Ruh-ul-Quran - Yaseen : 55
اِنَّ اَصْحٰبَ الْجَنَّةِ الْیَوْمَ فِیْ شُغُلٍ فٰكِهُوْنَۚ
اِنَّ : بیشک اَصْحٰبَ الْجَنَّةِ : اہل جنت الْيَوْمَ : آج فِيْ شُغُلٍ : ایک شغل میں فٰكِهُوْنَ : باتیں (خوش طبعی کرتے)
بیشک آج جنت والے اپنی دلچسپیوں میں مشغول ہوں گے
اِنَّ اَصْحٰبَ الْجَنَّۃِ الْیَوْمَ فِیْ شُغُلٍ فٰـکِھُوْنَ ۔ ھُمْ وَاَزْوَاجُہُمْ فِیْ ظِلٰـلٍ عَلَی الْاَرَآئِکِ مُتَّـکِئُوْنَ ۔ لَہُمْ فِیْھَا فَاکِھَۃٌ وَّلَہُمْ مَّایَدَّعُوْن۔ سَلٰمٌ قف قَوْلًا مِّنْ رَّبٍّ رَّحِیْمٍ ۔ (یٰسٓ: 55 تا 58) (بےشک آج جنت والے اپنی دلچسپیوں میں مشغول ہوں گے۔ وہ اور ان کی بیویاں گھنے سایوں میں تختوں پر تکیہ لگائے ہوئے ہوں گے۔ ان کے لیے اس میں میوے ہوں گے اور ان کے لیے وہ سب کچھ ہوگا جو وہ طلب کریں گے۔ ربِ رحیم کی طرف سے ان کے لیے سلام ہوگا۔ ) اہلِ جنت پر نوازشات عدالت کی کارروائی شروع ہوگی تو سب سے پہلے ان مخلص وفاداروں کو یاد کیا جائے گا جنھوں نے زندگی کا ہر دکھ اسلام کی سربلندی کے لیے برداشت کیا۔ اور اپنی ہر خواہش اللہ تعالیٰ کے حکم اور اس کی رضا پر قربان کردی۔ انہیں بلاحساب یا ہلکی حساب فہمی کے بعد جنت میں جانے کا حکم دیا جائے گا۔ انہیں دورانِ عدالت لمبے انتظار کی کوفت میں مبتلا ہونے سے محفوظ رکھا جائے گا اور کفار کو بطور خاص ان کے ساتھ یہ سلوک دکھایا جائے گا اور جنت میں ان کی نعمتوں میں ڈوبی ہوئی زندگی اور خوش عیشی کی مسرتوں میں ان کی مشغولیت سے انہیں آگاہ کیا جائے گا تاکہ انہیں اندازہ ہوسکے کہ جن لوگوں کو انھوں نے دنیا میں ہمیشہ حقارت کی نگاہ سے دیکھا اور ہمیشہ ان کی غربت کا مذاق اڑایا، آج وہ اللہ تعالیٰ کے حضور کس قدر نوازے گئے ہیں۔ انسان کی فطرت ایسی ہے کہ وہ اپنی ہر خوشی کو نامکمل سمجھتا ہے جب تک اہل خانہ اس میں شریک نہیں ہوتے۔ اس لیے دوسری آیت میں بتایا گیا ہے کہ اہل جنت اکیلے جنت کے مزے نہیں لوٹیں گے بلکہ وہ اور ان کی بیویاں جنت کی ہر دلچسپی اور مسرت میں ایک ساتھ ہوں گے۔ وہ جنت کے درختوں کے گھنے سائے میں ایک ساتھ محوخرام ہوں گے۔ اور جب جی چاہے گا تو بادشاہوں کی طرح مزین تختوں پر ٹیک لگائے ہوئے مجلسی زندگی سے محظوظ ہوں گے۔ وہ خوشی یقینا نامکمل ہوتی ہے جس میں کام و دہن کی تواضع کا انتظام نہ ہو۔ اس لیے اگلی آیت میں فرمایا کہ ان کے سامنے ایک سے ایک بڑھ کر پھل اور میوے پیش کیے جائیں گے۔ اور ان پھلوں میں تنوع اور لذت کا عالم یہ ہوگا کہ اہل جنت جس میوے اور پھل کی خواہش کریں گے اور جس لطف و لذت کا تصور کریں گے وہ ان کے سامنے پیش کردیا جائے گا۔ یہ ایک ایسا اعزاز ہے جو دنیا میں کسی بڑے سے بڑے بادشاہ کو بھی نصیب نہیں ہوسکتا، کہ وہ جو چاہے فوراً اسے مل جائے۔ اور جو چیز اسے ناگوار ہو وہ فوراً اس سے دور کردی جائے۔ دنیوی زندگی میں اس کا کوئی امکان نہیں۔ لیکن اہل جنت کو جنت میں یہ مقام و مرتبہ حاصل ہوگا اور وہ بھی ایک دو دن کے لیے نہیں بلکہ ہمیشہ ان کے ساتھ ایسا ہی ہوگا۔ اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ اہل جنت کے دلوں کی آبادی اور ان کی روح کی خوشی اللہ تعالیٰ کی یاد میں ہے۔ یہی ان کا وہ سرمایہ ہے جس نے انہیں جنت کا مستحق بنایا اور وہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں سے بہرہ ور ہوئے۔ انہیں خوب یاد ہوگا کہ آنحضرت ﷺ نے انہیں خوشخبری سنائی تھی اور قرآن پاک نے اس پر مہرتصدیق ثبت کی تھی کہ اہل جنت کو اللہ تعالیٰ کے سلام کا اعزاز بخشا جائے گا۔ اس لیے اس بات کی امید کی جاسکتی ہے کہ وہ جنت کی بیش بہا نعمتوں کے باوجود اس کی امید لگائے بیٹھے ہوں کہ اللہ تعالیٰ کا انہیں سلام پہنچے گا اور کب ہم اس کے دیدار سے مشرف کیے جائیں گے۔ چناچہ اہل جنت کی خوشیوں اور نعمتوں کو مکمل کرتے ہوئے پروردگار ارشاد فرماتے ہیں کہ اہل جنت کو رب رحیم کا سلام پہنچایا جائے گا۔ سورة الاحزاب میں اسی نعمت کے حوالے سے فرمایا گیا ہے : تَحِیَّتُہُمْ یَوْمَ یَلْقَوْنَـہٗ سَلاَ مٌ ” اور ان کا خیرمقدم جس دن وہ اس سے ملیں گے سلام سے ہوگا۔ “ پیش نظر آیت بھی اسی مفہوم کی حامل ہے۔ احادیثِ مبارکہ سے معلوم ہوتا ہے کہ فرشتے جنت کے تمام دروازوں سے داخل ہوں گے اور اہل جنت کو اللہ تعالیٰ کا سلام پہنچائیں گے۔ اس خوشی اور سرمستی کا اندازہ وہی کرسکتا ہے جو محبت کی چاشنی سے آگاہ ہو اور جو اس بات کو سمجھ سکتا ہوں کہ جس محبوب کی خواہشِ وصل میں عمر گزری ہو اس کی طرف سے سلام آنے کی لذت کیا ہے ؟ یہ نصیب اللہ اکبر لوٹنے کی جائے ہے
Top