Ruh-ul-Quran - Al-Ankaboot : 6
وَ مَنْ جَاهَدَ فَاِنَّمَا یُجَاهِدُ لِنَفْسِهٖ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَغَنِیٌّ عَنِ الْعٰلَمِیْنَ
وَمَنْ : اور جو جَاهَدَ : کوشش کرتا ہے فَاِنَّمَا : تو صرف يُجَاهِدُ : کوشش کرتا ہے لِنَفْسِهٖ : اپنی ذات کے لیے اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ لَغَنِيٌّ : البتہ بےنیاز عَنِ : سے الْعٰلَمِيْنَ : جہان والے
اور جو شخص بھی جدوجہد کرے گا وہ اپنے ہی بھلے کے لیے جدوجہد کرے گا، بیشک اللہ دنیا جہان والوں سے بےنیاز ہے
وَمَنْ جَاھَدَ فَاِنَّمَا یُجَاھِدُ لِنَفْسِہٖ ط اِنَّ اللّٰہَ لَغَنِیٌّ عَنِ الْعٰلَمِیْنَ ۔ (العنکبوت : 6) (اور جو شخص بھی جدوجہد کرے گا وہ اپنے ہی بھلے کے لیے جدوجہد کرے گا، بیشک اللہ دنیا جہان والوں سے بےنیاز ہے۔ ) ایک غلط فہمی کا ازالہ اس آیت کریمہ میں ایک بہت بڑی غلط فہمی پر توجہ دلائی جارہی ہے۔ راسخ الایمان صحابہ کرام ( رض) کے بارے میں تو یہ تصور بھی نہیں کیا جاسکتا، لیکن وہ لوگ جو نئے نئے دائرہ ایمان میں آتے یا اسلامی تعلیمات سے متأثر ہوتے، لیکن کفار کی بےپناہ مخالفت کو دیکھ کر یہ سمجھ کر پیچھے ہٹ جاتے کہ یہ بہت کٹھن راستہ ہے جس پر ہم نہیں چل سکتے۔ ایسے لوگوں کو تنبہ کرتے ہوئے فرمایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے دین کی نشرواشاعت، تبلیغ و دعوت، لوگوں میں اس کے نفوذ اور غلبے کے لیے جو جدوجہد کی جاتی ہے وہ محض ایک نظریاتی آویزش میں حصہ لینے کے مترادف نہیں۔ اور نہ ایسا ہے کہ دینیات یا الٰہیات کی ایک بحث ہے جسے بہر صورت غالب کرنے کی ایک کوشش ہے بلکہ امرواقعہ یہ ہے کہ جس طرح زندگی کی بنیادی ضرورتوں کے لیے تگ و دو کرنے والا ایک شخص جدوجہد میں کبھی ہراساں نہیں ہوتا، کبھی اسے کافی نہیں سمجھتا اور کبھی اپنے لیے اسے بوجھ خیال نہیں کرتا بلکہ اگر کوئی شخص اسے روکنا بھی چاہے تو وہ اسے اپنے ساتھ دشمنی سمجھتا ہے۔ وہ جانتا ہے کہ زندگی ضروریات کی فراہمی کا نام ہے جس میں اگر کھانے پینے کی ضروریات پوری ہوجاتی ہیں تو مکان کے لیے تگ و دو شروع ہوجاتی ہے، مکان بن جاتا ہے تو بچوں کا مستقبل سنوارنے کی خلش دل میں اتر جاتی ہے۔ اور پھر خوب سے خوب تر کے حصول میں زندگی کا ہر لمحہ نچڑ کر رہ جاتا ہے تاآنکہ بڑھاپا آدمی کو مفلوج کردیتا ہے اور یا موت کام تمام کردیتی ہے۔ بالکل اسی طرح دین بھی انسانی زندگی کی سب سے بنیادی ضرورت ہے۔ اس کے بغیر کوئی شخص نہ معرفتِ حق سے بہرہ ور ہوتا ہے اور نہ کائنات کے بارے میں اسے اپنی الجھنوں کا جواب ملتا ہے۔ وہ اپنی زندگی کی تعمیر کے لیے فکرمند ہوتا ہے تو دین ہی اسے بنیادی تصورات فراہم کرتا ہے، طریقہ کار تجویز کرتا ہے اور اہداف کا تعین کرتا ہے۔ وہ معاشرے کا کارآمد حصہ بننے کے لیے شادی کرنا چاہتا ہے تو دین ہی اسے رہنمائی دیتا ہے۔ اولاد ہوتی ہے اور وہ ان کی تربیت کے لیے سرگرداں ہے تو دین اس کی اس سرگرانی کا علاج تجویز کرتا ہے۔ وہ اپنے گھر کو آسودگی کا مرکز بنانا چاہتا ہے تو دین ہی اس کے گھر میں ماں باپ کی شفقت اور اولاد کی اطاعت کے پھولوں کی تخم ریزی کرتا ہے۔ علیٰ ہٰذالقیاس زندگی اپنے انفرادی اور اجتماعی اداروں میں جہاں تہاں بھی کامیابی سے ہمکنار ہوتی ہے وہیں ہمیں دین کا نور اس کے دل میں جگمگاتا اور اس کا راستہ روشن کرتا نظر آتا ہے۔ ایسی بنیادی ضرورت جس کے بغیر زندگی گھٹنوں چلنے پر بھی قادر نہیں۔ اگر اس جدوجہد میں کوئی تکلیف ہوتی یا کوئی محنت کرنی پڑتی ہے یا مخالفتوں سے دوچار ہونا پڑتا ہے تو اس کی شکایت کرنے کی بجائے یہ سمجھ لینا چاہیے کہ یہ تو اس راہ کی وہ سنتیں ہیں جس کے بغیر اس راستے میں کوئی شخص کامیابی سے چلنے میں کامیاب نہیں ہوتا۔ یہ دین بظاہر اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوتا ہے اور اس کا جلیل القدر رسول ہر طرح کا دکھ اٹھا کر لوگوں تک اسے پہنچاتا ہے لیکن کاش اس بات کو ذہن نشین کرلیا جائے کہ یہ تو میری اپنی ضرورت اور میرا اپنا بنیادی فریضہ ہے جسے دوسری ضرورتوں کی طرح مجھے بہر صورت انجام دینا ہے۔ اس کے لیے کی جانے والی محنت اور اس راستے میں اٹھائے جانے والے مصائب اللہ تعالیٰ پر احسان نہیں، بلکہ دوسری ضرورتوں کی طرح اس راستے کی ایک لازمی سنت اور ایک لازمی تقاضا ہے جسے بہر صورت انجام دینا ہے۔ اور اگر اس کے انجام دینے کی فکر نہیں کی جائے گی تو نقصان اپنا ہوگا، اللہ تعالیٰ تو دنیا جہان والوں سے غنی ہے اس کی ولایت اور حکومت میں کسی قسم کے فرق آجانے کا اندیشہ نہیں۔
Top