Ruh-ul-Quran - Al-Ankaboot : 23
وَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا بِاٰیٰتِ اللّٰهِ وَ لِقَآئِهٖۤ اُولٰٓئِكَ یَئِسُوْا مِنْ رَّحْمَتِیْ وَ اُولٰٓئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ
وَالَّذِيْنَ : اور وہ لوگ جنہوں نے كَفَرُوْا : انکار کیا بِاٰيٰتِ اللّٰهِ : اللہ کی نشانیوں کا وَلِقَآئِهٖٓ : اور اس کی ملاقات اُولٰٓئِكَ : یہی ہیں يَئِسُوْا : وہ ناامید ہوئے مِنْ رَّحْمَتِيْ : میری رحمت سے وَاُولٰٓئِكَ : اور یہی ہیں لَهُمْ : ان کے لیے عَذَابٌ : عذاب اَلِيْمٌ : دردناک
اور جن لوگوں نے اللہ تعالیٰ کی آیات کا اور اس سے ملاقات کا انکار کیا ہے وہ میری رحمت سے مایوس ہوچکے ہیں اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے
وَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا بِاٰیٰتِ اللّٰہِ وَلِقَـآئِہٖٓ اُوْلٰٓئِکَ یَئِسُوْا مِنْ رَّحْمَتِیْ وَاُوْلٰٓئِکَ لَھُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ۔ (العنکبوت : 23) (اور جن لوگوں نے اللہ تعالیٰ کی آیات کا اور اس سے ملاقات کا انکار کیا ہے وہ میری رحمت سے مایوس ہوچکے ہیں اور ان کے لیے دردناک عذاب ہے۔ ) امید اور محرومی میں قول فیصل یہ عجیب بات ہے کہ دنیا میں ہر امید کے بہت سے اسباب ہیں اور ہر مصیبت سے بچ نکلنے کے بہت سے وسائل ہیں۔ اس لیے آدمی دونوں طرح کے احساسات کے تحت مختلف آستانوں کی دریوزہ گری کرتا اور مختلف سہاروں کی تلاش کرتا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی ذات اور اس کی اطاعت اور فرماں برداری کے حوالے سے امید کا بھی ایک ہی راستہ ہے اور عذاب سے بچ نکلنے کا بھی ایک ہی ذریعہ ہے۔ جو شخص ایمان کے بعد اللہ تعالیٰ کے احکام کی پیروی کرتا اور اس کے رسول کی سنت پر عمل کرتا ہے وہ اپنے ایمان و عمل پر بھروسے کی بجائے اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی رحمت پر بھروسا کرتا ہے۔ اور جو شخص اللہ تعالیٰ کے احکام کی نافرمانی کرتا ہے اور قیامت کی جواب دہی سے انکار کرتا ہے اس کی محرومی کا بھی ایک ہی راستہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے محروم ہوجاتا ہے۔ ایک تو اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے ایمان و عمل کے ساتھ اپنی رحمت کی امید دلائی ہے اور اپنے فضل و احسان کے وعدے فرمائے ہیں۔ تو جو شخص نہ ایمان رکھتا ہے اور نہ عمل وہ درحقیقت اللہ تعالیٰ کے وعدوں کو تسلیم کرنے سے انکار کرتا ہے اور اس طرح سے اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے لاتعلق قرار دے دیتا ہے۔ اور دوسرا اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کے یہاں جزاء و سزا کا فیصلہ تو قیامت کے دن ہوگا اور جو شخص قیامت سے انکار کرتا ہے وہ درحقیقت جزاء و سزا کے نظام ہی کو ماننے سے انکار کردیتا ہے۔ اس طرح سے اس کی محرومی اس حد تک تکمیل کو پہنچ جاتی ہے کہ جس میں رحمت کے نفوذ کی کوئی امید باقی نہیں رہتی۔ ایسا شخص اگر کسی چیز کا سزاوار ہے تو وہ وہی ہے جسے یہاں عذاب الیم قرار دیا گیا ہے۔
Top