Ruh-ul-Quran - Yaseen : 41
وَ اٰیَةٌ لَّهُمْ اَنَّا حَمَلْنَا ذُرِّیَّتَهُمْ فِی الْفُلْكِ الْمَشْحُوْنِۙ
وَاٰيَةٌ : اور ایک نشانی لَّهُمْ : ان کے لیے اَنَّا : کہ ہم حَمَلْنَا : ہم نے سوار کیا ذُرِّيَّتَهُمْ : ان کی اولاد فِي الْفُلْكِ : کشتی میں الْمَشْحُوْنِ : بھری ہوئی
اور ایک نشانی ان کے لیے یہ بھی ہے کہ ہم نے ان کی نسل کو بھری ہوئی کشتی میں سوار کیا
وَاٰیـَۃٌ لَّھُمْ اَنَّا حَمَلْنَا ذُرِّیَّتَھُمْ فِی الْفُلْکِ الْمَشْحُوْنَ ۔ وَخَلَقْنَا لَھُمْ مِّنْ مِّثْلِہٖ مَا یَرْکَبُوْنَ ۔ وَاِنْ نَّشَاْ نُغْرِقْھُمْ فَلاَ صَرِیْخَ لَھُمْ وَلاَ ھُمْ یُنْقَذُوْنَ ۔ اِلاَّ رَحْمَۃً مِّنَّا وَمَتَاعًا اِلٰی حِیْنٍ ۔ (یٰسٓ: 41 تا 44) (اور ایک نشانی ان کے لیے یہ بھی ہے کہ ہم نے ان کی نسل کو بھری ہوئی کشتی میں سوار کیا۔ پھر ہم نے ان کے لیے پیدا کیں اسی کی مانند جن پر یہ سوار ہوتے ہیں۔ اور اگر ہم چاہیں تو ان کو غرق کردیں پھر نہ کوئی ان کا فریاد سننے والا ہو اور نہ وہ بچائے جاسکیں۔ پس ہماری رحمت ہے اور ایک وقت معین تک ان کو بہرہ مند کرنا ہے۔ ) صفتِ تخلیق اور صفت ابقاء سے استدلال اللہ تعالیٰ کی توحید اور انسانی زندگی پر اس کے احسانات اور کائنات کے نظم و نسق اور اس کے سنبھالنے میں اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کے دلائل کے طور پر جو نشانیاں بیان کی جارہی ہیں ان میں سے ایک نشانی یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانی نسل کو حضرت نوح (علیہ السلام) کی بھری ہوئی کشتی میں سوار کیا۔ بھری ہوئی کشتی سے مراد یہ ہے کہ قوم نوح پر تکذیبِ رُسل کے نتیجے میں جب عذاب بھیجنے کا فیصلہ ہوا تو اللہ تعالیٰ نے حضرت نوح (علیہ السلام) کو ایک بڑی کشتی بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ بحری جہاز بنانے کا حکم دیا۔ انسان اس سے پہلے کشتی کی صنعت سے بالکل بیخبر تھا۔ یہی وجہ تھی کہ اس کی آبادی خشکی پر دریائوں اور سمندروں میں گھری ہوئی تھی۔ اس کے پاس دریائوں اور سمندروں کو پار کرنے کا کوئی ذریعہ نہ تھا۔ اور پھر جو عذاب آنے والا تھا وہ چونکہ غیرمعمولی پانی کا سیلاب تھا جس سے خشکی میں رہ کر بچنا ناممکن تھا۔ حضرت نوح (علیہ السلام) جب کشتی تیار کرچکے تو اچانک طوفان کے آثار پیدا ہوئے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ جس تنور میں آگ جلتی تھی وہیں سے سب سے پہلے پانی ابلنا شروع ہوا۔ پھر جابجا چشمے ابل پڑے، آسمان نے اپنے بند کھول دیے، موسلادھار بارش نے دیکھتے ہی دیکھتے جل تھل ایک کردیا، حضرت نوح (علیہ السلام) کو حکم دیا گیا کہ اپنی کشتی میں ہر طرح کے جانوروں کا ایک ایک جوڑا سوار کرلو تاکہ طوفان کے بعد کی زندگی میں ان سے کام لیا جاسکے۔ اور جو لوگ ایمان لا چکے ہیں وہ مرد ہوں یا عورت کشتی کے مختلف حصوں میں انہیں بھی سوار کرلو۔ ظاہر ہے کہ زندگی کی مختلف ضرورتوں اور مختلف جانوروں سے لدی ہوئی یہ کشتی اپنے اندر کس قدر وسعت رکھتی تھی کہ صاحب ایمان لوگوں کی نسل ساری کی ساری اس میں سوار کردی گئی۔ اور اسی کشتی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان کی زندگی اور بقاء کا سامان کیا۔ جبکہ باقی تمام نوع انسانی سیلاب کی نذر ہو کر لقمہ اجل ہوگئی۔ اس لیے سب سے پہلے اس وقت کے انسان پر زندگی کی حفاظت کے حوالے سے اللہ تعالیٰ نے جو احسان کیا اور کشتی پر سوار کرکے ان کی بقا کا جو انتظام فرمایا اس کا ذکر کیا گیا۔ اور دوسری آیت میں مزید احسان کا ذکر کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ ہم نے پھر کشتی نوح جیسی اور کشتیاں بھی پیدا فرمائیں جن پر بعد کی نسلیں سوار ہوتی رہیں اور آج بھی انسان اسی کشتی کو ترقی دیتے ہوئے کہیں کا کہیں پہنچ گیا ہے۔ لیکن اس احسان سے کبھی فارغ نہیں ہوسکتا جس کی ابتدا کشتی نوح سے ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے بعد کی کشتیاں بنانے کی نسبت اپنی طرف فرمائی ہے۔ جس میں اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ انسان نے جتنی بھی ایجادات کی ہیں چاہے وہ سمندر پر سفر کے حوالے سے ہوں یا زمینی اور فضائی سفر کے حوالے سے، یا زندگی کی دوسری ضروریات کو پورا کرنے کے لیے، ان میں سے ہر ایجاد بظاہر انسان کا کرشمہ ہے، لیکن درحقیقت اللہ تعالیٰ کی نوازش اور اس کی عطا ہے۔ ان ایجادات میں جس جوہر نے بنیادی کردار ادا کیا ہے وہ جوہرِعقل ہے۔ اور یہ جوہر ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کا انسان پر سب سے بڑا احسان اور انعام ہے۔ اور مزید یہ کہ عقل بھی ایجادات کے سلسلے میں اس وقت کوئی نیا کارنامہ انجام دینے میں کامیاب ہوتی ہے جب اچانک اللہ تعالیٰ انسان کی اس ایجاد کو ایک نئے سفر کی طرف اشارہ فرماتا ہے۔ اور اچانک اس کے اندر ایک نیا دیپ جل اٹھتا ہے۔ نیوٹن نے بارہا سیب کے درخت سے سیب کو گرتے دیکھا، لیکن کبھی اسے کشش ثقل کا الہام نہیں ہوا۔ لیکن ایک دن اچانک سیب کو گرتے دیکھ کر وہ اس راز کو پا گیا کہ آخر سیب نیچے ہی کیوں گرتا ہے، اوپر کیوں نہیں جاتا ؟ یہ یقینا زمین کی کشش کا نتیجہ ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کو فطرت کی طاقتوں پر جو تصرف کے اختیارات حاصل ہیں وہ اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ ہیں۔ اور ان طاقتوں پر تصرف کے جو طریقے اس نے دریافت کیے ہیں وہ بھی اللہ تعالیٰ کی رہنمائی سے اس کے علم میں آئے ہیں۔ اسرارِ فطرت کا پتہ چلا لینا اور ان قوتوں سے کام لینے کے طریقے جان سکنا اللہ تعالیٰ کی مرضی کے سوا ممکن نہیں۔ اللہ تعالیٰ کی جب مرضی ہوتی ہے اور وہ جس چیز کو انسان کی بھلائی کے لیے وجود میں لانا چاہتا ہے انسان کی اس کی طرف رہنمائی کردیتا ہے۔ لیکن یہ انسان کی غلطی ہے کہ وہ ان ایجادات کو اپنی ذاتی قوت تسخیر کا نتیجہ سمجھ لیتا ہے اور یہیں سے اس کی گمراہی کی ابتدا ہوتی ہے۔ اس لیے اگلی آیت کریمہ میں توجہ دلاتے ہوئے فرمایا کہ یہ ہمارا احسان ہے کہ ہم نے حضرت نوح (علیہ السلام) کی کشتی میں اس وقت کے صاحب ایمان لوگوں کی نسل کو سوار کیا اور پھر انہیں سے آئندہ زمین پر نوع انسانی کا سلسلہ چلا۔ پھر انسان درجہ بدرجہ ایجادات میں آگے بڑھتا رہا اور آج اس کی کشتیاں سمندر کے سینے پر دوڑتی پھرتی ہیں، لیکن اسے کبھی یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو وہ انہیں کشتی سمیت غرق کردے۔ اور یہ نہ کوئی فریاد کرسکیں اور نہ کوئی ان کی فریاد رسی کرسکے اور نہ کبھی یہ ہلاکت سے محفوظ رہ سکے۔ یہ تو سراسر اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے کہ اس نے انسان کو اپنی حکمت و مشیت کے مطابق مختلف صلاحیتوں سے نوازا، ان کے اظہار کا موقع دیا اور ایک وقت خاص تک ان نعمتوں سے اسے بہرہ مند ہونے کا موقع فراہم کیا۔
Top