بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Ruh-ul-Quran - Al-Ankaboot : 1
الٓمّٓۚ
الٓمّٓ : الف۔ لام۔ میم
ال م …
الٓـمّٓ۔ (العنکبوت : 1) (ال م … یہ حروفِ مقطعات میں سے ہے اور اس کی بحث اس سے پہلے گزر چکی ہے۔ ) اَحَسِبَ النَّاسُ اَنْ یُّتْرَکُوْٓا اَنْ یَّقُوُلُوْٓا اٰمَنَّا وَھُمْ لاَ یُفْتَنُوْنَ ۔ (العنکبوت : 2) (کیا لوگوں نے یہ گمان کر رکھا ہے کہ وہ بس اتنا کہنے پر چھوڑ دیے جائیں گے کہ ہم ایمان لائے اور وہ آزمائے نہیں جائیں گے۔ ) آیات کا پس منظر یہ آیات اس زمانے میں نازل ہوئی ہیں جب مکہ کی سرزمین مسلمانوں کے لیے آزمائشوں کی بھٹی بنی ہوئی تھی۔ جو شخص اسلام قبول کرتا، اہل مکہ کا غیظ و غضب بری طرح اس پر حملہ آور ہوتا۔ اگر اس کا تعلق کسی غریب گھرانے سے ہوتا یا وہ غلام ہوتا تو مکہ کی ریت تپ اٹھتی، چٹانیں گرم ہوجاتیں، مکہ کے اشرار ایسے لوگوں کو گرم ریت پر گھسیٹتے، دہکتی چٹانوں پر لٹاتے اور سینے پر سل رکھ دیتے اور کہتے کہ جب تک تم اسلام چھوڑنے کا اعلان نہیں کرو گے یا اللہ اور رسول کے بارے میں کوئی نازیبا بات منہ سے نہیں نکالو گے اس وقت تک تمہاری جان نہیں چھوٹے گی۔ اگر کوئی شخص ہنرمند اور پیشہ ور ہوتا تو اس کی روزی کے دروازے بند کردیے جاتے۔ اور اگر کوئی تاجر ہوتا تو اس کا بائیکاٹ کردیا جاتا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ یہ لوگ بھوکوں مرنے پر مجبور ہوجاتے۔ اور اگر ایمان لانے والوں میں کوئی شخص کسی بااثر خاندان کا آدمی ہوتا تو اس کے اپنے خاندان کے لوگ اس کے لیے زندگی دشوار کردیتے۔ نبی کریم ﷺ جو مکہ کے سابق سردار کے پوتے اور مکہ کی سب سے ہر دلعزیز شخصیت تھے ان شرپسندوں کی اذیتوں سے محفوظ نہیں تھے۔ ان حالات نے عجیب صورتحال پیدا کردی تھی کہ جو لوگ دلوں میں آنحضرت ﷺ کی صداقت کے قائل ہوچکے تھے وہ ان مصائب کو دیکھ کر آگے بڑھنے کی ہمت نہیں پا رہے تھے۔ اور وہ صادق الایمان لوگ جو زندگی کی ہر ضرورت اور نعمت پر ایمان کو ترجیح دے رہے تھے انھیں مصائب کے ایسے شکنجوں میں کسا جارہا تھا کہ ان کی قوت برداشت شکست و ریخت کا شکار ہونے لگی تھی۔ حضرت خَبّاب بن اَرَت ( رض) نہایت راسخ الایمان صحابہ میں سے تھے۔ کافروں نے ان کی اذیت کو یہاں تک پہنچا دیا تھا کہ دہکتے انگاروں پر انھیں لٹایا جاتا، ان کی چربی پگھل کر انگاروں کو سرد کرتی تو تب ان کی خلاصی ہوتی۔ وہ فرماتے ہیں کہ جس زمانے میں مشرکین کی سختیوں سے ہم بری طرح تنگ آئے ہوئے تھے، ایک روز میں نے دیکھا کہ نبی اکرم ﷺ کعبہ کی دیوار کے سائے میں تشریف رکھتے ہیں، میں نے حاضر ہو کر عرض کیا یارسول اللہ آپ ﷺ ہمارے لیے دعا نہیں فرماتے۔ یہ سن کر آپ ﷺ کا چہرہ جوش اور جذبے سے سرخ ہوگیا اور آپ ﷺ نے فرمایا تم سے پہلے جو اہل ایمان گزر چکے ہیں ان پر اس سے زیادہ سختیاں توڑی گئی ہیں۔ ان میں سے کسی کو زمین میں گڑھا کھود کر بٹھایا جاتا اور اس کے سر پر آرہ چلا کر اس کے دو ٹکڑے کردیے جاتے، کسی کے جوڑوں پر لوہے کے کنگھے گھسے جاتے تاکہ وہ ایمان سے باز آجائے۔ خدا کی قسم یہ کام پورا ہو کے رہے گا یہاں تک کہ ایک شخص صنعاء سے حضرموت تک بےکھٹکے سفر کرے گا اور اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہ ہوگا جس کا وہ خوف کرے۔ ان آیات میں انھیں احساسات اور انفعالات کا جواب دیا گیا ہے۔ اور یہ حقیقت واضح کی گئی ہے کہ دنیا میں ایمان ایک ایسی وابستگی کا نام ہے جس سے زیادہ مؤثر، وسیع اور گہرے اثرات رکھنے والی اور کوئی وابستگی نہیں۔ اس میں اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کی تمام صفات کے ساتھ ہمہ قسم کی دلبستگی کا اقرار، آنحضرت ﷺ پر اعتماد، آپ ﷺ کی اطاعت اور آپ ﷺ سے محبت کا دعویٰ اور قیامت کے دن ازسرنو جی اٹھنے، اللہ تعالیٰ کی عدالت میں پیش ہونے اور اپنے ہر عمل کے بارے میں جواب دہی کرنے اور جزاء و سزا کے ابدی قانون پر یقین جیسے عوامل شامل ہیں۔ اور ساتھ ہی ساتھ یہ عہد بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے رسول پر جو کچھ دین کے حوالے سے نازل ہوا ہے اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی میں مکمل طور پر نافذ بھی کرنا ہے۔ ایسی جامع و مانع قسم کی وابستگی کا اقرار و اعلان کیسے ممکن ہے کہ بغیر آزمائش اور بغیر امتحان کے قبول کرلیا جائے۔ یہ تو ایک ایسی محبت کا دعویٰ ہے جو ہمیشہ آزمائی جاتی ہے۔ یہ ایک ایسی خودسپردگی اور خودفروشی ہے جسے قدم قدم پر اپنی سچائی کا امتحان دینا پڑتا ہے۔ ٹھیک کہا کسی نے : محبت کے مقدر میں ہے کہاں آرام اے ہمدم کہیں شعلہ، کہیں بجلی، کہیں سیماب ہوتی ہے راہِ حق میں آزمائشیں ضرور پیش آتی ہیں یہی وہ بات ہے جو پروردگار اہل ایمان کو پیش نظر آیت میں سمجھا رہا ہے کہ ہم نے اہل ایمان کے ساتھ دنیا و آخرت میں کامیابیوں کے جو وعدے کر رکھے ہیں ان کا ایفاء مجرددعویٰ ایمان پر تو نہیں ہوسکتا کیونکہ جب تک کوئی شخص آزمائشوں کی بھٹی سے گزر کر اپنا استحقاق ثابت نہیں کرتا اس وقت تک اسے اللہ تعالیٰ کے وعدے نہیں پہنچ سکتے۔ اللہ تعالیٰ کی جنت اس قدر سستی نہیں۔ اور نہ دنیا میں اہل ایمان پر ہونے والی عنایات اس قدر ارزاں ہیں کہ صرف دعویٰ ایمان اس کے لیے کافی ہوجائے۔ اس کے لیے تو امتحان شرط ہے۔ ایسا امتحان جس میں جان و مال کی قربانی بھی ہے اور مصائب و مشکلات کی برداشت بھی۔ جس میں خوف کے مراحل بھی ہیں اور ہوسنا کی کی کھائیاں بھی۔ جب تک آزمائشوں کے ان مراحل سے کوئی شخص کامیابی کے ساتھ نہیں گزر جاتا اس وقت تک ایمان کے صادق یا کاذب ہونے کا فیصلہ نہیں کیا جاسکتا۔
Top