Ruh-ul-Quran - An-Noor : 59
وَ اِذَا بَلَغَ الْاَطْفَالُ مِنْكُمُ الْحُلُمَ فَلْیَسْتَاْذِنُوْا كَمَا اسْتَاْذَنَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ١ؕ كَذٰلِكَ یُبَیِّنُ اللّٰهُ لَكُمْ اٰیٰتِهٖ١ؕ وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌ حَكِیْمٌ
وَاِذَا : اور جب بَلَغَ : پہنچیں الْاَطْفَالُ : لڑکے مِنْكُمُ : تم میں سے الْحُلُمَ : (حد) شعور کو فَلْيَسْتَاْذِنُوْا : پس چاہیے کہ وہ اجازت لیں كَمَا : جیسے اسْتَاْذَنَ : اجازت لیتے تھے الَّذِيْنَ : وہ جو مِنْ قَبْلِهِمْ : ان سے پہلے كَذٰلِكَ : اسی طرح يُبَيِّنُ اللّٰهُ : اللہ واضح لَكُمْ : تمہارے لیے اٰيٰتِهٖ : اپنے احکام وَاللّٰهُ : اور اللہ عَلِيْمٌ حَكِيْمٌ : جاننے ولاا، حکمت والا
جب تم میں سے بچے بلوغ کو پہنچ جائیں تو وہ بھی اسی طرح اجازت طلب کریں جس طرح ان کے پہلوں نے اجازت طلب کی، اسی طرح اللہ تعالیٰ تمہارے لیے اپنی آیات کی وضاحت کرتا ہے، اور اللہ علیم و حکیم ہے
وَاِذَا بَلَغَ الْاَطْفَالُ مِنْکُمُ الْحُلُمَ فَلْیَسْتَاذِنُوْا کَمَا اسْتَاْذَنَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِہِمْ ط کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَـکُمْ اٰیٰـتِہٖ ط وَاللّٰہُ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ۔ (النور : 59) (جب تم میں سے بچے بلوغ کو پہنچ جائیں تو وہ بھی اسی طرح اجازت طلب کریں جس طرح ان کے پہلوں نے اجازت طلب کی، اسی طرح اللہ تعالیٰ تمہارے لیے اپنی آیات کی وضاحت کرتا ہے، اور اللہ علیم و حکیم ہے۔ ) آیت 31 میں جن لوگوں کو استیذان سے مستثنیٰ رکھا گیا تھا بلکہ اجازت دی گئی تھی کہ ان کے سامنے اظہارِ زینت بھی ہوسکتا ہے، ان میں وہ بچے شامل تھے جو عورتوں کی خفیہ باتوں سے ابھی آگاہ نہیں ہوئے۔ لیکن پیش نظر آیت کریمہ میں ان نابالغ بچوں یا عورتوں کی پس پردہ چیزوں سے آگاہ ہوجانے والوں پر استیذان کی پابندی لگا دی گئی اور ارشاد فرمایا گیا کہ جس طرح ان سے پہلے بڑی عمر کے لوگ استیذان کے پابند تھے، اسی طرح اب یہ بھی پابند ہوں گے۔ ان کی اس عمر کے لیے جس میں ان پر یہ پابندی لگائی گئی ہے قرآن کریم نے ” حلم “ کا لفظ استعمال کیا۔ حلم بلوغ پر بھی بولا جاتا ہے اور عقل اور سمجھ پر بھی۔ اس لیے اس ناچیز کا دھیان بار بار اس طرف جاتا ہے کہ جن بچوں کو اس پابندی سے مستثنیٰ رکھا گیا تھا وہ، وہ بچے تھے جو عورتوں کی پس پردہ چیزوں سے واقف نہیں تھے۔ لیکن پھر ایک ایسی عمر آتی ہے جو بلوغ کے قریب کی عمر ہے، لیکن بلوغ کی عمر نہیں۔ اس وقت بچے عام طور پر عورتوں کی پس پردہ باتوں سے دلچسپی لینے لگتے ہیں۔ اور آج کے عریانی کے دور نے اور شرم و حیاء کے بندھن کمزور ہوجانے کے باعث اور بعض تعلیمی اداروں میں سیکس کو تعلیم کا حصہ بنا دینے نے بلوغ سے پہلے ہی بچوں کو بالغ کردیا ہے۔ یورپ میں عام سکولوں کی رپورٹیں جو بلوغ سے پہلے بچوں اور بچیوں کے بارے میں شائع ہوتی رہتی ہیں کا ذکر کرنا تو شرم کے باعث ممکن نہیں لیکن ان سے یہ بات ضرور واضح ہوجاتی ہے کہ بلوغ سے پہلے ہی باخبری کی عمر شروع ہوجاتی ہے، اس وقت ان پر استیذان کی قید عائد ہوجانی چاہیے۔ اور اس آیت کریمہ میں بلوغ کے لفظ کی بجائے حلم کا لفظ لا کر شاید اسی بات کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہو۔ واللہ اعلم۔ ان دونوں آیتوں کے بعد یہ وضاحت کہ یہ آیتیں احکام کی وضاحت کے طور پر نازل ہوئی ہیں۔ یہ اشارہ کردینے کے لیے کافی ہیں کہ یہ توضیحی آیات ہیں اور اللہ تعالیٰ کے علم و حکمت پر مبنی ہونے کی وجہ سے بندوں کی تربیت و اصلاح کے لیے جس حکمت کی ضرورت ہوتی ہے اس کی طرف اشارہ کررہی ہیں جس میں ترتیب اور تدریج تو بالکل سامنے کی باتیں ہیں، اس کے علاوہ کیا حکمتیں مضمر ہیں، اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے۔
Top