Ruh-ul-Quran - An-Nisaa : 15
وَ الّٰتِیْ یَاْتِیْنَ الْفَاحِشَةَ مِنْ نِّسَآئِكُمْ فَاسْتَشْهِدُوْا عَلَیْهِنَّ اَرْبَعَةً مِّنْكُمْ١ۚ فَاِنْ شَهِدُوْا فَاَمْسِكُوْهُنَّ فِی الْبُیُوْتِ حَتّٰى یَتَوَفّٰهُنَّ الْمَوْتُ اَوْ یَجْعَلَ اللّٰهُ لَهُنَّ سَبِیْلًا
وَالّٰتِيْ : اور جو عورتیں يَاْتِيْنَ : مرتکب ہوں الْفَاحِشَةَ : بدکاری مِنْ : سے نِّسَآئِكُمْ : تمہاری عورتیں فَاسْتَشْهِدُوْا : تو گواہ لاؤ عَلَيْهِنَّ : ان پر اَرْبَعَةً : چار مِّنْكُمْ : اپنوں میں سے فَاِنْ : پھر اگر شَهِدُوْا : وہ گواہی دیں فَاَمْسِكُوْھُنَّ : انہیں بند رکھو فِي الْبُيُوْتِ : گھروں میں حَتّٰى : یہاں تک کہ يَتَوَفّٰىھُنَّ : انہیں اٹھا لے الْمَوْتُ : موت اَوْ يَجْعَلَ : یا کردے اللّٰهُ : اللہ لَھُنَّ : ان کے لیے سَبِيْلًا : کوئی سبیل
(اور جو کوئی بدکاری کریں تمہاری عورتوں میں سے تو گواہ طلب کرو ان پر چار مرد اپنوں میں سے۔ پس اگر وہ گواہی دے دیں تو ان کو گھروں کے اندر محبوس کردویہاں تک کہ موت ان کو اٹھالے یا اللہ ان کے لیے کوئی راہ نکالے
وَالّٰتِیْ یَاْتِیْنَ الْفَاحِشَۃَ مِنْ نِّسَآئِکُمْ فَاسْتَشْھِدُوْا عَلَیْھِنَّ اَرْبَعَۃً مِّنْکُمْ ج فَاِنْ شَھِدُوْا فَاَمْسِکُوْھُنَّ فِی الْـبُیُوْتِ حَتّٰی یَتَوَفّٰھُنَّ الْمَوْتُ اَوْیَجْعَلَ اللّٰہُ لَھُنَّ سَبِیْلاً وَالَّذٰنِ یَاْتِیٰنِھَا مِنْکُمْ فَاٰ ذُوْھُمَا ج فَاِنْ تَابَا وَاَصْلَحَا فَاَعْرِضُوْا عَنْھُمَا ط اِنَّ اللّٰہَ کَانَ تَوَّابًا رَّحِیْمًا (اور جو کوئی بدکاری کریں تمہاری عورتوں میں سے تو گواہ طلب کرو ان پر چار مرد اپنوں میں سے۔ پس اگر وہ گواہی دے دیں تو ان کو گھروں کے اندر محبوس کردویہاں تک کہ موت ان کو اٹھالے یا اللہ ان کے لیے کوئی راہ نکالے اور جو دونوں تم میں سے اس بدکاری کا ارتکاب کریں تو ان کو ایذا دو پھر اگر وہ دونوں توبہ کرلیں اور اصلاح کرلیں تو ان کا خیال چھوڑ دو ، بیشک اللہ توبہ کرنے والا اور مہربان ہے) (النسآء : 15 تا 16) سابقہ آیات میں ان مفاسد کا سدباب کیا گیا ہے جو حد سے بڑھی ہوئی حبِ دنیا سے پیدا ہوتے ہیں۔ اور جن کی وجہ سے معاشرے میں ابتری پیدا ہوتی اور قطع رحمی کا راستہ کھلتا ہے۔ پیش نظرآیات میں ان مفاسد کو روکنے کی کوشش کی گئی ہے جو صنفی انتشار اور جنسی بےراہ روی سے پیدا ہوتے ہیں۔ اور ہر صاحب نظر جانتا ہے کہ جس طرح مال سے حد سے بڑھی ہوئی محبت سے پیدا ہونے والے مفاسد انسانی معاشرہ کے لیے تباہ کن ہیں اسی طرح جنسی بےراہ روی، صنفی جذبات کی بےقیدی، اور شرم وحیا کے بندھن ڈھیلے پڑجانے کے باعث جو انتشار اور انارکی پیدا ہوتی ہے اور قومی خصوصیات کو نقصان پہنچتا ہے وہ اس سے بھی ہولناک ہیں۔ اس لیے ضروری تھا کہ گزشتہ آیات میں اگر اسلامی معاشرے کو ایک طرح کی اخلاقی بیماریوں سے بچانے کی کوشش کی گئی ہے تو دوسری طرح کی اخلاقی خرابیوں سے بھی بچانے کی کوشش کی جاتی۔ عارضی تعزیراتی احکام ان آیات میں جو احکام بیان کیے گئے ہیں انھیں پڑھنے سے پہلے یہ بات یاد رہے کہ یہ اسلام کے قانونِ تعزیرات کے مستقل احکام نہیں ہیں بلکہ یہ وہ عارضی احکام ہیں جو مستقل قانونِ تعزیرات کے آنے سے پہلے مسلمان معاشرے کو صنفی جذبات کی بےقیدی سے بچانے کے لیے دیئے گئے۔ مسلمان معاشرہ وجود میں آچکا اور آہستہ آہستہ پھیل رہا تھا لیکن اسے اسلامی معاشرے میں ڈھالنے کے لیے جس مستقل قانون کی ضرورت تھی ابھی اس کے لیے حالات پیدا نہیں ہوئے تھے کیونکہ ابھی اس معاشرے میں نظم و استحکام پیدا نہیں ہوا تھا۔ مدینہ طیبہ کے اندر صرف مسلمان نہیں بلکہ غیر مسلم بھی آباد تھے۔ ان میں یہود خاص طور پر اپنا ایک مذہب اور قانون رکھتے تھے۔ ان پر اسلامی قانون نافذ نہیں کیا جاسکتا تھا اور خود اوس اور خزرج جن کی اکثریت مسلمان ہوچکی تھی ابھی تک مکمل طور پر اسلام کی آغوش میں نہیں آئے تھے۔ پھر مدینہ کے اطراف میں غیر مسلم قبائل بھی موجود تھے وہ مسلمانوں سے تعلق تو رکھتے تھے لیکن پوری طرح اسلام کے زیر نگیں نہیں تھے۔ اس لحاظ سے نہ تو مسلمان ریاست میں ابھی اتنی قوت آئی تھی کہ وہ پورے مدینہ اور اس کے مضافات میں اسلامی حدود وتعزیرات نافذ کردیں اور نہ خود مسلمان ابھی قانونی پابندیوں کا بوجھ اٹھانے کے خوگر ہوئے تھے۔ ان حالات میں اسلام کا قانونِ تعزیرات نافذ کرنا سراسر حکمت اور مصلحت کے خلاف تھا۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ اسلام جس طرح شرک کو برداشت نہیں کرتا اسی طرح بےحیائی اور صنفی آوارگی کو بھی برداشت نہیں کرتا۔ نامساعد حالات میں بھی یہ بات تصور میں نہیں لائی جاسکتی کہ مسلمانوں کو اباحیت پسندبنا دیا جائے یا ان کی اخلاقی اقدار میں دراڑیں آنے دی جائیں ان حالات میں ایک ہی راستہ تھا کہ مسلمانوں کو کچھ ایسے عارضی احکام دیئے جائیں جس سے ایک طرف اخلاقی اقدار کا تحفظ ہوسکے مسلمان اپنی امتیازی خصوصیات کو پہچان سکیں اور ساتھ ہی ساتھ اصل قانونِ تعزیرات کے لیے ذہنوں کو تیار ہونے کا موقعہ بھی ملے۔ چناچہ ان دونوں آیتوں میں اسلامی حدود وتعزیرات کے حوالے سے عارضی اور ابتدائی احکام دیئے گئے ہیں اور جن کی جگہ بعد میں سورة النور میں مستقل احکام دئیے گئے۔ اس طرح سے مسلمان سوسائیٹی کا اخلاقی اعتبار سے تحفظ بھی ہوگیا اور مسلمان معاشرے میں کسی قانونی بحران کا خطرہ بھی پیدا نہیں ہوا۔ ان دونوں آیتوں میں ان عورتوں اور مردوں کے بارے میں احکام دیئے گئے ہیں جن سے زنا کا صدور ہوا ہے۔ فاحشۃ کھلی ہوئی بےحیائی اور بدکاری کو کہتے ہیں او زنا کے لیے اس لفظ کا استعمال عام ہے۔ چناچہ پہلی آیت میں اس عورت کے متعلق حکم دیا گیا ہے جو مسلمان ہو اور زنا کا ارتکاب کرے لیکن اس گناہ میں شریک مرد مسلمان معاشرے سے تعلق نہ رکھتاہو۔ ایسی صورت میں یہ تو ممکن نہیں ہے کہ عورت اور مرد دونوں کو سزا دی جائے کیونکہ عورت تو مسلمان ہونے اور مسلمان معاشرے میں رہنے کی وجہ سے اسلامی احکام کی پابند ہے۔ لیکن ایک ایسا غیر مسلم جو غیر مسلم معاشرے میں رہتا ہے، لیکن مسلمانوں میں اس کا آناجانا، مسلمانوں سے سابقہ تعلقات کی بنا پر ابھی تک جاری ہے اور انھیں تعلقات نے یہ گل کھلایا ہے اور مسلمان معاشرہ ابھی ابتدائی سٹیج پر ہے۔ جس میں نہ حجاب کے احکام آئے ہیں، نہ مسلمانوں اور غیرمسلموں میں تعلقات کی تہذیب کی گئی ہے اور نہ پوری طرح مسلمان آبادیوں میں اسلام پھیل سکا ہے۔ مسلمانوں کے اندر ابھی تک غیر مسلم گھرانے آباد ہیں اور ان سے قرابت داری کے رشتے بھی ہیں۔ ایسی صورتحال میں مرد و عورت دونوں کو قانونی گرفت میں لانا ممکن نہیں۔ اس لیے صرف عارضی طور پر مسلمان عورت کے بارے میں قانون دیا گیا ہے۔ تفصیل اس کی یہ ہے کہ اگر تمہیں شبہ ہو کہ مسلمان عورتوں میں سے کسی عورت نے زنا کا ارتکاب کیا ہے، تو محض شبہ پر کسی کو سز انھیں دی جاسکتی۔ اربابِ حل وعقد کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس گناہ کا ثبوت تلاش کریں۔ ثبوت کے لیے ضروری ہے کہ چار گواہ طلب کیے جائیں، گواہ ایسے ہوں جو شہادت کی اہلیت رکھتے ہوں یعنی مسلمان ہوں، مرد ہوں، بالغ ہوں، عاقل ہوں، آزاد ہوں اور کبائر سے بچنے والے ہوں، ان کی تعداد کسی طرح چار سے کم نہ ہو۔ چار سے کم کی گواہی قبول نہیں ہوگی۔ اسی طرح ایسے معاملے میں عورتوں سے بھی گواہی نہیں لی جاسکتی۔ عام معاملات میں شریعت دو گواہوں کا حکم دیتی ہے لیکن زنا کے ثبوت کے لیے چار گواہ ضروری ٹھہرائے گئے ہیں کیونکہ یہ معاملہ بہت اہم ہے۔ جس سے عزت وعفت مجروح ہوتی ہے اور خاندانوں کے ننگ و عار کا مسئلہ پیدا ہوجاتا ہے۔ اس کی اہمیت کے پیش نظر ضروری تھا کہ کڑی شرائط رکھی جائیں، گواہی کا نصاب دوگنا ہو تاکہ کوئی شخص کسی کی عزت وعفت پر حملہ کرنے کی جرأت نہ کرسکے۔ بعض اہل علم کا خیال ہے کہ زنا کے معاملے میں چار گواہوں کی شرط اس لیے لگائی گئی ہے کہ اس معاملے میں دو افراد ملوث ہوتے ہیں۔ اس طرح سے ایک ہی معاملہ دو معاملوں کے قائم مقام ہے اور ہر ایک معاملہ دو گواہوں کا تقاضا کرتا ہے۔ لہٰذا ایسا معاملہ جو دو معاملوں کے برابر ہے اس پر چار گواہ ہی ہونے چاہییں۔ اگر چار گواہ گواہی دے دیں اور جرم ثابت ہوجائے تو اس کی سزا یہ بیان فرمائی کہ ایسی بد چلن عورتوں کو گھروں میں بند کردو اور ان کی موت آنے تک ان کی یہ سزا ختم نہ ہونے پائے یا تو انھیں موت اٹھالے اور یا پھر اللہ تعالیٰ ان کے لیے کوئی اور حکم نازل فرمادے۔ یہ آیت کا آخری جملہ خود بول رہا ہے کہ اس آیت میں جو حکم دیا گیا ہے، وہ عارضی ہے۔ چناچہ سورة نور میں بالآخر تفصیلی احکام نازل کردئیے گئے اور ان احکام میں مرد اور عورت کی کوئی تخصیص نہیں رکھی گئی بلکہ دونوں اگر غیر شادی شدہ ہوں گے تو سو سو کوڑے لگیں گے اور اگر شادی شدہ ہوں گے تو سنگسار کیے جائیں گے۔ عورتوں کے بارے میں یہ جو حکم دیا گیا ہے کہ انھیں موت تک گھروں میں بند رکھا جائے جبکہ مردوں کے بارے میں یہ سختی روا نہیں رکھی گئی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جو مرد عورت کے ساتھ جرم میں شریک ہے وہ اسلامی معاشرے کا فرد نہیں اور پھر مرد میں قدرت نے نیکی اور بدی دونوں اعتبار سے فتوت اور صراحت رکھی ہے۔ وہ عموماً عورت کو گناہ پر اکساتا ہے اور آگے بڑھ کر گناہ کا راستہ کھولتا ہے۔ اگر عورت کو گھر سے نکلنے کی آزادی حاصل رہے تو اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ وہ دوبارہ اپنے آشنا سے ملنے کی کوشش نہیں کرے گی اور اس کا آشنا موقعہ پاکر اپنی دوست خاتون سے ربط و ضبط کی کوشش نہیں کرے گا۔ اگر اس خاتون نے دل سے توبہ نہ کی ہو تو وہ اس بہکاوے میں آکر کچھ بھی کرسکتی ہے۔ وہ اپنے آشنا کے ساتھ فرار ہوسکتی ہے، خفیہ طریقوں سے ملاقاتیں جاری رکھ سکتی ہے، وہ مرد بھی موقعہ پاکر اغوا کی واردات کرسکتا ہے۔ ان تمام قباحتوں سے بچانے کے لیے پابندی لگادی گئی کہ ایسی عورت کو گھر سے نکلنے کی اجازت نہ دی جائے۔ دوسری آیت میں زانی اور زانیہ یعنی مرد اور عورت دونوں کی سز اکا ذکر فرمایا گیا ہے اور حکم دیا گیا ہے کہ انھیں ایذا پہنچائی جائے یعنی انھیں زجرو توبیخ کی جائے، ڈانٹ ڈپٹ کی جائے، تحقیر و تذلیل کی جائے، ضروری ہوتومارنے سے بھی دریغ نہ کیا جائے۔ کوئی ایک طریقہ مقرر نہیں فرمایا بلکہ ایذا دہی کا جو طریقہ اربابِ حل وعقد مناسب سمجھیں عمل میں لائیں۔ اگر وہ اس ڈانٹ ڈپٹ اور مارپیٹ کے بعد محسوس کریں کہ انھوں نے اپنے گناہ سے توبہ کرلی ہے اور اپنا چال چلن درست کرلیا ہے، تو پھر ان سے اعراض کریں، یعنی ان سے درگزر کریں اور یہ امید رکھیں کہ آئندہ وہ ایسی کوئی نازیبا حرکت نہیں کریں گے اور معاملہ اللہ کے سپرد کردیں کیونکہ وہ توبہ قبول کرنے والا اور مہربان ہے۔ میں پہلے عرض کرچکا ہوں کہ یہ عارضی حکم تھا جو سورة نور کے نازل ہونے کے بعد منسوخ ہوگیا۔ البتہ شہادت کا یہی ضابطہ بعد میں بھی باقی رہا۔ اَلَّذٰنْ کا مفہوم اس آیت کریمہ کے پہلے لفظ پر غور فرمائیں اَلَّذٰنْ ۔ اَلَّذِیْکا تثنیہ ہے۔ اس کا معنی ہے ” وہ دو مرد جو “ زنا کا ارتکاب کریں۔ اس سے اس کے مطلب اور مفہوم کے متعین کرنے میں دشواری ہوئی ہے۔ چناچہ ابو مسلم اصفہانی اور قاضی ثناء اللہ صاحب پانی پتی اس طرف گئے ہیں کہ یہاں دو مردوں کے گناہ میں ملوث ہونے کا ذکر کیا جارہا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب ایک مرد دوسرے مرد سے ناجائز تعلق پیدا کرے اور غیر فطری طور پر آپس میں قضائے شہوت کریں یعنی استلذاذ بالمثل کے مرتکب ہوں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اسلام میں یہ فعل قطعاً حرام ہے اور قرآن کریم نے صراحتاً قوم لوط پر عذاب آنے کے جو اسباب بیان کیے ہیں ان میں سب سے پہلا یہی جرم ہے۔ لیکن ہمیں قرون اولی میں کہیں اس کا ثبوت نہیں ملتا کہ کسی نے اس جرم کی سزا کے لیے اس آیت سے استدلال کیا ہو۔ شائد یہی وجہ ہے کہ صحابہ میں ایسے بدچلن لوگوں کی سزا کے بارے میں اختلاف تھا۔ جناب ابومسلم اصفہانی نے تو عجیب بات یہ کہی ہے کہ پہلی آیت میں عورت اور عورت کے ناجائز تعلق کا ذکر ہے اور دوسری آیت میں مرد کا مرد سے ناجائز تعلق کا۔ مفسر سدی کو ان دونوں آیتوں کے ظاہری فرق سے یہ غلط فہمی ہوئی ہے کہ پہلی آیت منکوحہ عورتوں کے لیے ہے اور دوسری آیت غیر شادی شدہ مرد و عورت کے لیے۔ لیکن یہ ایک ایسی کمزور تفسیر ہے جس کی سند ہمیں کہیں نہیں ملتی۔ اَلَّذٰنْکے سلسلے میں ان مختلف اقوال کو سامنے رکھئے اور پھر اس لفظ پر غور کیجیے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اَلَّذِیْ مذکر ہے اور اَلَّذٰنْاس کا تثنیہ ہے، اس لحاظ سے اس سے دو مذکر ہی مراد لیے جاسکتے ہیں۔ لیکن یہ بھی ہم جانتے ہیں کہ عربی زبان میں مذکر کا صیغہ کبھی شریک غالب کے لحاظ سے بھی استعمال ہوتا ہے اور یہاں اسی طرح استعمال ہوا ہے۔ جس طرح والدین کا لفظ ہے تو مذکر لیکن ماں باپ دونوں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ والدین کا ترجمہ کوئی بھی دو والد نہیں کرتا حالانکہ یہی اس کا صحیح ترجمہ ہے۔ والد اور والدہ میں چونکہ شریک غالب، والد ہے اس لیے اس کا لحاظ کرتے ہوئے والدین کا لفظ بول دیا جاتا ہے اور مراد اس سے ماں اور باپ دونوں ہوتے ہیں۔ یہاں بھی اس سے مراد زانی اور زانیہ دونوں ہیں اور زانی مرد کے اعتبار سے اَلَّذٰنْ کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ دو مردوں کے ناجائز تعلق کی شناعت اور سزا ان آیتوں کی تفسیر کا اگرچہ دو مردوں کے ناجائز تعلق سے کوئی واسطہ نہیں۔ لیکن اس جرم کی شناعت اور شیوع کا تقاضا ہے کہ اس کی جزا اور تعزیر کا ذکر کردیا جائے تاکہ ہمیں اندازہ ہو کہ یہ جرم اللہ اور اس کے رسول کے نزدیک کس قدر شدید اور قابل نفرت ہے۔ لیکن ہمارے معاشرے میں دوسری برائیوں کی طرح آہستہ آہستہ اس کی نفرت بھی کم ہوتی جارہی ہے۔ احادیث وآثار سے اس سلسلہ میں جو کچھ ثابت ہوتا ہے اس میں سے بطور نمونہ کچھ نقل کیا جاتا ہے :۔ عن ابی ہریرہ ؓ ان رسول اللہ ﷺ قال لعن اللہ سبعۃ من خلقہ من فوق سبع سموتہ وردد اللعنۃ علی واحد منہم ثلاثا ولعن کل واحد منھم لعنۃ تکفیہ قال ملعون ..... من عمل عمل قوم لوط، ملعون من عمل عمل قوم لوط ملعون من عمل عمل قوم لوط، الحدیث (الترغیب والترھیب) (حضرت ابوہریرہ ( رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق میں سے سات قسم کے لوگوں پر سات آسمانوں کے اوپر سے لعنت بھیجی ہے اور ان سات میں سے ایک پر تین تین دفعہ لعنت بھیجی ہے اور باقی پر ایک دفعہ، فرمایا ملعون ہے وہ شخص جو قوم لوط والا عمل کرتا ہے۔ ملعون ہے وہ شخص جو قوم لوط والا عمل کرتا ہے۔ ملعون ہے وہ شخص جو قوم لوط والا عمل کرتا ہے ) وعن ابی ہریرہ ؓ ان النبی ﷺ قال اربعۃ یصبحون فی غضب اللہ ویمسرن فی سخط اللہ قلت من ھم یارسول اللہ قال المتشبھون من الرجال بالنساء والمتشبھات من النساء بالرجال والذی یاتی البھیمۃ والذی یاتی الرجال (الترغیب والترھیب) (حضرت ابوہریرہ ( رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ چار آدمی صبح کے وقت اللہ جل شانہ کے غضب میں ہوتے ہیں اور شام کو بھی اللہ جل شانہ ان سے ناراض ہوتے ہیں میں نے پوچھا کہ وہ کون لوگ ہیں ؟ آپ نے فرمایا وہ مرد جو عورتوں کی طرح بنتے ہیں اور وہ عورتیں جو مردوں کی طرح بنتی ہیں اور وہ شخص جو چوپایہ کے ساتھ غیر فطری حرکت کرتا ہے اور وہ مرد جو مرد سے قضائے شہوت کرتا ہے) وعن ابن عباس ؓ قال قال رسول اللہ من وجد تم وہ یعمل عمل قوم لوط فاقتلوا الفاعل والمفعول بہ (الترغیب والترھیب) (حضرت ابن عباس ( رض) سے روایت ہے کہ فرمایا رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا جس کو تم قوم لوط کی طرح غیر فطری حرکت کرتا ہوا دیکھ لو، تو فاعل اور مفعول دونوں کو مارڈالو) حافظ زکی الدین نے ترغیب وترہیب میں لکھا ہے کہ چار خلفاء حضرت ابوبکر صدیق ( رض) ، حضرت علی ( رض) حضرت عبداللہ بن الزبیر ( رض) ، اور ہشام بن عبدالملک ( رض) نے اپنے زمانوں میں غیر فطری حرکت والوں کو آگ میں جلا ڈالا تھا۔ اس سلسلہ میں انھوں نے محمد بن المنکدر کی روایت سے ایک واقعہ بھی لکھا ہے کہ خالد بن ولید ( رض) نے حضرت ابوبکر صدیق ( رض) کو خط لکھا کہ یہاں عرب کے ایک علاقہ میں ایک مرد ہے، جس کے ساتھ عورت والا کام کیا جاتا ہے۔ حضرت ابوبکر صدیق ( رض) نے اس سلسلہ میں صحابہ کرام کو جمع کیا اور ان میں حضرت علی ( رض) بھی تشریف لائے۔ حضرت علی ( رض) نے فرمایا کہ یہ ایک ایسا گناہ ہے جس کا ارتکاب سوائے ایک قوم کے کسی نے نہیں کیا اور اللہ جل شانہ نے اس قوم کے ساتھ جو معاملہ کیا وہ آپ سب کو معلوم ہے میری رائے ہے کہ اسے آگ میں جلا دیا جائے۔ دوسرے صحابہ کرام نے بھی اس سے اتفاق کرلیا اور حضرت ابوبکر صدیق ( رض) نے اسے آگ میں جلا دینے کا حکم دیا۔ مذکورہ روایات میں قوم لوط کے عمل کا حوالہ بار بار آیا ہے، حضرت لوط (علیہ السلام) جس قوم کی طرف مبعوث کیے گئے تھے، وہ قوم کفر وشرک کے علاوہ اس بدترین اور غیر فطری حرکت کی بھی عادی تھی اور جب حضرت لوط (علیہ السلام) کی دعوت و تبلیغ کا ان پر اثر نہ ہوا تو اللہ جل شانہ کے حکم سے فرشتوں نے اس قوم کی بستیوں کو زمین سے اٹھالیا اور اوندھا کرکے زمین پر پھینک دیا، جس کا ذکر سورة اعراف میں آئے گا۔ انشاء اللہ مندرجہ بالا روایات استلذاذ بالجنس سے متعلق تھیں، روایات میں عورتوں کے ساتھ غیر فطری فعل کرنے پر بھی شدید ترین وعیدیں آئی ہیں۔ عن ابن عباس ؓ ان رسول اللہ ﷺ قال لاینظر اللہ عزوجل الی رجل اتی رجلا اوامرء ۃ فی دبرھا۔ (الترغیب والترہیب) (حضرت ابن عباس ( رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ جل شانہ اس مرد کی طرف رحمت کی نگاہ سے نہیں دیکھتے جو مرد یا عورت کے ساتھ غیر فطری فعل کرے ) عن خزیمۃ بن ثابت قال قال رسول اللہ ﷺ ان اللہ لایستحیی من الحق ثلاث مرات لاتأتوا النساء فی ادبارھن (الترغیب والترہیب) (خزیمہ بن ثابت ( رض) فرماتے ہیں رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ جل شانہ حق بیان کرنے میں شرم نہیں کرتے، یہ الفاظ آپ نے تین دفعہ ارشاد فرمائے (پھر فرمایا) عورتوں کے پاس غیر فطری طریقہ سے مت آیا کرو) وعن ابی ہریرہ ؓ ان رسول اللہ ﷺ قال ملعون من اتی امرء ۃ فی دبرھا۔ (الترغیب والترہیب) (حضرت ابوہریرہ ( رض) سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے وہ شخص ملعون ہے جو غیر فطری طریقہ سے بیوی کے ساتھ جماع کرتا ہے) وعنہ ان رسول اللہ ﷺ قال من اتی حائضا اوامرء ۃ فی دبرھا اوکاھنا فصدقہ فقد کفر بما انزل علٰی محمد ﷺ (حضرت ابوہریرہ ( رض) ہی سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جو مرد حیض کی حالت میں بیوی کے ساتھ جماع کرتا ہے یا غیر فطری طریقہ سے اس کے ساتھ جماع کرتا ہے یا کسی کاہن کے پاس جاتا ہے اور غیب کے متعلق اس کی خبر کی تصدیق کرتا ہے تو ایسے لوگ اس دین سے منکر ہوگئے جو محمد ﷺ پر نازل ہوا) اس قبیح فعل کے لیے کسی معین حد کے مقرر کرنے میں تو فقہاء کا اختلاف ہے، جس کی تفصیل کتب فقہ میں موجود ہے۔ تاہم اس کے لیے شدید سے شدید سزائیں منقول ہیں۔ مثلاً آگ میں جلا دینا، دیوار گرا کر کچل دینا، اونچی جگہ سے پھینک کر سنگسار کردینا، تلوار سے قتل کردینا وغیرہ۔
Top