Ruh-ul-Quran - Al-Ankaboot : 5
مَنْ كَانَ یَرْجُوْا لِقَآءَ اللّٰهِ فَاِنَّ اَجَلَ اللّٰهِ لَاٰتٍ١ؕ وَ هُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ
مَنْ : جو كَانَ يَرْجُوْا : وہ امید رکھتا ہے لِقَآءَ اللّٰهِ : اللہ سے ملاقات کی فَاِنَّ : تو بیشک اَجَلَ اللّٰهِ : اللہ کا وعدہ لَاٰتٍ : ضرور آنے والا وَهُوَ : اور وہ السَّمِيْعُ : سننے والا الْعَلِيْمُ : جاننے والا
جو کوئی اللہ سے ملنے کی توقع رکھتا ہے وہ اطمینان رکھے کہ اللہ کا مقرر کردہ وقت ضرور آکے رہے گا، وہ سننے والا جاننے والا ہے
مَنْ کَانَ یَرْجُوْا لِقَآئَ اللّٰہِ فَاِنَّ اَجَلَ اللّٰہِ لَاٰتٍ ط وَھُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ ۔ (العنکبوت : 5) (جو کوئی اللہ سے ملنے کی توقع رکھتا ہے وہ اطمینان رکھے کہ اللہ کا مقرر کردہ وقت ضرور آکے رہے گا، وہ سننے والا جاننے والا ہے۔ ) مسلمانوں کو تسلی اس آیت میں مسلمانوں کو تسلی دی گئی ہے کہ مکہ میں اسلام کے نفوذ کی رفتار اگرچہ بہت سست ہے اور دوسری طرف دشمنانِ اسلام کی اذیت رسانیاں ناقابلِ برداشت ہوتی جارہی ہیں۔ جو شخص بھی منطقی انداز میں اس صغریٰ اور کبریٰ کا نتیجہ نکالے گا اس کی پریشانی میں یقینا اضافہ ہوگا۔ لیکن جو اللہ تعالیٰ کے وعدوں اور فیصلوں پر یقین رکھتا اور اللہ تعالیٰ کے قانونِ فطرت کو جانتا ہے اس کے لیے پریشانی کا کوئی موقع نہیں۔ اسے معلوم ہے کہ ہر ابتداء کی ایک انتہاء اور ہر عمل کے نتیجہ خیز ہونے کا ایک وقت مقرر ہے۔ چولہے پر چڑھی ہوئی ہنڈیا کو جب مطلوب حرارت پہنچ جاتی ہے تو وہ ضرور ابلتی ہے اور پانی کو جمنے کے لیے جب مطلوب برودت مل جاتی ہے تو وہ ضرور جم جاتا ہے۔ حق و باطل کی کشمکش میں مسلمانوں کے اخلاص کو کبھی بےنتیجہ نہیں چھوڑا جاتا۔ ان کی تبلیغی کاوشیں، ان کی سرفروشیاں اور ان کا اخلاص اس وقت ضرور کامیابی سے ہمکنار ہوتا ہے جو اس کے لیے مقرر کیا گیا ہے۔ اسی حوالے سے اس آیت میں پروردگار تسلی دیتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے لیے جو وقت طے کر رکھا ہے وہ آنے ہی والا ہے۔ کیونکہ جو کچھ آپ کے ساتھ گزر رہی ہے اور آپ جس کے لیے شب و روز اللہ تعالیٰ سے دعائیں مانگ رہے ہیں اور جس طرح دین کی سربلندی کے لیے آپ قربانیاں دے رہے ہیں اللہ تعالیٰ ان سب باتوں کو سنتا بھی ہے اور جانتا بھی ہے۔ آیت کا یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ مسلمان اسلام کی تبلیغ و دعوت اور اس کی سربلندی کے سلسلے میں جو قربانیاں دے رہے ہیں ان کے پیش نظر آخرت کی کامیابی ہے۔ وہ صرف اللہ تعالیٰ کی رضا چاہتے ہیں۔ انھیں یقین ہے کہ یہاں کی ایک ایک تکلیف قیامت کے دن اجروثواب کا نخلستان بن جائے گی۔ کسی کو کانٹا بھی چبھا ہے تو اسے پھولوں میں تولا جائے گا۔ ان مسلمانوں کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا جارہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے جو مدت ٹھہرا رکھی ہے وہ لازماً پوری ہو کے رہے گی۔ ایک دن مسلمان اپنے رب سے ملیں گے اور ایک ایک محنت اور قربانی کا صلہ پائیں گے اور اس وقت آرزو کریں گے کاش ہمیں اس راستے میں اس سے بھی بڑھ کر ستایا گیا ہوتا تو ہم اس سے بھی بڑھ کر اجروثواب کی دولت سے بہرہ ور ہوتے۔ بعض اہل علم نے اس کا ایک اور مطلب لیا ہے وہ یہ ہے کہ جو شخص حیات اخروی کا قائل ہی نہ ہو اور یہ سمجھتا ہو کہ کوئی ذات ایسی نہیں جس کے سامنے ہمیں اپنے اعمال کی جواب دہی کرنی ہو اور کوئی وقت ایسا نہیں جب ہم سے ہمارے کارنامہ زندگی کا محاسبہ کیا جائے، اس کا تو معاملہ ہی دوسرا ہے۔ لیکن جو لوگ یہ توقع رکھتے ہیں کہ ایک وقت ہمیں اپنے خدا کے حضور حاضر ہونا ہے انھیں اس غلط فہمی میں نہیں رہنا چاہیے کہ موت کا وقت کچھ بہت دور ہے۔ ان کو تو یہ سمجھنا چاہیے کہ وہ بس قریب ہی آلگا ہے اور عمل کی مہلت ختم ہوا ہی چاہتی ہے۔
Top