Ruh-ul-Quran - An-Noor : 47
وَ یَقُوْلُوْنَ اٰمَنَّا بِاللّٰهِ وَ بِالرَّسُوْلِ وَ اَطَعْنَا ثُمَّ یَتَوَلّٰى فَرِیْقٌ مِّنْهُمْ مِّنْۢ بَعْدِ ذٰلِكَ١ؕ وَ مَاۤ اُولٰٓئِكَ بِالْمُؤْمِنِیْنَ
وَيَقُوْلُوْنَ : اور وہ کہتے ہیں اٰمَنَّا : ہم ایمان لائے بِاللّٰهِ : اللہ پر وَبِالرَّسُوْلِ : اور رسول پر وَاَطَعْنَا : اور ہم نے حکم مانا ثُمَّ يَتَوَلّٰى : پھر پھر گیا فَرِيْقٌ : ایک فریق مِّنْهُمْ : ان میں سے مِّنْۢ بَعْدِ : اس کے بعد ذٰلِكَ : اس وَمَآ اُولٰٓئِكَ : اور وہ نہیں بِالْمُؤْمِنِيْنَ : ایمان والے
اور وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم اللہ اور رسول پر ایمان لائے اور ہم نے اطاعت کی ہے، پھر ان میں سے ایک گروہ اس دعویٰ کے بعد منہ پھیر لیتا ہے، اور یہ لوگ درحقیقت مومن نہیں ہیں
وَیَقُوْلُوْنَ اَمَنَّا بِاللّٰہِ وَ بِالرَّسُوْلِ وَاَطَعْنَا ثُمَّ یَتَوَلّٰی فَرِیْقٌ مِّنْھُمْ مِّنْ م بَعْدِ ذٰلِکَ ط وَمَـآ اُوْلٰٓئِکَ بِالْمُوْمِنِیْنَ ۔ (النور : 47) (اور وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم اللہ اور رسول پر ایمان لائے اور ہم نے اطاعت کی ہے، پھر ان میں سے ایک گروہ اس دعویٰ کے بعد منہ پھیر لیتا ہے، اور یہ لوگ درحقیقت مومن نہیں ہیں۔ ) منافقین کے رویئے پر تنقید اللہ تعالیٰ کے دین کی عام دعوت اور اس پر دلائل قائم کرنے کے بعد ایک اور حقیقت سے پردہ اٹھایا ہے، وہ یہ کہ اسلام چونکہ صرف ایک فرد کے عقیدے کا نام نہیں بلکہ ریاست کا آئین اور دستور بھی ہے۔ عام دستوری ریاستوں میں کسی شخص کا ریاست کے دستور کو تسلیم کرلینے کا اقرار اور اس کے جھنڈے کا احترام کافی سمجھا جاتا ہے۔ قطع نظر اس سے کہ اس کے طرز عمل اور اس کے دل و دماغ کی کیفیت پر دستور کی حاکمیت قائم ہوئی ہے یا نہیں، لیکن اسلامی ریاست میں ہر فرد اور پوری امت کو خبردار کیا گیا ہے کہ تمہارے لیے بنیادی ایمانیات کا اقرار اور بنیادی احکام پر عمل کافی نہیں۔ جب تک تم انفرادی اور اجتماعی زندگی میں اقرار کو یقین، اذعان اور عقیدے کی قوت میں تبدیل نہیں کردیتے اور عمل کے ساتھ ساتھ دل کی تائید اور اخلاص شامل نہیں ہوجاتا اس وقت تک تمہارا دعویٰ ایمان معتبر نہیں۔ چناچہ اس پابندی کے بعد حلقہ اسلام میں آنے والے دو قسموں میں تقسیم ہوگئے۔ ایک مومن قانت اور دوسرے منافق۔ جس طرح اسلام کی تاریخ اور اس کی کامیابیوں کی داستان سچے مومنوں اور مسلمانوں کے جذبہ ایمان اور قربانیوں سے روشن ہے۔ اسی طرح کچھ منافق بھی ہیں جو دائرہ اسلام میں داخل ہو کر مسلمانوں کی معاشرت میں شریک رہ کر معاشرتی فوائد حاصل کرنے کی فکر میں تو رہتے تھے لیکن ان کے دل و دماغ میں نہ اخلاص پیدا ہوا تھا اور نہ ایمان ان کی ترجیح بنا تھا۔ چناچہ ان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ یہ منافق لوگ بڑھ چڑھ کر ایمان کا دعویٰ کرتے ہیں اور ساتھ اطاعت کا دم بھی بھرتے ہیں، لیکن جب دعویٰ ایمان و اطاعت کے امتحان کا وقت آتا ہے تو پشت دکھا جاتے ہیں۔ سورة النساء اور بعض دیگر سورتوں میں اس مضمون کو زیادہ کھول کر بیان کیا گیا ہے۔ ایسے لوگ ہزار ایمان و اطاعت کا دعویٰ کریں، اللہ تعالیٰ کے نزدیک ہرگز مومن نہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک ایمان کا حق صرف کلمہ پڑھ دینے سے پورا نہیں ہوتا اور نہ اطاعت کے خالی دعوے کفایت کرتے ہیں بلکہ اللہ اور رسول کے احکام کی بےچون و چرا اطاعت اس کی اولین شرط ہے۔ اقبال نے ٹھیک کہا : یہ شہادت گہہ الفت میں قدم رکھنا ہے لوگ آساں سمجھتے ہیں مسلماں ہونا اور ایک اور شعر میں اس کو مزید واضح کیا گیا ہے : زباں سے کہہ بھی دیا لا الہ تو کیا حاصل دل و نگاہ مسلماں نہیں تو کچھ بھی نہیں
Top