Ruh-ul-Quran - An-Noor : 2
اَلزَّانِیَةُ وَ الزَّانِیْ فَاجْلِدُوْا كُلَّ وَاحِدٍ مِّنْهُمَا مِائَةَ جَلْدَةٍ١۪ وَّ لَا تَاْخُذْكُمْ بِهِمَا رَاْفَةٌ فِیْ دِیْنِ اللّٰهِ اِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ١ۚ وَ لْیَشْهَدْ عَذَابَهُمَا طَآئِفَةٌ مِّنَ الْمُؤْمِنِیْنَ
اَلزَّانِيَةُ : بدکار عورت وَالزَّانِيْ : اور بدکار مرد فَاجْلِدُوْا : تو تم کوڑے مارو كُلَّ وَاحِدٍ : ہر ایک کو مِّنْهُمَا : ان دونوں میں سے مِائَةَ جَلْدَةٍ : سو کوڑے وَّلَا تَاْخُذْكُمْ : اور نہ پکڑو (نہ کھاؤ) بِهِمَا : ان پر رَاْفَةٌ : مہربانی (ترس) فِيْ : میں دِيْنِ اللّٰهِ : اللہ کا حکم اِنْ : اگر كُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ : تم ایمان رکھتے ہو بِاللّٰهِ : اللہ پر وَالْيَوْمِ الْاٰخِرِ : اور یوم آخرت وَلْيَشْهَدْ : اور چاہیے کہ موجود ہو عَذَابَهُمَا : ان کی سزا طَآئِفَةٌ : ایک جماعت مِّنَ : سے۔ کی الْمُؤْمِنِيْنَ : مومن (جمع) مسلمان
زنا کرنے والی عورت اور زنا کرنے والا مرد ان میں سے ہر ایک کو سو کوڑے مارو اور ان پر ترس کھانے کا جذبہ اللہ تعالیٰ کے دین کے معاملے میں تم کو دامن گیر نہ ہو، اگر تم اللہ تعالیٰ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہو، اور چاہیے کہ ان کو سزا دیتے وقت اہل ایمان کا ایک گروہ موجود رہے
اَلزَّانِیَۃُ وَالزَّانِیْ فَاجْلِدُوْا کُلَّ وَاحِدٍ مِّنْـہُمَا مِائَۃَ جَلْدَۃٍ ص وَّلاَ تَاْخُذْکُمْ بِھِمَا رَاْفَـۃٌ فِیْ دِیْنِ اللّٰہِ اِنْ کُنْـتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ ج وَلْیَشْھَدْ عَذَابَھُمَا طَـآئِفَۃٌ مِّنَ الْمُؤْمِنِیْنَ ۔ (النور : 2) (زنا کرنے والی عورت اور زنا کرنے والا مرد ان میں سے ہر ایک کو سو کوڑے مارو اور ان پر ترس کھانے کا جذبہ اللہ تعالیٰ کے دین کے معاملے میں تم کو دامن گیر نہ ہو، اگر تم اللہ تعالیٰ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتے ہو، اور چاہیے کہ ان کو سزا دیتے وقت اہل ایمان کا ایک گروہ موجود رہے۔ ) زنا کی سزا اسلامی معاشرے کو ہر طرح کے شیطانی اثرات سے محفوظ رکھنے کے لیے جس طرح تعلیمِ کتاب و حکمت اور تزکیہ نفوس کا اہتمام کیا گیا ہے اسی طرح انسانوں کی جان مال اور عزت و عصمت کی حفاظت کے لیے ایسے قوانین نافذ کیے ہیں جس سے امکانی حد تک انسانی جان و مال اور ناموس کی حفاظت ہوجاتی ہے۔ اسلامی قانون کی رو سے اگر کوئی شخص کسی کی جان کو تلف کرتا ہے تو اس سے قصاص لیا جاتا ہے اور اگر کسی کے مال پر دست اندازی کرتا ہے تو اسے قطع ید کی سزا دی جاتی ہے اور اگر کوئی شخص کسی کی عزت و ناموس کو داغدار کرتا ہے تو اسے دروں یا رجم کی سزا دی جاتی ہے۔ اسلام نے اپنی سزائوں میں دو باتوں کو بہت اہمیت دی ہے۔ پہلی یہ بات کہ مجرم نے جو جرم کیا ہے اس جرم کی نوعیت، شناعت اور اثراندازی کے مطابق اسے سزا دی جائے۔ اور دوسری یہ بات کہ جن لوگوں میں جرائم کے ارتکاب کا میلان پایا جاتا ہے وہ اس خوفناک سزا سے ڈر کر جرم کے ارتکاب کی جرأت نہ کریں اور یہ سزا ایسی عبرت کا سامان بن جائے کہ لوگ ہمیشہ اسے یاد رکھیں۔ ان جرائم میں زنا ایک ایسا ہی جرم ہے، اس آیت کریمہ میں ایسی ہی سزا تجویز کی گئی ہے۔ جرمِ زنا کی سنگینی زنا کی تعریف میں فقہی بحثوں سے قطع نظر جو عام بات کہی جاسکتی ہے اور جسے سب تسلیم کرتے ہیں وہ یہ ہے کہ زنا یہ ہے کہ ایک مرد اور ایک عورت بغیر اس کے کہ ان کے درمیان جائز رشتہ زن و شو ہو، باہم مباشرت کا ارتکاب کریں۔ اور یہ ایسا جرم ہے جس کی شناعت اور برائی تمام مذاہب اور تمام معاشروں میں مسلم رہی ہے۔ بجز تاریخ کے ان ادوار کے جس میں محدود طور پر بعض غلط قسم کے نام نہاد مصلحین نے انسانی معاشرت کے اصولوں کو بگاڑا جن میں مانی اور مزدک کے نام معروف ہیں اور قریبی تاریخ میں ڈاکٹر فرائڈ میں ان کا وکیل گزرا ہے، ورنہ انسانوں میں بڑی بڑی قباحتیں پیدا ہوئیں اور اقدارِ انسانیت میں عجیب و غریب تبدیلیاں عمل میں آئیں، لیکن جہاں کہیں بھی مذہب اور اخلاق کی روح زندہ رہی ہے زنا کو انتہائی مکروہ فعل سمجھا گیا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ انسانی فطرت خود زنا کی حرمت کا تقاضا کرتی ہے۔ نوعِ انسانی کی بقا اور انسانی تمدن کا قیام دونوں اس بات پر منحصر ہیں کہ عورت اور مرد محض لطف اور لذت کے لیے ملنے اور پھر الگ ہوجانے میں آزاد نہ ہوں بلکہ یہ انتہائی نازک اور پرائیویٹ تعلق مرد اور عورت میں اس وقت پیدا ہونا چاہیے جب وہ اس عہد وفا کو ان بنیادوں پر استوار کریں جو ایک مہذب اور محتاط معاشرے میں معلوم و معروف ہوں۔ اگر اس نازک تعلق کو کسی عہد وفا کی استواری اور کسی ذمہ داری کے احساس کے بغیر کھلا چھوڑ دیا جائے تو پھر انسان اور حیوان میں بنیادی فرق باقی نہیں رہ جاتا۔ حیوان مذکر و مونث کے فرق کے ساتھ ایک دوسرے سے ملتے ہیں ان میں بھی توالد اور تناسل کا سلسلہ چلتا ہے لیکن ان میں کوئی بھی اولاد کی ذمہ داریوں کو قبول کرنے اور تمدن کے بنائو سنوار کے احساس سے بہرہ ور نہیں ہوتا۔ ایک جنسی ضرورت ہے جو انھیں ایک دوسرے کے قریب لاتی ہے اور پھر انھیں الگ کردیتی ہے۔ اس کے نتیجہ میں ایک جنگل کا ماحول اور جنگل کی زندگی پیدا ہوتی ہے لیکن تہذیب و تمدن کا نام تک نہیں ہوتا۔ انسان کا اپنی فطرت اور مقصد کے حوالے سے تہذیب اور تمدن سے گہرا رشتہ ہے بلکہ یہی اس کی بنیاد ہے۔ یہ اگر جنسی میلانات کے اعتبار سے حیوانی سطح پر اتر جاتا ہے تو تمدن اور تہذیب کو جو نقصان پہنچتا ہے وہ تو الگ ہے خود نسل انسانی بنیادی خصوصیات سے محروم ہوجاتی ہے۔ انسان کا بچہ ایک خاص عمر تک ماں کی مامتا اور باپ کی شفقت کا شدت سے محتاج ہوتا ہے۔ ممکن ہے اس کی جسمانی دیکھ بھال اور اس کی ضروریات کی فراہمی سٹیٹ سرانجام دے سکے لیکن اس کی ذہنی نشو و نما موسم کے شدائد سے بچائو ناموافق ماحول اور غلط صحبت کے اثرات سے تحفظ اور اس کے ذہنی میلان کے مطابق درجہ بدرجہ اور عہد بعہد رہنمائی سٹیٹ انجام نہیں دے سکتی، اس کے لیے گہری دلسوزی، ہمدردی، شفقت، محبت بلکہ جان سوزی کی ضرورت ہے جو صرف اللہ تعالیٰ نے والدین میں رکھی ہے۔ زنا کا جواز اور ان بندھنوں کا ٹوٹ جانا جو اس فعل بد کے راستے میں حائل ہیں انسانیت کے لیے ایک ایسی کاری ضرب ہے جس کے زخموں سے انسانیت کو کبھی اندمال نصیب نہیں ہوتا۔ اس لیے اسلام نے اسے فوجداری جرم بنانے سے پہلے ان تمام سوتوں کو بند کرنے کی کوشش کی ہے جہاں سے جنس کو آوارگی کی غذا ملتی ہے۔ حدود سے اسلام کا منشا درحقیقت اسلام کا منشا یہ نہیں ہے کہ لوگ اس جرم کا ارتکاب کرتے رہیں اور شب و روز ان پر کوڑے برسانے کے لیے ٹکٹکیاں لگی رہیں بلکہ وہ یہ چاہتا ہے کہ انسان کو اتنا مہذب اور اتنا متقی بنادیا جائے کہ حتی الامکان اس جرم کا ارتکاب نہ ہونے پائے۔ اس لیے وہ سب سے پہلے آدمی کے نفس کی اصلاح کرتا ہے۔ اس کے دل میں عالم الغیب اور ہمہ گیر طاقت کے مالک خدا کا خوف بٹھاتا ہے۔ اسے آخرت کی بازپرس کا احساس دلاتا ہے جس سے مر کر بھی آدمی کا پیچھا نہیں چھوٹ سکتا۔ اس میں قانونِ الٰہی کی اطاعت کا جذبہ پیدا کرتا ہے جو ایمان کا لازمی تقاضا ہے۔ پھر اسے متنبہ کرتا ہے کہ بےحیائی اور بدکاری ان بڑے گناہوں میں سے ہے جن پر اللہ تعالیٰ سخت بازپرس فرمائے گا، لیکن پروردگار سے بڑھ کر کون جانتا ہے کہ اس نے انسان کے نظم و ضبط میں کمزوریاں بھی رکھی ہیں اور یہی اس کے امتحان کا باعث بھی ہیں۔ ان کمزوریوں کا لحاظ کرتے ہوئے وہ ہر مومن کو نکاح کا حکم دیتا ہے اور پھر اس کے لیے ممکن آسانیاں پیدا کرتا ہے۔ مغرب نے اسے سمجھنے کی کوشش نہیں کی، اس لیے وہ اعتراض کرتا ہے ورنہ حقیقت میں تطہیر کے اس عمل کا یہ حصہ ہے۔ چناچہ یہی وجہ ہے کہ اگر ایک بیوی سے تسکین نہ ہو تو اسلام چار چار تک سے جائز تعلق کا موقع دیتا ہے۔ میاں بیوی میں سازگاری پیدا نہ ہو تو رنجھ رنجھ کر مرنے کی بجائے مرد کے لیے طلاق اور عورت کے لیے خلع کی سہولتیں بہم پہنچاتا ہے اور ناموافقت کی صورت میں خاندانی پنچایت سے لے کر سرکاری عدالت تک سے رجوع کا راستہ کھول دیتا ہے تاکہ یا تو مصالحت ہوجائے اور یا پھر زوجین ایک دوسرے سے آزاد ہو کر جہاں مناسب سمجھیں نکاح کرلیں۔ اسی طرح اس نے مردوں اور عورتوں کے بن بیا ہے بیٹھے رہنے کو ناپسند کیا ہے اور ساتھ ہی حکم دیا ہے کہ ایسے لوگوں کے نکاح کردیئے جائیں۔ وہ معاشرے سے ان اسباب کا خاتمہ کردیتا ہے جو زنا کے محرکات سمجھے جاتے ہیں اور جن کی متعدد شکلیں ہیں اور ہر مہذب اور صالح معاشرہ انھیں پہچانتا ہے۔ البتہ وہ معاشرہ جو جنسی آلودگیوں میں بری طرح لت پت ہوگیا ہو اس کے لیے بڑے سے بڑا محرک بھی فنون لطیفہ کا ایک ورق ہوتا ہے۔ مزید ہم دیکھتے ہیں کہ اس نے نبی کریم ﷺ کے گھر کو نمونے کا گھر قرار دیتے ہوئے بنائو سنگھار کی پابندی لگائی، گھر میں وقار اور سکینت سے رہنے کا حکم دیا، نقاب اور حجاب کو لازم ٹھہرایا، عورتوں اور مردوں کی مخلوط معاشرت پر پابندی لگا دی گئی، عورت کے بن سنور کر باہر نکلنے کو روک دیا گیا۔ ان تفصیلات کو دیکھتے ہوئے آسانی سے یہ بات سمجھی جاسکتی ہے کہ اسلام اپنی اصلاحی کوششوں سے پہلے اپنے معاشرے کو سفلی جذبات اور بےہودہ محرکات سے صاف کرتا ہے اور تربیت کے زور سے دلوں میں اللہ تعالیٰ کا تقویٰ پیدا کرتا ہے، لیکن اگر اس کے بعد بھی کوئی جوڑا حرام فعل کا ارتکاب کرتا ہے اور وہ بھی اس قدر جسارت کے ساتھ کہ موقع پر چار گواہ اسے دیکھ لیتے ہیں تو پھر اس کے لیے وہ سزا مقرر کی گئی ہے جسے اس آیت میں بیان کیا گیا ہے۔ اسلام اور دیگر مذاہب میں اس جرم کی حقیقت میں فرق ایک اور بات بھی ذہن میں رہنی چاہیے کہ اسلام نے عورت اور مرد کے ہر ناجائز تعلق کو جو مباشرت پر منتج ہوتا ہے زنا قرار دیا ہے، قطع نظر اس سے کہ دونوں کنوارے ہوں یا شادی شدہ ہوں یا ان میں سے ایک کنوارہ ہو اور ایک متزوج ہو اور یہ حرکت باہمی رضا مندی سے ہو یا بالجبر ہو، ہر صورت میں یہ فعلِ بد اللہ تعالیٰ کی قائم کردہ حد سے تجاوز اور انسانی نسب اور تمدن کو تباہ و برباد کردینے کی ایک کوشش ہے جسے اسلام کسی طور برداشت نہیں کرتا۔ اس لیے وہ ہر صورت میں اس فعل کو قانوناً مستلزم سزا قرار دیتا اور اسے فوجداری جرم ٹھہراتا ہے۔ لیکن باقی مذاہب اور معاشروں نے تھوڑے سے فرق کے ساتھ اس جرم کی شناعت اور اس کے مستلزم سزا ہونے سے اختلاف کیا ہے۔ اگر ایک مرد اور عورت باہمی رضامندی سے منہ کالا کرتے ہیں تو مغرب تو اسے جدید تہذیب کی علامت قرار دیتا ہے یا زیادہ سے زیادہ اسے جوانی کی خوش فعلیوں میں شمار کرتا ہے۔ البتہ دوسرے مذاہب اور معاشرے اسے کسی حد تک ایک غلط کام تو سمجھتے ہیں لیکن اس کے لیے کسی سزا کو تجویز کرنا مناسب نہیں سمجھتے۔ البتہ ان کے یہاں اگر کوئی فعل مستلزمِ سزا ہوسکتا ہے تو وہ یا تو یہ ہے کہ کوئی شخص کسی کی بیوی سے یہ حرکت کرے تو اس کے لیے مختلف قوانین میں مختلف سزائیں رکھی گئی ہیں، تو اس کا سبب یہ نہیں ہے کہ زنا کیوں کیا گیا بلکہ اس کا سبب یہ ہے کہ جس کی بیوی سے حرکت کی گئی ہے اس کا استحقاق مجروح ہوا اور اسے نقصان پہنچایا گیا ہے اور نقصان کی مختلف صورتیں ہوسکتی ہیں اور یا پھر زنا کی وہ صورت مستلزم سزا ہے جس میں کسی مرد نے عورت کے ساتھ جبراً یہ حرکت کی ہو تو اس میں بھی قابل گرفت چیز زنا نہیں بلکہ جبر ہے لیکن اسلامی قانون جیسا کہ میں واضح کرچکا ہوں ان سب تصورات کے برعکس زنا کو بجائے خود ایک جرم مستلزمِ سزا قرار دیتا ہے، اور شادی شدہ ہو کر زنا کرنا اس کے نزدیک جرم کی شدت کو اور زیادہ بڑھا دیتا ہے۔ اس کا سبب یہ نہیں کہ مجرم نے کسی سے عہد شکنی کی یا کسی دوسرے کے بستر پر دست درازی کی ہے بلکہ اس کا سبب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے خواہشات کو پورا کرنے کا جائز ذریعہ مہیا کیا تھا، اس کے باوجود اس نے ناجائز راستہ اختیار کیا۔ اسلامی قانون زنا کو اس نقطہ نظر سے دیکھتا ہے کہ یہ وہ فعل ہے جس کی اگر آزادی ہوجائے تو ایک طرف نوع انسانی کی اور دوسری طرف تمدن انسانی کی جڑ کٹ جاتی ہے۔ اس جرم کی شدت اور زہرناکی کی وجہ سے پیش نظر آیت کریمہ میں قانونی انداز میں اس کی سزا کا ذکر فرمایا جارہا ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ قرآن کریم کا عام اسلوب یہ ہے کہ وہ عورتوں کے مخصوص احکام کے علاوہ وہ احکام جو مرد و عورت دونوں کے لیے مشترک ہیں ان کے لیے براہ راست مردوں سے خطاب کرتا ہے، عورتوں کا ذکر اس کے تابع سمجھا جاتا ہے اور یا کہیں کہیں کسی غلط فہمی کو دور کرنے کے لیے مردوں اور عورتوں دونوں کا ذکر فرمایا گیا ہے لیکن اس صورت میں بھی مردوں کا ذکر مقدم ہوتا ہے اور عورتوں کا مؤخر۔ ایسی کوئی مثال قرآن کریم میں نہیں ملتی جہاں عورتوں کا ذکر مردوں سے پہلے ہو حتیٰ کہ حدسرقہ میں بھی مرد چوری کرنے والے کا ذکر پہلے ہے اور عورت کا بعد میں۔ عام معمول سے ہٹ کر عورتوں سے خطاب کی وجہ لیکن پیش نظر آیت کریمہ میں زانیہ کا ذکر پہلے آیا ہے اور زانی کا بعد میں۔ اس کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ جس طرح مرد کو اللہ تعالیٰ نے کسب اور اکتساب اور حصول معاش کے کثیر مواقع عطا کیے ہیں اس کے باوجود بھی اگر وہ چوری کرتا ہے تو یہ بہت سنگین معاملہ ہے اس لیے اس کی چوری کا ذکر پہلے فرمایا گیا۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ نے عورت میں حیاء اور شرم و حیاء کا مادہ مرد کی نسبت بہت زیادہ رکھا ہے۔ پھر حجاب اور نقاب کی پابندیوں اور گھروں میں پردہ نشیں رہنے کے باعث بگاڑ کے اسباب مرد کی نسبت کم ہوتے ہیں۔ باایں ہمہ عورت اگر ایسے مکروہ فعل کا ارتکاب کرتی ہے تو یہ اس کی فطرت، اس کے ماحول اور اس کے مخصوص حالات کی وجہ سے ایک بڑا سنگین مسئلہ بن جاتا ہے۔ اس بناء پر پروردگار نے اس کی سزا کا ذکر پہلے فرمایا ہے۔ زنا کی سزا کے حکم میں تدریج سورة النور کے نازل ہونے سے پہلے سورة النساء میں زنا کی برائی کا ذکر فرمایا گیا ہے۔ وہاں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ عورت کا ذکر پہلے ہے اور مرد کا بعد میں۔ اور دوسری یہ بات کہ وہاں اس جرم کو فوجداری جرم قرار نہیں دیا گیا بلکہ اس کی حیثیت ایک معاشرتی یا خاندانی جرم کی تھی جس پر اہل خاندان ہی کو بطور خود سزا دینے کا اختیار دیا گیا تھا۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہنا چاہیے کہ جس طرح حرمت خمر کا حکم تین مراحل میں بتدریج نازل ہوا، اسی طرح زنا کے احکام بھی تین مراحل میں مکمل ہوئے۔ سورة النساء کا حکم نسبتاً ہلکا تھا اور اسے قانونی جرم قرار نہیں دیا گیا تھا کہ قانون اسے اپنی گرفت میں لیتا اور عدالت اسے سزا دیتی۔ لیکن سورة النور کے نازل ہونے کے بعد اسے قانونی جرم بنادیا گیا اور فوجداری جرم قرار دیتے ہوئے قابل دست اندازیِ سرکار قرار دے دیا گیا، لیکن سورة النساء ہی کی وہ آیت جس میں سب سے پہلے زنا پر سزا تجویز کی گئی ہے اگر اسی سلسلہ آیات کو مسلسل پڑھا جائے تو فَاِذَا اُحْصِنَّ فَاِنَّ اَ تَیْنَ بِفَاحِشَۃٍ فَعَلَیْھِنَّ نِصْفُ مَا عَلَی الْمُحْصَنَاتِ مِنَ الْعَذَابِ یعنی جب لونڈیاں قید نکاح میں آجائیں اور پھر اگر وہ زنا کریں تو ان کی سزا آزاد عورت کی سزا سے نصف ہوگی۔ اس سے یہ اشارہ نکلتا ہے کہ پیش نظر آیت کریمہ میں غیرشادی شدہ لوگوں کے ارتکابِ زنا کی سزا بیان کی گئی ہے اور یہ وہی سزا ہے جس کا وعدہ سورة النساء کی محولہ بالا آیت کریمہ میں کیا گیا تھا۔ اور حضرت عبداللہ ابن عباس ( رض) کی روایت سے واضح طور پر اس کی تائید ہوتی ہے۔ چناچہ سورة النور کے نزول کے بعد یوں کہنا چاہیے کہ زنا کے تصور اور اس کی سزا کے دو مراحل مکمل ہوگئے، جن میں پہلا مرحلہ منسوخ ہوگیا، کیونکہ اب زنا کو قانونی جرم بنادیا گیا اور خاندان اور معاشرے پر جو ذمہ داری ڈالی گئی تھی وہ ریاست اور حکومت کے سپرد کردی گئی۔ سزا کے تیسرے مرحلے کا ثبوت سنت ثابتہ سے البتہ تیسرا مرحلہ ابھی باقی تھا وہ یہ کہ اگر کوئی غیرشادی شدہ مرد اور عورت اس مکروہ فعل کا ارتکاب کرتے ہیں تو انھیں تو سو سو کوڑے لگائے جائیں گے لیکن اگر شادی شدہ جوڑا یہ حرکت کرتا ہے تو اس کی سزا کیا ہوگی ؟ اس کا جواب قرآن کریم کے ذریعے نہیں بلکہ اس ذات عزیز کی زبان سے پروردگار نے دیا ہے جس پر قرآن کریم نازل ہوا ہے، کیونکہ قرآن کریم کے الفاظ جو قانونی وزن رکھتے ہیں وہی قانونی وزن اس تشریح کا بھی ہے جو نبی کریم ﷺ کے قول و عمل سے منصہ شہود پر آتی ہے۔ بشرطیکہ آپ ﷺ کی تشریح معتبر ذرائع سے امت تک پہنچی ہو۔ جس نے بھی قرآن کریم کو گہری نظر سے پڑھا ہے اور اللہ تعالیٰ نے اسے فہمِ دین سے کچھ بھی حصہ عطا فرمایا ہے وہ اس بنیادی حقیقت سے انکار نہیں کرسکتا، کیونکہ اگر اس کا انکار کردیا جائے اور یہ کہا جائے کہ یہ قرآن کریم پر اضافہ ہے اللہ تعالیٰ کی کتاب پر کسی طرح کا بھی اضافہ حدیث اور سنت سے نہیں کیا جاسکتا تو یہ محض الفاظ کی شعبدہ بازی ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو اپنی کتاب کا مبین اور شارح قرار دیا ہے اور کسی ٹیکسٹ کی شرح اور وضاحت وہی حیثیت رکھتی ہے جو ٹیکسٹ کے اصل متن کی ہوتی ہے اور قرآن کریم میں اس کی مثالیں جابجا بکھری ہوئی ہیں۔ مثلاً قرآن کریم نے چوری کی سزا قطع ید کے مطلق الفاظ میں ذکر فرمائی۔ آنحضرت ﷺ کی تشریحات نے اسے قابل عمل صورت دی اور اگر ان تشریحات کو قبول نہ کیا جائے تو پھر ان الفاظ کی عمومیت کا تقاضا یہ ہے کہ ایک سوئی یا ایک بیر کی چوری پر بھی کسی آدمی کو سارق قرار دے کر شانے کے پاس سے اس کا ہاتھ کاٹ دیا جائے۔ دوسری طرف لاکھوں روپے کی چوری کرنے والا بھی اگر گرفتار ہوتے ہی کہہ دے کہ میں نے اپنے نفس کی اصلاح کرلی ہے اور اب میں چوری سے توبہ کرتا ہوں تو اسے چھوڑ دیا جائے کیونکہ قرآن کریم میں ارشادِ خداوندی ہے فَمَنْ تَابَ مِنْ م بَعْدِظُلْمِہٖ وَاَصْلَحَ فَاِنَّ اللّٰہَ یَتُوْبُ عَلِیْہِ (پس جس شخص نے توبہ کرلی چوری کا ظلم کرنے کے بعد اور اپنی اصلاح کرلی تو بیشک اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول کرے گا) اسی طرح قرآن کریم صرف رضاعی ماں اور رضاعی بہن کی حرمت بیان کرتا ہے اور رضاعی بیٹی کی حرمت آنحضرت ﷺ نے بیان فرمائی ہے۔ اور آج تمام امت اسے حتمی سمجھتی ہے۔ اسی طرح قرآن صرف دو بہنوں کو جمع کرنے سے منع کرتا ہے۔ خالہ اور بھانجی اور پھوپھی اور بھتیجی کے جمع کرنے کو آنحضرت ﷺ نے حرام قرار دیا۔ لیکن آج کوئی شخص بھی اسے قرآن کریم کے خلاف قرار نہیں دیتا۔ قرآن صرف اس حالت میں سوتیلی بیٹی کو حرام کرتا ہے جب اس نے سوتیلے باپ کے گھر میں پرورش پائی ہو، لیکن آنحضرت ﷺ کی تشریح نے یہ بات واضح کی کہ پرورش پانے کی قید اتفاقی ہے، احترازی نہیں۔ قرآن کریم صرف اس وقت رہن کی اجازت دیتا ہے جبکہ آدمی سفر میں ہو اور قرض کی دستاویز لکھنے والا کاتب میسر نہ آئے جبکہ آج شریعت میں حضر میں اور کاتب کے قابل حصول ہونے کی صورت میں رہن کو جائز رکھا جاتا ہے اور یہ صرف اس لیے کہ آنحضرت ﷺ کی تشریح نے اس کو واضح کیا۔ یہ صرف چند مثالیں ہیں جس سے اندازہ ہوجاتا ہے کہ آنحضرت ﷺ کی تشریح کی کیا حیثیت ہے اور نظام شریعت میں اللہ تعالیٰ کے رسول کا یہ منصب مسلمہ ہے کہ وہ خدا کا حکم پہنچانے کے بعد اس کے حکم کا منشاء واضح کرتا ہے اور اس پر عمل کرنے کا طریقہ بتاتا ہے اور یہ بات بھی واضح کرتا ہے کہ کن معاملات میں اس کا اطلاق ہوگا اور کن معاملات کے لیے دوسرا حکم ہے۔ اس منصب کا انکار دراصل اپنے اندر اتنی عملی قباحتیں رکھتا ہے جس کا کوئی شمار نہیں ہوسکتا۔ چناچہ آنحضرت ﷺ نے شادی شدہ مرد و عورت کے لیے رجم کی سزا مقرر فرمائی۔ اس کا حکم بھی دیا اور اپنے عمل سے اسے کرکے بھی دکھایا۔ اور آپ کے بعد چاروں خلفائے راشدین نے اپنے اپنے دور میں یہی سزا نافذ کی، اور اس کے قانونی سزا ہونے کا بار بار اعلان کیا۔ مسلمانوں کے گمراہ فرقے خوارج اور بعض معتزلہ کے سوا کبھی کسی نے اس کا انکار نہیں کیا۔ صحابہ کرام ( رض) ، تابعین، تبع تابعین اور تمام زمانوں اور ملکوں کے فقہائے اسلام اس بات پر متفق رہے ہیں کہ یہ ایک سنت ثابتہ ہے اور خود آنحضرت ﷺ کے قول و عمل سے یہ بات ثابت ہے کہ آپ ﷺ نے اپنے اس فیصلے کہ (شادی شدہ کو سنگسار کیا جائے) کتاب اللہ کا فیصلہ قرار دیا۔ حضرت ابوہریرہ ( رض) اور زید بن خالد جہنی ( رض) کی روایت صحیحین میں ہے کہ ایک غیرشادی شدہ لڑکے نے جو ایک شادی شدہ عورت کا ملازم تھا اس کے ساتھ زنا کیا۔ زانی لڑکے کا باپ اس کو لے کر آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ نوجوان لڑکے نے واقعہ کا اقرار کیا، تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا لَاَقْضِیَنَّ بِیْنَکُمَا بِکِتَابِ اللّٰہِ ” یعنی میں تم دونوں کے معاملہ کا فیصلہ کتاب اللہ کے مطابق کروں گا۔ “ پھر یہ حکم صادر فرمایا کہ زانی لڑکا چونکہ غیرشادی شدہ ہے اس کو سو کوڑے لگائے جائیں اور عورت جو شادی شدہ تھی اس کو رجم اور سنگسار کرنے کے لیے حضرت اُنَیس کو حکم دیا۔ انھوں نے خود عورت سے بیان لیا، اس نے اعتراف کرلیا تو اس پر نبی کریم ﷺ کے حکم سے رجم کی سزا جاری کی گئی۔ (ابنِ کثیر) اس کی مزید وضاحت کے لیے میں چاہتا ہوں کہ صحیح بخاری و مسلم سے حضرت فاروق اعظم ( رض) کا جو خطبہ بروایت ابن عباس ( رض) مذکور ہے، ذکر کردوں۔ صحیح مسلم کے الفاظ یہ ہیں : قال عمر بن خطاب ؓ وھوجالس علیٰ منبر رسول اللہ ﷺ ان اللہ بعث محمدا ﷺ بالحق وانزل علیہ الکتاب فکان مما انزل اللہ علیہ ایۃ الرجم قرأنا ھاْ ووعیناھا و عقلنا ھا فرجم رسول اللہ ﷺ ورجمنا بعدہ فاخشی ان طال بالناس زمان ان یقول قائل مانجدالرجم فی کتاب اللہ تعالیٰ فیضلوا بترکہ فریضۃ انزلھا اللہ وان الرجم فی کتاب اللہ حق علی من زنا اذا احصن من الرجال والنساء اذا قامت البینۃ او کان الحبل والاعتراف (مسلم ص 65 ج 2) حضرت عمر بن خطاب ( رض) نے فرمایا جبکہ وہ رسول اللہ ﷺ کے منبر پر تشریف رکھتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے محمد ﷺ کو حق کے ساتھ بھیجا اور آپ ﷺ پر کتاب نازل فرمائی تو جو کچھ کتاب اللہ میں آپ ﷺ پر نازل ہوا اس میں آیت رجم بھی ہے جس کو ہم نے پڑھا، یاد کیا اور سمجھا، پھر رسول اللہ ﷺ نے بھی رجم کیا اور ہم نے آپ ﷺ کے بعد رجم کیا، اب مجھے یہ خطرہ ہے کہ زمانہ گزرنے پر کوئی یوں نہ کہنے لگے کہ ہم رجم کا حکم کتاب اللہ میں نہیں پاتے تو وہ ایک دینی فریضہ چھوڑ دینے سے گمراہ ہوجاویں جو اللہ تعالیٰ نے نازل کیا ہے اور سمجھ لو کہ رجم کا حکم کتاب اللہ میں حق ہے۔ اس شخص پر جو مردوں اور عورتوں میں سے محصن ہو یعنی شادی شدہ جبکہ اس کے زنا پر شرعی شہادت قائم ہوجائے یا حمل اور اعتراف پایا جائے۔ یہ روایت صحیح بخاری میں بھی زیادہ تفصیل کے ساتھ مذکور ہے۔ (بخاری ص 1009 جلد 2) اور فسائی میں اس روایت کے بعض الفاظ یہ ہیں : انا لانجد من الرجم بداً فانّہ حدمن حدود اللہ الاوان رسول اللہ ﷺ قد رجم ورجمنا بعدہ ولولا ان یقول قائلون ان عمرزاد فی کتاب اللہ مالیس فیہ لکتبت فی ناحیۃ المصحف وشھد عمر بن الخطاب و عبدالرحمن بن عوف و فلان و فلان ان رسول اللہ ﷺ رجم ورجمنا بعدہ الحدیث (ابن کثیر) زنا کی سزا میں ہم شرعی حیثیت سے رجم کرنے پر مجبور ہیں کیونکہ وہ اللہ تعالیٰ کی حدود میں سے ایک حد ہے خوب سمجھ لو کہ رسول اللہ ﷺ نے خود رجم کیا اور ہم نے آپ ﷺ کے بعد بھی رجم کیا۔ اور اگر یہ خطرہ نہ ہوتا کہ کہنے والے کہیں گے کہ عمر نے کتاب اللہ میں اپنی طرف سے کچھ بڑھا دیا ہے تو میں قرآن کے کسی گوشہ میں بھی اس کو لکھ دیتا اور عمر بن خطاب گواہ ہے عبدالرحمن بن عوف گواہ ہیں اور فلاں فلاں صحابہ گواہ ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے رجم کیا اور آپ ﷺ کے بعد ہم نے رجم کیا۔ حضرت فاروق اعظم ( رض) کے اس خطبہ سے بظاہر یہ ثابت ہوتا ہے کہ حکم رجم کی کوئی مستقل آیت ہے جو سورة نور کی آیت مذکورہ کے علاوہ ہے مگر حضرت فاروق اعظم ( رض) نے اس آیت کے الفاظ نہیں بتلائے کہ کیا تھے اور نہ یہ فرمایا کہ اگر وہ اس آیت نور کے علاوہ کوئی مستقل آیت ہے تو قرآن میں کیوں نہیں اور کیوں اس کی تلاوت نہیں کی جاتی، صرف اتنا فرمایا کہ اگر مجھے یہ خطرہ نہ ہوتا کہ مجھ پر کتاب اللہ میں زیادتی کا الزام لگائیں گے تو میں اس آیت کو قرآن کے حاشیہ پر لکھ دیتا۔ کمار واہ النسائی۔ اس روایت میں یہ بات قابل غور ہے کہ اگر وہ واقعی قرآن کی کوئی آیت ہے اور دوسری آیت کی طرح اس کی تلاوت واجب ہے تو فاروق اعظم ( رض) نے لوگوں کی بدگوئی کے خوف سے اس کو کیسے چھوڑ دیا جبکہ ان کی شدت فی امر اللہ معروف و مشہور ہے اور یہ بھی قابل غور ہے کہ خود حضرت فاروق اعظم ( رض) نے یہ نہیں فرمایا کہ میں اس آیت کو قرآن میں داخل کردیتا بلکہ ارشاد یہ فرمایا کہ میں اس کو قرآن کے حاشیہ پر لکھ دیتا۔ یہ سب امور اس کے قرائن ہیں کہ حضرت فاروق اعظم ( رض) نے سورة نور کی آیت مذکورہ کی جو تفسیر رسول اللہ ﷺ سے سنی جس میں آپ ﷺ نے سو کوڑے لگانے کے حکم کو غیرشادی شدہ مرد و عورت کے ساتھ مخصوص فرمایا اور شادی شدہ کے لیے رجم کا حکم دیا۔ اس مجموعی تفسیر کو اور پھر اس پر رسول اللہ ﷺ کے تعامل کو کتاب اللہ اور آیت کتاب اللہ… کے الفاظ سے تعبیر فرمایا اس معنی میں کہ آپ کی یہ تفسیر و تفصیل بحکم کتاب اللہ ہے وہ کوئی مستقل آیت نہیں ورنہ حضرت فاروق اعظم ( رض) کو کوئی طاقت اس سے نہ روک سکتی کہ قرآن کی جو آیت رہ گئی ہے اس کو اس کی جگہ لکھ دیں۔ حاشیہ پر لکھنے کا جو ارادہ ظاہر فرمایا وہ بھی اسی کی دلیل ہے کہ درحقیقت وہ کوئی مستقل آیت نہیں بلکہ آیت سورة نور ہی کی تشریح میں کچھ تفصیلات ہیں اور بعض روایات میں جو اس جگہ ایک مستقل آیت کے الفاظ مذکور ہیں وہ اسناد ثبوت کے اعتبار سے اس درجہ میں نہیں کہ اس کی بنا پر قرآن میں اس کا اضافہ کیا جاسکے۔ حضرات فقہاء نے جو اس کو منسوخ التلاوۃ غیرمنسوخ الحکم کی مثال میں پیش کیا ہے وہ مثال ہی کی حیثیت میں ہے۔ اس سے درحقیقت اس کا آیت قرآن ہونا ثابت نہیں ہوتا۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ سورة نور کی آیت مذکورہ میں جو زانیہ اور زانی کی سزا سو کوڑے لگانا مذکور ہے یہ رسول اللہ ﷺ کی مکمل تشریح و تصریح کی بنا پر غیرشادی شدہ لوگوں کے لیے مخصوص ہے اور شادی شدہ کی سزا رجم ہے۔ یہ تفصیل اگرچہ الفاظ آیت میں مذکور نہیں مگر جب ذات اقدس پر یہ آیت نازل ہوئی خود ان کی طرف سے ناقابل التباس وضاحت کے ساتھ یہ تفصیل مذکور ہے اور صرف زبانی تعلیم و ارشاد ہی نہیں بلکہ متعدد بار اس تفصیل پر عمل بھی صحابہ کرام کے مجمع کے سامنے ثابت ہے اور یہ ثبوت ہم تک تواتر کے ذریعہ پہنچا ہوا ہے۔ اس شادی شدہ مردو عورت پر سزائے رجم کا حکم درحقیقت کتاب اللہ ہی کا حکم اور اسی … کی طرح قطعی اور یقینی ہے۔ اس کو یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ سزائے رجم کتاب اللہ کا حکم ہے اور یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ سزائے رجم سنت متواترہ سے قطعی الثبوت ہے جیسا کہ حضرت علی ( رض) سے یہی الفاظ منقول ہیں کہ رجم کا حکم سنت سے ثابت ہے اور حاصل دونوں کا ایک ہی ہے۔ (معارف القرآن) اس فعلِ شنیع کی سزا جیسا کہ آپ نے ملاحظہ کیا نہایت سخت رکھی گئی ہے کیونکہ اس کے اثرات پورے اسلامی معاشرے کے اخلاق پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ البتہ اس کے ثبوت میں بہت احتیاط برتی گئی ہے۔ اسلامی حکومت کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ کسی شخص کے خلاف زنا کے جرم میں کوئی کارروائی نہیں کرسکتی جب تک کہ اس کا حتمی ثبوت نہ مل جائے۔ ثبوتِ جرم کے بغیر کوئی شخص کیسی بھی بری شہرت رکھتا ہو اور اس کی بدنامیاں حکومت کے علم میں ہوں لیکن حکومت اس پر حد جاری نہیں کرسکتی۔ مدینہ میں ایک عورت تھی جس کے متعلق روایات ہیں کہ وہ اپنے کردار کے اعتبار سے بہت بدنام عورت تھی، لیکن چونکہ اس کے خلاف بدکاری کا کوئی ثبوت نہ تھا اس لیے اسے کوئی سزا نہ دی گئی، حالانکہ نبی کریم ﷺ اس کے بارے میں نہایت منفی احساس رکھتے تھے۔ اسی کے تحت آپ ﷺ کی زبان سے یہ الفاظ نکل گئے لَوْکُنْتُ رَاجِمًااَحَدًا بِغَیْرِبَـیِّنَۃٍ لَرَجَمْتُھَا ” اگر میں ثبوت کے بغیر رجم کرنے والا ہوتا تو اس عورت کو ضرور رجم کرا دیتا۔ “ البتہ یہ ضرور ہے کہ کسی کی بری شہرت اگر معاشرے پر اثرانداز ہورہی ہے لیکن وہ اپنی چابکدستی اور ہوشیاری سے ابھی تک قانون کی گرفت سے بچا ہوا ہے تو عدالت کو حق ہے کہ وہ اس کے معاملے کی تحقیق کرے اور اگر ضروری سمجھے تو تعزیر کے طور پر اسے سزا دے۔ ثبوتِ زنا کے دو طریقوں میں پہلا طریقہ شہادت ثبوت کے دو طریقے ہیں۔ قرآن کی تصریح کے مطابق کم از کم چار عینی شاہد ہونے چاہئیں۔ آگے سورة النور میں بھی چار گواہوں کا ذکر کیا گیا ہے اور سورة النساء میں بھی اس کا ذکر ہوچکا۔ چار گواہ بالاتفاق اس بات کی گواہی دیں کہ انھوں نے اپنی آنکھوں سے مرد اور عورت کو ملوث حالت میں دیکھا ہے۔ گواہوں کی چند صفات ہیں۔ جو گواہ ان صفات سے متصف نہ ہو وہ گواہی نہیں دے سکتا۔ مثلاً کہ اسلامی قانونِ شہادت کی رو سے وہ قابل اعتماد ہوں، یعنی کسی مقدمے میں جھوٹے ثابت نہ ہوچکے ہوں، خائن نہ ہوں، پہلے کے سزا یافتہ نہ ہوں، ملزم سے ان کی دشمنی ثابت نہ ہو۔ گواہوں کو اپنی گواہیوں کی ان تفصیلات میں بھی متفق ہونا چاہیے جن کی حیثیت بنیادی امور کی ہوتی ہے۔ شہادت کی ان شرائط سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ اسلامی قانون کا منشاء یہ نہیں ہے کہ ٹکٹکیاں لگی ہوں اور روز لوگوں کی پیٹھوں پر کوڑے برستے رہیں بلکہ وہ ایسی حالت ہی میں یہ سخت سزا دیتا ہے جبکہ تمام اصلاحی اور انسدادی تدابیر کے باوجود اسلامی معاشرے میں کوئی جوڑا ایسا بےحیاء ہے کہ چارچار آدمی اس کو جرم کرتے دیکھ لیتے ہیں۔ دوسرا طریقہ مجرم کا اقرار اور اس کی مثالیں شہادت کے علاوہ دوسری چیز جس سے جرمِ زنا ثابت ہوسکتا ہے وہ مجرم کا اپنا اقرار ہے۔ اقرار صاف اور صریح الفاظ میں ہونا چاہیے جس میں اخفاء کی کوئی شکل باقی نہ رہے۔ عدالت کو بھی پوری طرح اطمینان کرلینا چاہیے کہ مجرم کسی خارجی دبائو کے بغیر بطور خود بحالت ہوش و حواس یہ اقرار کر رہا ہے۔ البتہ فقہاء میں اس بات میں اختلاف ہے کہ ایک ہی دفعہ کا اقرار کافی ہے یا مجرم کو چار مرتبہ الگ الگ اقرار کرنا چاہیے۔ احادیث سے دونوں باتوں کا ثبوت ملتا ہے اور آنحضرت ﷺ کے ارشادات سے اس بات کا بھی اندازہ ہوتا ہے کہ اگر کسی مجرم کی سزا کا فیصلہ صرف اس کے اقرار پر کیا گیا تو اگر عین سزا کے دوران میں بھی مجرم اپنے اقرار سے پھرجائے تو سزا کو روک دینا چاہیے، چاہے اس بات کا قرینہ موجود ہو کہ مجرم مار کی تکلیف سے بچنے کے لیے اقرار سے رجوع کر رہا ہے۔ اس پورے قانون کا ماخذ وہ نظائر ہیں جو زنا کے مقدمات کے متعلق احادیث میں پائے جاتے ہیں۔ سب سے بڑا مقدمہ ماعز بن مالک اسلمی کا ہے جسے متعدد صحابہ ( رض) سے بکثرت راویوں نے نقل کیا ہے۔ یہ روایت چونکہ اس قانون کا بہت بڑا ماخذ ہے اس لیے ہم اسے تفصیل سمیت تفہیم القرآن سے نقل کرتے ہیں۔ یہ شخص قبیلہ اسلم کا ایک یتیم لڑکا تھا جس نے حضرت ہزال ( رض) بن نعیم کے ہاں پرورش پائی تھی۔ یہاں وہ ایک آزاد کردہ لونڈی سے زنا کر بیٹھا۔ حضرت ہزال ( رض) نے کہا کہ جا کر نبی کریم ﷺ کو اپنے اس گناہ کی خبر دو ، شاید آپ کے لیے مغفرت کی دعا کریں۔ ماعزنے جا کر مسجد نبوی میں حضور ﷺ سے کہا یا رسول اللہ ﷺ ! مجھے پاک کردیجیے، میں نے زنا کی ہے۔ آپ ﷺ نے منہ پھیرلیا اور فرمایا ویحک ارجع فاستغفر اللہ وتب الیہ ” ارے، چلا جا اور اللہ تعالیٰ سے توبہ و استغفار کر۔ “ مگر اس نے پھر سامنے آکر وہی بات کہی اور آپ ﷺ نے منہ پھیرلیا۔ اس نے تیسری بار وہی بات کہی اور آپ ﷺ نے پھر منہ پھیرلیا۔ حضرت ابوبکر ( رض) نے اس کو متنبہ کیا کہ دیکھ، اب چوتھی بار اگر تو نے اقرار کیا تو رسول اللہ ﷺ تجھے رجم کرا دیں گے، مگر وہ نہ مانا اور پھر اس نے اپنی بات دہرائی۔ اب حضور ﷺ اس کی طرف متوجہ ہوئے اور اس سے فرمایا لعلک قبلت اوغمزت اونظرت ” شاید تو نے بوس و کنار کیا ہوگا یا چھیڑچھاڑ کی ہوگی یا نظربد ڈالی ہوگی۔ “ (اور تو سمجھ بیٹھا ہوگا کہ یہ زنا کا ارتکاب ہے) ۔ اس نے کہا نہیں، آپ ﷺ نے پوچھا ” کیا تو اس سے ہم بستر ہوا “ ؟ اس نے کہا ہاں، پھر آپ ﷺ نے وہ لفظ استعمال کیا جو عربی زبمان میں صریحاً فعل مباشرت کے لیے بولا جاتا ہے۔ اور فحش سمجھا جاتا ہے ایسا لفظ حضور ﷺ کی زبان سے نہ پہلے کبھی سنا گیا نہ اس کے بعد کسی نے سنا۔ اگر ایک شخص کی جان کا معاملہ نہ ہوتا تو زبان مبارک سے کبھی ایسا لفظ نہ نکل سکتا تھا۔ مگر اس نے اس کے جواب میں بھی ہاں کہہ دیا۔ آپ ﷺ نے پوچھاحتٰی غاب ذٰلک منک فی ذٰلک منھا (کیا اس حد تک کہ تیری وہ چیز اس کی اس چیز میں غائب ہوگئی ؟ ) اس نے کہا ہاں۔ پھر پوچھا ” کما یغیب المیل فی المکحلۃ والرشاء فی البئر “ (کیا اس طرح غائب ہوگئی جیسے سرمہ دانی میں سلائی اور کنویں میں رسی ؟ ) اس نے کہا ہاں۔ پوچھا ” کیا تو جانتا ہے کہ زنا کسے کہتے ہیں ؟ اس نے کہا ” جی ہاں، میں نے اس کے ساتھ حرام طریقے سے وہ کام کیا جو شوہر حلال طریقے سے اپنی بیوی کے ساتھ کرتا ہے۔ “ آپ ﷺ نے پوچھا ” کیا تیری شادی ہوچکی ہے ؟ “ اس نے کہا ” جی ہاں۔ “ آپ ﷺ نے پوچھا ” تو نے شراب تو نہیں پی لی ہے ؟ “ اس نے کہا نہیں۔ ایک شخص نے اٹھ کر اس کا منہ سونگھا اور تصدیق کی۔ پھر آپ ﷺ نے اس کے محلہ والوں سے دریافت کیا کہ یہ دیوانہ تو نہیں ہے ؟ انھوں نے کہا ہم نے اس کی عقل میں کوئی خرابی نہیں دیکھی۔ آپ ﷺ نے ہزال سے فرمایا لوسترتہ بثوبک کان خیرا لک ” کاش تم نے اس کا پردہ ڈھانک دیا ہوتا تو تمہارے لیے اچھا تھا۔ “ پھر آپ ﷺ نے اس ماعز کو رجم کرنے کا فیصلہ صادر فرما دیا اور اسے شہر کے باہر لے جا کر سنگسار کردیا گیا۔ جب پتھر پڑنے شروع ہوئے تو ماعز بھاگا اور اس نے کہا ” لوگو ! مجھے رسول اللہ ﷺ کے پاس واپس لے چلو، میرے قبیلے کے لوگوں نے مجھے مروا دیا۔ انھوں نے مجھے دھوکہ دیا کہ رسول اللہ ﷺ مجھے قتل نہیں کرائیں گے۔ “ مگر مارنے والوں نے اسے مار ڈالا۔ بعد میں جب حضور ﷺ کو اس کی اطلاع دی گئی تو آپ ﷺ نے فرمایا ” تم لوگوں نے اسے چھوڑ کیوں نہیں دیا، میرے پاس لے آئے ہوتے، شاید وہ توبہ کرتا اور اللہ تعالیٰ اس کی توبہ قبول کرلیتا۔ “ دوسرا واقعہ غامدیہ کا ہے جو قبیلہ غامد (قبیلہ جہینہ کی ایک شاخ) کی ایک عورت تھی اس نے بھی آکر چار مرتبہ اقرار کیا کہ وہ زنا کی مرتکب ہوئی ہے اور اسے ناجائز حمل ہے۔ آپ ﷺ نے اس سے بھی پہلے اقرار پر فرمایا ویحک ارجعی فاستغفری الی اللہ وتوبی الیہ ” اری، چلی جا، اللہ تعالیٰ سے معافی مانگ اور توبہ کر۔ “ مگر اس نے کہا ” یارسول اللہ ﷺ کیا آپ ﷺ مجھے ماعز کی طرح ٹالنا چاہتے ہیں۔ میں زنا سے حاملہ ہوں۔ “ یہاں چونکہ اقرار کے ساتھ حمل بھی موجود تھا، اس لیے آپ ﷺ نے اس قدر مفصل جرح نہ فرمائی جو ماعز کے ساتھ کی تھی۔ آپ ﷺ نے فرمایا ” اچھا نہیں مانتی تو جا وضع حمل کے بعد آئیو۔ “ وضع حمل کے بعد وہ بچے کو لے کر آئی اور کہا اب مجھے پاک کردیجیے۔ آپ ﷺ نے فرمایا ” جا اور اس کو دودھ پلا۔ دودھ چھوٹنے کے بعد آئیو۔ “ پھر وہ دودھ چھڑانے کے بعد آئی اور ساتھ روٹی کا ایک ٹکڑا بھی لیتی آئی۔ بچے کو روٹی کا ٹکڑا کھلا کر حضور ﷺ کو دکھایا اور عرض کیا کہ یارسول اللہ ﷺ اب اس کا دودھ چھوٹ گیا ہے اور دیکھئے یہ روٹی کھانے لگا ہے، تب آپ ﷺ نے بچے کو پرورش کے لیے ایک شخص کے حوالے کیا اور اس کے رجم کا حکم دیا۔ ان دونوں واقعات میں بصراحت چار اقراروں کا ذکر ہے۔ اور ابودائود میں حضرت بریدہ کی روایت ہے کہ صحابہ کرام کا عام خیال یہی تھا کہ اگر ماعز اور غامدیہ چارمرتبہ اقرار نہ کرتے تو انھیں رجم نہ کیا جاتا۔ البتہ تیسرا واقعہ (جس کا ذکر ہم اوپر نمبر 15 میں کرچکے ہیں) اس میں صرف یہ الفاظ ملتے ہیں کہ ” جا کر اس کی بیوی سے پوچھ اور اگر وہ اعتراف کرے تو اسے رجم کردے۔ “ اس میں چار اعترافوں کا ذکر نہیں ہے، اور اسی سے فقہاء کے ایک گروہ نے استدلال کیا ہے کہ ایک ہی اعتراف کافی ہے۔ اوپر ہم نے جن تین مقدمات کی نظیریں پیش کی ہیں ان سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اقراری مجرم سے یہ نہیں پوچھا جائے گا کہ اس نے کس سے زنا کا ارتکاب کیا ہے کیونکہ اس طرح ایک کی بجائے دو کو سزا دینی پڑے گی اور شریعت لوگوں کو سزائیں دینے کے لیے بےچین نہیں ہے۔ البتہ اگر مجرم خود یہ بتائے کہ اس فعل کا فریق ثانی فلاں ہے تو اس سے پوچھا جائے گا اگر وہ بھی اعتراف کرے تو اسے سزا دی جائے گی لیکن اگر وہ انکار کردے تو صرف اقراری مجرم ہی حد کا مستحق ہوگا۔ اس امر میں فقہاء کا اختلاف ہے کہ اس دوسری صورت میں (یعنی جبکہ فریق ثانی اس کے ساتھ مرتکب زنا ہونے کو تسلیم نہ کرے) اس پر حدزنا جاری کی جائے گی یا حدقذف۔ امام مالک ( رح) اور امام شافعی ( رح) کے نزدیک وہ حدزنا کا مستوجب ہے کیونکہ اسی جرم کا اس نے اقرار کیا ہے۔ امام ابوحنیفہ اور امام اوزاعی کی رائے میں اس پر حد قذف جاری کی جائے گی کیونکہ فریق ثانی کے انکار نے اس کے جرمِ زنا کو مشکوک کردیا ہے۔ البتہ اس کا جرم قدف بہرحال ثابت ہے اور امام محمد کا فتویٰ یہ ہے (امام شافعی کا بھی ایک قول اس کی تائید میں ہے) کہ اسے زنا کی سزا بھی دی جائے گی اور قذف کی بھی کیونکہ اپنے جرمِ زنا کا وہ خود معترف ہے اور فریق ثانی پر اپنا الزام وہ ثابت نہیں کرسکا ہے۔ نبی کریم ﷺ کی عدالت میں اس قسم کا ایک مقدمہ آیا تھا۔ اس کی ایک روایت جو مسند احمد اور ابودائود میں سہل بن سعد سے منقول ہے اس میں یہ الفاظ ہیں ” ایک شخص نے آکر نبی کریم ﷺ کے سامنے اقرار کیا کہ وہ فلاں عورت سے زنا کا مرتکب ہوا ہے۔ آپ ﷺ نے عورت کو بلا کر پوچھا، اس نے انکار کیا۔ آپ ﷺ نے اس پر حد جاری کی اور عورت کو چھوڑ دیا۔ “ اس روایت میں یہ تصریح نہیں ہے کہ کون سی حد جاری کی۔ دوسری روایت ابودائود اور نسائی نے ابن عباس ( رض) سے نقل کی ہے اور اس میں یہ ہے کہ پہلے اس کے اقرار پر آپ ﷺ نے حد زنا جاری کی پھر عورت سے پوچھا اور اس کے انکار پر اس شخص کو حدقذف کے کوڑے لگوائے لیکن یہ روایت سند کے لحاظ سے بھی ضعیف ہے کیونکہ اس کے ایک راوی قاسم بن فیاض کو متعدد محدثین نے ساقط الاعتبار ٹھہرایا ہے اور قیاس کے بھی خلاف ہے۔ اس لیے کہ نبی کریم ﷺ سے یہ توقع نہیں کی جاسکتی کہ آپ ﷺ نے اسے کوڑے لگوانے کے بعد عورت سے پوچھا ہوگا۔ صریح عقل اور انصاف کا تقاضا جسے حضور ﷺ نظرانداز نہیں فرما سکتے تھے، یہ تھا کہ جب اس نے عورت کا نام لے دیا تھا تو عورت سے پوچھے بغیر اس کے مقدمے کا فیصلہ نہ کیا جاتا۔ اسی کی تائید سہیل بن سعد والی روایت بھی کررہی ہے۔ لہٰذا دوسری روایت لائق اعتماد نہیں ہے۔ تازیانہ اور ضرب تازیانہ کی کیفیت گواہوں کی گواہی اور عدالت کے اطمینان سے جب ملزم کو مجرم ٹھہرا دیا جائے تو اب اگر وہ غیرشادی شدہ ہے تو اس کی سزا یہ ہے کہ اسے سو کوڑے لگائے جائیں۔ سوال یہ ہے کہ کوڑا یعنی تازیانہ کیسا ہونا چاہیے اور ضرب تازیانہ کی کیفیت کیا ہو۔ آنحضرت ﷺ کی سنت سے ہمیں جو اس کی وضاحت ملتی ہے اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اسلام کا ہر حکم اپنے اندر کتنی تہذیب اور شائستگی رکھتا ہے۔ کوڑے کے بارے میں بہتر یہ ہے کہ وہ چمڑے کا ہو، لیکن آنحضرت ﷺ کی سنت سے بید کا استعمال بھی ثابت ہے۔ دونوں صورتوں میں کوڑا اوسط درجے کا ہونا چاہیے۔ نہ بہت موٹا اور سخت اور نہ بہت پتلا اور نرم۔ آپ ﷺ کو بہت کمزور کوڑا دیا گیا تو آپ ﷺ نے اس سے بہتر منگوایا اور بالکل نیا دیا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا ایسا کوڑا لائو جو استعمال سے نرم ہوچکا ہو۔ خلفائے راشدین بھی اوسط درجے کا کوڑا استعمال کرتے تھے۔ کوڑے کی مار اور ضرب کے بارے میں خود قرآن کریم کے لفظ فَاجْلِدُوْا میں اشارہ موجود ہے۔ ” جَلد “ کا لفظ جس کا معنی کوڑا ہے ” جِلد “ (یعنی کھال) سے ماخوذ ہے۔ اس سے تمام اہل لغت اور علمائے تفسیر نے یہی سمجھا ہے کہ کوڑے کی ضرب ایسی ہونی چاہیے جس کا اثر جلد تک رہے، گوشت تک نہ پہنچے۔ ایسی ضرب تازیانہ جس سے گوشت کے ٹکڑے اڑ جائیں یا کھال پھٹ کر اندر تک زخم پڑجائے قرآن کے خلاف ہے۔ مار اوسط درجے کی ہونی چاہیے۔ حضرت عمر ( رض) مارنے والے کو حکم دیتے تھے کہ اس طرح مارو کہ تمہاری بغل کھلنے نہ پائے یعنی پوری طاقت سے ہاتھ کو تان کر نہ مارو۔ تمام فقہاء اس بات پر متفق ہیں کہ ضرب مبرِّح نہیں ہونی چاہیے، یعنی زخم ڈال دینے والی۔ منہ اور شرم گاہ کے علاوہ تمام جسم پر مار کو پھیلا دینا چاہیے۔ مرد کو کھڑا کرکے مارنا چاہیے اور عورت کو بٹھا کر۔ مار کے وقت عورت اپنے پورے کپڑے پہنے رہے گی بلکہ اس کے کپڑے اچھی طرح باندھ دیئے جائیں گے تاکہ اس کا جسم کھل نہ جائے۔ مرد کے معاملے میں اختلاف ہے کہ اس کی قمیض اتاری جائے گی یا نہیں۔ البتہ اس کے پاجامہ پہننے پر سب کا اتفاق ہے۔ شدید سردی اور شدید گرمی میں سزا جاری کرنے سے روکا گیا ہے۔ مار کر باندھنے کی بھی اجازت نہیں۔ بجز اس کے کہ مجرم بھاگنے کی کوشش کرے۔ مار کا کام اجڈ جلادوں سے نہیں لینا چاہیے بلکہ صاحب علم و بصیرت آدمیوں کو یہ خدمت انجام دینی چاہیے جو جانتے ہوں کہ شریعت کا تقاضا پورا کرنے کے لیے کس طرح مارنا مناسب ہے۔ آنحضرت ﷺ کے زمانے میں حضرت علی ( رض) ، حضرت زبیر ( رض) ، مقداد بن عمرو ( رض) ، محمد بن مسلمہ ( رض) ، عاصم بن ثابت ( رض) اور ضحاک بن سفیان ( رض) جیسے صلحا و معززین اس کام پر مامور رہے۔ مجرم اگر مریض ہو تو اس کی صحت یابی تک سزا کو التواء میں رکھا جانا چاہیے۔ ہاں اگر بہت بوڑھا ہو یا صحت کی امید کھو چکا ہو تو سوشاخوں والی ایک ٹہنی یا سو تیلیوں والی ایک جھاڑو لے کر صرف ایک دفعہ مار دینا چاہیے تاکہ قانون کا تقاضا پورا کردیا جائے۔ آپ نے تازیانہ اور ضرب تازیانہ کی تفصیلات ملاحظہ کیں۔ انھیں دیکھ کر کون مہذب آدمی یہ کہنے کی جرأت کرسکتا ہے کہ ان سزائوں میں وحشیانہ پن کا کوئی عنصر موجود ہے۔ ہم نے بڑے اختصار سے جن چند احتیاطوں کا ذکر کیا ہے وہ دنیا کے کسی قانون میں دیکھی نہیں جاسکتیں۔ اسلام تو ایک بہت بڑے جرم پر یہ سزا تجویز کرتا ہے جبکہ اعتراض کرنے والوں کا حال یہ ہے کہ انھوں نے اپنی جیلوں کے لیے جو قانون بنا رکھا ہے اس میں جیل کا ایک معمولی سپرنٹنڈنٹ بھی ایک قیدی کو حکم عدولی یا گستاخی کے قصور میں تیس ضرب بید تک کی سزا دینے کا مجاز ہے۔ یہ بید لگانے کے لیے ایک آدمی خاص طور پر تیار کیا جاتا ہے اور وہ ہمیشہ اس کی مشق کرتا رہتا ہے۔ اس غرض کے لیے بید بھی خاص طور پر بھگو بھگو کر تیار کیے جاتے ہیں تاکہ جسم کو چھری کی طرح کاٹ دیں۔ مجرم کو ننگا کرکے ٹکٹکی سے باندھ دیا جاتا ہے تاکہ وہ تڑپ بھی نہ سکے۔ صرف ایک پتلا سا کپڑا اس کے ستر کو چھپانے کے لیے رہنے دیا جاتا ہے۔ جلاد دور سے بھاگتا ہوا آتا ہے اور پوری طاقت سے مارتا ہے۔ ضرب مسلسل سرین پر لگائی جاتی ہے۔ یہاں تک کہ گوشت قیمہ بن کر اڑتا چلا جاتا ہے۔ ایسا قانون بنانے والے اور نافذ کرنے والے وہ لوگ ہیں جو اسلامی قانون کی سزائے تازیانہ کو وحشیانہ سزا سے تعبیر کرتے ہیں۔ دین اللہ کی تعبیر اس آیت کریمہ میں اس فوجداری قانون کو دین اللہ سے تعبیر کیا گیا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ صرف نماز اور روزہ اور حج اور زکوٰۃ ہی دین نہیں ہیں مملکت کا قانون بھی دین ہے۔ دین کو قائم کرنے کا مطلب صرف نماز ہی قائم کرنا نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کا قانون اور نظام شریعت کو قائم کرنا بھی ہے۔ حدود کے نفاذ میں انسانی احساسات مانع نہیں ہونے چاہئیں دوسری بات جو اس آیت کریمہ میں قابل توجہ ہے وہ اللہ تعالیٰ کی یہ تنبیہ ہے کہ زانیہ اور زانی پر میری تجویز کردہ سزا نافذ کرنے میں مجرم کے لیے رحم اور شفقت کا جذبہ تمہارا ہاتھ نہ پکڑے۔ یعنی جب تم اس پر اللہ تعالیٰ کے قانون کے مطابق حد جاری کرو اور کوڑے لگانے لگو یا تم اس کے بارے میں قانون سازی کرنے لگو تو تمہارے اندر ایسے نام نہاد رحم اور شفقت کا رویہ جنم نہیں لینا چاہیے جو تمہیں اس قانون سازی یا اس کے نفاذ سے روکے۔ آنحضرت ﷺ نے ایک حاکم کے ایسے ہی رویئے کے بارے میں تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا اس کا ترجمہ یہ ہے ” کہ قیامت کے روز ایک حاکم لایا جائے گا جس نے حد میں سے ایک کوڑا کم کردیا تھا، پوچھا جائے گا کہ یہ حرکت تو نے کیوں کی تھی ؟ وہ عرض کرے گا آپ کے بندوں پر رحم کھا کر۔ ارشاد ہوگا اچھا تو ان کے حق میں مجھ سے زیادہ رحیم تھا، پھر حکم ہوگا اسے دوزخ میں لے جاؤ۔ ایک اور حاکم لایا جائے گا جس نے حد پر ایک کوڑے کا اضافہ کردیا تھا۔ پوچھا جائے گا تو نے یہ کس لیے کیا تھا ؟ وہ عرض کرے گا تاکہ لوگ آپ کی نافرمانیوں سے باز رہیں۔ ارشاد ہوگا اچھا تو ان کے معاملے میں مجھ سے زیادہ حکیم تھا۔ پھر حکم ہوگا اسے بھی دوزخ میں لے جاؤ۔ (تفسیرِ کبیر ج 6 ص 225) ۔ یہ تو اس صورت میں ہے جبکہ کمی بیشی کا عمل رحم یا مصلحت کی بنا پر ہو۔ لیکن اگر کہیں احکام میں ردوبدل مجرموں کے مرتبوں کی بنا پر ہونے لگے تو پھر یہ ایک بدترین جرم ہے۔ صحیحین میں حضرت عائشہ صدیقہ ( رض) کی روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے خطبہ میں فرمایا لوگو ! تم سے پہلے جو امتیں گزری ہیں وہ ہلاک ہوگئیں۔ اس لیے کہ جب ان میں کوئی عزت والا چوری کرتا تو وہ اسے چھوڑ دیتے تھے۔ اور جب کوئی کمزور آدمی چوری کرتا تو اس پر حد جاری کرتے تھے۔ ایک اور روایت میں ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا : ایک حد جاری کرنا اہل زمین کے لیے چالیس دن کی بارش سے زیادہ مفید ہے۔ سزا لوگوں کے سامنے دی جائے اس آیت کریمہ میں آخری بات جو کہی گئی ہے وہ یہ ہے کہ سزا علی الاعلان عام لوگوں کے سامنے دی جانی چاہیے۔ یہ بات جب قرآن کریم کی سزائوں کے حوالے سے دوسری آیات کو ساتھ رکھ کر دیکھتے ہیں تو اس سے اسلام کے نظریہ سزا پر روشنی پڑتی ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی قانون میں سزا کے تین مقصد ہیں اول یہ کہ مجرم نے جس نوعیت کا جرم کیا ہے اور حقوق اللہ اور حقوق العباد کو جو نقصان پہنچایا ہے اس کا اس سے بدلہ لیا جائے اور اس برائی کا مزا چکھایا جائے۔ دوم یہ ہے کہ ایسی سزا دی جائے کہ اس کے لیے جرم کا اعادہ مشکل ہوجائے بلکہ سزا کے تصور سے ہی اس کے جسم پر کپکپی چھوٹ جائے اور سوم یہ کہ اس کی سزا کو ایک عبرت بنادیا جائے تاکہ معاشرے میں جو دوسرے لوگ برے میلانات رکھنے والے ہوں ان کے دماغ کا آپریشن ہوجائے اور وہ ایسے کسی جرم کی جرأت نہ کرسکیں۔ علاوہ ازیں اس کا ایک فائدہ یہ بھی ہوتا ہے کہ علی الاعلان سزا کی صورت میں حکام سزا دینے میں بیجا رعایت یا بیجا سختی کرنے کی کم ہی جرأت کرسکتے ہیں۔
Top