Ruh-ul-Quran - Al-Ankaboot : 18
وَ اِنْ تُكَذِّبُوْا فَقَدْ كَذَّبَ اُمَمٌ مِّنْ قَبْلِكُمْ١ؕ وَ مَا عَلَى الرَّسُوْلِ اِلَّا الْبَلٰغُ الْمُبِیْنُ
وَاِنْ : اور اگر تُكَذِّبُوْا : تم جھٹلاؤگے فَقَدْ كَذَّبَ : تو جھٹلا چکی ہیں اُمَمٌ : بہت سی امتیں مِّنْ قَبْلِكُمْ : تم سے پہلی وَمَا : اور نہیں عَلَي : پر (ذمے) الرَّسُوْلِ : رسول اِلَّا : مگر الْبَلٰغُ : پہنچا دینا الْمُبِيْنُ : صاف طور پر
اور اگر تم جھٹلاتے ہو تو تم سے پہلی بہت سی قومیں جھٹلا چکی ہیں اور رسول پر واضح طور پر پہنچا دینے کے سوا اور کوئی ذمہ داری نہیں ہے
وَاِنْ تُـکَذِّبُوْا فَقَدْ کَذَّبَ اُمَمٌ مِّنْ قَبْلِکُمْ ط وَمَا عَلَی الرَّسُوْلِ اِلاَّ الْبَلٰغُ الْمُبِیْنُ ۔ (العنکبوت : 18) (اور اگر تم جھٹلاتے ہو تو تم سے پہلی بہت سی قومیں جھٹلا چکی ہیں اور رسول پر واضح طور پر پہنچا دینے کے سوا اور کوئی ذمہ داری نہیں ہے۔ ) طویل کشمکش کے بعد قوم کو تنبیہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دعوت اور اس آیت کے نزول میں ایک طویل فاصلہ ہے۔ کیونکہ پیغمبر اپنی قوم کی تبلیغ و دعوت کے نتائج سے کبھی مایوس نہیں ہوتا۔ وہ دکھ اٹھاتا ہے لیکن قوم کے ساتھ ہمدردی اور خیرخواہی کا حق ادا کرنے سے نہیں رکتا۔ آپ نے یہ بات یقینا اس وقت کہی ہوگی جب کئی سالوں کی جانگسل کوششوں کے باوجود قوم نے آپ کی دعوت کو قبول کرنے سے انکار کردیا اور دھمکیاں دینے پر اتر آئی۔ اور ہوسکتا ہے بعض لوگوں نے اسی عدم قبولیت کو آپ کی نبوت کے باطل ہونے پر دلیل بنایا ہو۔ اس لیے آپ نے فرمایا کہ اگر تم میری دعوت کو جھٹلاتے ہو اور مجھ پر ایمان لانے سے انکار کرتے ہو اور میری بات کو قبول کرکے نہیں دیتے ہو تو اس میں نئی بات کیا ہے۔ قوموں کی تاریخ اٹھا کے دیکھو کتنی قومیں ایسی گزری ہیں جنھوں نے اپنے پیغمبر کی دعوت کو قبول کرنے سے انکار کردیا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اس کے بعد ان کا انجام کیا ہوا۔ آج وہ تاریخ میں عبرت کے طور پر یاد کی جاتی ہیں۔ میں تمہیں اس اندوہناک انجام سے بچانا چاہتا ہوں۔ لیکن تم اسی کھائی میں گر کر مرنا چاہتے ہو۔ تو یاد رکھو میں اللہ تعالیٰ کا رسول ہوں میں نے فریضہ رسالت کی ادائیگی میں کوئی کوتاہی نہیں کی۔ ہر طرح کے حالات اور ہر طرح کے ماحول میں، میں نے اللہ تعالیٰ کا دین تمہیں پہنچایا۔ اس طرح میں اپنی ذمہ داری سے فارغ ہوچکا ہوں۔ مجھے صرف اللہ تعالیٰ کا پیغام واضح طور پر تمہیں پہنچانا تھا وہ پوری طرح پہنچا چکا ہوں اب تم جانو اور تمہارا انجام جانے۔ لیکن اب جو کچھ ہوگا اس کی پرسش مجھ سے نہیں ہوگی کیونکہ میں اپنی ذمہ داری ادا کرچکا، البتہ تم اپنی ذمہ داری ادا نہ کرنے پر پکڑے جاؤ گے۔
Top