Ruh-ul-Quran - Yaseen : 66
وَ لَوْ نَشَآءُ لَطَمَسْنَا عَلٰۤى اَعْیُنِهِمْ فَاسْتَبَقُوا الصِّرَاطَ فَاَنّٰى یُبْصِرُوْنَ
وَلَوْ نَشَآءُ : اور اگر ہم چاہیں لَطَمَسْنَا : تو مٹا دیں (ملیا میٹ کردیں) عَلٰٓي : پر اَعْيُنِهِمْ : ان کی آنکھیں فَاسْتَبَقُوا : پھر وہ سبقت کریں الصِّرَاطَ : راستہ فَاَنّٰى : تو کہاں يُبْصِرُوْنَ : وہ دیکھ سکیں گے
اور اگر ہم چاہتے تو ان کی آنکھیں مٹا دیتے، پھر وہ راستے کی طرف سبقت کرتے تو کس طرح دیکھ پاتے
وَلَوْنَشَآئُ لَطَمَسْنَا عَلٰٓی اَعْیُنِہِمْ فَاسْتَبَقُوا الصِّرَاطَ فَاَنّٰی یُبْصِرُوْنَ ۔ وَلَوْنَشَآئُ لَمَسَخْنٰـھُمْ عَلٰی مَکَانَتِھِمْ فَمَا اسْتَطَاعُوْا مُضِیًّاوَّلاَ یَرْجِعُوْنَ ۔ (یٰسٓ: 66، 67) (اور اگر ہم چاہتے تو ان کی آنکھیں مٹا دیتے، پھر وہ راستے کی طرف سبقت کرتے تو کس طرح دیکھ پاتے۔ اور اگر ہم چاہتے تو ان کی جگہ پر ہی انہیں مسخ کر کے رکھ دیتے تو وہ نہ آگے بڑھ سکتے اور نہ پیچھے لوٹ سکتے۔ ) حیرت انگیز بات اور تنبیہ و تہدید ان دو آیتوں میں دو باتیں ارشاد فرمائی گئی ہیں لیکن ان میں سے پہلے ایک بات یہ ہے کہ حیرت ہوتی ہے کہ مخالفین کی انتہا درجہ مخالفت کے باوجود اللہ تعالیٰ کی رحمت ان سے منہ نہیں موڑتی۔ اور اس وقت تک ان کو مہلت دی جارہی ہے جب تک ان سے قبولیت کی استعداد کا آخری امکان ختم نہیں ہوجاتا۔ اور پھر مزید حیرت کی بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بےپایاں قدرت کے سامنے ایسی کوئی روک بھی نہیں جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کی گرفت میں تاخیر ہورہی ہو۔ چناچہ اسی صورتحال کو سامنے رکھتے ہوئے ارشاد فرمایا جارہا ہے کہ مخالفین کا حال تو یہ ہے کہ ہم نے جو ان کو صلاحیتیں دے رکھی ہیں ان سے وہ کوئی کام لینے کی بجائے بری طرح انہیں پامال کررہے ہیں۔ ایسی صورتحال میں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہم ان کی آنکھوں کو مٹا دیتے۔ یعنی ان سے بصارت سلب کرلیتے۔ اور پھر یہ راستے کی تلاش میں بھٹکتے پھرتے۔ اور ان کو کہیں راہ نہ ملتی۔ لیکن ہم نے ایسا نہیں کیا تاکہ وہ آخری حد تک بصارت سے فائدہ اٹھائیں اور اللہ تعالیٰ کی رحمت کو اپنے حسب حال دیکھ کر اس کے دین کی طرف بڑھیں۔ دوسری بات یہ فرمائی گئی ہے کہ وہ اپنی جن صلاحیتوں اور قوتوں کے بل بوتے پر اللہ تعالیٰ کے دین کی مخالفت کررہے ہیں اور اپنے تئیں یہ سمجھتے ہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے پیغمبر کی کاوشوں کو ناکام کردیں گے۔ کاش ! کبھی انہیں یہ خیال ہوتا کہ ہم اگر چاہیں تو ہم انہیں ان کی جگہ پر ہی مسخ کرکے رکھ سکتے تھے۔ نہ ان کی آنکھیں کام دیتیں، نہ ان کی ٹانگیں ان کا بوجھ اٹھاتیں۔ وہ ایک پاگل اور مفلوج آدمی کی طرح زندگی گزارنے پر مجبور ہوتے۔ نہ وہ کہیں آگے بڑھ سکتے اور نہ پیچھے پلٹ سکتے۔ یہ تو ہماری عنایت ہے کہ ہم نے ان کے ساتھ ایسا نہیں کیا۔ اور اگر ہم ایسا کرنے کا ارادہ کرلیتے تو ان میں یہ طاقت نہیں کہ وہ ہمارے ارادے میں حائل ہوجاتے۔ اب بھی ان کے پاس موقع ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی اس مہلت اور رحمت سے فائدہ اٹھائیں اور اس کی عطا کردہ صلاحیتوں کا حق پہچانیں اور اپنے رب کی شکرگزاری کرتے ہوئے اس کے رسول کا دامن تھام لیں۔
Top