Ruh-ul-Quran - Al-Ankaboot : 10
وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَّقُوْلُ اٰمَنَّا بِاللّٰهِ فَاِذَاۤ اُوْذِیَ فِی اللّٰهِ جَعَلَ فِتْنَةَ النَّاسِ كَعَذَابِ اللّٰهِ١ؕ وَ لَئِنْ جَآءَ نَصْرٌ مِّنْ رَّبِّكَ لَیَقُوْلُنَّ اِنَّا كُنَّا مَعَكُمْ١ؕ اَوَ لَیْسَ اللّٰهُ بِاَعْلَمَ بِمَا فِیْ صُدُوْرِ الْعٰلَمِیْنَ
وَمِنَ : اور سے۔ کچھ النَّاسِ : لوگ مَنْ يَّقُوْلُ : جو کہتے ہیں اٰمَنَّا : ہم ایمان لائے بِاللّٰهِ : اللہ پر فَاِذَآ : پھر جب اُوْذِيَ : ستائے گئے فِي اللّٰهِ : اللہ (کی راہ) میں جَعَلَ : بنا لیا فِتْنَةَ : ستانا النَّاسِ : لوگ كَعَذَابِ : جیسے عذاب اللّٰهِ : اللہ وَلَئِنْ : اور اگر جَآءَ : آئے نَصْرٌ : کوئی مدد مِّنْ رَّبِّكَ : تمہارے رب سے لَيَقُوْلُنَّ : تو وہ ضرور کہتے ہیں اِنَّا كُنَّا : بیشک ہم تھے مَعَكُمْ : تمہارے ساتھ اَوَلَيْسَ : کیا نہیں ہے اللّٰهُ : اللہ بِاَعْلَمَ : خوب جاننے والا بِمَا : وہ جو فِيْ صُدُوْرِ : سینوں (دلوں) میں الْعٰلَمِيْنَ : جہان
اور لوگوں میں سے ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے اللہ پر، لیکن جب انھیں اللہ کی راہ میں ستایا گیا تو انھوں نے لوگوں کی ڈالی ہوئی آزمائش کو اللہ کے عذاب کی طرح سمجھ لیا۔ اب اگر تیرے رب کی طرف سے فتح و نصرت آگئی تو کہیں گے ہم تو تمہارے ساتھ تھے، کیا لوگوں کے دلوں میں جو کچھ ہے اللہ اس سے اچھی طرح باخبر نہیں ہے
وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّـقُوْلُ اٰمَنَّا بِاللّٰہِ فَاِذَآ اُوْذِیَ فِی اللّٰہِ جَعَلَ فِتْنَۃَ النَّاسِ کَعَذَابِ اللّٰہِ ط وَلَئِنْ جَآئَ نَصْرٌ مِّنْ رَّبِّکَ لَیَقُوْلُنَّ اِنَّا کُنَّا مَعَکُمْ ط اَوَلَیْسَ اللّٰہُ بِاَعْلَمَ بِمَا فِیْ صُدُوْرِالْعٰلَمِیْنَ ۔ (العنکبوت : 10) (اور لوگوں میں سے ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم ایمان لائے اللہ پر، لیکن جب انھیں اللہ کی راہ میں ستایا گیا تو انھوں نے لوگوں کی ڈالی ہوئی آزمائش کو اللہ کے عذاب کی طرح سمجھ لیا۔ اب اگر تیرے رب کی طرف سے فتح و نصرت آگئی تو کہیں گے ہم تو تمہارے ساتھ تھے، کیا لوگوں کے دلوں میں جو کچھ ہے اللہ اس سے اچھی طرح باخبر نہیں ہے۔ ) ایمان کے دعویداروں کو تنبیہ حق و باطل کی کشمکش میں جس طرح سرفروشوں کے مدارج ہیں اسی طرح تکلیفوں اور مصیبتوں پر ثابت قدم نہ رہنے والوں اور کمزوری دکھانے والوں کے بھی مراتب ہیں۔ نہ راہ حق میں قربانیاں دینے والے یکساں ہوتے ہیں اور نہ اس راستے میں کمزوریاں دکھانے والے ایک سطح کے لوگ ہوتے ہیں۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ راہ حق میں بقدرہمت ثابت قدمی اللہ تعالیٰ کے یہاں اجروثواب کی مستحق ٹھہرتی ہے۔ اسی طرح جو بھی اس راستے میں کمزوری دکھاتا اور کم ہمتی کا ثبوت دیتا ہے وہ اسی کے مطابق اللہ تعالیٰ کی رحمت سے محروم رہتا ہے۔ لیکن آیت کریمہ میں خاص طور پر ان لوگوں کا ذکر کیا گیا ہے جو دعوت حق سے متأثر ہو کر ایمان لانے کا دعویٰ تو کر بیٹھے، لیکن جیسے ہی انھوں نے اس راستے کی مشکلات کو دیکھا اور قدم قدم پر آزمائشیں سر اٹھاتی ہوئی نظر آئیں تو وہ حوصلہ ہار بیٹھے۔ وہ بجائے اس کے کہ لوگوں کی طرف سے پہنچائی جانے والی تکلیفوں کو ایک آزمائش سمجھتے اور اخلاص اور توانائی سے اس میں سے گزرنے کی کوشش کرتے۔ اور اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت کی امید رکھتے، انھوں نے اسے بھی اللہ تعالیٰ کے عذاب کی طرح سمجھا۔ انھوں نے گمان کیا کہ آج ہم جن اذیتوں سے گزر رہے ہیں آخرت میں جہنم کی سزائیں اس سے کیا مختلف ہوں گی۔ اس لیے کیا یہ بہتر نہیں کہ قیامت کے دن جہنم کے عذاب سے بچنے کے لیے آج کے عذاب میں مبتلا ہونے کی بجائے آخرت ہی کے عذاب کو اختیار کرلیا جائے اس سے کم از کم یہ تو ہوگا کہ اس نقد عذاب سے ہماری جان چھوٹ جائے گی اور دنیا کی زندگی آسانی سے گزر جائے گی۔ لیکن وہ یہ بات بھول گئے کہ راہ حق میں پہنچنے والی مصیبتیں اللہ تعالیٰ کا عذاب نہیں، آزمائش ہے۔ اس کی مدت محدود اور چند روزہ ہے اور اس کی شدت بھی انسانی برداشت سے بہت بڑھ کر کبھی نہیں ہوتی۔ اور اگر ایسا ہونے لگے تو ظالموں کو اللہ تعالیٰ اپنے عذاب سے تباہ کردیا کرتا ہے۔ لیکن آخرت کا عذاب کبھی نہ ختم ہونے والی سزا ہے۔ وَلَئِنْ جَآئَ نَصْرٌ مِّنْ رَّبِّکَ لَیَقُوْلُنَّ اِنَّا کُنَّا مَعَکُمْ یعنی آج تو ان کم ظرفوں کا حال یہ ہے کہ وہ آزمائشوں سے ڈر کر دشمنانِ دین کے گروہ میں جا شامل ہوئے ہیں لیکن کل جب خدا کی مدد و نصرت کے آثار ظاہر ہوں گے اور قافلہ حق کامرانیوں کے سفر پر نکلے گا تو یہ لوگ فتح کے ثمرات میں حصہ بٹانے کے لیے آموجود ہوں گے۔ اور مسلمانوں کو یقین دلائیں گے کہ ہم تو تمہارے ساتھ تھے ہم نے درپردہ تمہارے لیے دعائیں مانگیں۔ ہم نے بھی اپنی ہمت کے مطابق حق کی سربلندی کے لیے قربانیاں دی ہیں۔ اس لیے ہمیں بھی ان ثمرات سے حصہ ملنا چاہیے۔ اس کے جواب میں آیت کے آخر میں فرمایا گیا ہے کہ اس طرح کی باتیں اس ذات کے سامنے تو چل سکتی ہیں جو دلوں کے بھیدوں سے بیخبر ہو۔ لیکن اللہ تعالیٰ جو سینوں کے اسرار سے واقف ہے اور ظاہر و باطن اس کے سامنے آشکارا ہے اسے تو یہ فریب نہیں دیا جاسکتا۔ وہ تو ہر بات کو بھی جانتا ہے اور اس کے پس منظر سے بھی آگاہ ہے۔
Top