Ahsan-ut-Tafaseer - Al-Kahf : 41
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ١ؕ وَ مَنْ یَّتَّبِعْ خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ فَاِنَّهٗ یَاْمُرُ بِالْفَحْشَآءِ وَ الْمُنْكَرِ١ؕ وَ لَوْ لَا فَضْلُ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ وَ رَحْمَتُهٗ مَا زَكٰى مِنْكُمْ مِّنْ اَحَدٍ اَبَدًا١ۙ وَّ لٰكِنَّ اللّٰهَ یُزَكِّیْ مَنْ یَّشَآءُ١ؕ وَ اللّٰهُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : وہ لوگ جو ایمان لائے (مومنو) لَا تَتَّبِعُوْا : تم نہ پیروی کرو خُطُوٰتِ : قدم (جمع) الشَّيْطٰنِ : شیطان وَمَنْ : اور جو يَّتَّبِعْ : پیروی کرتا ہے خُطُوٰتِ : قدم (جمع) الشَّيْطٰنِ : شیطان فَاِنَّهٗ : تو بیشک وہ يَاْمُرُ : حکم دیتا ہے بِالْفَحْشَآءِ : بےحیائی کا وَالْمُنْكَرِ : اور بری بات وَلَوْلَا : اور اگر نہ فَضْلُ اللّٰهِ : اللہ کا فضل عَلَيْكُمْ : تم پر وَرَحْمَتُهٗ : اور اس کی رحمت مَا زَكٰي : نہ پاک ہوتا مِنْكُمْ : تم سے مِّنْ اَحَدٍ : کوئی آدمی اَبَدًا : کبھی بھی وَّلٰكِنَّ : اور لیکن اللّٰهَ : اللہ يُزَكِّيْ : پاک کرتا ہے مَنْ يَّشَآءُ : جسے وہ چاہتا ہے وَاللّٰهُ : اللہ سَمِيْعٌ : سننے والا عَلِيْمٌ : جاننے والا
اے وہ لوگو، جو ایمان لائے ہو شیطان کے نقوش قدم کی پیروی نہ کرو، اور جو شخص شیطان کے نقوش قدم کی پیروی کرتا ہے تو وہ یاد رکھے کہ شیطان ہمیشہ بےحیائی اور برائی کی راہ دکھاتا ہے اور اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو تم میں سے کوئی بھی کبھی پاک نہ ہوسکتا لیکن اللہ ہی ہے وہ جس کو چاہتا ہے پاک کرتا ہے اور اللہ سننے والا جاننے والا ہے
یٰٓاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ ط وَمَنْ یَّتَّبِعُ خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ فَاِنَّـہٗ یَاْمُرُ بِالْفَحْشَآئِ وَالْمُنْکَرِ ط وَلَوْلاَ فَضْلُ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَتُـہٗ مَازَکیٰ مِنْکُمْ مِّنْ اَحَدٍ اَبَدًا لا وَّلٰـکِنَّ اللّٰہَ یُزَکِّیْ مَنْ یَّشَآئُ ط وَاللّٰہُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ۔ (النور : 21) (اے وہ لوگو، جو ایمان لائے ہو شیطان کے نقوش قدم کی پیروی نہ کرو، اور جو شخص شیطان کے نقوش قدم کی پیروی کرتا ہے تو وہ یاد رکھے کہ شیطان ہمیشہ بےحیائی اور برائی کی راہ دکھاتا ہے اور اگر تم پر اللہ کا فضل اور اس کی رحمت نہ ہوتی تو تم میں سے کوئی بھی کبھی پاک نہ ہوسکتا لیکن اللہ ہی ہے وہ جس کو چاہتا ہے پاک کرتا ہے اور اللہ سننے والا جاننے والا ہے۔ ) خُطُوٰتِ ، خُطُوَۃٌ کی جمع ہے۔ دو قدموں کے درمیان کی جگہ کو کہتے ہیں، یہ مصدر نہیں بلکہ اسم ہے۔ برائی کا سرچشمہ کسی پر تہمت لگانا، بہتان باندھنا، بےحیائی کو عام کرنے اور فروغ دینے کی ایک کوشش ہے۔ اسی سے عزتیں پامال ہوتی ہیں، باہمی تعلقات مجروح ہوتے اور ملی شیرازہ منتشر ہوجاتا ہے۔ اس پر مناسب تنبیہات کے بعد پیش نظر آیت کریمہ میں یہ فرمایا گیا ہے کہ جب بھی کہیں کوئی ایسا کام ہوتے دیکھو تو سمجھ لو کہ یہ شیطان کی کارکردگی کا نتیجہ ہے۔ وہ مسلمانوں میں ایسے حالات پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے جس سے مسلمانوں کے اخلاقی تفوق کو نقصان پہنچے۔ اور اللہ تعالیٰ کی بندگی اور رسول اللہ ﷺ کی اطاعت جو مسلمان کا اصل زیور ہے اس میں کمزوری آئے۔ اس لیے قطع نظر اس سے کہ واقعہ افک منافقین کی سازشوں اور کاوشوں سے پیش آیا۔ اس لیے ان پر گہری نگاہ رکھنا ضروری ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ اس سے بھی زیادہ ضروری بات یہ ہے کہ اپنے اندر اور اپنی صفوں میں شیطانی اثرات کا جائزہ لیا جائے۔ منافقین تو اپنی کوششوں میں پہچانے بھی جاتے ہیں اور بعض دفعہ ان کی حرکتیں خود اپنا پردہ فاش کردیتی ہیں، لیکن شیطانی وساوس دکھائی نہیں دیتے۔ لوگ اس کے نقوش قدم پر چلتے ہیں لیکن انھیں یہ احساس نہیں ہوتا کہ یہ شیطان کے نقوش قدم ہیں۔ ایک مومن کی اصل فراست یہ ہے کہ وہ شیطان کی تزویرات کو پہچاننے کی کوشش کرے۔ ایک لطیف تنبیہ آیت کے دوسرے حصہ میں وہ بات ارشاد فرمائی گئی ہے جو پہلی بات کا نتیجہ کہی جاسکتی ہے۔ اس کا حاصل یہ ہے کہ جن لوگوں نے منافقین کی اڑائی ہوئی باتوں کو بےاحتیاطی سے قبول کرلیا اور یہ سنی سنائی باتیں اپنی زبانوں سے کہنے لگے، انھوں نے دراصل اس بات کا گمان کرلیا کہ مسلمانوں کا ہر مرد و عورت برائی میں ملوث ہوسکتا ہے لیکن ہم ملوث نہیں ہوسکتے۔ وہ اپنے بارے میں صرف حُسنِ ظن ہی نہیں بلکہ ایک طرح کا اِدّعا بھی رکھتے ہیں کہ ہم کسی حالت میں برائی کی گرفت میں نہیں آسکتے۔ انھیں یہ کہا جارہا ہے کہ تمہیں اگر اللہ تعالیٰ نے آج تک کسی برائی میں مبتلا ہونے سے بچایا ہے تو یہ سراسر اس کا فضل اور اس کی رحمت ہے۔ ورنہ شیطانی وساوس اس قدر خطرناک اور اس کی تدبیریں اتنی باریک ہیں کہ آدمی اگر توفیقِ ایزدی سے بہرہ ور نہ ہو تو وہ کبھی بھی پاک رہنے کا دعویٰ نہیں کرسکتا۔ اس کے قدم کسی وقت بھی لغزش کا شکار ہوسکتے ہیں، اس کی نیت میں کسی وقت بھی فتور آسکتا ہے۔ شیطان ایسا گرگ باراں دیدہ ہے کہ اس کی فریب کاریوں سے بچنا اللہ تعالیٰ کی حفاظت کے بغیر ممکن نہیں۔ بڑے سے بڑا زاہد ایک رات میں لٹ سکتا ہے اور بڑے سے بڑا مجرم اگر اللہ تعالیٰ کی توفیق دستگیری کرے تو نوازا جاسکتا ہے۔ اس لیے کسی شخص کو بھی اپنے تقویٰ اور تزکیہ کا اتنا غرّہ نہیں ہونا چاہیے کہ وہ دوسروں کے معاملے میں ہر قسم کی باتیں بےتحقیق قبول کرنے لگے۔ کسی شخص کو یہ کبھی نہیں بھولنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ ہر بات کو سنتا اور ہر بات کو جانتا ہے۔ زبانیں جو کچھ اگلتی ہیں وہ انھیں سنتا ہے، دل میں جو چور پلتے ہیں، وہ انھیں جانتا ہے۔
Top