Ruh-ul-Quran - Yaseen : 36
سُبْحٰنَ الَّذِیْ خَلَقَ الْاَزْوَاجَ كُلَّهَا مِمَّا تُنْۢبِتُ الْاَرْضُ وَ مِنْ اَنْفُسِهِمْ وَ مِمَّا لَا یَعْلَمُوْنَ
سُبْحٰنَ : پاک الَّذِيْ : وہ ذات جس نے خَلَقَ : پیدا کیے الْاَزْوَاجَ : جوڑے كُلَّهَا : ہر چیز مِمَّا : اس سے جو تُنْۢبِتُ : اگاتی ہے الْاَرْضُ : زمین وَمِنْ اَنْفُسِهِمْ : اور ان کی جانوں سے وَمِمَّا : اور اس سے جو لَا يَعْلَمُوْنَ : وہ نہیں جانتے
پاک ہے وہ ذات جس نے تمام جوڑے پیدا کیے ان چیزوں میں سے بھی جن کو زمین اگاتی ہے اور خود ان کی اپنی جنس سے بھی اور ان چیزوں میں سے بھی جن کو وہ جانتے تک نہیں
سُبْحٰنَ الَّذِیْ خَلَقَ الْاَزْوَاجَ کُلَّھَا مِمَّا تُنْبِتُ الْاَرْضُ وَمِنْ اَنْفُسِھِمْ وَمِمَّا لاَ یَعْلَمُوْنَ ۔ (یٰسٓ: 36) (پاک ہے وہ ذات جس نے تمام جوڑے پیدا کیے ان چیزوں میں سے بھی جن کو زمین اگاتی ہے اور خود ان کی اپنی جنس سے بھی اور ان چیزوں میں سے بھی جن کو وہ جانتے تک نہیں۔ ) سُبْحٰنَکا مفہوم سُبْحٰنَکلمہ ٔ تنزیہ ہے۔ اس سے اللہ تعالیٰ کو ہر عیب اور ہر کمزوری سے پاک اور ہر نارسائی سے بالا ثابت کرنا مقصود ہوتا ہے۔ ان آیات میں اگرچہ مشرکین کی تردید اور شرک کی مذمت پیش نظر ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات کی تنزیہ پیش نظر نہیں۔ لیکن شرک چونکہ بجائے خود انسانی عقائد میں بہت بڑی خرابی کا نام ہے۔ اس لیے جب ایسی کسی خرابی کا انتساب پروردگار کی طرف ہوتا ہے تو اس کا مفہوم دراصل یہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اندر کوئی نہ کوئی کمزوری پائی جاتی ہے۔ مثلاً اگر کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی فلاں فلاں صفات میں فلاں فلاں قوتیں شریک ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ دوسرے لفظوں میں یہ کہنا چاہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنی ان صفات کو بروئے کار لانے پر قادر نہیں۔ اگر اس کی قدرت کامل ہوتی تو کسی دوسرے کی شرکت کا کوئی سوال پیدا نہ ہوتا۔ وہ اپنی قدرت کی ناتمامی کے باعث دوسروں کو اپنے ساتھ شریک کرنے پر مجبور ہوا ہے۔ اور یا اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات وصفات میں تو کسی کو شریک نہیں کیا لیکن بعض ہستیاں ایسی طاقتور ہیں کہ پروردگار ان کی مداخلت روکنے پر قادر نہیں۔ اس لیے وہ اپنی کمزوری کے باعث ان کی مداخلت کو برداشت کررہا ہے۔ ایسے ہی بعض دیگر مشرکانہ تصورات ہیں جو درحقیقت اللہ تعالیٰ کی طرف کمزوریوں کو منسوب کرنے کے مترادف ہیں۔ چناچہ ان تمام خرافات کے ازالے کے لیے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ایسے تمام عیوب و نقائص اور کمزوریوں سے پاک اور منزّہ ہے۔ توحید پر صفت تخلیق سے استدلال اللہ تعالیٰ کو ہر نقص اور عیب سے پاک ثابت کرنے کے بعد صرف اس کی ایک صفت تخلیق کا حوالہ دیا ہے جس پر غور کرنے کے بعد اگر کسی شخص کی عقل پر پتھر نہیں پڑگئے تو وہ اللہ تعالیٰ کے حوالے سے ہر طرح کے شرک سے تائب ہوجاتا ہے۔ وہ جب دیکھتا ہے کہ یوں تو اللہ تعالیٰ کی صفت تخلیق بجائے خود ایسی حیران کردینے والی ہے کہ جیسے جیسے تدبر کا قدم آگے بڑھتا جاتا ہے ویسے ویسے آدمی کے حیرت واستعجاب میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ لیکن جب ہم خصوصی طور پر یہ دیکھتے ہیں کہ اس نے جو چیزیں بھی پیدا کی ہیں ان میں انتہا درجے کا تنوع پایا جاتا ہے۔ انسانوں ہی کو دیکھ لیجیے ان کی شکلوں، رنگوں، قامتوں، زبانوں، صلاحیتوں، مزاجوں اور ذوقوں میں باہمی کس قدر اختلاف اور فرق پایا جاتا ہے۔ پھولوں کو دیکھ لیجیے۔ ان کے رنگ اور ان کی خوشبو اس قدر اپنے اندر تنوع رکھتی ہے کہ آدمی اس سیلاب کے سامنے ڈوبتا چلا جاتا ہے۔ اس نے آسمان پر روشنی کے جو بڑے بڑے کُرّے سجا رکھے ہیں اور بڑے بڑے فانوس جلا رکھے ہیں کوئی شخص ان کی روشنی کی کنہ کو کماحقہ پا نہیں سکتا۔ اور پھر اسی پر بس نہیں اس نے ہر چیز کے جوڑے جوڑے بھی پیدا کیے ہیں۔ عورت مرد کا جوڑا تو انسان کے اپنے وجود کا باعث ہے اس لیے اسے تو ہر ایک جانتا ہے لیکن حیوانات کی نسلیں بھی نر اور مادہ کے ازدواج سے وجود میں آئی ہیں۔ اسی طرح نباتات میں ماہرینِ زراعت تزویج کے اصول کی کارفرمائی کو دیکھتے ہیں تو انگشت بدنداں رہ جاتے ہیں۔ اب تو علم کا سفر یہاں تک بڑھ چکا ہے کہ بےجان مادوں میں بھی تزویج کے عمل کی کارفرمائی ثابت ہوچکی ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ خود مادے کی بنیادی ترکیب منفی اور مثبت برقی توانائی کے ارتباط سے ہوئی ہے۔ ابھی نہ جانے اس عالم کا کتنا حصہ ہمارے علم کی رسائی سے باہر ہے۔ جب کبھی وہ روشنی میں آیا تو اس بات کی مزید تصدیق ہوجائے گی کہ اللہ تعالیٰ نے اس میں تنوع بھی رکھا ہے اور تزویج کا عمل بھی جاری ہے۔ یہ تنوع اور یہ ازدواج اللہ تعالیٰ کی حکمت و صنّاعی کی ایسی دلیل ہے اور اس کی وحدانیت اور الوہیت کا ایسا ثبوت ہے جس کے سامنے شرک کی ہر آلودگی دم توڑ جاتی ہے۔ ہر چیز کے جوڑا جوڑا ہونے سے یہ بات بھی سمجھ میں آتی ہے کہ جس طرح ہر چیز اپنے جوڑے سے مل کر اپنے مقصد کو پورا کرتی ہے اسی طرح دنیا کا بھی کوئی جوڑا ہونا چاہیے ورنہ دنیا بالکل بےمقصد و بےغائت ہو کر رہ جاتی ہے۔ اور یہ بات ایک حکیم خالق کی شان سے بعید ہے کہ وہ کوئی عبث اور بےمقصد کام کرے۔ چناچہ اس دنیا کے اس خلا کو بھرنے کے لیے اس نے آخرت بنائی ہے۔
Top