Ruh-ul-Quran - An-Noor : 34
وَ لَقَدْ اَنْزَلْنَاۤ اِلَیْكُمْ اٰیٰتٍ مُّبَیِّنٰتٍ وَّ مَثَلًا مِّنَ الَّذِیْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِكُمْ وَ مَوْعِظَةً لِّلْمُتَّقِیْنَ۠   ۧ
وَلَقَدْ : اور تحقیق اَنْزَلْنَآ : ہم نے نازل کیے اِلَيْكُمْ : تمہاری طرف اٰيٰتٍ : احکام مُّبَيِّنٰتٍ : واضح وَّ مَثَلًا : اور مثالیں مِّنَ : سے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو خَلَوْا : گزرے مِنْ قَبْلِكُمْ : تم سے پہلے وَمَوْعِظَةً : اور نصیحت لِّلْمُتَّقِيْنَ : پرہیزگاروں کے لیے
اور بیشک ہم نے تمہاری طرف صاف صاف ہدایت دینے والی آیات بھیج دی ہیں اور ان لوگوں کی عبرتناک مثالیں بھی نازل کردی ہیں جو تم سے پہلے گزر چکے ہیں اور اللہ سے ڈرنے والوں کے لیے نصیحت بھی (ہم نے اتار دی ہے
وَلَقَدْ اَنْزَلْنَـآ اِلَیْکُمْ اٰیٰتٍ مُّبَیِّنٰتٍ وَّ مَثَلاً مِّنَ الَّذِیْنَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِکُمْ وَمَوْعِظَۃً لِّلْمُتَّـقِیْنَ ۔ (النور : 34) (اور بیشک ہم نے تمہاری طرف صاف صاف ہدایت دینے والی آیات بھیج دی ہیں اور ان لوگوں کی عبرتناک مثالیں بھی نازل کردی ہیں جو تم سے پہلے گزر چکے ہیں اور اللہ سے ڈرنے والوں کے لیے نصیحت بھی (ہم نے اتار دی ہے) ایک تنبیہ اس آیت کا تعلق اس پورے سلسلہ بیان سے ہے جو آغاز سورة سے لے کر یہاں تک چلا آرہا ہے۔ اس میں اللہ تعالیٰ نے انسانی اخلاق کی اصلاح کے لیے ایک سے ایک بڑھ کر ہدایات جاری فرمائی ہیں اور پھر بدقماش لوگوں کے لیے زنا اور قذف اور لعان کا قانون بیان کیا گیا ہے۔ معاشرے کو فواحش اور بےحیائی سے پاک کرنے کے لیے ان تمام محرکات پر پہرہ بٹھا دیا گیا ہے جو مسلمان معاشرے میں فواحش کو فروغ دیتے ہیں۔ گھروں کے ماحول کو پاکیزہ رکھنے کے لیے غض بصر اور حفظ فروج کی تاکید کی گئی ہے اور عورتوں کے لیے پردے کی حدود قائم کردی گئی ہیں۔ تجرد کی زندگی چونکہ ذہنی آوارگی کا باعث بنتی ہے اس لیے معاشرے کے آزاد لوگوں اور غلاموں اور لونڈیوں کا نکاح کرنے کا حکم دیا ہے اور معاشرے کو مکمل طور پر قحبہ گری سے پاک کرنے کے احکام جاری فرمائے ہیں۔ ان تمام ہدایات اور احکام کی طرف اشارہ فرماتے ہوئے تنبیہ کی گئی ہے کہ تمہاری اصلاح کے لیے اور اخلاقی بگاڑ سے بچانے کے لیے جو ہدایات اور احکام تمہاری ضرورت تھے وہ ہم نے تم پر نازل کردیئے اور جن لوگوں نے ان ہدایات کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اپنے آپ کو بگاڑا ان کے انجام کی طرف بھی اشارے کردیئے ہیں۔ اب یہ تمہارا کام ہے کہ تم اس تعلیم کو قبول کرتے ہو یا نہیں۔ لیکن اس کے بین السطور میں یہ بات جھلکتی ہوئی دکھائی دیتی ہے کہ اگر تم نے ان ہدایات کو قبول نہ کیا تو پھر غضب الٰہی تم سے دور نہیں۔ ویسے بھی یہ ہدایات اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والوں کے لیے نصیحت ہیں لیکن جو لوگ اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والے نہیں وہ ان ہدایات سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔ جس طرح اس آیت میں روئے سخن اس وقت کے لوگوں کی طرف تھا، آج کے مسلمانوں کی طرف بھی ہے۔ ان سے بھی یہ آیت پکار پکار کے کہہ رہی ہے کہ اگر تم نے ان ہدایات کی روشنی میں اصلاحِ احوال کی کوشش نہ کی اور قدیم و جدید جاہلیتوں کے سحر میں اپنے آپ کو مبتلا کرلیا اور دوسری بےحیاء قوموں کی تقلید میں اپنی شرم و حیاء کی چادر کو اتار پھینکا تو سوچ لو، تمہارا انجام کیا ہوگا۔ پھر مکافاتِ عمل کے قانون کے مطابق اگر تم پر غضب الٰہی کی بجلیاں گریں تو اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا قانون سب کے لیے یکساں ہے۔
Top