Ruh-ul-Quran - Al-Ankaboot : 16
وَ اِبْرٰهِیْمَ اِذْ قَالَ لِقَوْمِهِ اعْبُدُوا اللّٰهَ وَ اتَّقُوْهُ١ؕ ذٰلِكُمْ خَیْرٌ لَّكُمْ اِنْ كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ
وَاِبْرٰهِيْمَ : اور ابراہیم اِذْ قَالَ : جب اس نے کہا لِقَوْمِهِ : اپنی قوم کو اعْبُدُوا : اتم عبادت کرو اللّٰهَ : اللہ وَاتَّقُوْهُ : اور اس سے ڈرو ذٰلِكُمْ : یہ خَيْرٌ لَّكُمْ : بہتر تمہارے لیے اِنْ : اگر كُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ : تم جانتے ہو
اور ہم نے ابراہیم کو رسول بنا کر بھیجا جبکہ انھوں نے اپنی قوم سے کہا کہ اللہ کی بندگی کرو اور اس سے ڈرو یہ تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم جانو
وَاِبْرٰھِیْمَ اِذْقَالَ لِقَوْمِہِ اعْبُدُوا اللّٰہَ وَاتَّقُوْہُ ط ذٰلِکُمْ خَیْرٌلَّـکُمْ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ ۔ (العنکبوت : 16) (اور ہم نے ابراہیم کو رسول بنا کر بھیجا جبکہ انھوں نے اپنی قوم سے کہا کہ اللہ کی بندگی کرو اور اس سے ڈرو یہ تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم جانو۔ ) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعوت لفظ اِبْرٰھِیْمَسے پہلے ارسلنا محذوف ہے۔ یعنی جس طرح ہم نے حضرت نوح (علیہ السلام) کو ان کی قوم کی ہدایت کے لیے اپنا رسول بنا کر بھیجا تھا اسی طرح ہم نے ابراہیم کو بھی ان کی قوم کی طرف رسول بنا کر بھیجا۔ انھوں نے اپنی قوم کو اسی بنیادی حقیقت کی دعوت دی جس کی دعوت حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو دی تھی بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جب بھی کوئی رسول آیا ہے اس نے وہی دعوت پیش کی ہے جو ہر رسول کی دعوت رہی ہے۔ یہ بات اللہ تعالیٰ کے نبیوں کی صداقت کی بہت بڑی دلیل ہے کہ ان کا زمانہ ایک دوسرے سے بہت دور، ان کی قومیں ایک دوسرے سے بہت مختلف، ان کے جغرافیائی حالات بعض دفعہ ایک دوسرے سے بالکل متضاد اور ان کے قبائل اور قومی مزاج بھی ایک دوسرے سے متفاوت۔ بایں ہمہ ان کی دعوت میں تضاد تو دور کی بات ہے کوئی جوہری اختلاف بھی نہیں۔ سورة نوح میں حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنی قوم کو ایک اللہ تعالیٰ کی بندگی کرنے کی دعوت دی تھی۔ اور یہی دعوت حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اپنی قوم کے سامنے پیش کی اور ساتھ ہی فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی بندگی اور عبادت میں دوسروں کو شریک کرنا سب سے بڑا جرم ہے اس لیے اس جرم پر ہمیشہ اللہ تعالیٰ کا غضب بھڑکتا ہے۔ تم اس جرم کا ارتکاب کرکے اللہ تعالیٰ کے غضب کا شکار نہ ہونا۔ اس لیے بہتر یہ ہے کہ اسی کی بندگی کرو تاکہ تم اس کے غضب سے بچ سکو۔ اور آخر میں تنبیہ کرتے ہوئے فرمایا کہ میں تمہارے ساتھ اگر کوئی خیرخواہی کرسکتا ہوں اور کوئی بہتر سے بہتر نصیحت کرسکتا ہوں تو وہ یہی ہے اگر تم اسے سمجھ سکو۔ یہ کہنے کی وجہ شاید یہ ہے کہ انسان کا اللہ تعالیٰ سے جو تعلق ہے وہ بنیادی طور پر اس کے سوا کچھ نہیں کہ انسان بندہ ہے اور اللہ تعالیٰ اس کا معبود ہے۔ اسی کو عربی زبان میں عبد کہا گیا ہے، یہی انسان کا بنیادی تعارف ہے اور یہی اس کے مدارج کی معراج ہے۔ انسان جب اپنی سطح سے گرتا ہے تو یا وہ عبد ہونے سے انکار کرتا ہے اور یا دوسروں کی بندگی کے فریب میں مبتلا ہوجاتا ہے۔ اسی کو کفر اور شرک کہا گیا ہے۔ البتہ یہ بات ضرور ہے کہ عبدیت اور بندگی ایک وسیع اصطلاح ہے جب تک اسے ذہن نشین نہ کرلیا جائے اس وقت تک اس لفظ کی معنوی ہمہ گیری کا اندازہ نہیں ہوسکتا۔ عبد کا معنی ہے غلام۔ اور عبدیت غلامی کو کہتے ہیں۔ غلامی کی پہچان چار چیزیں ہیں۔ 1 غلام وہ ہوتا ہے جسے حق ملکیت حاصل نہ ہو، اس کے پاس جو کچھ ہو وہ امانت ہو اس کی ملکیت اس کے آقا کو حاصل ہو۔ 2 اس کے زیرتصرف اور زیراستعمال چیزوں میں اسے آزادانہ تصرف کا حق نہ ہو۔ وہ ہر بات میں اپنے مالک کے حکم یا اجازت کا محتاج ہو۔ 3 وہ اپنی زندگی کے اہداف اور نصب العین کے تعین کا مجاز نہ ہو۔ 4 اس کا آقا اسے جس حال میں بھی رکھے اسے شکایت کا کوئی موقع نہ ہو۔ انھیں چاروں معنوں میں ہر شخص اپنے اللہ کا غلام ہے۔ اس کے پاس جو کچھ ہے چاہے وہ جسم و جان ہو، صلاحیتیں ہوں، مال و دولت ہو یا عہدہ و منصب، سب اللہ تعالیٰ کی ملکیت ہیں اور اس کے پاس امانت ہیں۔ یہ اپنے ہر تصرف میں اللہ تعالیٰ کی اجازت کا پابند ہے۔ آزادیِ مطلق اسے حاصل نہیں۔ اسے زندگی کس طرح گزارنی ہے، زندگی کے اہداف کیا ہونے چاہئیں اور اس کا نصب العین کیا ہو، اس کے تعین کا حق صرف اللہ تعالیٰ کو ہے اور ہر مومن اللہ تعالیٰ کے اس حق کی پیروی میں زندگی گزارنے کا پابند ہے۔ اسے اپنے اللہ سے دعا کرنے اور مانگنے کی اجازت تو ہے اور اپنی آرزوئوں کے حصول کے لیے کوشش کرنے کی بھی، لیکن اپنے اللہ سے شکایت کرنے کا حق نہیں۔ یہی چاروں باتیں زندگی کا حصار، زندگی کا میدان اور زندگی کا اعزاز ہیں۔ ان کے بارے میں نصیحت کرنا اور توجہ دلانا، اس سے بہتر کوئی اور بات نہیں ہوسکتی۔
Top