Ruh-ul-Quran - An-Noor : 30
قُلْ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِهِمْ وَ یَحْفَظُوْا فُرُوْجَهُمْ١ؕ ذٰلِكَ اَزْكٰى لَهُمْ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ خَبِیْرٌۢ بِمَا یَصْنَعُوْنَ
قُلْ : آپ فرما دیں لِّلْمُؤْمِنِيْنَ : مومون مردوں کو يَغُضُّوْا : وہ نیچی رکھیں مِنْ : سے اَبْصَارِهِمْ : اپنی نگاہیں وَيَحْفَظُوْا : اور وہ حفاظت کریں فُرُوْجَهُمْ : اپنی شرمگاہیں ذٰلِكَ : یہ اَزْكٰى : زیادہ ستھرا لَهُمْ : ان کے لیے اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ خَبِيْرٌ : باخبر ہے بِمَا : اس سے جو يَصْنَعُوْنَ : وہ کرتے ہیں
اے پیغمبر ! مومنوں کو ہدایت کیجیے کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں، یہ طریقہ ان کے لیے پاکیزہ ہے، بیشک اللہ باخبر ہے ان کاموں سے جو وہ کرتے ہیں
قُلْ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ یَغُضُّوْا مِنْ اَبْصَارِھِمْ وَیَحْفَظُوْا فُرُوْجَھُمْ ط ذٰلِکَ اَزْکٰی لَہُمْ ط اِنَّ اللّٰہَ خَبِیْرٌ م بِمَا یَصْنَعُوْنَ ۔ (النور : 30) (اے پیغمبر ! مومنوں کو ہدایت کیجیے کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں، یہ طریقہ ان کے لیے پاکیزہ ہے، بیشک اللہ باخبر ہے ان کاموں سے جو وہ کرتے ہیں۔ ) اسلام اور دیگر نظام ہائے زندگی میں فرق ہم پہلے بھی یہ بات واضح کرچکے ہیں کہ اسلام اور دیگر نظام ہائے زندگی کا بنیادی فرق یہ ہے کہ اولاً تو ان کے نزدیک گناہ کا تصور ہی غلط یا مبہم ہے۔ اور اگر وہ کسی چیز کو گناہ یا جرم قرار دیتے بھی ہیں تو ان کے نزدیک اس جرم کے ارتکاب کی سزا ہی اصلاح کے لیے کافی ہے۔ وہ نہ جانے اس بات پر غور کیوں نہیں کرتے کہ جس طرح انسانی جسم اس وقت کسی عارضے کا شکار ہوتا ہے جب اس جسم کے اندر اس عارضے کو پیدا کرنے اور پھر اسے قبول کرنے والے اسباب پیدا ہوجاتے ہیں۔ جسم میں پھوڑے کبھی نہیں نکلتے جب تک خون گندہ نہیں ہوتا۔ اسی طرح کوئی جرم اور گناہ بھی اس وقت تک ارتکاب کی منزل تک نہیں پہنچتا جب تک اس کے محرکات کو کام کرنے کا موقع نہیں ملتا۔ معاشرے کی قوت مدافعت کمزور نہیں ہوتی اور فضا اس کے حسب حال نہیں ہوجاتی۔ اسلام کا طرہ امتیاز یہ ہے کہ وہ جس طرح کسی جرم کے خاتمے کے لیے سخت قانون دیتا ہے، اسی طرح بلکہ اس سے بڑھ کر اس کے محرکات کو ختم کرنے کے احکام جاری کرتا ہے اور وہ ان سوتوں کو بند کرنے کی کوشش کرتا ہے جہاں سے برائی پھوٹتی ہے۔ چناچہ حدزنا کا قانون دینے سے پہلے اس نے ایک طرف تو افرادِ معاشرہ کو تعلیم اور تزکیہ کے اس پر اسس سے گزارا جس سے دل میں برائی کے پیدا ہونے کے اسباب کم سے کم ہوجاتے ہیں اور نیکی کے پیدا ہونے کے اسباب افزوں تر ہوجاتے ہیں۔ پھر اس نے ایسے محرکات پر پابندیاں لگائیں جو انسان کو گناہ اور جرم پر اکساتے ہیں اور ان تمام عوامل کو روکنے کی کوشش کی جن سے گناہ کے ارتکاب میں آسانیاں پیدا ہوتی ہیں۔ پردے کے احکام میں ترتیب چناچہ اس سلسلہ میں اس نے کچھ احکام سورة الاحزاب میں دیئے اور اب ان کی تکمیل سورة النور میں کی جارہی ہے۔ چناچہ سب سے پہلے پردے کا حکم جاری فرمایا، ایک آزاد منش اور ایک بےقید معاشرے میں چونکہ پردے کا چلن عام کرنا آسان نہیں تھا، اگرچہ صحابہ کرام ( رض) کا ایمان اللہ تعالیٰ کے کسی حکم سے کبھی اباء نہیں کرتا تھا لیکن اسلامی معاشرہ چونکہ تیزی سے دعوت کے مراحل طے کررہا تھا اور جہاد کی قوت سے راستے کی رکاوٹیں اٹھتی جارہی تھیں اور تیزی سے لوگ اسلام کے دائرے میں داخل ہورہے تھے، اس لیے سب کے لیے ایک عام حکم نازل کردینا اور اس کی پابندی کرانا آسان نہ تھا۔ چناچہ اس کے لیے نمونے کے طور پر آنحضرت ﷺ کے اہل خانہ کو سب سے پہلے اس کا پابند ٹھہرایا اور مسلمان عورتوں کو ان کی پیروی کرنے کا حکم دیا۔ سب سے پہلا حکم انھیں کو خطاب کرکے دیا گیا، لیکن اس بات پر امت کا اجماع ہے کہ یہ حکم ان کے لیے خاص نہیں بلکہ اس میں تمام مسلمان عورتیں شامل ہیں۔ وہ احکام جو اہل بیت یعنی آنحضرت ﷺ کے اہل خانہ کے لیے دیئے گئے وہ سورة الاحزاب کی آیات 32، 33، 53 اور 55 میں بیان ہوئے ہیں۔ 2 دوسرے وہ احکام ہیں جو آنحضرت ﷺ کے اہل بیت کے ساتھ دوسری عام خواتین کو بھی دیئے گئے اور ان میں یہ بتایا گیا کہ کسی مسلمان عورت کو جب گھر سے باہر قدم نکالنے کی ضرورت پیش آجائے تو اس حالت میں اس کو کیا رویہ اختیار کرنا چاہیے، یہ احکام سورة الاحزاب کی آیت 59 میں بیان ہوئے ہیں۔ 3 تیسرے وہ احکام ہیں جو عام مردوں اور عورتوں کو مخاطب کرکے گھروں کے اندر آنے جانے سے متعلق دیئے گئے اور جن میں تفصیل کے ساتھ بتایا گیا ہے کہ ایک مسلمان جب اپنے کسی بھائی کے گھر میں داخل ہو تو اس کو کن آداب و قواعد کی پابندی کرنی چاہیے اور گھر کی عورتوں پر ایسی حالت میں کیا پابندیاں عائد ہوتی ہیں، یہ احکام سورة النور کی پیش نظر آیات میں دیئے گئے ہیں۔ سابقہ آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ بدکاری کے محرکات میں سب سے خطرناک محرک نظربازی اور بدنگاہی ہے۔ کسی بھی مسلمان عورت کے باہر نکلنے پر حجاب اور نقاب کا حکم دے کر اس جرم پر پہرا بٹھا دیا گیا، لیکن ابھی تک ایک دوسرے کے گھروں میں آنا جانا معاشرتی ضرورت کے تحت چونکہ باقی تھا اور جسے ختم بھی نہیں کیا جاسکتا لیکن کچھ لوگ اس سے فائدہ اٹھا کر اسلامی معاشرے کی پاکیزگی کو نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے تھے اور خود اپنے آپ کو بھی تباہ کرتے تھے۔ چناچہ اس محرک کو ختم کرنے کے لیے پہلے تو گھروں میں داخلے کے لیے استیناس اور استیذان کا حکم دیا اور مزید پابندیاں گھروں میں داخل ہونے کے بعد حسب ضرورت لگائی گئیں جن میں مردوں کے لیے غض بصر اور حفظ فروج کی پابندیاں عائد کی گئی کیونکہ گھر میں داخل ہونے کے بعد اگر ان دو باتوں میں بھی بےاحتیاطی کی جائے تو گناہ کے پیدا ہوجانے کے امکانات پیدا ہوجاتے ہیں۔ نزولِ قرآن کے وقت معاشرے کی جو کیفیت تھی اس میں مردانہ نشست گاہیں گھروں میں الگ نہیں ہوتی تھیں اور دیہات میں تو آج تک ہمارے یہاں بھی ایسا نہیں ہوسکا کیونکہ کوئی معاشرہ بھی اس حال کو صدیوں میں نہیں پہنچتا کہ اس کے مالی حالات اس کے ایک ایک فرد کو پر تکلف اور حسب ضرورت رہائش گاہ بنانے کی اجازت دے سکیں، تو ایسی صورتحال میں ضروری ہے کہ جب دور پار کے قرابتدار گھروں میں آئیں تو آنے والوں کو بعض آداب کی پابندی کرنی چاہیے۔ جن میں پہلا ادب غض بصر ہے۔ یعنی وہ گھر میں داخل ہوتے ہوئے ادھر ادھر آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر نہ دیکھیں تاکہ کسی نامحرم پر ان کی نگاہ نہ پڑے اور نہ وہ اس طرح آنکھیں بند کرکے اندر داخل ہوں کہ ٹھوکر کھا کے یا الجھ کر گرجائیں۔ اس لیے مِنْ اَبْصَارِہِمْکا لفط استعمال کیا گیا۔ اس میں مِنْ تبعیض کے لیے ہے۔ یعنی راستہ دیکھنے کے لیے آنکھ کھلی رہے، لیکن ادھر ادھر دیکھنے سے آنکھ بند رہے۔ گھروں میں داخل ہونے کے بعد کی احتیاطیں پیشِ نظر آیت کریمہ کو سابقہ تین آیات کے ساتھ جب ہم ملا کر پڑھتے ہیں تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس آیت کریمہ اور بعد کی آنے والی آیت کریمہ میں جو احکام دیئے گئے ہیں وہ اس صورت میں ہیں جبکہ دور پار کے عزیزوں میں سے کوئی مہمان تشریف لائیں۔ ظاہر ہے کہ وہ محرم تو نہیں ہوں گے تو ان کے لیے گھر میں داخل ہونے کے بعد متذکرہ بالا ہدایات کی پابندی ضروری ہے۔ لیکن اس صورت میں بھی صاحب خانہ کو یہ ہدایت کی گئی ہے کہ رشتے داروں میں بھی ہر شخص اخلاق کے اعتبار سے بھروسے کا آدمی نہیں ہوتا۔ اس لیے پہلے انھیں اطمینان کرلینا چاہیے کہ ہم جس مہمان کو اندر لا رہے ہیں اس کے سیرت و کردار پر کہاں تک بھروسہ کیا جاسکتا ہے۔ دوسری بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ یہ احکام اس صورت میں ہیں جب مردوں اور عورتوں کی نشست گاہیں الگ الگ نہ ہوں۔ لیکن اگر دورپار کے عزیزوں اور یا اجنبیوں کے لیے الگ نشست گاہوں کا انتظام ہے تو پھر اسلام میں مطلوب یہ ہے کہ مردوں کو گھر کی عورتوں سے الگ بٹھایا جائے۔ اس آیت میں چونکہ سب سے پہلے غض بصر کا حکم دیا گیا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نظر میں جس طرح نگاہ ایک بہت بڑی نعمت ہے، اسی طرح ایک بہت بڑی آزمائش بھی ہے۔ مرد و عورت کے درمیان برائی پیدا کرنے کے لیے یہ اولین قاصد کا کام دیتی ہے۔ اسی کے بہک جانے اور بےباک ہوجانے سے فواحش کے دروازے کھل جاتے ہیں اور اگر اس پر اللہ تعالیٰ کے خوف کا پہرہ بٹھا دیا جائے تو انسان شیطان کے بہت سے فتنوں سے محفوظ ہوجاتا ہے۔ جنسی بگاڑ میں اس کی تاثیر کو دیکھتے ہوئے قرآن و سنت میں اس کے بارے میں ضروری ہدایات دی گئی ہیں۔ اگرچہ موقعہ کلام کے تقاضے کے تحت بہت زیادہ تفصیل کی ضرورت نہیں لیکن اس کے اثرات کی وسعت کو دیکھتے ہوئے ہم چاہتے ہیں کہ چند ضروری ہدایات کو ذکر کردیا جائے۔ 1 کسی بھی مومن کے لیے حلال نہیں کہ وہ اپنی بیوی یا اپنی محرم خواتین کے سوا کسی دوسری عورت کو نگاہ بھر کر دیکھے۔ ایک دفعہ اچانک نظر پڑجائے تو وہ معاف ہے۔ لیکن یہ معاف نہیں کہ آدمی نے پہلی نظر میں جہاں کوئی کشش محسوس کی ہو، وہاں پھر نظر دوڑائے۔ نبی کریم ﷺ نے اس طرح کی دیدہ بازی کو آنکھ کی بدکاری سے تعبیر فرمایا۔ ایک موقع پر حضرت بریدہ کی روایت کے مطابق نبی کریم ﷺ نے حضرت علی ( رض) سے فرمایا یاعلی لاتتبع النظرۃ النظر ۃ فان لک الاولی ولیست لک الاخرۃ ” اے علی ! ایک نظر کے بعد دوسری نظر نہ ڈالنا۔ پہلی نظر تو معاف ہے، مگر دوسری معاف نہیں۔ حضرت عبداللہ ابن مسعود ( رض) روایت فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ نگاہ ابلیس کے زہریلے تیروں میں سے ایک تیر ہے، جو شخص مجھ سے ڈر کر اس کو چھوڑ دے گا، میں اس کے بدلے اسے ایسا ایمان دوں گا جس کی حلاوت وہ اپنے دل میں پائے گا۔ (طبرانی) کسی کو اس سے یہ غلط فہمی نہ ہو کہ آنحضرت ﷺ کے زمانے میں مسلمان عورتیں چہرے پر نقاب ڈالتی ہوتیں تو غض بصر کا حکم دینے کی کیا ضرورت تھی ؟ اس بات کو کج فہمی کے سوا اور کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ کیونکہ امت کا تعامل اس بات کی سب سے بڑی دلیل ہے کہ عہدنبوی سے لے کر آج تک شریعت کی پابندی کرنے والی خواتینِ اسلام نے ہمیشہ چہرے پر نقاب ڈالا ہے۔ غضِ بصر کا حکم دینے کی وجہ تو یہ ہے کہ چہرے کا پردہ عام طور پر رائج ہونے کے باوجود ایسے مواقع پیش آسکتے ہیں جبکہ اچانک کسی عورت اور مرد کا آمنا سامنا ہوجائے اور ایک پردہ دار عورت کو بھی بسا اوقات ایسی ضرورت لاحق ہوسکتی ہے کہ وہ منہ سے نقاب ہٹا لے۔ اور پھر یہ بھی امرواقعہ ہے کہ مسلمان ملکوں اور معاشروں میں ہمیشہ غیرمسلم عورتیں بھی رہی ہیں اور آئندہ بھی رہیں گی۔ ظاہر ہے کہ وہ تو بےپردہ ہی رہتی ہیں، حجاب یا نقاب استعمال نہیں کرتیں۔ اس کے علاوہ اور بھی مصلحتیں ہیں جن کی وجہ سے غض بصر کا حکم دیا گیا ہے۔ غضِ بصر میں استثناء 2 غضِ بصر کا حکم تو واضح ہے لیکن اس سے وہ صورتیں مستثنیٰ ہیں جن میں کسی عورت کو دیکھنے کی کوئی حقیقی ضرورت پیش آجائے۔ مثلاً کوئی کسی عورت سے نکاح کرنا چاہتا ہو، اس غرض کے لیے عورت کے علم میں لائے بغیر اسے دیکھ لینے کی اجازت ہے۔ آنحضرت ﷺ نے بعض صحابہ کرام ( رض) کو نکاح سے پہلے اس کی ہدایت فرمائی۔ اسی طرح تفتیشِ جرائم کے سلسلے میں اگر کسی مشتبہ عورت کو دیکھنے کی ضرورت لاحق ہو تو اس کی بھی اجازت ہے۔ عدالت میں گواہی کے موقع پر قاضی کسی گواہ عورت کو دیکھنا چاہے یا علاج کے لیے طبیب مریضہ کو دیکھنا ضروری سمجھے تو شریعت نے اس کی بھی اجازت دی ہے۔ حفظِ فروج کا مفہوم اس آیت کریمہ میں دوسرا حکم جو دیا گیا ہے وہ حفظ فروج کا ہے جس کا لفظی معنی شرمگاہوں کی حفاظت ہے، لیکن مراد اس سے شرم کی جگہوں کی پردہ پوشی ہے۔ بظاہر تو اس لفظ سے یہ تأثر ملتا ہے کہ شاید ناجائز شہوت رانی سے روکا گیا ہے، لیکن حقیقت میں اس کی مراد میں وسعت پائی جاتی ہے۔ ناجائز شہوت رانی تو آخری بات ہے، لیکن جو چیزیں اس کے مقدمات کا درجہ رکھتی ہیں، ان سے روکنا بھی ان میں شامل ہے۔ مثلاً کسی مرد کے لیے اپنے ستر کو دوسروں کے سامنے کھولنے کی اجازت نہیں۔ اور مرد کے لیے ستر کی حدودآنحضرت ﷺ نے ناف سے گھٹنے تک مقرر فرمائی ہیں۔ دارقطنی کی روایت میں آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا، عورۃ الرجل مابین سرتہ الی رکبتہ ” مرد کا ستر اس کی ناف سے گھنٹے تک ہے۔ “ حضرت جرھد اسلمی ( رض) روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی مجلس میں ایک دفعہ میری ران کھلی ہوئی تھی۔ حضور ﷺ نے فرمایا امأَعلمت ان الفخذعورۃ ” کیا تمہیں معلوم نہیں ہے کہ ران چھپانے کی چیز ہے۔ “ آنحضرت ﷺ نے ایک صحابی سے فرمایا احفظ عورتک الامن زوجتک اوماملکت یمینک ” اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرو، اپنی بیوی یا لونڈی کے سوا۔ “ اس صحابی نے عرض کی، یارسول اللہ ﷺ ! اگر انسان تنہا ہو تو پھر اس کے متعلق کیا حکم ہے ؟ آپ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ اس بات کا زیادہ حقدار ہے کہ اس سے شرم کی جائے۔ (ابودائود، ترمذی، ابن ماجہ) حفظِ فروج میں صرف یہی احتیاط کافی نہیں کہ آدمی اپنا ستر کھلنے نہ دے اور دوسرے کے ستر کو نہ دیکھے، بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ ایسا لباس نہ پہنے جس سے اعضائے مخصوصہ نمایاں ہوں۔ اور وہ لباس شرم و حیاء پیدا کرنے کی بجائے جنسی جذبات کو انگیخت کرنے والا ہو۔ آج کل جس طرح کا لباس عام طور پر نوجوانوں نے پہننا شروع کردیا ہے جس میں ستر پوشی کا جذبہ تو دور دور تک محسوس نہیں ہوتا، صرف زینت اور اظہارِزینت کو مقصد بنا لیا گیا ہے اور زینت بھی ایسی کہ جسے کوئی شرم و حیاء والی نگاہ دیکھنا پسند نہ کرے، لیکن مسلسل استعمال سے اب نگاہیں اس طرح عادی ہوگئی ہیں کہ وہ گھرانے جو شرم و حیاء کے پیکر سمجھے جاتے تھے اب ان گھروں میں بھی نوجوان بےہودہ سے بےہودہ لباس پہنتے ہیں اور کوئی برا محسوس نہیں کرتا۔ ذٰلِکَ اَزْکٰی لَہُمْ ط اِنَّ اللّٰہَ خَبِیْرٌ م بِمَا یَصْنَعُوْنَ ” یہ طریقہ ان کے لیے پاکیزہ ہے، بیشک اللہ باخبر ہے ان چیزوں سے جو وہ کرتے ہیں۔ “ گھروں کے اندر جن احتیاطوں کا حکم دیا گیا ہے اگر ان کی پابندی کی جائے تو گھروں کے ماحول کو پاکیزہ رکھنے اور ہر طرح کے اخلاقی فساد سے محفوظ رکھنے کا سب سے اہم ذریعہ ہیں۔ البتہ اس میں یہ لازمی شرط ہے کہ میزبان اور مہمان ان احتیاطوں کی پابندی کرتے ہوئے ہمیشہ اس بات کو مستحضر رکھیں کہ اللہ تعالیٰ ہماری ہر حرکت کو دیکھ رہا ہے اور ہماری نیتوں تک سے آگاہ ہے۔ یہی وہ عقیدہ ہے جو انسان کے اعمال کی درستی کی ضمانت بن سکتا ہے اور اگر یہ تصور دل کا عقیدہ نہ بنے تو پھر نگاہ کی پاکیزگی اور دلوں کی طہارت کی کوئی چیز ضمانت نہیں بن سکتی۔
Top