Ruh-ul-Quran - Yaseen : 28
وَ مَاۤ اَنْزَلْنَا عَلٰى قَوْمِهٖ مِنْۢ بَعْدِهٖ مِنْ جُنْدٍ مِّنَ السَّمَآءِ وَ مَا كُنَّا مُنْزِلِیْنَ
وَمَآ اَنْزَلْنَا : اور نہیں اتارا عَلٰي : پر قَوْمِهٖ : اس کی قوم مِنْۢ بَعْدِهٖ : اس کے بعد مِنْ جُنْدٍ : کوئی لشکر مِّنَ : سے السَّمَآءِ : آسمان وَمَا كُنَّا : اور نہ تھے ہم مُنْزِلِيْنَ : اتارنے والے
اور اس کے بعد اس کی قوم پر ہم نے آسمان سے کوئی لشکر نہیں اتارا، اور نہ ہم اتارنے ہی والے تھے
وَمَـآ اَنْزَلْـنَا عَلٰی قَوْمِہٖ مِنْ م بَعْدِہٖ مِنْ جُنْدٍمِّنَ السَّمَآئِ وَمَا کُنَّا مُنْزِلِیْنَ ۔ اِنْ کَانَتْ اِلاَّ صَیْحَۃً وَّاحِدَۃً فَاِذَا ھُمْ خٰمِدُوْنَ ۔ (یٰسٓ: 28، 29) (اور اس کے بعد اس کی قوم پر ہم نے آسمان سے کوئی لشکر نہیں اتارا، اور نہ ہم اتارنے ہی والے تھے۔ بس ایک ڈانٹ تھی اور یکایک وہ سب بجھ کر رہ گئے۔ ) مکذبینِ رسول کے لیے سنت الٰہی شہر کے دوردراز گوشے سے آنے والے مردمومن کی شہادت کے بعد یہ معلوم نہیں ہوتا کہ اللہ تعالیٰ کے رسولوں کو شہید کردیا گیا یا انہیں ہجرت پر مجبور کردیا گیا۔ ممکن ہے کہ وہ شہید نہ ہوئے ہوں لیکن قوم کے بپھرے ہوئے جذبات اور ظالمانہ عزائم کو دیکھ کر انھوں نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے کسی دوسرے علاقے کی طرف ہجرت فرمائی ہو۔ اللہ تعالیٰ کا قانون یہ ہے کہ جب کسی قوم کی طرف مبعوث ہونے والا پیغمبر ہجرت کرنے پر مجبور کردیا جاتا ہے اور قوم اس کی تکذیب پر تل جاتی ہے تو پھر اللہ تعالیٰ کا عذاب انہیں مزید مہلت نہیں دیتا۔ چناچہ اس قوم پر بھی اللہ تعالیٰ کا عذاب آیا۔ اور اس کے بارے میں نہایت برہمی سے یہ بات فرمائی گئی ہے کہ ہم نے آسمان سے انہیں تباہ کرنے کے لیے کوئی لشکر نہیں اتارا اور نہ ایسے چھوٹے چھوٹے کاموں کے لیے ہم لشکر اتارا کرتے ہیں۔ ویسے بھی اللہ تعالیٰ کے لشکر بیشمار ہیں۔ زمین پر بھی ہیں اور آسمان پر بھی۔ انہیں میں سے فرشتوں کا لشکر بھی ہے۔ اور انسانوں کی کسی آبادی کو تباہ کرنے کے لیے فرشتوں کے لشکر کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ ایک فرشتہ بھی کسی شہر کی تباہی کے لیے کافی ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کی ذات فرشتوں یا کسی اور لشکر کی محتاج نہیں۔ وہ چاہے تو کسی دوسرے کی معاونت کے بغیر ساری دنیا کو بھی تباہ کرسکتا ہے لیکن روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت جبریل (علیہ السلام) نے شہر کی فصیل کے دروازے کو پکڑ کر ایک زوردار اور ہیبت ناک آواز نکالی، جس نے ساری قوم کے شعلہ حیات کو بجھا کر رکھ دیا۔ ہوسکتا ہے کہ ان کی حرارتِ غریزی سلب کرلی گئی ہو۔ اور خمود چونکہ بجھا دینے کو کہتے ہیں اس سے ممکن ہے اشارہ اس بات کی طرف ہو کہ یہ لوگ اللہ تعالیٰ کے رسولوں اور ان پر ایمان لانے والوں کے خلاف دشمنی اور عداوت سے ایسے پھنکار رہے تھے جیسے سانپ شعلے اگلتا ہے یا آگ کی بھٹی شعلہ بار ہوتی ہے۔ چناچہ جیسے ہی اللہ تعالیٰ کا عذاب آیا ان کی عداوت کے شعلے تو سرد ہونا ہی تھے زندگی کا شعلہ بھی بجھ کر رہ گیا۔
Top