Ruh-ul-Quran - Al-Ankaboot : 15
فَاَنْجَیْنٰهُ وَ اَصْحٰبَ السَّفِیْنَةِ وَ جَعَلْنٰهَاۤ اٰیَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ
فَاَنْجَيْنٰهُ : پھر ہم نے اسے بچالیا وَاَصْحٰبَ السَّفِيْنَةِ : اور کشتی والوں کو وَجَعَلْنٰهَآ : اور اسے بنایا اٰيَةً : ایک نشانی لِّلْعٰلَمِيْنَ : جہان والوں کے لیے
پس ہم نے اس کو اور کشتی والوں کو نجات دی اور اسے دنیا والوں کے لیے ایک نشان عبرت بنادیا
فَاَنْجَیْنٰـہُ وَاَصْحٰبَ السَّفِیْنَۃِ وَجَعَلْنٰـھَآ اٰیَۃً لِّلْعٰلَمِیْنَ ۔ (العنکبوت : 15) (پس ہم نے اس کو اور کشتی والوں کو نجات دی اور اسے دنیا والوں کے لیے ایک نشان عبرت بنادیا۔ 1) حضرت نوح (علیہ السلام) اور ان کے ساتھیوں کی کامیابی سورة ہود میں وضاحت گزر چکی ہے کہ کس طرح حضرت نوح (علیہ السلام) کو سفینہ بنانے کا حکم دیا گیا اور کس طرح سیلاب کا آغاز ہوا، سفینہ میں کن کن جانوروں اور انسانوں کو سوار کرنے کا حکم دیا گیا اور پھر کس طرح کشتی پانی پر تیرتی ہوئی ایک پہاڑ پر جا ٹھہری اور اس طرح سے اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح (علیہ السلام) اور جو آپ کے ساتھ کشتی میں سوار تھے ان کو نجات دی۔ آخر میں فرمایا کہ ہم نے اسے جہاں والوں کے لیے سامانِ عبرت بنادیا۔ سوال یہ ہے کہ سامانِ عبرت کس کو بنایا گیا اور ضمیر کا مرجع کیا ہے ؟ بعض اہل علم نے اس پورے واقعہ کو ضمیر کا مرجع ٹھہرایا ہے اور کہا ہے کہ اسی میں بعد میں آنے والے لوگوں کے لیے سامانِ عبرت ہے۔ لیکن بعض اہل علم کے نزدیک ضمیر کا مرجع وہ کشتی ہے۔ وہ سورة القمر کی آیات 13 تا 15 سے استدلال کرتے ہیں۔ اس کے سامانِ عبرت ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اولاً تو ایک کشتی کا زمین سے اٹھ کر کسی بلند پہاڑ پر جا ٹکنا بجائے خود ایک نشانی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ طوفان کس بلا کا تھا۔ اور دوسری یہ بات کہ پھر وہ کشتی پہاڑ کی چوٹی پر صدیوں موجود رہی ہے اور ممکن ہے آج بھی موجود ہو۔ ابن جریر نے قتادہ کی روایت سے نقل کیا ہے کہ عہد صحابہ میں جب مسلمان الجزیرہ کے علاقہ میں گئے ہیں تو انھوں نے کوہ جودی پر اور ایک روایت کی رو سے باقرویٰ نامی بستی کے قریب اس کشتی کو دیکھا۔ موجودہ زمانہ میں بھی مختلف وقتوں میں یہ اطلاعات اخبارات میں چھپتی رہی ہیں کہ کشتی نوح کو تلاش کرنے کے لیے مہمات بھیجی جارہی ہیں اور اس کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ بسا اوقات ہوائی جہاز جب کوہستان اراراط پر سے گزرے ہیں تو ایک چوٹی پر انھوں نے ایک ایسی چیز دیکھی ہے جو ایک کشتی سے مشابہ ہے۔ چونکہ وہ برف سے اٹی ہوئی ہے اس لیے پوری طرح اس کی شکل ہوائی جہاز سے دکھائی نہیں دیتی اور شاید پہاڑ پر برف کے بڑے بڑے تودوں کی وجہ سے آج تک کوئی جانے میں کامیاب نہیں ہوسکا۔ واللہ اعلم۔
Top