایا گیا ہے اور یہ جان کر اس کی خطرناکی میں اور اضافہ ہوجاتا ہے کہ اس کا نشانہ کاشانہ نبوی اور اہل بیت رسول اللہ کو بنایا گیا ہے۔ عام لوگ تو اس بات کو نہیں سمجھ سکتے، لیکن صاحب ایمان لوگ اچھی طرح جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے رسول کی دلآزاری کس قدر خطرناک نتائج کا باعث ہوسکتی ہے۔ تو اس واقعہ نے چونکہ آنحضرت ﷺ کو بےحد پریشان رکھا اس لیے اس بات کا شدید امکان ہوسکتا تھا کہ کہیں اللہ تعالیٰ کا غضب نازل ہوجاتا۔ لیکن بعض دینی مصالح کے پیش نظر اللہ تعالیٰ نے اس امت پر فضل فرمایا اور رحمت کا معاملہ کیا، اور بار بار تنبیہات کے ذریعے اچھی طرح اس بات کو واضح کردیا کہ ایسا واقعہ پھر کبھی نہیں ہونا چاہیے ورنہ ممکن ہے دوبارہ اللہ تعالیٰ کے غضب سے بچنے کی کوئی سبیل نہ ہوسکے۔ اور آیات کی وضاحت سے شاید اس بات کی طرف بھی اشارہ ہے کہ ہم نے نہایت تفصیل سے احکام بھی دے دیئے ہیں جس سے اس طرح کی صورتحال کے روکنے میں مدد مل سکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ چونکہ علیم اور حکیم ہے اس لیے اس نے انسانی فطرت کو جانتے ہوئے مناسب احکام بھی دیئے اور بار بار تنبیہات بھی فرمائیں اور چونکہ وہ حکیم ہے اس لیے اس نے اس اٹھتی ہوئی نوزائیدہ امت کو مزید سنبھلنے، منافقین کو پہچاننے اور ان کا استیصال کرنے کا موقع عطا فرمایا۔
Top