Ruh-ul-Quran - Yaseen : 53
اِنْ كَانَتْ اِلَّا صَیْحَةً وَّاحِدَةً فَاِذَا هُمْ جَمِیْعٌ لَّدَیْنَا مُحْضَرُوْنَ
اِنْ : نہ كَانَتْ : ہوگی اِلَّا : مگر صَيْحَةً : ایک چنگھاڑ وَّاحِدَةً : ایک فَاِذَا : پس یکایک هُمْ : وہ جَمِيْعٌ : سب لَّدَيْنَا : ہمارے سامنے مُحْضَرُوْنَ : حاضر کیے جائیں گے
بس وہ ایک ڈانٹ ہوگی پھر وہ اچانک سب کے سب ہمارے سامنے حاضر کردیے جائیں گے
اِنْ کَانَتْ اِلاَّ صَیْحَۃً وَّاحِدَۃً فَاِذَا ھُمْ جَمِیْعٌ لَّدَیْنَا مُحْضَرُوْنَ ۔ (یٰسٓ: 53) (بس وہ ایک ڈانٹ ہوگی پھر وہ اچانک سب کے سب ہمارے سامنے حاضر کردیے جائیں گے۔ ) ایک غلط فہمی کا ازالہ اس سے پہلے مخالفین کی یہ غلط فہمی دور کی گئی ہے کہ وہ موت کے بعد ہمیشہ کی نیند سو جائیں گے اور کبھی انہیں ازسرنو اٹھنا نہیں ہوگا اور نہ وہ اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کیے جائیں گے۔ اب ان کی ایک اور غلط فہمی کا ازالہ کیا گیا ہے۔ وہ یہ کہ انہیں اللہ تعالیٰ کے عذاب سے ڈرایا جائے یا وقوع قیامت سے وہ صرف اس لیے اسے بعیدازعقل سمجھتے ہیں کہ ساری کائنات کا تباہ کرنا اور پھر ازسرنو انہیں زندہ کرنا اور سب سے زندگی بھر کے اعمال کا حساب لینا یہ کوئی عقل میں آنے والی بات نہیں۔ اس کے لیے اسباب کی اتنی بڑی قوت چاہیے جسے عقل تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ ان کی اس غلط فہمی کو دور کرتے ہوئے ارشاد فرمایا گیا ہے کہ نہ قیامت کے لانے میں اللہ تعالیٰ کو کسی تیاری کی ضرورت ہے اور نہ انسانوں کو دوبارہ زندہ کرکے میدانِ حشر میں لانے کے لیے اسباب کی فراہمی کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک ڈانٹ کافی ہے جس سے سب لوگ زندہ ہو کر اللہ تعالیٰ کے حضور جانے کے لیے نکل کھڑے ہوں گے جس طرح اللہ تعالیٰ نے کلمہ کُن سے ہر چیز کو بنایا، اسی طرح وہ کلمہ کُن سے ہی ہر چیز کو ختم کردے گا اور اسی ایک کلمے اور ایک ڈانٹ سے قیامت کو برپا کرسکتا ہے۔ جَمِیْعٌ کا لفظ کہہ کر یہ اشارہ فرمایا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے حضور جواب دہی کے لیے کسی کو چھوڑا نہیں جائے گا بلکہ ہر چھوٹا بڑا، امیر اور مامور، عابد اور معبود سب اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر کردیے جائیں گے۔ اور مُحْضَرُوْنَ کے لفظ سے اس بات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ آج کے بڑے بڑے سرکش اور متکبر اس طرح اللہ تعالیٰ کے حضور لائے جائیں گے جیسے مجرم عدالت کے سامنے حاضر کیے جاتے ہیں۔
Top