Ruh-ul-Quran - An-Noor : 33
وَ لْیَسْتَعْفِفِ الَّذِیْنَ لَا یَجِدُوْنَ نِكَاحًا حَتّٰى یُغْنِیَهُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ١ؕ وَ الَّذِیْنَ یَبْتَغُوْنَ الْكِتٰبَ مِمَّا مَلَكَتْ اَیْمَانُكُمْ فَكَاتِبُوْهُمْ اِنْ عَلِمْتُمْ فِیْهِمْ خَیْرًا١ۖۗ وَّ اٰتُوْهُمْ مِّنْ مَّالِ اللّٰهِ الَّذِیْۤ اٰتٰىكُمْ١ؕ وَ لَا تُكْرِهُوْا فَتَیٰتِكُمْ عَلَى الْبِغَآءِ اِنْ اَرَدْنَ تَحَصُّنًا لِّتَبْتَغُوْا عَرَضَ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا١ؕ وَ مَنْ یُّكْرِهْهُّنَّ فَاِنَّ اللّٰهَ مِنْۢ بَعْدِ اِكْرَاهِهِنَّ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
وَلْيَسْتَعْفِفِ : اور چاہیے کہ بچے رہیں الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو لَا يَجِدُوْنَ : نہیں پاتے نِكَاحًا : نکاح حَتّٰى : یہانتک کہ يُغْنِيَهُمُ : انہیں گنی کردے اللّٰهُ : اللہ مِنْ فَضْلِهٖ : اپنے فضل سے وَالَّذِيْنَ : اور جو لوگ يَبْتَغُوْنَ : چاہتے ہوں الْكِتٰبَ : مکاتبت مِمَّا : ان میں سے جو مَلَكَتْ : مالک ہوں اَيْمَانُكُمْ : تمہارے دائیں ہاتھ (غلام) فَكَاتِبُوْهُمْ : تو تم ان سے مکاتبت ( آزادی کی تحریر) کرلو اِنْ عَلِمْتُمْ : اگر تم جانو (پاؤ) فِيْهِمْ : ان میں خَيْرًا : بہتری وَّاٰتُوْهُمْ : اور تم ان کو دو مِّنْ : سے مَّالِ اللّٰهِ : اللہ کا مال الَّذِيْٓ اٰتٰىكُمْ : جو اس نے تمہیں دیا وَلَا تُكْرِهُوْا : اور تم نہ مجبور کرو فَتَيٰتِكُمْ : اپنی کنیزیں عَلَي الْبِغَآءِ : بدکاری پر اِنْ اَرَدْنَ : اگر وہ چاہیں تَحَصُّنًا : پاکدامن رہنا لِّتَبْتَغُوْا : تاکہ تم حاصل کرلو عَرَضَ : سامان الْحَيٰوةِ : زندگی الدُّنْيَا : دنیا وَمَنْ : اور جو يُّكْرِھْهُّنَّ : انہیوں مجبور کرے گا فَاِنَّ : تو بیشک اللّٰهَ : اللہ مِنْۢ بَعْدِ : بعد اِكْرَاهِهِنَّ : ان کے مجبوری غَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : نہایت مہربان
اور جو لوگ نکاح کی مقدرت نہ پائیں انھیں چاہیے کہ عفت مآبی اختیار کریں یہاں تک کہ اللہ اپنے فضل سے ان کو غنی کردے، اور جو تمہارے مملوکوں میں سے مکاتب ہونے کے طالب ہوں ان کو مکاتب بنادو، اگر تم ان میں صلاحیت پائو اور ان کے اس مال میں سے دو جو خدا نے تم کو دیا ہے اور اپنی لونڈیوں کو پیشہ پر مجبور نہ کرو جبکہ وہ عفت کی زندگی کی خواہاں ہیں محض اس لیے کہ کچھ متاع دنیا تمہیں حاصل ہوجائے اور جو کوئی ان کو مجبور کرے تو اس جبر کے بعد اللہ ان کے لیے غفورورحیم ہے
وَلْیَسْتَعْفِفِ الَّذِیْنَ لاَ یَجِدُوْنَ نِکَاحًا حَتّٰی یُغْنِیَھُمُ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہٖ ط وَالَّذِیْنَ یَبْتَغُوْنَ الْکِتٰبَ مِمَّا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ فَکَاتِبُوْھُمْ اِنْ عَلِمْتُمْ فِیْہِمْ خَیْرًا صلے ق وَّاٰ تُوْھُمْ مِّنْ مَّالِ اللّٰہِ الَّذِیْٓ اٰ تٰـکُمْ ط وَلاَ تُکْرِھُوْا فـَتَیٰـتِکُمْ عَلَی الْبِغَـآئِ اِنْ اَرَدْنَ تَحَصُّنًا لِّـتَبْتَغُوْا عَرَضَ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا ط وَمَنْ یُّکْرِھْھُّنَّ فَاِنَّ اللّٰہَ مِنْ م بَعْدِ اِکْرَاھِھِنَّ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۔ (النور : 33) (اور جو لوگ نکاح کی مقدرت نہ پائیں انھیں چاہیے کہ عفت مآبی اختیار کریں یہاں تک کہ اللہ اپنے فضل سے ان کو غنی کردے، اور جو تمہارے مملوکوں میں سے مکاتب ہونے کے طالب ہوں ان کو مکاتب بنادو، اگر تم ان میں صلاحیت پائو اور ان کے اس مال میں سے دو جو خدا نے تم کو دیا ہے اور اپنی لونڈیوں کو پیشہ پر مجبور نہ کرو جبکہ وہ عفت کی زندگی کی خواہاں ہیں محض اس لیے کہ کچھ متاع دنیا تمہیں حاصل ہوجائے اور جو کوئی ان کو مجبور کرے تو اس جبر کے بعد اللہ ان کے لیے غفورورحیم ہے۔ ) نکاح کی عدم مقدرت میں ہدایت معاشرے کی بہرحال یہ ذمہ داری ہے کہ وہ شادی بیاہ کے معاملے کو نہایت سادہ اور سستا بنانے کی کوشش کرے تاکہ کوئی شخص مالی دشواریوں کے باعث اس سے محروم نہ رہے اور کسی بچی کے ہاتھ اس لیے پیلے ہونے سے نہ رہ جائیں کہ اس کے ماں باپ اس کو جہیز دینے کی ہمت نہیں رکھتے۔ لیکن جہاں تک افرادِ معاشرہ کا تعلق ہے ان میں ہر ایک کی اپنی ذمہ داری ہے کہ اگر معاشرہ اپنا فرض انجام نہیں دیتا یا کسی اور وجہ سے کوئی شخص عقد نکاح سے محروم رہ جاتا ہے تو اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ اسے بدکاری کے لیے عذر بنا لے۔ ایسے لوگوں کے بارے میں اس آیت کریمہ میں حکم دیا گیا ہے کہ انھیں بہرصورت پاکدامنی کی زندگی گزارنی چاہیے۔ جب تک اللہ تعالیٰ انھیں نکاح کے مصارف اور ازدواجی زندگی کا بوجھ اٹھانے کی طاقت نہیں دیتا وہ نہایت صبر کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے ڈر کر اس طرح پاکدامنی کی زندگی گزاریں جیسے آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا ہے۔ حضرت عبداللہ ابن مسعود ( رض) کی روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا یامعشرالشباب من استطاع منکم الباء ۃ فلیتزوج فانہ اغض للبصر واحصن للفرج ومن لم یستطع فعلیہ بالصوم فانہ لہ وجاء ” نوجوانوں تم میں سے جو شخص شادی کرسکتا ہو اسے کر لینی چاہیے کیونکہ یہ نگاہ کو بدنظری سے بچانے اور آدمی کی عفت قائم رکھنے کا بڑا ذریعہ ہے، اور جو استطاعت نہ رکھتا ہو وہ روزے رکھے کیونکہ روزے آدمی کی طبیعت کا جوش ٹھنڈا کردیتے ہیں۔ “ (بخاری و مسلم) مکاتبت کا مفہوم اور اس کا حکم وَالَّذِیْنَ یَبْتَغُوْنَ الْکِتٰبَ مِمَّا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ ” اور تمہارے مملوکوں میں سے جو مکاتبت کی درخواست کریں۔ “ مکاتبت کا لفظی معنی تو لکھا پڑھی ہے لیکن اصطلاح میں اس لفظ کا مفہوم یہ ہے کہ کوئی غلام اپنے آقا سے درخواست کرے کہ میں اتنا معاوضہ ادا کرنے کے لیے تیار ہوں، آپ معاوضے کی ادائیگی کے بعد مجھے غلامی سے آزاد کردیں، اور آقا اسے قبول کرلے اور مدت کا تعین ہوجائے اور اگر کچھ اور شرائط ضروری ہوں تو وہ بھی طے ہوجائیں اور اس معاہدے کو لکھ لیا جائے تو اسے معاہدہ مکاتبت کہتے ہیں۔ اسلام نے غلاموں کی آزادی کے لیے جو آسانیاں پیدا کی ہیں ان ہی میں سے مکاتبت بھی ہے، جس غلام کو یہ حق دیا جاتا ہے اسے مکاتب کہتے ہیں۔ اور جو وہ معاوضہ ادا کرتا ہے اسے زرمکاتبت کہتے ہیں۔ اس معاہدہ کے طے ہوجانے کے بعد اگر مدت مقررہ کے اندر غلام زرِ مکاتبت ادا کر دے تو اس کے آقا کو اس کی آزادی کے راستے میں کوئی رکاوٹ کھڑی کرنے کا حق نہیں ہے۔ وہ نہ اسے کام سے روک سکتا ہے اور نہ معاوضہ کی پیشکش کے وقت معاوضہ قبول کرنے سے انکار کرسکتا ہے۔ اور اگر وہ ایسا کرے تو مکاتب کو عدالت میں جانے کا حق حاصل ہے۔ حضرت عمرفاروق ( رض) کے دورخلافت کا واقعہ ہے کہ ایک غلام نے اپنی مالکہ سے مکاتبت کی اور مدت مقررہ سے پہلے ہی مال کتابت فراہم کرکے اس کے پاس لے گیا۔ مالکہ نے کہا میں تو یکمشت نہ لوں گی بلکہ سال بسال اور ماہ بماہ قسطوں کی صورت میں لوں گی۔ غلام نے حضرت عمر ( رض) سے شکایت کی۔ انھوں نے فرمایا، رقم بیت المال میں داخل کردو اور جاؤ تم آزاد ہو۔ پھر مالکہ کو پیغام بھیجا کہ تمہاری رقم یہاں جمع ہوچکی ہے چاہو تو یکمشت لے لو ورنہ ہم تمہیں سال بسال اور ماہ بماہ دیتے رہیں گے۔ (دار قطنی بروایت ابوسعید مقبری) فَکَاتِبُوْھُمْ کا مفہوم اور اختلاف کا حل فَکَاتِبُوْھُمْ … کہ جب کوئی لونڈی یا غلام تم سے مکاتبت کی درخواست کرے تو اسے مکاتب بنادو۔ یہ چونکہ امر کا صیغہ ہے اس لیے بعض اہل علم نے اسے وجوب کے معنی میں لیا ہے، یعنی کسی غلام کی درخواست پر آقا کے لیے اسے مکاتب بنانا واجب ہوجاتا ہے۔ اس کی دلیل میں حضرت عمرفاروق ( رض) کے ایک فیصلے سے استدلال کیا جاتا ہے۔ مشہور فقیہ و محدث حضرت محمد بن سیرین کے والد سیرین نے اپنے آقا حضرت انس ( رض) سے جب مکاتبت کی درخواست کی اور انھوں نے قبول کرنے سے انکار کردیا تو سیرین حضرت عمر فاروق ( رض) کے پاس شکایت لے گئے۔ انھوں نے واقعہ سنا تو حضرت انس ( رض) کو ڈانٹتے ہوئے حکم دیا کہ انھیں مکاتب بنائو۔ اور محولہ بالا آیت کے اس لفظ سے استشہاد کیا۔ دیگر اہل علم کا خیال یہ ہے کہ آیت کریمہ میں صرف فَکَاتِبُوْھُمْ نہیں فرمایا گیا بلکہ اس کے ساتھ اِنْ عَلِمْتُمْ فِیْہِمْ خَیْرًابھی فرمایا گیا ہے۔ ” یعنی ان سے مکاتبت کرلو، اگر ان کے اندر بھلائی پائو۔ “ بھلائی کی شرط ایسی ہے جس کا انحصار مالک کی رائے پر ہے اور کوئی متعین معیار اس کا نہیں ہے جسے کوئی عدالت جان سکے۔ ویسے بھی قانونی احکام کی شان یہ نہیں ہوا کرتی، اس لیے اس حکم کو تلقین اور ہدایت ہی کے معنی میں لیا جائے گا نہ کہ قانونی حکم کے معنی میں۔ رہی یہ بات کہ حضرت عمرفاروق ( رض) نے حضرت انس ( رض) کو اس حکم کے ماننے پر مجبور کیا تو اس کا یہ معنی نہیں ہے کہ آپ ( رض) نے اسے قانون کے طور پر نافذ کیا کیونکہ آپ ( رض) کی حیثیت صرف حاکم عدالت کی نہیں تھی بلکہ آپ ( رض) افرادِ ملت کے لیے ایک باپ کی حیثیت بھی رکھتے تھے۔ اسی وجہ سے وہ بسا اوقات ایسے معاملات میں بھی دخل دیتے تھے جن میں صرف باپ ہی دخل دے سکتا ہے۔ میرا ناقص گمان یہ ہے کہ اگر خیر اور بھلائی کا مفہوم سمجھ لیا جائے تو متذکرہ بالا دونوں گروہوں کے اختلاف میں تطبیق ہوسکتی ہے۔ خیر اور بھلائی سے یہاں تین چیزیں مراد ہوسکتی ہیں۔ 1 غلام میں مال کتابت ادا کرنے کی صلاحیت ہو، یعنی وہ اس قابل ہو کہ جس معاوضے کی بنیاد پر وہ مکاتبت کرنا چاہتا ہے وہ معاوضہ کما کر مہیا کرسکتا ہو۔ ہنر مند آدمی ہو، صحت مند ہو، محنتی ہو۔ ایسا نہ ہو کہ محض اس خیال سے کہ اسلام نے چونکہ ہمیں مکاتبت کا حق دیا ہے تو اس سے فائدہ اٹھائو۔ چند سال زرِ مکاتبت ادا کرنے کی مدت مقرر کرلو۔ اس دوران خوب گھومو پھرو عیش کرو اور تھوڑا بہت جو کمائو اسے کھا کر برابر کردو، اور پھر مدت کے اختتام پر حاضر ہو کر کہہ دو کہ میں زرمکاتبت ادا نہیں کرسکتا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ بدنیت شخص معاہدہ مکاتبت کے بعد اسے بہانہ بنا کر لوگوں سے مانگنا شروع کردے اور چونکہ اسلام نے ایسے لوگوں کی مدد کرنے کا حکم دیا ہے اس لیے مسلمان خواہی نخواہی اس کی کچھ نہ کچھ مدد کریں اور یہ اس سے فائدہ اٹھاتا رہے اور آخر عجز کا اظہار کردے۔ اس لیے یہ بات دیکھنا ازبس ضروری ہے کہ یہ شخص زرمکاتبت ادا بھی کرسکتا ہے یا نہیں۔ 2 جو مکاتبت کا مطالبہ کررہا ہے اس میں یہ بات بھی دیکھی جائے کہ وہ کہاں تک دیانتدار اور راست باز آدمی ہے۔ کیا اس کے قول پر اعتبار کیا جاسکتا ہے یا نہیں ؟ 3 مکاتبت کے خواہاں آدمی میں اخلاقی رجحانات اور مسلمانوں کے ساتھ معاملات کا اندازہ کرنا بھی ضروری ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ بات اس کے مالک سے مخفی نہیں رہ سکتی کہ اس کا غلام اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ کہاں تک خیرخواہ ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ اگر اسے مکاتبت کے ذریعے آزادی مل جائے تو وہ آستین کا سانپ ثابت ہو۔ کیونکہ غلاموں میں ایسے لوگ بھی تھے جو جنگ میں گرفتار ہو کر آئے۔ ضروری نہیں کہ گرفتاری کے بعد وہ مسلمانوں سے اپنی دشمنی کو بھول چکے ہوں۔ خیر کے مندرجہ بالا مفہوم کو سامنے رکھتے ہوئے یہ بات بڑی آسانی سے کہی جاسکتی ہے کہ جو غلام ذی صلاحیت، دیانتدار، قابل اعتماد اور اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں مخلص ہے تو ایسے شخص کو حق مکاتبت نہ دینا یقینا زیادتی ہے۔ ایسے شخص کے لیے حضرت عمرفاروق ( رض) کا اسوہ ہمارے لیے حجت ہے۔ لیکن وہ شخص جو راست باز نہ ہو، مکاتبت کو محض مالک سے چھٹی پانے کا ذریعہ سمجھتا ہو یا وہ مسلمانوں کا بہی خواہ نہ ہو تو اس کے بارے میں مالک کو بجاطور پر حق پہنچتا ہے کہ وہ سوچ سمجھ کر فیصلہ کرے۔ وَاٰ تُوْھُمْ مِّنْ مَّالِ اللّٰہِ الَّذِیْٓ اٰ تٰـکُمْ ” اور ان کو اس مال میں سے دو جو اللہ نے تمہیں دیا ہے۔ “ مکاتبت میں تعاون کا حکم اللہ تعالیٰ نے غلاموں کے لیے آزادی کے حصول میں جو آسانیاں مہیا فرمائی ہیں تاکہ انسانوں کو آزادی کی نعمت سے بہرہ ور ہونے کا موقع دیا جائے اور غلامی کی لعنت ختم کی جائے۔ ان میں دوسرے امکانات کے ساتھ ساتھ ایک حق مکاتبت بھی ہے، جس سے ایک باہمت آدمی اگر چاہے تو غلامی سے نجات حاصل کرسکتا ہے، لیکن اسے مزید آسان بنانے کے لیے پیش نظر آیت کے مذکورہ الفاظ میں تمام مسلمانوں کو ایسے شخص کی مدد کرنے کا حکم دیا گیا۔ اس حکم کے مخاطب مکاتبت کا حق مانگنے والوں کے آقا بھی ہیں اور عام مسلمان بھی اور اسلامی حکومت بھی۔ تینوں کی یہ ذمہ داری ٹھہرائی گئی ہے کہ جب یہ لوگ معاونت کے خواستگار ہوں تو انھیں مایوس نہ کیا جائے۔ آقائوں کو ہدایت کی گئی کہ جو تم سے حق مکاتبت مانگیں اور ان سے مکاتبت کا ایک معاوضہ طے ہوجائے تو مال کتابت کا کچھ نہ کچھ حصہ انھیں معاف کردو۔ چناچہ متعدد روایات سے ثابت ہے کہ صحابہ کرام ( رض) اپنے مکاتبوں کو مال کتابت کا ایک معتد بہ حصہ معاف کردیا کرتے تھے۔ حضرت علی ( رض) کے بارے میں بیان کیا جاتا ہے کہ ان کا تو ہمیشہ یہ معمول رہا کہ وہ ہمیشہ اپنے مکاتبوں کو مال کتابت کا چوتھائی حصہ معاف کردیتے تھے اور دوسروں کو بھی اس کی ترغیب دیتے تھے۔ عام مسلمانوں کو بھی چونکہ اس کی ہدایت کی گئی تھی اس لیے جو شخص بھی مال کتابت ادا کرنے کے لیے ان سے مدد کی درخواست کرتا تھا وہ دل کھول کر مدد کرتے تھے۔ حتیٰ کہ قرآن کریم نے غلاموں کو غلامی کی قید سے آزاد کرانے کے لیے مدد کرنے کو مصارفِ زکوٰۃ میں شمار کیا ہے۔ اور فَکُ رَقَـبَۃٍ ” گردن کا بند کھولنا “ کو ایک بڑی نیکی کا کام قرار دیا ہے۔ حدیث میں ہے کہ ایک اعرابی نے نبی کریم ﷺ سے عرض کیا، مجھے وہ عمل بتایئے جو مجھ کو جنت میں پہنچا دے۔ حضور ﷺ نے فرمایا : تو نے بڑے مختصر الفاظ میں بہت بڑی بات پوچھ ڈالی۔ غلام آزاد کر، غلاموں کو آزادی حاصل کرنے میں مدد دے، کسی کو جانور دے تو خوب دودھ دینے والا دے، اور تیرا جو رشتہ دار تیرے ساتھ ظلم سے پیش آئے اس کے ساتھ نیکی کر، اور اگر یہ نہیں کرسکتا تو بھوکے کو کھانا کھلا، پیاسے کو پانی پلا، بھلائی کی تلقین کر، برائی سے منع کر، اور اگر یہ بھی نہیں کرسکتا تو اپنی زبان کو روک کر رکھ، کھلے تو بھلائی کے لیے کھلے ورنہ بند رہے۔ (بیہقی فی شعب الایمان، عن البراء بن عاذب) اسلامی حکومت کو بھی ہدایت کی کہ اگر کچھ لوگ مجبور ہو کر حکومت سے رجوع کریں تو بیت المال میں جو زکٰوۃ جمع ہو اس میں سے مکاتب کی رہائی کے لیے ایک حصہ خرچ کرے۔ مکاتبت کا حق لونڈیوں کو بھی ہے مکاتبت کا یہ حق اسلام نے جس طرح غلاموں کو دیا اسی طرح لونڈیوں کو بھی دیا۔ مِمَّا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ کے الفاظ کی عمومیت بھی اس پر دلیل ہے اور نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرام ( رض) کا عمل بھی۔ روایات میں حضرت بریرہ ( رض) اور حضرت جویریہ ( رض) کے واقعات موجود ہیں جو اس کی عملی شہادت ہیں۔ اس قانون کے نازل ہوجانے کے بعد تمام ذی صلاحیت غلاموں اور لونڈیوں کی آزادی کی نہایت وسیع راہ کھل گئی۔ اس کے بعد صرف وہی غلام باقی رہے جو یا تو اپنی حالت پر قانع اور مطمئن تھے یا ان کے اندر ہاتھ پائوں مارنے اور معاشرے کے اندر خود اپنی جگہ پیدا کرنے کی صلاحیت نہیں تھی۔ ظاہر ہے کہ اگر ایسے غلاموں اور لونڈیوں کی آزادی کا اعلانِ عام کردیا جاتا تو اس کا نتیجہ یہ نکلتا کہ وہ اپنے مالکوں کی سرپرستی سے بھی محروم ہوجاتے اور خود بھی اپنی کفالت کا انتظام نہ کر پاتے، جس کے سبب سے وہ معاشرے پر ایک بار بن کے رہ جاتے۔ ان کے عزت نفس اور عام ضروریات کی انجام دہی کے لیے ان کے آقائوں کو ذمہ دار ٹھہرایا گیا اور حکم دیا کہ جو خود کھائو انھیں کھلائو، جو خود پہنو، انھیں پہنائو، انھیں اپنا بھائی سمجھو اور کبھی انھیں غلام کہہ کے مت پکارو۔ غلاموں کو مکاتبت کی سہولت اور اس سلسلے میں مسلمانوں کو جس تعاون اور حُسنِ سلوک کا حکم دیا گیا ہے وہ ہم نے پیش نظر آیت کی توضیح میں پڑھا ہے جس سے فی الجملہ اندازہ ہوجاتا ہے کہ اسلام نے غلاموں کو کس قدر حقوق دیئے ہیں لیکن جب تک یکجا طور پر ان اسلامی احکام کو ذکر نہ کیا جائے جو غلامی ختم کرنے کے سلسلے میں اسلام نے دیئے ہیں اس وقت تک اسلام کا انسانیت پر احسان اور دیگر نظام ہائے عالم میں اس کا امتیاز پوری طرح سمجھ میں نہیں آسکتا۔ اس لیے ہم بڑے اختصار سے اس سلسلہ میں چند گزارشات پیش کرتے ہیں۔ 1 غلامی اسلام کے نظام کا کوئی جز نہیں، بلکہ اسلام سے پہلے تمام ممالک اور تمام اقوام میں ایک مروج طریقہ تھا جو مختلف حوالوں سے وجود میں آیا تھا۔ اسلام نے صرف وقتی طور پر اسے گوارا کیا تھا۔ کوئی شخص یہ کہہ سکتا ہے کہ جس طرح اسلام نے صدیوں سے جمی ہوئی بعض خرافات کو بیک قلم ختم کر ڈالا، اسی طرح اس غلامی کی لعنت کو بھی ختم کیا جاسکتا تھا، تو آخر اسلام نے ایسا کیوں نہ کیا ؟ یہ بات بظاہر دل کو اپیل کرتی ہے لیکن جس شخص کی نگاہ اس وقت کے تمدنی اور بین الاقوامی حالات پر ہے وہ یہ کہنے کی جرأت کبھی نہیں کرسکتا۔ اس لیے کہ اسلام کے نزول کے وقت تمام دنیا بالخصوص عرب میں تین طرح کے غلام موجود تھے۔ 1 وہ غلام جو بعض ظالم اور جابر قسم کے لوگ زبردستی کسی کو پکڑ کر غلام بنا لیتے تھے اور پھر بیچ ڈالتے تھے۔ اب یہ بکنے والا شخص ہمیشہ کے لیے غلام بن کر رہ جاتا۔ 2 وہ لوگ جو نسلوں سے غلام چلے آرہے تھے اور کچھ پتہ نہ تھا کہ ان کے ابائواجداد کب غلام بنائے گئے تھے اور نہ یہ معلوم تھا کہ یہ کسی جنگ میں پکڑے گئے یا ظلماً ان کو غلام بنا کر بیچ ڈالا گیا۔ 3 وہ لوگ جو جنگ میں پکڑے جاتے اور اگر فریقِ مخالف ان کے چھڑانے کی کوئی تدبیر نہ کرتا تو وہ غلام بنا لیے جاتے۔ ان میں سے پہلی دونوں قسم کے غلام عرصہ ٔ دراز سے چلے آرہے تھے اور جو کسی نہ کسی حد تک آبادی کا حصہ بن چکے تھے۔ نتیجہ اس کا یہ تھا کہ ان میں وہ غلام جو کسی حد تک سمجھدار اور کاروبار کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے وہ اپنے مالک کی طرف سے یا اس کی معیت میں کاروباری زندگی میں شریک ہوتے تھے۔ بہت حد تک گھروں کی ذمہ داریاں ان لوگوں کے سپرد کردی جاتی تھیں۔ معاشی نظام کا بیشتر حصہ ان کے دم قدم سے چل رہا تھا۔ اب اگر اسلام انھیں آزاد کرنے کا حکم دے دیتا تو ملک کا معاشرتی اور معاشی نظام تلپٹ ہو کے رہ جاتا اور بہت ممکن تھا کہ امریکہ کی طرح خانہ جنگی پھوٹ پڑتی جس کی آگ میں سارا عرب جل اٹھتا۔ 2 غلاموں میں بہت سے لوگ ایسے بھی تھے جو معاشرے میں اپنا مقام بنانے کی صلاحیت نہیں رکھتے تھے اور بعض ایسے بھی تھے جو اپنے پیٹ کا دھندا چلانے پر بھی قادر نہ تھے۔ غلامی کی صورت میں تو ان کی کفالت کی ذمہ داری ان کے مالکوں کے اوپر تھی، لیکن آزاد ہوجانے کے بعد ان کے لیے اور کوئی راستہ نہ تھا کہ بھیک مانگیں اور معاشرے پر ایک بوجھ بن جائیں۔ ظاہر ہے کہ اسلام بھیک منگوں کا ایک طبقہ پیدا نہیں کرسکتا تھا۔ 3 غلاموں میں صرف مرد ہی نہیں تھے، عورتیں بھی تھیں جنھیں لونڈیاں کہا جاتا تھا۔ ان کا مسئلہ اور بھی پیچیدہ تھا۔ ان کے بےسہارا ہونے میں بہت سے اخلاقی مفاسد کے پیدا ہوجانے کا اندیشہ تھا۔ اسلام اس بات کا متحمل نہیں ہوسکتا تھا کہ وہ اٹلی اور جرمن کی طرح قیدیوں کے باڑے بنا دے اور پھر وہاں سے زنا کاری کے نتیجے میں ایک ایسی نسل وجود میں آئے جن کے باپوں کا کچھ علم نہ ہو۔ شرم و حیاء اور غیرت و حمیت اسلام کے امتیازی اوصاف ہیں۔ اسلام انھیں جوہرِ انسانیت قرار دیتا ہے۔ اس لیے وہ کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے یہ دیکھتا ہے کہ انسانیت کو اس سے کہیں ٹھیس تو نہیں لگے گی۔ 4 اسلام نے اگرچہ غلامی کو ایک ناگزیر ضرورت کے تحت قبول کیا تھا لیکن تبلیغ و دعوت اور انسان کو اللہ تعالیٰ کے آستانے پر جھکانا چونکہ اس کا بنیادی مقصد ہے اس لیے یہ ممکن نہ تھا کہ دوسری دنیا کی طرح وہ غلاموں کو صرف خدمت کا ایک ذریعہ سمجھتا۔ اس لیے اس نے قیدیوں اور صدیوں کے غلاموں کو گھروں میں اس طرح جگہ دی اور اس طرح انھیں گھر کے افراد بنا کے رکھا کہ گھر میں رہنے والے مسلمانوں کا ایک ایک عمل ان کی نگاہوں کے سامنے رہے اور وہ بھی مسلمانوں کی نگاہ میں رہیں تاکہ وہ مسلمانوں کو دیکھ کر اچھے انسان کا تصور قائم کرسکیں اور وہ مسلمانوں کی نگرانی میں رہ کر تربیت کے عمل سے گزر سکیں۔ نتیجہ اس کا یہ ہوا کہ شاید ہی کوئی ایسا غلام باقی رہ گیا ہو جس نے اسلامی معاشرے میں اسلام قبول نہ کیا ہو اور پھر انھیں میں معتدبہ لوگوں کی ایک کھیپ تیار ہوئی جنھوں نے اسلامی علوم میں اپنا نام پیدا کیا بلکہ مسلمانوں کی امامت و قیادت کی، اور خاندانِ غلاماں کے نام سے ایک خاندان وجود میں آیا جس نے ملکوں پر حکومت کی اور تاریخ میں درخشاں کارنامے چھوڑے۔ رہی غلاموں کی پہلی قسم یعنی جنگی قیدی، یہ جنگوں میں گرفتار ہونے والے اس لیے غلام بنا لیے جاتے تھے کہ اس دور کا یہی وطیرہ تھا کہ جو لوگ بھی جنگ میں گرفتار ہوتے، فاتحین ان کو غلام بنا لیتے۔ اسلام نے ایسا کرنے کی اجازت ضرور دی لیکن حکم نہیں دیا، بلکہ اس بات کو ترجیح دی کہ اگر تم ملکی مفادات او ملی مصالح کے پیش نظر ازراہِ احسان جنگی قیدیوں کو چھوڑ دو تو تمہیں اس کی اجازت ہے اور اگر فدیہ لے کر چھوڑنا چاہو تو اس کی بھی اجازت ہے، لیکن اگر دشمن اپنے قیدیوں کو نہ فدیہ دے کر چھڑانا چاہے اور نہ قیدیوں کا تبادلہ کرے اور پکڑے جانے والوں کے بارے میں یہ اطمینان بھی مشکل ہو کہ یہ واپس جا کر دشمنی نہیں کریں گے تو پھر مسلمانوں کے پاس اس کے سوا اور کیا چارہ کار تھا کہ وہ زمانے کی روش کے مطابق انھیں غلام بنالیں۔ البتہ ان کی بتدریج آزادی کے لیے قانونی طریقے کی بجائے اخلاقی طریقہ اختیار کیا اور اسے ایک ایسی معاشرتی نیکی بنادیا جس کے نتیجے میں غلاموں کی آزادی کا ایک راستہ کھل گیا۔ اسلام نے اس سلسلے میں جو اقدامات کیے، میں ایک ترتیب سے صرف ان کا ذکر کرنے پر اکتفا کروں گا۔ 1 اسلام نے جبراً اور ظلماً کسی کو غلام بنانے پر قطعاً پابندی لگا دی اور قانوناً اسے حرام ٹھہرایا۔ 2 مکی زندگی کے بالکل ابتدائی دور ہی سے فَکُّ رَقَبَۃٍ یعنی غلام آزاد کرنے کو بہت بڑی نیکی قرار دیا اور اس کو باقاعدہ ایک تحریک کی شکل دے ڈالی۔ جیسے جیسے مسلمانوں کے حالات بہتر ہوتے گئے اس تحریک میں توانائی آتی گئی۔ تنگدستی کے باوجود بھی مسلمانوں نے ہمیشہ اس پر عمل کیا اور اسے اللہ تعالیٰ کی رضامندی کے حصول کا ذریعہ سمجھا۔ چناچہ نبی کریم ﷺ نے 63 غلام آزاد کیے۔ آپ ﷺ کی ازواجِ مطہرات میں سے صرف حضرت عائشہ صدیقہ ( رض) کے آزاد کردہ غلاموں کی تعداد 67 ہے۔ آنحضرت ﷺ کے چچا حضرت عباس ( رض) نے اپنی زندگی میں 70 غلاموں کو آزاد کیا۔ حضرت حکیم بن حزام ( رض) نے 100 غلام آزاد کیے۔ حضرت عبداللہ ابن عمر ( رض) نے ایک ہزار غلام آزاد کیے۔ ذوالکلاع حمیری ( رض) نے آٹھ ہزار، حضرت عبدالرحمن بن عوف ( رض) نے تیس ہزار کو رہائی بخشی۔ خلفائے راشدین میں حضرت ابوبکر صدیق ( رض) اور حضرت عثمان ( رض) کا نام تو اس حوالے سے بہت معروف ہے۔ 3 بعض گناہوں اور کوتاہیوں کی صورت میں غلام آزاد کرنے کو کفارہ اور صدقہ ٹھہرایا گیا۔ مثلاً قتل خطا میں، روزہ توڑنے میں، قسم توڑنے میں اور ظہار وغیرہ میں۔ آنحضرت ﷺ نے نہایت واضح الفاظ میں غلاموں اور لونڈیوں کے ساتھ نہ صرف حُسنِ سلوک کی ہدایت فرمائی بلکہ مالکوں پر ان کے انسانی حقوق کو شرعی درجہ دے دیا جس سے ان کے معاملہ میں مالکوں کی وہ خودمختاری اور مطلق العنانی ختم ہوگئی جو زمانہ جاہلیت میں ان کو حاصل تھی۔ 4 لونڈی کے ام ولدہ بن جانے پر اس کے بیچنے پر پابندی لگا دی اور آقا کے مرجانے پر اس کے آزاد ہوجانے کی ضمانت دی۔ 5 کوئی شخص اپنی زندگی تک اپنے غلام کو غلام رکھے اور بعد کے لیے وصیت کردے کہ اس کے مرتے ہی وہ آزاد ہوجائے گا، اسے اسلامی فقہ کی اصطلاح میں تدبیر کہتے ہیں۔ تو یہ شخص آقا کے مرنے کے بعد آزاد ہوجائے گا۔ 6 تمام ذی صلاحیت لونڈیوں اور غلاموں کے نکاح کردینے کی ہدایت فرمائی تاکہ معاشرے کے اندر ان کا اخلاقی و معاشرتی معیار اونچا ہو اور ان کو غلام یا لونڈی کہہ کر بلانے پر پابندی لگا دی، بلکہ حکم دیا کہ انھیں فتیٰ اور فتات کہہ کر پکارو۔ 7 زمانہ جاہلیت میں جن مالکوں نے لونڈیوں سے پیشہ کرانے کے لیے چکلے قائم کر رکھے تھے ان کے چکلے زنا کے جرم قرار پا جانے کے بعد ختم ہوگئے اور قانوناً ان پر پابندی لگا دی گئی۔ 8 آخر میں مکاتبت کو ایک قانونی حیثیت دے دی گئی اور ان کی امداد اور حوصلہ افزائی کے لیے عام لوگوں کو بھی ابھارا گیا اور ان کی مدد کے لیے بیت المال میں بھی ایک خاص مد رکھی گئی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ خلافتِ راشدہ میں ہی قانونی طور پر غلامی کا خاتمہ ہوگیا۔ اس کے بعد صرف وہ غلام بچ رہے جو ہاتھ پائوں مارنے کی صلاحیت سے عاری تھے اور وہ خود بھی آزادی کے خواہاں نہ تھے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ ہم آزاد ہو کر اپنی ضروریاتِ زندگی کے لیے گدا گری کرنے پر مجبور ہوجائیں گے جبکہ مسلمانوں کے گھروں میں انھیں وہ تمام سہولتیں حاصل تھیں جو گھر کے دیگر افراد کو میسر تھیں۔ کیونکہ آنحضرت ﷺ نے ان کے ساتھ حُسنِ سلوک کی انتہائی ترغیب دی تھی اور بدسلوکی کی صورت میں قیامت کے دن خود استغاثہ کی تنبیہ فرمائی تھی۔ یہ وہ مختصر اقدامات ہیں جو اسلام نے بتدریج غلامی کو ختم کرنے کے لیے کیے اور اسے خدمت کا ذریعہ اور ذلت کی علامت بنانے کی بجائے تربیت کا ذریعہ بنایا جس کے نتائج قرنِ اول کی تاریخ سے نمایاں ہیں۔ کوئی شخص ان کو سامنے رکھ کردیا نتداری سے بتائے کہ کیا اس سے بہتر غلامی ختم کرنے کا کوئی اور حل بھی ممکن تھا۔ اور یہ بھی تقابل کرکے دیکھے کہ اعتراض کرنے والی دنیا نے خود اس معاملے میں کیا اور کیسی اندوہناک مثالیں چھوڑی ہیں۔ معاشرتی مقام کی بلندی اصلاح کا ذریعہ وَلاَ تُکْرِھُوْا فـَتَیٰـتِکُمْ عَلَی الْبِغَـآئِ اِنْ اَرَدْنَ تَحَصُّنًا ” اور اپنی لونڈیوں کو پیشہ پر مجبور نہ کرو جبکہ وہ عفت کی زندگی کی خواہاں ہیں۔ “ اسلام نے ہر طرح کی بےحیائی کو روکنے اور اس کے محرکات کو ختم کرنے کے لیے جو قانونی اور اصلاحی تدابیر کی ہیں وہ گزشتہ آیات میں ہم پڑھ چکے ہیں۔ انہی اصلاحی تدابیر میں ہم نے دیکھا ہے کہ نفسیاتی عوامل کو بھی نظرانداز نہیں کیا گیا، بلکہ طریقے طریقے سے باہر کی اصلاح کے ساتھ ساتھ اندر بھی ایک ایسی قوت مدافعت اور ایک ایسا احساسِ تشخص پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے جو ہر شخص کو برائی پر غالب آنے کے لیے اکساتا ہے۔ مثلاً مخلص مسلمانوں کو بار بار اس بات کا احساس دلایا ہے کہ تم اگر صاحب ایمان ہو تو ایمان اور بےحیائی تو ایک جگہ جمع نہیں ہوسکتے۔ اسی طرح کوئی بھی صاحب ایمان اور اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کے علم کا استحضار رکھنے والا نہ تو خود گناہ کے قریب جاتا ہے اور نہ کسی دوسرے پر تہمت باندھتا ہے کیونکہ ایمان ایک ایسا نور ہے جس کے سامنے ہر طرح کی برائی کے اندھیرے چھٹ جاتے ہیں۔ بالکل اسی طرح غلاموں اور لونڈیوں میں اخلاقی اصلاح کے لیے ایمان کی قوت کے ساتھ ساتھ احساسِ ذات بھی پیدا کیا گیا۔ غلام جو ہر لحاظ سے اپنے آپ کو دوسروں سے فروتر سمجھتے تھے، ان کے لیے آزادی کے راستے کھولے گئے اور انھیں اس طرح کی مراعات دی گئیں جس نے معاشرتی طور پر ان کے مقام و مرتبہ کو بلند کیا۔ اسی طرح لونڈیوں میں بھی عفت مآبی اور پاکدامنی کا احساس پیدا کیا گیا جبکہ انھیں اسلام سے پہلے جنسی کھلونوں سے زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی تھی۔ پیش نظر آیت کریمہ میں اِمَائٌ (لونڈیاں) کہنے کی بجائے فتیات کہا گیا ہے جو فتاۃ کی جمع ہے۔ اس کا معنی لڑکی اور چھوکری کے ہیں اور یہ عام طور سے نوخیز بچیوں کو پیار سے کہا جاتا ہے۔ اس لفظ کا استعمال ہی بجائے خود اس بات کی دلیل ہے کہ اب وہ معاشرتی طور پر بلند مقام کی حامل ہیں۔ اور آنحضرت ﷺ نے اسی احساس کی تائید میں یہ حکم دیا کہ کسی غلام کو عبد اور کسی لونڈی کو امۃ کہہ کر نہ پکارا جائے۔ الفاظ کی یہ تبدیلی انھیں اصلاحات کا جز ہے جو ان کے معاشی مقام کو بلند کرنے کے لیے اسلام نے رائج کیں۔ چناچہ ایک طرف ایمان نے عفت مآبی پیدا کی اور دوسری طرف برتری کے احساس نے قدیم تصورات کو بدلنے پر مجبور کیا اور ان کے اندر شدت سے یہ احساس پیدا ہونے لگا کہ ہم اگرچہ آزاد عورتیں نہیں ہیں لیکن جہاں تک عفت و عصمت کا تعلق ہے اس میں ہم آزاد عورتوں سے کسی طرح کم نہیں۔ اس لیے اب اس بات کو قبول نہیں کیا جاسکتا کہ ہمیں جنسی آسودگی کے لیے استعمال کیا جائے۔ چناچہ یہی وہ لونڈیاں ہیں جن کے لیے اس آیت کریمہ میں یہ حکم جاری فرمایا گیا، لیکن اسے سمجھنے کے لیے چند باتوں کا جاننا ضروری ہے۔ اہلِ عرب میں قحبہ گری اس حکم کے نزول کے وقت اور اس سے پہلے عرب میں قحبہ گری کی دو صورتیں تھیں۔ ایک کو خانگی کا پیشہ کہا جاتا تھا اور دوسرے کو باقاعدہ چکلے کا نام دیا جاتا تھا۔ خانگی کا پیشہ کرنے والی زیادہ تر آزاد شدہ لونڈیاں ہوتی تھیں جن کا کوئی سرپرست نہ ہوتا یا ایسی آزاد عورتیں ہوتی تھیں جن کی پشت پناہی کرنے والا کوئی خاندان یا قبیلہ نہ ہوتا۔ یہ کسی کے گھر میں بیٹھ جاتیں اور کئی کئی مردوں سے بیک وقت معاہدہ کرلیتیں کہ وہ اگر اس کے اخراجات کی ذمہ داری اٹھائیں گے تو وہ اس سے اپنی جنسی حاجت پوری کرسکیں گے۔ بچہ پیدا ہونے کی صورت میں باپ کے حوالے سے اس عورت کا فیصلہ قبول کیا جاتا اور بچہ اس باپ کی طرف منسوب ہوتا۔ یہ اس وقت کے معاشرے کا مُسّلم ادارہ تھا جسے اہل جاہلیت ایک قسم کا نکاح سمجھتے تھے، اسلام نے اسے یکسر ختم کردیا۔ قحبہ گری کی دوسری صورت تمام تر لونڈیوں کے ذریعے سے ہوتی تھی۔ اس کے دو طریقے تھے۔ ایک یہ کہ لوگ اپنی جوان لونڈیوں کو مجبور کرتے تھے کہ تم ہر مہینے اتنا کما کر لائو۔ اور ان کے پاس کمانے کا ذریعہ بدکاری کے سوا اور کوئی نہ تھا۔ مالک جانتے تھے کہ وہ اسی ذریعہ سے کما کے لاتی ہیں اور وہ شوق سے کسب حرام کی کمائی کھاتے تھے۔ دوسرا طریقہ یہ تھا کہ لوگ اپنی جوان جوان اور خوبصورت لونڈیوں کو کوٹھوں پر بٹھا دیتے تھے اور ان کے دروازوں پر جھنڈے لگا دیتے تھے جنھیں دیکھ کر دور ہی سے معلوم ہوجاتا تھا کہ یہ بدکاری کے اڈے ہیں اور اس قماش کے لوگ اپنی حاجت براری کے لیے ادھر کا رخ کرتے تھے۔ ایسے گھروں کو ” مواخیر “ کہا جاتا تھا۔ عرب کے بڑے بڑے رئیسوں نے اس طرح کے چکلے کھول رکھے تھے۔ مدینہ منورہ میں عبداللہ بن ابی جو اوس و خزرج کا بڑا آدمی سمجھا جاتا تھا اور آنحضرت ﷺ کی تشریف آوری سے پہلے اہل مدینہ اسے اپنا بادشاہ بنانے کا فیصلہ کرچکے تھے۔ اس کا مدینے میں باقاعدہ ایک چکلہ تھا جس میں چھ خوبصورت لونڈیاں رکھی گئی تھیں۔ ان ہی لونڈیوں میں سے ایک لونڈی جس کا نام ” معاذہ “ تھا مسلمان ہوگئی اور اس نے توبہ کرنی چاہی۔ ابن ابی نے اس پر تشدد کیا۔ حضرت ابوبکر ( رض) کے واسطے سے اس نے اپنی شکایت آنحضرت ﷺ تک پہنچائی۔ سرکارِدوعالم ﷺ نے حکم دے دیا کہ لونڈی اس ظالم کے قبضے سے نکال لی جائے۔ یہ وہ پس منظر ہے جسے سامنے رکھتے ہوئے اس آیت کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے کیونکہ انہی حالات میں یہ آیت کریمہ نازل ہوئی ہے۔ حرف ان کا مفہوم اس آیت سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ چونکہ اس میں ” حرف اِن “ استعمال ہوا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ حکم اس بات سے مشروط ہے کہ اگر کوئی لونڈی پاکدامنی کا ارادہ کرے تو تب تو اسے اس کا مالک مجبور نہیں کرسکتا، لیکن اگر وہ اس کا ارادہ نہ رکھتی ہو تو پھر مالک کے لیے اس سے قحبہ گری کرانا اور اس کی کمائی کھانا ناجائز نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس آیت کریمہ میں اِنْ اَرَدْنَ تَحَصُّنًا کی قید یہاں بطور شرط کے نہیں بلکہ صورت واقعہ کی تعبیر کے لیے ہے۔ یعنی جبکہ غلاموں اور لونڈیوں کے نکاح کی ہدایت فرمائی گئی ہے اور زنا پر حد جاری کرنے کا حکم دے دیا گیا ہے اور مختلف احکام سے غلاموں اور لونڈیوں کی آزادی کا ایک کشادہ راستہ کھول دیا گیا ہے تو اب بجاطور پر لونڈیاں یہ چاہتی ہیں اور ان کے دل کی یہ آواز ہے کہ ان کے مالکوں کا دبائو ان کی عفت و حرمت پر ختم ہونا چاہیے۔ وہ پاکدامن رہنا چاہتی ہیں تو آقا کو اس بات کا حق نہیں ہونا چاہیے کہ وہ انھیں زنا کاری پر مجبور کرے۔ چناچہ ان کی اس آرزو کی تکمیل کے لیے اور ان کی دعا کو قبول کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے یہ حکم جاری فرمایا۔ اور آنحضرت ﷺ نے اس حکم کی وضاحت اور اس کے نفاذ کے لیے اعلان فرمایا کہ لامساعاۃ فی الاسلام ” اسلام میں قحبہ گری کے لیے کوئی گنجائش نہیں۔ “ زنا کی کمائی کی حرمت لِـتَبْتَغُوْا عَرَضَ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا ” تاکہ تم حیات دنیا کا سامان حاصل کرو۔ “ اس میں خطاب لونڈیوں کے مالکوں سے ہے جو ان کی عزتوں کی کمائی کھاتے تھے۔ انھیں تنبیہ کی گئی ہے کہ اسلام نے زنا کو حرام قرار دے دیا ہے اور اس کا ارتکاب کرنے والوں کے لیے سزائوں پر مشتمل قانون بھی نازل کردیا گیا ہے۔ مسلمان لونڈیاں اسلامی ہدایت کے مطابق پاکدامن رہنا چاہتی ہیں اور تم محض چند ٹکوں کی خاطر ان کی عزتوں کا سودا کرتے ہو۔ تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ زنا کی کمائی نہایت خبیث اور حرام ہے۔ تم اس سے اپنی دنیا بنانے کی فکر میں ہو، لیکن تمہیں معلوم نہیں کہ آخرت میں تمہیں اس کا کیا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ آنحضرت ﷺ نے اس کی وضاحت کرتے ہوئے حکم جاری فرمایا کہ زنا کے ذریعہ سے حاصل ہونے والی آمدنی حرام، ناپاک اور قطعی ممنوع ہے۔ رافع بن خدیج ( رض) کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے لونڈی سے آمدنی وصول کرنا ممنوع قرار دیا ہے جب تک یہ معلوم نہ ہو کہ یہ آمدنی اسے کہاں سے حاصل ہوتی ہے۔ رافع بن رفاعہ انصاری ( رض) کی راویت میں اس سے زیادہ واضح حکم ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے نبی ﷺ نے ہم کو لونڈی کی کمائی سے منع فرمایا، بجز اس کے کہ جو وہ ہاتھ کی محنت سے حاصل کرے اور آپ ﷺ نے ہاتھ کے اشارے سے اس کی وضاحت فرمائی۔ یعنی روٹی پکانا، سوت کاتنا یا اون یا روئی دھکنا وغیرہ۔ (مسند احمد، ابودائود کتاب الاجارہ) اس طرح نبی کریم ﷺ نے قرآن کی اس آیت کے منشا کے مطابق قحبہ گری کی ان تمام صورتوں کو مذہباً ناجائز اور قانوناً ممنوع قرار دے دیا جو اس وقت عرب میں رائج تھیں۔ وَمَنْ یُّکْرِھْھُّنَّ فَاِنَّ اللّٰہَ مِنْ م بَعْدِ اِکْرَاھِھِنَّ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ” اور جو کوئی ان کو مجبور کرے تو اس جبر کے بعد اللہ ان کے لیے غفورورحیم ہے۔ “ عبداللہ بن ابی اور اس قماش کے لوگوں نے جگہ جگہ چکلے قائم کر رکھے تھے اور اسی پر ان کی چودھراہٹوں کا دارومدار تھا۔ اس لیے ان کے لیے اس سے بڑی تکلیف دہ بات اور کیا ہوسکتی تھی کہ ان چکلوں کو بند کرنے کا حکم دے دیا جائے اور انھیں پابند کردیا جائے کہ وہ اپنی لونڈیوں سے ہاتھوں کی کمائی کے سوا کوئی اور کام نہیں لے سکتے۔ بنابریں اس بات کی توقع نہیں کی جاسکتی تھی کہ وہ آسانی سے اس حکم کی تعمیل کریں گے اور یا اپنی لونڈیوں کو پاکدامنی کی زندگی اختیار کرنے کی اجازت دیں گے۔ چناچہ انھیں وارننگ دیتے ہوئے فرمایا جارہا ہے کہ اب ان لڑکیوں کو جبکہ وہ پاکدامنی کی زندگی اختیار کرنا چاہتی ہیں بدکاری پر مجبور نہ کرو ورنہ یاد رکھو کہ اکراہ کی صورت میں اللہ تعالیٰ ان کو تو معاف کردے گا البتہ وہ لوگ اپنا انجام سوچ لیں جو ان کی عفت کے ساتھ یہ گھنونا کھیل، کھیل رہے ہیں۔
Top