Ruh-ul-Quran - An-Nisaa : 2
وَ اٰتُوا الْیَتٰمٰۤى اَمْوَالَهُمْ وَ لَا تَتَبَدَّلُوا الْخَبِیْثَ بِالطَّیِّبِ١۪ وَ لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَهُمْ اِلٰۤى اَمْوَالِكُمْ١ؕ اِنَّهٗ كَانَ حُوْبًا كَبِیْرًا
وَاٰتُوا : اور دو الْيَتٰمٰٓى : یتیم (جمع) اَمْوَالَھُمْ : ان کے مال وَلَا : اور نہ تَتَبَدَّلُوا : بدلو الْخَبِيْثَ : ناپاک بِالطَّيِّبِ : پاک سے وَلَا : اور نہ تَاْكُلُوْٓا : کھاؤ اَمْوَالَھُمْ : ان کے مال اِلٰٓى : طرف (ساتھ) اَمْوَالِكُمْ : اپنے مال اِنَّهٗ : بیشک كَانَ : ہے حُوْبًا : گناہ كَبِيْرًا : بڑا
اور یتیموں کے مال ان کے حوالہ کرو اور اپنے برے مال کو ان کے اچھے مال سے نہ بدلو اور نہ ان کے مال کو اپنے مال کے ساتھ گڈمڈ کرکے ہڑپ کرو، بیشک یہ ایک بہت بڑا گناہ ہے
وَاٰتُوا الْیَتٰمٰٓی اَمْوَالَھُمْ وَلاَ تَتَبَدَّلُوا الْخَبِیْثَ بِالطَّیِّبِ ص وَلاَ تَاْکُلُوْٓا اَمْوَالَھُمْ اِلٰٓی اَمْوَالِکُمْ ط اِنَّـہٗ کَانَ حُوْبًا کَبِیْرًا اور یتیموں کے مال ان کے حوالہ کرو اور اپنے برے مال کو ان کے اچھے مال سے نہ بدلو اور نہ ان کے مال کو اپنے مال کے ساتھ گڈمڈ کرکے ہڑپ کرو، بیشک یہ ایک بہت بڑا گناہ ہے) (النسآء : 2) یتیموں کے سرپرستوں سے خطاب اس آیت کریمہ میں خطاب یتیموں کے اولیا اور سرپرستوں سے ہے۔ اسلامی حکومت میں تو یتیموں کے سرپرست اور اولیا حکومت کی طرف سے مقرر ہوتے ہیں۔ اور وہی وقتا ً فوقتاً اس انتظام کا جائز ہ بھی لیتی رہتی ہے۔ لیکن اگر اسلامی حکومت قائم نہ ہو تو مسلمانوں میں کبھی پنچائتی سسٹم کے تحت یہ کام ہوتا ہے اور کبھی برادریاں یہ کام اپنے طور پر انجام دیتی ہیں اور کبھی خود خاندان کے بزرگ ان ذمہ داریوں سے عہدہ برا ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ عربوں کا اپنا ایک معروف تھا کہ جس گھر میں بھی یتیم بچے بچیاں رہ جاتے تھے تو رشتے میں جو بھی بڑا اور قریب ہوتا تھا وہ یتامیٰ کی کفالت کا بوجھ اٹھا لیتا تھا۔ جب یہ آیت کریمہ نازل ہوئی ہے تو معلوم ہوتا ہے ابھی اسی معروف کے مطابق کام چل رہا تھا۔ اس لیے یہاں یتیموں کے سرپرستوں کو حکم دیا جارہا ہے کہ تم سب سے پہلے اس بات کو ذہن نشین کرلو کہ مرنے والا جو مال اپنے وارثوں کے لیے چھوڑ گیا ہے ان میں بڑی عمر کے وارث تو خود وصول کرلیں گے لیکن چھوٹی عمر کے وارث خود وصول نہیں کرسکتے ان کے سرپرستوں کو ان کے بالغ ہونے تک ان کے ورثہ کی حفاظت اور یتیموں کے دیکھ بھال کی ذمہ داری ادا کرنا پڑے گی۔ یتیموں کے مال کی حفاظت کے لیے ضروری ہدایات لیکن یہ بات یاد رہے کہ جو کچھ مرحوم نے ان یتیموں کے لیے چھوڑا ہے وہ بہرحال ان کی ملکیت ہے۔ سرپرست اور ولی اس مال کا امین ہے مالک نہیں۔ یتیموں کے بالغ ہونے پر وہ بہرصورت ان کو ادا کرنے کا پابند ہے۔ انہی کے مال سے وہ ان کی ضروریات پوری کرے گا لیکن اپنی اغراض کے لیے ان میں سے نہ کوئی چیز لے سکتا ہے نہ کمی بیشی کرسکتا ہے۔ اس لیے جب بھی ادائیگی کا موقعہ آئے تو خوش دلی سے یتیموں کے مال ان کے حوالے کرو لیکن جب تک وہ تمہارے پاس بطور امانت موجود ہیں کسی طرح کی خیانت یا خود غرضی کی کوشش نہ کرنا۔ خیانت کی ایک ممکن شکل یہ ہوسکتی تھی کہ یتیم کے مال کی تعداد تو پوری رکھی جائے لیکن اچھا مال برے مال سے تبدیل کردیا جائے۔ اس لیے فرمایا کہ ان کے اچھے مال کو اپنے برے مال سے تبدیل نہ کرنا ایسا نہ کرنا کہ ان کی صحت مند اونٹنیاں، صحت مند بکریاں یا نفع بخش اور قیمتی اشیاء ان کی ملکیت سے لے لو اور اپنی طرف سے ان کی جگہ کمزور اونٹنیاں، مریل یا ردی بکریاں یا بےکار چیزیں ان کے مال میں شامل کردو اور اس خیانت سے انھیں نقصان پہنچاؤ۔ کبھی ایسا بھی ہوتا تھا کہ بظاہر یتیموں کے مال میں کوئی خیانت نہیں کی جاتی تھی۔ لیکن انتظام اور اصلاح کے نام پر ان کے مال کو اپنے مالوں میں شامل کرلیا جاتا۔ مثلاً یہ کہا جاتا کہ ہمارے لیے یہ بات بہت مشکل ہے کہ ہم ان کے کھانے کی ایک ایک چیز الگ الگ رکھیں۔ ان کا سالن الگ پکے، ان کی روٹی الگ تیار ہو، اور پھر ان کا باقی ماندہ الگ سے سنبھال کر رکھا جائے، اس لیے ہمیں یہ اجازت دی جائے کہ ہم کھانا پینا اکٹھا رکھیں، اس طرح آپس کی محبت بھی بڑھے گی اور ہمارے لیے کوئی انتظامی دشواری بھی پیدا نہیں ہوگی۔ پروردگار نے سورة بقرۃ میں اسی طرح کے سوال کا جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ مقصود تو صرف یہ ہے کہ یتیموں کے ساتھ ہرحال میں بھلائی ہو ان کی دیکھ بھال اور تربیت میں آسانی رہے، ان کا مال واسباب محفوظ ہاتھوں میں رہے، اگر اپنے مال کے ساتھ ان کا مال ملا کر یہ احتیاطیں کی جاسکتی ہیں تو پھر شوق سے ملا لیجیے وہ تمہارے بھائی ہیں اس میں کوئی حرج کی بات نہیں۔ البتہ یہ بات ذہن میں رہے کہ اللہ تعالیٰ مفسد کو بھی جانتا ہے اور صالح کو بھی۔ لیکن یہاں فرمایا جارہا ہے کہ انتظامی مجبوریاں اپنی جگہ لیکن عام طور پر دیکھا یہ گیا ہے کہ انتـظامی مجبوریوں کا نام لے کر یتیموں کا مال اپنے مال میں شامل کرلیا جاتا ہے اور پھر اس میں خیانت کے لیے راستہ نکال لیا جاتا ہے۔ کیونکہ ہر چیز کے اکٹھا ہونے سے خرد برد کرنے میں آسانی رہتی ہے اور اس میں کسی کو شبہ بھی نہیں ہوتا۔ اسلیے یہاں صاف طور پر منع کردیا وَلاَ تَاْکُلُوْٓا اَمْوَالَھُمْ اِلٰٓی اَمْوَالِـکُم ” تم ان کے مال اپنے مالوں سے ملا کر نہ کھائو “۔ یعنی یہ کھانے کا ایک آسان راستہ ہے اس لیے اس سے رکنے کی کوشش کرو۔ اس طرح سے یتیموں کا مال کھانے اس میں خرد برد کرنے اور کسی طرح کی بھی خیانت کا ارتکاب کرنے کے جتنے راستے ممکن ہوسکتے تھے وہ سارے بند کردیئے تاکہ یتیموں کے مال کی پوری طرح حفاظت ہوسکے اور ان کے حقوق کو نقصان نہ پہنچے۔ لیکن ہم جانتے ہیں کہ قانون کتنی بھی احتیاط اور نیک نیتی سے بنایا اور نافذ کیا جائے اس میں چور دروازے نکالنے کا عمل کبھی بند نہیں ہوسکتا جب تک کہ دل و دماغ میں بدنیتی سے پیدا ہونے والے چور دروازے بند نہ کیے جائیں۔ اس لیے آیت کریمہ کے آخر میں فرمایا اِنَّہٗ کَانَ حُوْبًا کَبِیْرًا ” بیشک یہ بہت بڑا گناہ ہے “۔ حضرت عبداللہ ابن عباس ( رض) کے نزدیک ” حوبًا “ حبشی لفظ ہے جو عربی زبان میں استعمال ہونے لگا ہے۔ اس کا معنی ” گناہ “ ہے۔ یعنی جب تک یتیموں کے سرپرست دلوں میں اس بات کو زندہ نہ رکھیں کہ یتیموں کے حقوق کے بارے میں اللہ تعالیٰ قیامت کے دن ہم سے باز پرس کریں گے۔ اور اس دن حیلے بہانوں سے کی گئی خیانتوں سے بھی پردہ اٹھا دیا جائے گا۔ آج تو لوگوں کی نگاہوں میں دھول جھونکی جاسکتی ہے لیکن وہاں کوئی سخن سازی اور کوئی بہانہ کام نہیں دے گا۔ ہر چیز کھل کر سامنے آجائیگی اور یہ جرم ایسا شدید ہے کہ اللہ کی طرف سے اس پر سخت عذاب ہوگا اس وقت تک مخفی خیانتوں کا سلسلہ نہیں رک نہیں سکتا۔ یہی وہ تصور ہے جو لوگوں کو یتیموں کے اموال میں خیانت کرنے سے کلی طور پر روک سکتا ہے ورنہ تنہا قانون کی پابندی بھی پوری طرح اس جرم کو روکنے پر قادر نہیں۔ عرب معاشرے میں یتیم بچیوں سے نکاح کے ضمن میں یا یتیم بچوں کی تربیت کے سلسلے میں جو کو تاہیاں ہورہی تھیں اگلی آیت کریمہ میں ان کی اصلاح کے لیے ہدایات دی جارہی ہیں۔
Top