Ruh-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 128
لَیْسَ لَكَ مِنَ الْاَمْرِ شَیْءٌ اَوْ یَتُوْبَ عَلَیْهِمْ اَوْ یُعَذِّبَهُمْ فَاِنَّهُمْ ظٰلِمُوْنَ
لَيْسَ لَكَ : نہیں ٓپ کے لیے مِنَ : سے الْاَمْرِ : کام (دخل) شَيْءٌ : کچھ اَوْ يَتُوْبَ : خواہ توبہ قبول کرے عَلَيْھِمْ : ان کی اَوْ : یا يُعَذِّبَھُمْ : انہیں عذاب دے فَاِنَّھُمْ : کیونکہ وہ ظٰلِمُوْنَ : ظالم (جمع)
اے پیغمبر ! تمہیں اس معاملے میں کوئی اختیار نہیں۔ اللہ ان کی توبہ قبول کرے یا انھیں عذاب دے، بیشک وہ ظالم ہیں
لَیْسَ لَـکَ مِنَ الْاَمْرِ شَیْئٌ اَوْیَتُوْبَ عَلَیْہِمْ اَوْیُعَذِّبَہُمْ فَاِنَّہُمْ ظٰلِمُوْنَ ۔ وَلِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاََرْضِ ط یَغْفِرُ لِمَنْ یَّشَآئُ وَیُعَذِّبُ مَنْ یَّشَآئُ ط وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۔ ع (اے پیغمبر ! تمہیں اس معاملے میں کوئی اختیار نہیں۔ اللہ ان کی توبہ قبول کرے یا انھیں عذاب دے، بیشک وہ ظالم ہیں۔ اور اللہ ہی کے اختیار میں ہے جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے۔ وہ جسے چاہتا ہے بخش دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے سزا دیتا ہے اور اللہ بہت بخشنے والا اور رحم فرمانے والا ہے) (128 تا 129) سُنتِ الٰہی اے پیغمبر ! کسی قوم کو فلاح دینے یا نہ دینے میں آپ کا کوئی اختیار نہیں، آپ اللہ کے رسول ہیں۔ آپ کا کام لوگوں تک اللہ کا دین پہنچانا اور بقدر ہمت اللہ کے دین کو غالب کرنا ہے۔ اس کے مقابلے میں لوگ کیا کرتے ہیں وہ پروردگار دیکھ رہا ہے۔ آپ بہرصورت لوگوں تک اللہ کے دین کی دعوت پہنچانے کے مکلف ہیں۔ وہ قبول کریں تو آپ اللہ کا شکر ادا کریں اور اگر وہ قبول کرنے کی بجائے آپ کی جان کے درپے ہوجائیں تو آپ کو اپنا فرض ادا کرنے سے پھر بھی رکنا نہیں چاہیے۔ اس لیے کہ کوئی بڑے سے بڑا کافر بھی کسی وقت ہدایت قبول کرسکتا ہے۔ آپ ان لوگوں کے وقتی اعمال کو دیکھ کر مایوس نہ ہوں اور ان کے لیے بددعا نہ فرمائیں کیونکہ یہ بات عین ممکن ہے کہ انہی میں سے کل کو کچھ لوگوں کو ایمان نصیب ہونا ہو۔ چناچہ حالات نے ثابت کیا کہ وہی خالد بن ولید جس نے اس جنگ میں فتح کو شکست سے بدل ڈالا، تھوڑے ہی عرصے کے بعد خود مدینہ آیا اور اپنے آپ کو آپ ﷺ کے قدموں میں ڈھیر کردیا اور اسلام کی سربلندی اور قوت کا ایسا ذریعہ ثابت ہوا کہ بارگاہِ نبوت سے سیف اللہ کا خطاب پایا۔ عمرو بن العاص جو جنگ احد میں کافروں کا سرمایہ تھا زیادہ دیر نہیں گزری کہ اس نے اپنے آپ کو اسلام کی آغوش میں ڈال دیا اور پھر تاریخ اسے فاتح مصر کے نام سے یاد کرتی ہے۔ ابوجہل کا بیٹا جو اس جنگ میں فوج کا ایک اہم افسر تھا فتح مکہ کے بعد وہ دائرہ اسلام میں داخل ہوا اور کئی اہم جنگوں میں اسلام کا حق ادا کرتے ہوئے بالآخر جنگ یرموک میں اللہ کے راستے میں جان دے دی اور تاریخ نے تعجب سے دیکھا جس کے باپ نے کبھی اسلام کا نام سننا گوارا نہ کیا تھا اس کا بیٹا اسلام کے لیے سر کٹواتا ہے۔ وہ ابو سفیان جو فوجیں لے لے کر مسلمانوں پر حملہ آور ہوتا رہا ایک وقت آیا کہ اس نے اسلام کو قبول کیا اور پھر اسلام ہی کی راہ میں اپنی ایک آنکھ قربان کر ڈالی۔ ایسے ہی کتنے لوگ ہیں جو اس جنگ میں شریک تھے اور پھر وقت کے یہ فاتح اسلام کے ہاتھوں مفتوح ہوگئے۔ اس لیے فرمایا جارہا ہے کہ عالم الغیب اللہ کی ذات ہے وہی جانتا ہے کہ ان میں سے کون کل کو اسلام کی آغوش میں آنے والا ہے اور کون ہے جس کی قسمت میں اللہ کا عذاب لکھا ہے۔ جو ان میں توبہ کرے گا وہ اللہ سے مغفرت کا حقدار ہوگا اور جو کفر پر اڑا رہے گا وہ بالآخر جہنم کا سزاوار ٹھہرے گا۔ زمین و آسمان اللہ کے ہاتھ میں ہیں ان کا اختیار اللہ کے قبضے میں ہے۔ وہ جس کو چاہتا ہے بخشتا ہے اور جسے چاہے گا سزا دے گا۔ لیکن وہ جلد باز نہیں وہ مہلت دیتا ہے اے پیغمبر ! آپ بھی اپنی دعا میں جلد بازی نہ کریں۔
Top