Ruh-ul-Quran - An-Nisaa : 176
یَسْتَفْتُوْنَكَ١ؕ قُلِ اللّٰهُ یُفْتِیْكُمْ فِی الْكَلٰلَةِ١ؕ اِنِ امْرُؤٌا هَلَكَ لَیْسَ لَهٗ وَلَدٌ وَّ لَهٗۤ اُخْتٌ فَلَهَا نِصْفُ مَا تَرَكَ١ۚ وَ هُوَ یَرِثُهَاۤ اِنْ لَّمْ یَكُنْ لَّهَا وَلَدٌ١ؕ فَاِنْ كَانَتَا اثْنَتَیْنِ فَلَهُمَا الثُّلُثٰنِ مِمَّا تَرَكَ١ؕ وَ اِنْ كَانُوْۤا اِخْوَةً رِّجَالًا وَّ نِسَآءً فَلِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ١ؕ یُبَیِّنُ اللّٰهُ لَكُمْ اَنْ تَضِلُّوْا١ؕ وَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ۠   ۧ
يَسْتَفْتُوْنَكَ : آپ سے حکم دریافت کرتے ہیں قُلِ : کہ دیں اللّٰهُ : اللہ يُفْتِيْكُمْ : تمہیں حکم بتاتا ہے فِي الْكَلٰلَةِ : کلالہ (کے بارہ) میں ِاِنِ : اگر امْرُؤٌا : کوئی مرد هَلَكَ : مرجائے لَيْسَ : نہ ہو لَهٗ وَلَدٌ : اس کی کوئی اولاد وَّلَهٗٓ : اور اس کی ہو اُخْتٌ : ایک بہن فَلَهَا : تو اس کے لیے نِصْفُ : نصف مَا تَرَكَ : جو اس نے چھوڑا (ترکہ) وَهُوَ : اور وہ يَرِثُهَآ : اس کا وارث ہوگا اِنْ : اگر لَّمْ يَكُنْ : نہ ہو لَّهَا : اس کا وَلَدٌ : کوئی اولاد فَاِنْ : پھر اگر كَانَتَا : ہوں اثْنَتَيْنِ : دو بہنیں فَلَهُمَا : تو ان کے لیے الثُّلُثٰنِ : دو تہائی مِمَّا : اس سے جو تَرَكَ : اس نے چھوڑا (ترکہ) وَاِنْ : اور اگر كَانُوْٓا : ہوں اِخْوَةً : بھائی بہن رِّجَالًا : کچھ مرد وَّنِسَآءً : اور کچھ عورتیں فَلِلذَّكَرِ : تو مرد کے لیے مِثْلُ : برابر حَظِّ : حصہ الْاُنْثَيَيْنِ : دو عورت يُبَيِّنُ : کھول کر بیان کرتا ہے اللّٰهُ : اللہ لَكُمْ : تمہارے لیے اَنْ تَضِلُّوْا : تاکہ بھٹک نہ جاؤ وَاللّٰهُ : اور اللہ بِكُلِّ : ہر شَيْءٍ : چیز عَلِيْمٌ : جاننے والا
اے پیغمبر لوگ آپ سے فتویٰ پوچھتے ہیں کہو اللہ تمہیں فتویٰ دیتا ہے کلالہ (کی میراث) کے بارے میں۔ اگر کوئی ایسا آدمی فوت ہوجائے جس کی کوئی اولاد نہ ہو اور اس کی ایک بہن ہو تو بہن کا نصف حصہ ہے اس کے ترکہ میں سے اور وہ اپنی بہن کا وارث ہوگا اگر اس بہن کی کوئی اولاد نہ ہو۔ پھر اگر دو بہنیں ہیں تو ان دونوں کو دو تہائی ملے گا ا س سے جو اس نے چھوڑا اور اگر وارث ہوں بہن بھائی مرد بھی اور عورتیں بھی تو مرد (بھائی) کا حصہ دو عورتوں (بہنوں) کے حصہ کے برابر ہے۔ بیان کرتا ہے اللہ تعالیٰ تمہارے لیے تاکہ گمراہ نہ ہوجائو۔ اور اللہ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے)
یَسْتَفْتُوْنَکَ ط قُلِ اللّٰہُ یُفْتِیْکُمْ فِی الْکَلٰلَۃِ ط اِنِ امْرُؤٌا ہَلَکَ لَیْسَ لَہٗ وَلَدٌ وَّ لَہٗٓ اُخْتٌ فَلَہَا نِصْفُ مَا تَرَکَ ج وَھُوَ یَرِثُہَآ اِنْ لَّمْ یَکنْ لَّہَا وَلَدٌ ط فَاِنْ کَانَتَا اثْنَتَیْنِ فَلَہُمَا الثُّلُثٰنِ مِمَّا تَرَکَ ط وَاِنْ کَانُوْٓا اِخْوَۃً رِّجَالًا وَّ نِسَآئً فَلِلذَّکَرِمِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ ط یُبَبِّنُ اللّٰہُ لَکُمْ اَنْ تَضِلُّوْا ط وَاللّٰہُ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیْمٌ ع ” اے پیغمبر لوگ آپ سے فتویٰ پوچھتے ہیں کہو اللہ تمہیں فتویٰ دیتا ہے کلالہ (کی میراث) کے بارے میں۔ اگر کوئی ایسا آدمی فوت ہوجائے جس کی کوئی اولاد نہ ہو اور اس کی ایک بہن ہو تو بہن کا نصف حصہ ہے اس کے ترکہ میں سے اور وہ اپنی بہن کا وارث ہوگا اگر اس بہن کی کوئی اولاد نہ ہو۔ پھر اگر دو بہنیں ہیں تو ان دونوں کو دو تہائی ملے گا ا س سے جو اس نے چھوڑا اور اگر وارث ہوں بہن بھائی مرد بھی اور عورتیں بھی تو مرد (بھائی) کا حصہ دو عورتوں (بہنوں) کے حصہ کے برابر ہے۔ بیان کرتا ہے اللہ تعالیٰ تمہارے لیے تاکہ گمراہ نہ ہوجاؤ۔ اور اللہ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے۔ “ (النسآء : 177) کلالہ سے متعلق سوال کا جواب اس سے پہلے کی آیت پر سورة النسآء مکمل ہوگئی۔ یہ آیت کریمہ احکامِ میراث کے ایک خاص مسئلہ کے بارے میں نازل ہوئی۔ یہاں اسے بطور ضمیمہ لگایا گیا ہے۔ اس سورت کی ابتداء میں احکامِ میراث میں کلالہ کی میراث کا ذکر بھی آیا ہے۔ لوگوں نے اس سلسلے میں بعض سوالات کیے جس سے ان کی تشنگی کا احساس ہوتا ہے۔ قرآن کریم میں ان سوالات کی وضاحت کے لیے یہ آیت کریمہ نازل ہوئی اور اس نے کلالہ کے مسائل کو مکمل کردیا۔ لیکن اس کا نزول سورة النسآء کی تکمیل کے کئی سال بعد ہوا۔ کلالہ کی تعریف کے بارے میں صحابہ ( رض) میں اختلاف رہا۔ بعض کی رائے میں کلالہ وہ شخص ہے جو بےاولاد بھی ہو اور جس کے باپ اور دادا بھی زندہ نہ ہوں۔ اور بعض کے نزدیک کلالہ اسے کہتے ہیں جس کی اولاد نہ ہو ‘ باپ دادا بیشک زندہ ہوں۔ حضرت ابوبکر صدیق ( رض) نے پہلی تعریف کے حق میں رائے دی۔ اس پر صحابہ کا تقریبا ً اتفاق ہوگیا اور قرآن پاک سے بھی اسی کی تائید ہوتی ہے۔ کیونکہ اس آیت کریمہ میں کلالہ کی بہن کو اس کی میراث میں نصف حصہ دیا گیا ہے۔ احکامِ میراث کی رو سے اگر باپ زندہ ہوتا تو بہن کو کوئی حصہ نہیں ملتا۔ تو بہن کا نصف حصہ اس بات کی دلیل ہے کہ کلالہ وہی ہوتا ہے جس کے اصول و فروع میں کوئی بھی نہ ہو۔ اس سے پہلے سورة النسآء میں کلالہ کی بہن کو چھٹا حصہ دیا گیا ہے اور یہاں نصف دینے کا حکم ارشاد فرمایا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یہاں بہن سے مراد حقیقی بہن ہے اور یا وہ بہن مراد ہے جو باپ کی طرف سے ہو اور وہاں جس بہن کے حصے کا ذکر ہے وہ وہ بہن ہے جو ماں کی طرف سے ہو۔ اور علم الفرائض کی زبان میں کہنا چاہیے کہ سورة النسآء میں اخیافی بہن کا ذکر ہے اور یہاں عینی اور علاتی بہن کا ذکر ہے۔ اور دونوں کا حصہ الگ الگ ہے۔ بہن کو نصف حصہ دینے کے بعد بقیہ نصف اگر کوئی عصبہ ہوا یعنی چچا ‘ چچا زاد بھائی وغیرہ تو ان کو ملے گا ورنہ یہ نصف بھی بہن کی طرف لوٹ آئے گا۔ اور اگر دو بہنیں ہوں تو انھیں وراثت میں سے دو تہائی ملے گا۔ اور بقیہ ایک ثلث عصبہ کو ملے گا اور اگر عصبہ کوئی نہ ہو تو پھر یہ تیسرا ثلث بھی انہی دونوں بہنوں کو ملے گا۔ اور یہ یاد رہے کہ بہنیں دو ہوں یا دو سے زیادہ سب کا ایک ہی حکم ہے۔ اگر کلالہ کے وارثوں میں بھائی اور بہن دونوں ہوں تو بھائی کو دو حصے اور بہن کو ایک حصہ ملے گا۔ اس کے بعد فرمایا کہ ہم نے یہ تمام احکام کھول کر بیان کردیے ہیں تاکہ تم کسی گمراہی میں مبتلا نہ ہوجاؤ۔ اور سورة النسآء میں احکامِ میراث کا تین جگہ ذکر اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ عربوں میں چونکہ احکامِ میراث کے معاملے میں بہت افراط وتفریط تھی۔ اور کمزور وارث ظلم کا شکار ہوتے تھے اس لیے قرآن کریم نے تین جگہ ان مسائل کو بیان فرمایا تاکہ مسلمان کسی گمراہی کا شکار نہ ہوں۔ لیکن اس بات پر جتنا بھی دکھ کا اظہار کیا جائے تھوڑا ہے کہ آج مسلمان میراث کی تقسیم میں نہ صرف گمراہی میں مبتلا ہوگئے بلکہ کمزور وارثوں کے ساتھ انھوں نے بھی ظلم کا رویہ اختیار کرلیا۔ صنف نازک اس وقت بھی محرومی کا شکار تھی اور اسلام نے اس کی محرومیوں سے اسے نجات دی اور آج پھر عملی طور پر اسے میراث سے محروم کردیا گیا ہے۔ آخر میں فرمایا کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز کو جاننے والا ہے۔ یعنی تمہیں جو نظام زندگی دیا جا رہا ہے اور احکامِ میراث جو تم پر نافذ کیے گئے ہیں یہ کسی ایسے قانون ساز کی تخلیق نہیں جس کی معلومات ناقص اور جس کا علم نارسا ہو۔ بلکہ یہ اس پروردگار کے نازل کردہ احکام ہیں جو ہر حکم کی رعایتوں اور مصلحتوں سے واقف ہے۔
Top